Topics
کائنات کی Baseتجلی ہے۔ کائنات کی شروعات تجلی سے ہوتی ہے۔ کائنات کے ہر ذرے میں یہ تجلی مستقلاً گشت کرتی رہتی ہے اور اس طرح گشت کرتی ہے کہ شئے کے محدود ترین مرکز سے بھی گزرتی رہتی ہے شئے کے محدود ترین مرکز یا خول سے مراد یہ ہے کہ کائنات میں جتنے ذرات ہیں ہر ذرے میں تجلی گشت کر رہی ہے۔ تجلی کائنات کے اجزائے ترکیبی اور کائنات کے ہر ذرے کی مستقل اور متواتر حرکت ہے۔ اگر اس حرکت کو کائنا ت کے ذرات میں سے گزرتے وقت کوئی ناپسندیدہ عمل پیش آ جائے تو اس کے ا ندر ایک طوفانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ حرکت میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ عدم توازن پید اہونے سے معین مقداروں میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے چونکہ اللہ کے بنائے ہوئے ایک مکمل سسٹم میں تغیر واقع ہو رہا ہے اس لئے عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی تخریبی اثر مرتب ہو جاتا ہے۔ عام حالات میں دیکھا جاتا ہے کہ انسانی جسم کے اندر خون دور کرتا رہتا ہے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسانی فکر و خیالات کا اثر براہ راست خون اور جسم پر پڑتا ہے۔ خیالات اگر پراگندہ ہیں اور خیالات میں اگر کثافت ہے، بیزاری ہے تو خون کے اوپر اس کا اچھا اثر مرتب نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک آدمی سڑی ہوئی غذائیں استعمال کرتا ہے یا ایک آدمی ایسے خیالات میں زندگی گزارتا ہے جو خیالات خود اس کے ضمیر کے لئے ملامت کا درجہ رکھتے ہیں تو ایسی زندگی سے اس کا جسمانی نظام اور شعوری واردات و کیفیات متاثر ہوتی ہیں۔
پھوڑے، پھنسیاں، داد اور نامعلوم قسم کی بیماریاں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ انسانی ارادے میں اگر تخریب شامل ہو جائے تو اس کی قوتیں خیر کے برعکس کام کرنے لگتی ہیں۔ تجلی چونکہ خیر ہے اور تخریب کو ناپسند کرتی ہے اس لئے بے رخی اختیار کر لیتی ہے اور تجلی کی اس بے رخی سے خیر کی تاثیر معطل ہو جاتی ہے۔
ہر مذہب میں عبادت کے لئے غسل یا وضو کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ عبادت کا تعلق، جسمانی اعضاء سے نہیں ہے۔ عبادت کا تعلق ذہن سے ہے اور ذہنی طور پر مرکزیت قائم کرنے سے ہے تو پھر غسل یا وضو کیوں ضروری ہے؟ عبادت کرنے سے پہلے جب ہم غسل یا وضو کا اہتمام کرتے ہیں تو اس اہتمام سے ہماری طرز فکر میں پاکیزگی اور طبیعت میں شگفتگی پیدا ہو جاتی ہے۔ طبیعت کی یہ شگفتگی عبادت میں انہماک پیدا کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔
عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔