Topics

آدم جنت میں

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے کہا:

                 ’’اے آدم! تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں خوشی خوشی رہو۔ جہاں سے دل چاہے کھائو، پیو اور امن و چین سے جنت کے محلات اور باغات میں رہو لیکن یاد رکھو! اس ایک خاص درخت کے قریب نہ جانا۔ اگر تم اس کے پاس گئے تو حد سے بڑھ جائو گے اور زیادتی کرنے والے لوگوں میں شامل ہو جائو گے۔

                 شیطان تمہارا اور تمہاری بیوی کا کھلا دشمن ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکال کر رہے۔ تمہارے لئے جنت کی زندگی میں بھوک ہے نہ پیاس اور نہ کوئی اذیت و تکلیف ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تم جنت کی راحت و آرام کی زندگی سے نکل جائو اور زمین کی محنت و مشقت کی زندگی میں داخل ہو جائو۔‘‘

                 حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی جن کا نام ’حوا‘ تھا، جنت میں داخل ہو گئے اور جنت کے خوبصورت محل اور باغات میں خوشی اور آرام و سکون کی زندگی بسر کرنے لگے۔ جنت میں کسی قسم کی پریشانی نہیں تھی۔ اُن کا دل جس چیز کی خواہش کرتا وہ چیز اُن کو مل جاتی۔ بڑے بڑے باغات میں دلفریب پھول اور پھل موجود تھے ۔آدم و حوا ہیرے و جواہرات سے آراستہ خوبصورت محلات میں رہتے تھے اور خوب مزے کی زندگی گزر رہی تھی۔ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کو جب کسی چیز کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ انہیں مل جاتی تھی۔

                 پھر ایسا ہوا کہ انسان کا دشمن اور حاسد شیطان موقع پا کر جنت میں داخل ہو گیا اور اُس نے بی بی حوا اور حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں اللہ کے حکم کی نافرمانی کرنے کا شیطانی خیال ڈال دیا۔ شیطان نے جھوٹی قسم کھا کر حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کو یقین دلا دیا کہ وہ ان کا ہمدرد ہے اور ان کی خیر خواہی چاہتا ہے۔

                 شیطان کی وسوسہ اندازی نے ان کے قدم ڈگمگا دیئے اور وہ بھول کر درخت کے قریب چلے گئے۔ اس نافرمانی سے جنت کا لباس ان کے جسم پر سے اُتر گیا اور وہ برہنہ ہو گئے۔ شرمندگی، افسوس اور غم و پریشانی میں انہوں نے درخت کے پتوں سے اپنا جسم چھپایا۔

                 حضرت آدم علیہ السلام اور حوا جنت میں خوش و خرم اور آرام و سکون کی زندگی گزار رہے تھے لیکن نافرمانی کے بعد خوشی کے بجائے رنج و غم، آرام و سکون کی جگہ خوف و پریشانی نے انہیں گھیر لیا۔

                 اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے اللہ کی قربت اور شیطان کی فرمانبرداری سے شیطان کی دوستی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا دوست خوش رہتا ہے اور یقین کی زندگی گزارتا ہے۔ شیطان کا دوست مایوس، پریشان اور درد و تکلیف کی زندگی گزارتا ہے۔

                 بے شک!

                 شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

                 اس نافرمانی پر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے پوچھا:

                 ’’کیا میں نے تمہیں اس درخت کے قریب جانے سے منع نہیں کیا تھا؟‘‘

                 حضرت آدم علیہ السلام نے ندامت سے کہا:

                 ’’اے میرے رب!

                 میں نے بھول کر آپ کی نافرمانی کی اور صفات کے علم اور آپ کے قُرب سے دُور ہو گیا۔ جنت کی آرام و آسائش والی زندگی بھی ختم ہو گئی۔ اس طرح نافرمانی کر کے ہم نے خود اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم کیا۔ اگر آپ ہم پر رحم فرما کر ہمیں معاف نہیں کریں گے اور یہ نعمتیں دوبارہ عطا نہیں کریں گے تو ہمیں بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔‘‘

                 اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے حضرت آدم علیہ السلام کی معافی قبول کر لی اور انہیں ایک معین مدت تک زمین پر زندگی گزارنے کا حکم دیا اور کہا:

                 ’’زمین پر محنت و مشقت کی زندگی گزارو۔ ہم تمہیں سیدھا راستہ دکھائیں گے۔ ہمارے پیغمبر تمہاری اولاد کو نیک اور اچھے کاموں کا حکم پہنچائیں گے۔ جو شخص سیدھا راستہ اختیار کر کے نیک کام کرے گا اس کے لئے خوف اور غم نہ ہو گا۔ جو شخص پیغمبروں کی بات نہیں مانے گا وہ جہنم میں داخل کر دیا جائے گا۔

                 زمین پر شکر گزار بندوں کی طرح رہو اور نیک عمل سے دوسرے انسانوں کی خدمت اور خیر خواہی کرو۔ اس طرح تم وہ تمام نعمتیں دوبارہ حاصل کر لو گے جو تمہیں جنت میں حاصل تھیں۔

                 یاد رکھو!

                 شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ جو کوئی شیطان کے دھوکے میں آ کر دنیا کی مختصر زندگی کے خوش نما آرام و آسائش کے لئے نافرمانی کرے گا اور بُرے کاموں سے دوسرے لوگوں کو تکلیف پہنچائے گا اور جو آدمی انسانوں کا دل دُکھائے گا وہ شیطان کا دوست اور ساتھی بن کر جہنم میں داخل ہو جائے گا۔‘‘

                 حضرت آدم علیہ السلام نے زمین پر گزر بسر کے لئے کھیتی باڑی شروع کی۔ آپؑ نے پہلی بار کھیتوں اور باغات میں مختلف فصلوں اور پھلوں کا اُگایا۔ اپنے کام کرنے کے لئے پتھروں سے مختلف اوزار اور شکار کرنے کے لئے مختلف ہتھیار بنائے۔ یہ پتھر کا زمانہ کہلاتا ہے۔ آگ کا استعمال بھی آپ نے شروع کیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں ہی انسان کو طب، حساب اور موسیقی کا علم جاننے کا موقع ملا۔


Hazrat Adam

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان کا نام ’’آدم‘‘ رکھا اور آدم کا جسم گوندھی ہوئی مٹی کے گارے سے بنایا جو خشک ہو کر ایسے بجتا تھا جیسے اندر سے خالی ہو۔ خلاء پر مشتمل یہ جسم نہ سُن سکتا تھا، نہ دیکھ سکتا تھا اور نہ بول سکتا تھا۔ بس یہ مٹی کا ایک بے جان، بے حس و حرکت پتلا اور ایک ناقابل ذکر شئے تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس خلاء میں اپنی روح پھونک دی تو روح کے داخل ہوتے ہی مٹی کی مُورت گوشت پوست کے جاندار جسم میں بدل گئی اور انسان دیکھنے، سُننے اور بولنے لگ گیا۔