Topics
پھول جیسے پیارے بچو! اور میرے دوستو!
اللہ کے دوست اور ہمارے
بزرگ حضرت قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے بتایا ہے کہ انسان جسم اور روح کا
مجموعہ ہے اور ہمارا جسم روح کے لباس کی طرح ہے۔ جس طرح ہم کپڑے کا لباس استعمال کرتے
ہیں اسی طرح ہمارا جسم بھی روح کا لباس ہے۔
اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان
حضرت آدم علیہ السلام کے جسم کا پُتلا مٹی کے گارے سے بنایا تو یہ نہ بول سکتا تھا،
نہ سُن سکتا تھا اور نہ کوئی حرکت کرتا تھا۔ اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے اس جسم میں
روح ڈال دی تو یہ بے جان مٹی کا پُتلا ہڈیوں، گوشت پوست، دل، دماغ، آنکھ، ناک اور
کان پر مشتمل جسم میں بدل گیا اور دیکھنے، سننے، بولنے اور سمجھنے لگ گیا۔ جب تک جسم
میں روح نہیں ہوتی تو یہ مٹی کا بے جان پُتلا تھا اور اسی طرح جب روح جسم سے نکل جاتی
ہے تو گوشت پوست کا جسم بھی بے جان ہو جاتا ہے۔ انسان، اللہ تعالیٰ کی بہترین تخلیق
ہے۔ انسان کے جسم میں دل، دماغ، پھیپھڑے، گردے، خون اور ہڈیوں کا پورا نظام کام کر
رہا ہے۔ دماغ میں بارہ ارب خلئے کام کرتے ہیں۔ یہ سب کمال روح کا ہے اور اس نظام کی
بنیاد پر ہی انسان نے غور و فکر کے ذریعے ٹیلی فون، جہاز اور کمپیوٹر جیسی عظیم الشان
چیزیں بنائی ہیں۔
جس طرح جہاز کو اُڑانے
کے لئے پیٹرول کی ضرورت ہوتی ہے، کمپیوٹر بجلی سے چلتا ہے اسی طرح انسان کا جسم اور
روح اللہ کے نور پر زندہ ہیں۔ روح اللہ کا اَمر یعنی حکم ہے اور اللہ کا حکم یہ ہے
کہ جب وہ کوئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ کام فوراً ہو جاتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام
نے اللہ کے عطا کردہ اس علم کا مظاہرہ جنت کی زندگی میں کیا۔ جنت نور اور رنگ برنگ
روشنی کی دنیا ہے۔ جب اللہ کے عطا کردہ حکم اور اختیار کے تحت حضرت آدم علیہ السلام
جنت میں کسی چیز کی خواہش کرتے تھے وہ انہیں مل جاتی اور اس کے لئے کسی قسم کی محنت،
کوشش کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اور نہ انتظار کرنا پڑتا تھا۔
جنت میں جب حضرت آدم علیہ
السلام پھل کھانا چاہتے تو فوراً ہی ہر قسم کے مزیدار اور خوشبو دار رنگ برنگ پھل مل
جاتے لیکن زمین پر پھل حاصل کرنے کے لئے آدمی کو محنت کرنی پڑتی ہے۔ سیب کے درخت کی
پرورش کے لئے سات سال تک زرخیز زمین میں پانی، کھاد، دھوپ، ہوا اور روشنی و حرارت سے
دیکھ بھال اور پرورش کی جائے تب درخت پر سیب لگتے ہیں اور انسان یہ سیب کھا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے زمین پر
انسان کے لئے بے شمار وسائل پیدا کئے۔ ان وسائل میں اللہ کی صفات کا مادی رُخ کام کر
رہا ہے۔ جو انسان ان میں غور و فکر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل و شعور
سے کام لیتا ہے وہ اعلیٰ زندگی گزارتا ہے۔ زندگی کی آسائشیں اُسے حاصل ہوتی ہیں اور
وہ دوسروں کا محتاج نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ نے زمین پر
مادی زندگی کو محنت و کوشش سے جوڑ رکھا ہے۔ دنیا میں وہی قوم کامیاب ہوتی ہے جو اللہ
تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیت اور غور و فکر سے نئی نئی ایجادات کرتی ہے۔ ایسی قوم دنیا
پر حاکم بن جاتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
اللہ
تعالیٰ نے پہلے انسان کا نام ’’آدم‘‘ رکھا اور آدم کا جسم گوندھی ہوئی مٹی کے گارے
سے بنایا جو خشک ہو کر ایسے بجتا تھا جیسے اندر سے خالی ہو۔ خلاء پر مشتمل یہ جسم نہ
سُن سکتا تھا، نہ دیکھ سکتا تھا اور نہ بول سکتا تھا۔ بس یہ مٹی کا ایک بے جان، بے
حس و حرکت پتلا اور ایک ناقابل ذکر شئے تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس خلاء میں اپنی روح
پھونک دی تو روح کے داخل ہوتے ہی مٹی کی مُورت گوشت پوست کے جاندار جسم میں بدل گئی
اور انسان دیکھنے، سُننے اور بولنے لگ گیا۔