Topics

کائنات کی رفتار

روحانی طالبات اور طلباء یہ قانون جانتے ہیں کہ کائنات اور یہ ساری دنیا حواس کے اوپر قائم ہے۔ حواس میں دو رخ ہوتے ہیں۔

1۔ وہ حواس جن میں تغیر ہوتا رہتا ہے جیسے جیسے تغیر واقع ہوتا ہے اسی مناسبت سے رنگ پیدا ہوتے ہیں۔

2۔ وہ حواس جن میں تغیر واقع نہیں ہوتا۔ جہاں تغیر نہیں ہوتا وہاں بے رنگی ہوتی ہے۔

حواس میں تغیر ورائے بے رنگ سے ہوتا ہے۔ ورائے بے رنگ میں تغیر سے ایک ایسی رنگینی پیدا ہوتی ہے جو بے رنگی کہلاتی ہے۔ بے رنگی میں تغیر پیدا ہوتا ہے تو حواس میں ایک ایک رنگ پیدا ہو جاتا ہے اور یہ بہت سارے رنگ جمع ہو کر کائنات بن جاتے ہیں۔

واہمہ سے تغیر کی شروعات ہوتی ہیں۔ یہ تغیر خیال اور تصور کی راہیں طے کر کے محسوس بن جاتا ہے۔ خیال، تصور اور محسوسات ایک دائرے میں سفر کرتے ہیں جس طرح خیالات اور تصورات محسوسات بننے کے لئے سفر کرتے ہیں اسی طرح یہ دوبارہ پلٹتے ہیں۔ خیال، تصور اور احساس جن مراحل سے گزر کر کسی مقام پر ٹھہرتے ہیں اس مقام کو سمجھنے اور اس مقام کا مشاہدہ کرنے کے لئے ہمیں تین شعوروں سے گزرنا پڑتا ہے اور تین شعوروں سے گزر کر جس مقام پر غیر متغیر مقام سامنے آتا ہے نظریۂ رنگ و نور کے پیروکار اس مقام کو لاشعور کا نام دیتے ہیں۔

ہم جب مذہب کی طرف رجوع کرتے ہیں اور علم نبوت میں غور و فکر کرتے ہیں تو آسمانی کتابیں ہماری رہنمائی  کرتی ہیں کہ ان شعوروں کے علاوہ شعور اول اور شعور دوئم بھی ہیں۔ الفاظ کی کمی کے باعث ہم ان دونوں شعوروں کو لاشعور ہی شمار کریں گے۔ یعنی ایک وہ شعور جو عوام سے متعارف ہے، ایک وہ شعور جو کسی حد تک مفکرین اور سائنسدانوں سے متعارف ہے اور وہ شعور جو صرف علم نبوت سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ ہم جب کائنات کی ساخت میں تفکر کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کی ساخت میں ایک شعور اور تین لاشعور پائے جاتے ہیں۔ اس کی Equationاس طرح ہے۔

پہلا شعور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شعور اول

دوسرا شعور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شعور دوئم

تیسرا شعور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شعور سوئم

چوتھا شعور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شعور چہارم

ان چاروں شعوروں میں سے شعور اول کی حیثیت لامکان کی ہے اور باقی تین شعور مکان ہیں۔ یہ تینوں شعور اس لئے مکان ہیں کہ ان میں تغیر پایا جاتا ہے اور پہلا ایک شعور چونکہ تغیر سے آزاد ہے اس لئے یہ لامکان ہے۔

مکانیت، لامکانیت کا سفر کرنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں کائنات کے اندر موجود محوری گردش کو سمجھنا پڑے گا۔ اس کے بعد طولانی گردش کو۔

مثال:

ہم گلاس دیکھتے ہیں یا گلاس پر نظر پڑتی ہے تو گلاس کو پہچاننے کے لئے ہمیں نزول و صعود کے چھ دائروں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے ہمارے اندر گلاس کا 1۔ واہمہ پیدا ہوتا ہے واہمہ میں جب گہرائی پیدا ہوتی ہے تو 2۔ خیال بن جاتا ہے یعنی ہم جب گلاس دیکھتے ہیں تو پہلے گلاس کا ایک ہیولیٰ ہمارے ذہن میں وارد ہوتا ہے جس ہیولیٰ میں نقش و نگار نہیں ہوتے لیکن نقش و نگار کا عکس ذہن پر پڑتا ہے۔ ایسا عکس جس کو دیکھ کر گلاس کو محسوس کر سکتے ہیں لیکن دیکھ نہیں سکتے۔ پھر یہی خیال اور گہرا ہوتا ہے تو 3۔ تصور کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور جیسے ہی تصور کی شکل اختیار کرتا ہے4۔احساس کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ فوراً ہی احساس 5۔ تصور میں تصور 6۔ خیال میں منتقل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک وقت گلاس کو دیکھتے ہیں دوسرے وقت گلاس نہیں ہوتا یعنی ہم نے جب گلاس کو دیکھا پہلے ہمارے ذہن پر واہمہ وارد ہوا۔ ایسا واہمہ جس کو ہم الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے۔ خیال میں ایک شکل و صورت آئی۔ اس شکل و صورت نے جب گہرائی اختیار کی تو تصور بن گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم مادی گلاس کے نہ ہونے کے باوجود گلاس کو دیکھ رہے ہیں اور جب یہ تصو رگہرا ہو جاتا ہے تو ہمارے اندر گلاس کو دیکھنے کا احساس پیدا ہو جاتا ہے اور ہم گلاس کو دیکھ لیتے ہیں اور چھو لیتے ہیں۔

یہ بات بہت غور طلب ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ محوری اور طولانی گردش میں سفر کر رہا ہے۔ محوری گردش کا مطلب یہ ہے کہ حرکت کا ایک نقطہ سے شروع ہو کر اسی نقطہ پر ختم ہونا، محوری گردش کا یہ قانون ہی دراصل پوری کائنات کو متحرک کئے ہوئے ہیں۔ نزول و صعود کا یہ عمل ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں واقع ہوتا ہے اور ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں دوبار ہ پلٹ جاتا ہے اور بار بار اس کا اعادہ ہوتا رہتا ہے۔ بار بار اس کا اعادہ جس رفتار سے ہوتا ہے وہ رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ ہم ہر ایک چیز کو اپنے سامنے ساکت محسوس کرتے ہیں۔ حالانکہ کائنات میں کوئی شئے ساکت نہیں ہے۔ کائنات میں اگر کوئی شئے ساکت ہو جائے تو پوری کائنات فنا ہو جائے گی۔ بات صرف اتنی ہے کہ کائنات کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ہم اسے ساکت محسوس کرتے ہیں۔

انسان دوشعوروں سے مرکب ہے۔ ایک شعور سے عامتہ الناس واقف ہیں اور دوسرے شعور سے عامتہ الناس واقف نہیں ہیں ۔ جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں وہ واقف ہیں۔ واقف کاروں نے دو شعوروں کو الگ الگ کرنے کے لئے ایک شعور کا نام لاشعور رکھ دیا ہے یعنی ایسا شعور جو عامتہ الناس کے شعور سے ماوراء ہے۔ اس شعور اور لاشعور میں وہ تمام علوم آ جاتے ہیں جن پر ایجادات ہو رہی ہیں۔ آج کا سائنسدان انسان کے اندر موجود دوسرے شعور یعنی لاشعور سے واقف ہو گیا ہے۔ جب اس نے لاشعور کے اندر رہتے ہوئے تحقیق و جستجو کی اور کسی شئے کی کنہ تک پہنچنے کی کوشش کی تو نتیجے میں ایجادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب ہم عام دنیا سے ہٹ کر آسمانی علوم کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

جب ہم آسمانی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس میں تفکر کرتے ہیں تو تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے علم اکتسابی سیکھا ہی نہیں۔ عرض یہ کرنا ہے کہ انہوں نے عامتہ الناس کے شعور میں رہتے ہوئے کوئی علم نہیں سیکھا کوئی استاد نہیں بنایا لیکن ا س کے باوجود وہ نوع انسان کے لئے علوم کا سمندر چھوڑ گئے۔

علمی ترقی اور نئی نئی ایجادات میں تفکر طلب بات یہ ہے کہ کوئی بھی ترقی کوئی بھی ایجاد دنیا میں موجود وسائل سے باہر نہیں ہے۔ وسائل ہونگے تو ایجاد ہو گی۔ وسائل نہیں ہونگے تو ایجاد اور ترقی نہیں ہو گی۔ کوئی بھی ایجاد وسائل کی محتاج ہے۔ یعنی دوسرا شعور(لاشعور) قدم قدم پر وسائل کا محتاج ہے۔ تیسرے لاشعور میں ہمارے سامنے انبیاء کی ذات آتی ہے ان ایجادات میں وسائل زیر بحث نہیں آتے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام اندھوں کو بینائی عطا کر دیتے تھے۔ گنجوں کے سر پر بال آ جاتے تھے اور ہاتھ پھیرنے سے کوڑ ھ ختم ہو جاتا تھا۔ یہ ایسا علم ہے جسے ایجاد یا ترقی کا نام نہیں دیا جا سکتا ۔ اس علم کو معجزہ کہتے ہیں۔ ترقی میں وسائل زیر بحث آتے ہیں ۔ معجزے میں وسائل زیر بحث نہیں آتے۔



Nazariya E Rang O Noor

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔