Topics
کائنات
میں جتنی بھی موجودات ہیں خواہ وہ مرئی ہوں یا غیر مرئی ہوں ان میں ایک رخ ٹھوس
ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک غیر مادی رخ پیوست ہوتا ہے۔ یہ رخ بھی بالکل اسی طرح
ہے جس طرح گوشت پوست کا آدمی ہے۔ روشنیوں کا یہ آدمی غیر مرئی ہے اور ٹھوس آدمی
مرئی ہے۔ جس طرح مرئی رخ کے دو رخ ہیں یعنی ٹھوس جسم اور دوسرا روشنیوں کا جسم اسی
طرح غیر مرئی جسم کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک رخ روشنیوں سے بنا ہوا جسم اور دوسرا رخ
نور کا بنا ہوا جسم۔ کائنات میں جو بھی شئے موجود ہے اس کے دو رخ ہوتے ہیں۔ یہ
دونوں رخ مل کر ہی دراصل ماہیت یا فعل بنتے ہیں۔ ان دونوں رخوں کے ملے بغیر کوئی
قالب مکمل نہیں ہوتا۔
تخلیقی
فارمولے کے تحت کائنات میں کوئی بھی چیز وہ غیر مرئی ہو یا مرئی ہو ۔بغیر شکل و
صورت کے نہیں ہوتی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس شکل و صورت یا اس وجود کو جسمانی آنکھ نہ
دیکھ سکے لیکن روح کی آنکھ اس وجود کو اسی طرح دیکھتی ہے جس طرح جسمانی آنکھ کسی
مادی قلب کو دیکھتی اور محسوس کرتی ہے۔ مرئی اور غیر مرئی وجود کے ضمن میں یہ
قانون ذہن نشین رہنا چاہئے کہ جس طرح مرئی جسم میں خدوخال ہوتے ہیں اسی طرح غیر
مرئی جسم میں بھی خدوخال ہوتے ہیں۔ کسی چیز کی موجودگی پہلے ایک ہیولیٰ کی شکل میں
موجود ہے اور اس کے بعد جسمانی خدو خال میں اپنا مظاہر کرتی ہے۔ جب تک شکل و صورت
انسان
اور انسان کی دنیا، جنات اور جنات کی دنیا اور سارا کائناتی ڈھانچہ اورسارا
ماورائی نظام لہروں کے تانے بانے پر قائم ہے۔ اس کی مادی مثال ہم قالین سے دے سکتے
ہیں۔ قالین کے اوپر شیر بنا ہوا ہے۔ شیر کے تمام اعضاء قالین پر اس طرح بنے ہوئے
ہیں کہ قالین کو دیکھ کر آدمی تانے بانے سے بنے ہوئے نقش و نگار کو شیر کے علاوہ
اور کوئی نام نہیں دے سکتا۔ کائناتی نظام بھی اسی فارمولے پر قائم ہے۔
نسمہ، مفرد ہو یا مرکب مادی آنکھ سے نظر نہیں آتا۔
نسمہ مفرد سے تخلیق ہونے والا وجود بھی مادی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔
نسمہ مرکب سے تخلیق ہونے والا مادی وجود جسمانی آنکھ دیکھ لیتی ہے۔
اکہری حرکت، نسمہ مفرد کہلاتی ہے۔
دوہری حرکت ،نسمہ مرکب کہلاتی ہے۔
حرکت اکہری ہو یا دوہری کسی سورس آف انفارمیشن سے وابستہ ہوتی ہے۔
مادی وجود میں مظاہرہ کرنے کے لئے حرکت پہلے اکہری ہوتی ہے پھر دوہری ہو جاتی ہے۔ دوہری حرکت خدوخال کا روپ دھار کر مادیت میں ظاہر ہو جاتی ہے۔
انسان
کے اندر یا انسانی تخلیق میں اس طرح لہریں کام کر رہی ہیں جس طرح کپڑے میں دو تار
ہوتے ہیں۔ ایک تار سیدھا(طول) ہوتا ہے اور دوسرا تار(عرض) میں ہوتا ہے۔ ہر تار کو
دوسرا تار چھوتا ہوا دونوں تاروں کو خانوں کی شکل میں یک جان کر دیتا ہے۔ دونوں
دھاگے ایک ساتھ دوسرے دھاگوں کے ساتھ اس طرح پیوست ہیں کہ ان میں کوئی فاصلہ نظر
نہیں آتا لیکن ساتھ ساتھ الگ بھی ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ تانے اور بانے کے تارمل
کر ایک مربع کی شکل میں خانے بناتے ہیں جس کو عرف عام میں گراف کہا جاتا ہے۔ اس کا
مطلب یہ ہوا کہ انسان کی دنیا طول و عرض میں روشنیوں کے تاروں یا روشنیوں کی لہروں
سے بنی ہوئی ہے اور زندگی کی تمام حرکات و سکنات اور حسیات انہیں تاروں کے اوپر قائم
ہیں۔ دوسری بات بہت زیادہ فکر طلب یہ ہے کہ ان تاروں کی یا ان لہروں کی طوالت یعنی
طویل ہونا سیدھا ہونا جس طرح معین ہے اسی طرح ہر تار کی صفات بھی معین اور مخصوص
ہیں اور ہر مخصوص صفت کسی نہ کسی ساخت کو اور کسی نہ کسی نقش و نگار کو ظاہر کرتی
ہے۔ مثلاً جب ہم گراف میں انسانی چہرے کے خطوط بناتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کو
طولانی لہروں اور عرضی لہروں پر جیسے جیسے پنسل چلتی ہے یا گراف میں بنے ہوئے خانے
جس طرح پنسل کے نشان سے کٹتے ہیں اسی مناسبت سے نقش و نگار بنتے رہتے ہیں۔
گراف
کے اندر جتنی لہریں موجود ہیں وہ عرضی ہوں یا طولانی نقش و نگار کی صورت میں ہر
لہر اپنا ایک متعین اور مخصوص عمل رکھتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس کائنات میں جتنی
چیزیں موجود ہیں، جتنے رنگ و روپ ہیں جتنی صلاحیتیں ہیں، جتنی نوعیں ہیں اور ہر
نوع کے جتنے افراد ہیں ہر ایک کے لئے ایک مخصوص طول حرکت متعین ہے۔ انہیں حرکات کی
مخصوص آمیزش کسی نوع کے فرد کی شکل و صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ اگر لہریں مرکب ہیں
یعنی لہریں تانے بانے کی شکل میں متحرک ہیں تو ان مرکب لہروں کے گراف کے اوپر نقش
و نگار انسان اور انسان کی دنیا ہے۔
مفرد
لہروں کے اوپر اگر تصویر کشی کی جائے یا کوئی تصویر بنی ہوئی ہے تو اس پر نقش و
نگار سے بنی ہوئی دنیا جنات اور فرشتوں کی دنیا ہے۔ آخری کتاب قرآن میں ہے۔
’’ہم
نے ہر چیز کو دو دو قسم کا بنایا تا کہ ان مصنوعات سے خالق کائنات کی ربوبیت کو
اور خالق کائنات کی خالقیت کو سمجھ سکو۔‘‘
حرکت
محض ایک حس ہے اور اس کے بھی دورخ ہیں۔ایک رخ خارجی سمت میں کام کرتا ہے اور دوسرا
رخ داخلی سمت میں سفر کرتا ہے۔ یوں سمجھئے کہ روشنی کے تانے بانے سے بنی ہوئی ایک
چادر ہے اس کے اوپر نقش و نگار کے ساتھ ایک تصویر بنی ہوئی ہے۔ اس تصویر کے دورخ
ہیں۔ ایک رخ خود تصویر ہے اور دوسرا رخ وہ بساط ہے جس پر تصویر بنی ہوئی ہے۔ ایک
رخ کا اپنا ذاتی احساس ہے کہ میں ہوں اور دوسرا اس بساط کا احساس ہے جس پر تصویر
بنی ہوئی ہے۔ یہ حس کے دو رخ ہوئے ایک یہ کہ آدمی محسوس کر رہا ہے کہ میں موجود
ہوں، دوسرا یہ کہ آدمی یہ بھی جانتا ہے کہ میری کوئی اصل ہے۔ زمانیت اور مکانیت کا
راز جاننے کے لئے ہمیں بجائے اس کے کہ ہم نیچے سے اوپر سفر کریں یا نزولی حرکات و
سکنات سے صعودی حرکات و سکنات میں داخل ہوں یہ زیادہ آسان ہے کہ صعودی حرکات و
سکنات سے نزولی حرکات و سکنات کو سمجھا جائے۔ نظریۂ رنگ و نور کے مطابق اندر کی
آنکھ دیکھتی ہے کہ عالم ارواح میں کائنات کی موجودگی اس طرح ہے کہ وہاں نہ احساس
کی درجہ بندی ہے نہ نگاہ ہے اور نہ آپس میں تعارف کا کوئی ذریعہ ہے۔
کائنات
کو خود آگاہی کے لئے خالق کائنات نے پہلے سماعت پھر بصارت اور پھر قوت گویائی کی
حس منتقل کر دی۔
اس
قانون کی روشنی میں کائنات کی تخلیق کی Equationیہ
بنی کہ کائنات کی ہر چیز دو رخوں سے مرکب ہے۔ یہ دونوں رخ بظاہر ایک دوسرے سے
متضاد نظر آتے ہیں لیکن دونوں ایک دوسرے سے متصل ہیں۔
افراد
کائنات کو جب تک ابعاد (Dimension) منتقل نہیں ہوئے تھے اس وقت تک زمان و مکان نہیں تھے۔ عالم ارواح
میں صرف شئے کا وجود ہے۔ اس کے اندر حرکت نہیں ہے۔ جب کائنات میں Dimensionبن
گئے یا سماعت اور بصارت کے نقوش منتقل ہو گئے تو کائنات میں حرکت پیدا ہو گئی۔
حرکت ہی سے زمان و مکان وجود میں آتے ہیں۔
باطنی
علماء کہتے ہیں کہ کائنات کی
تشکیل چار شعبوں پر مشتمل ہے ۔کائنات کا پہلا شعبہ اس
طرح وجود میں آیا کہ کائنات کی موجودگی میں وسائل کو کہیں دخل نہیں ہے۔ دوسرا شعبہ
یہ ہے کہ عالم موجودات میں شکل وصورت ، حرکت و سکون کی طرزیں نمایاں ہوئیں اور
زندگی مرحلہ وار شروع ہوئی۔
انسان
کائنات میں واحد فرد ہے جو بحیثیت نائب کے اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کو اور
کائنات میں موجود انتظامی امور کو اپنے اختیارات سے چلاتا ہے۔ اللہ نے انسان کو
کائنات کی حاکمیت عطا کر دی ہے۔ حاکمیت کا وصف ہی دراصل نیابت، خلافت کے تقاضے
پورے کرنا ہے۔ جس طرح دنیاوی Administrationمیں
بے شمار لوگ اپنے اپنے شعبوں کو چلاتے ہیں اسی طرح کائنات میں بھی مختلف شعبوں کے
سربراہ ہوتے ہیں ان کی سربراہی میں یہ کائناتی شعبے متحرک اور فعال ہیں۔
علمائے
باطن اپنے مشاہداتی تجزیہ کی بنا پر بتاتے ہیں کہ کائنات مسلسل تخلیق پذیر ہے۔ ہر
آن ہر لمحہ نئے نئے سیارے بنتے ہیں اور پرانے سیارے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ جب خالق
کائنات کوئی نئی تخلیق کرنا چاہتا ہے تو اپنے نائبین سے کہتا ہے میں چاہتا ہوں کہ
اس قسم کی مخلوق اور اس قسم کے سیارے بنا دیئے جائیں۔
نائبین
ان موجودات کی زندگی کے اسباب اور وسائل ، شکل و صورت، حرکت و سکون کی طرزیں متعین
کر کے خالق کائنات کے حضور پیش کر دیتے ہیں۔ ان تجاویز کو قبول کر لیا جاتا ہے۔ جب
نئی تخلیق وجود میں آ جاتی ہے تو انتظامی امور چلانے والے دوسرے بے شمار افراد اس
نظام پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ اس پورے نظام اور اس نظام میں متعلقہ تمام شعبوں کو کائناتی
ایڈمنسٹریشن کہا جاتا ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔
عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔