Topics

انسان ، فرشتہ اور جنات

نظریۂ رنگ و نور کے پیروکار حضرات اولیاء کرام کس طرح سوچتے ہیں اور ان کی فہم و فراست میں نور کس حد تک کام کرتا ہے اس کے بارے میں حضرت قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔

میرے نانا تاج الدین ناگپوریؒ خصوصی مسائل ہی میں نہیں بلکہ عام حالات میں بھی اپنی گفتگو کے اندر ایسے مرکزی نقطے بیان کر جاتے تھے جو براہ راست قانون قدرت کی گہرائیوں سے ہم رشتہ ہیں۔ کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا کہ ان کے ذہن سے تسلسل کے ساتھ سننے والوں کے ذہن میں روشنی کی لہریں منتقل ہو رہی ہیں اور ایسا بھی ہوتا کہ وہ بالکل خاموش بیٹھے ہیں اور حاضرین من و عن ہر وہ بات اپنے ذہن میں سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں جو نانا کے ذہن میں ہوتی تھی۔ یہ بات بالکل عام تھی کہ چند آدمیوں کے ذہن میں کوئی بات آئی اور یکایک نانا نے اس کا جواب دے دیا۔

مرہٹہ راجہ رگھوراؤ ان سے غیر معمولی عقیدت رکھتا تھا۔ مہاراجہ مخفی علوم سے مس بھی رکھتا تھا اور اس کے اندر فیضان حاصل کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ ایک مرتبہ مہاراجہ نے سوال کیا۔’’بابا صاحب!ایسی مخلوق جو نظر نہیں آتی مثلاً فرشتہ یا جنات، خبر متواتر کی حیثیت رکھتی ہے۔ جتنی آسمانی کتابیں ہیں ان میں اس قسم کی مخلوق کے تذکرے ملتے ہیں۔ ہر مذہب میں بدروحوں کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ کہا گیا ہے لیکن عقلیعلمی توجیہات نہ ہونے سے ذی فہم انسانوں کو سوچنا پڑتا ہے۔ وہ یہ کہتے ہوئے رکتے ہیں کہ ’’ہم سمجھ گئے‘‘ تجربات جو کچھ زبان زد ہیں ، وہ انفرادی ہیں، اجتماعی نہیں۔ آپ اس مسئلہ پر کچھ ارشاد فرمائیں۔‘‘

جس وقت یہ سوال کیا گیا، تاج الدینؒ لیٹے ہوئے تھے۔ ان کی نگاہ اوپر تھی ۔ فرمانے لگے۔’’میاں رگھوراؤ! ہم سب جب سے پیدا ہوئے ہیں، ستاروں کی مجلس کو دیکھتے رہتے ہیں۔ شاید ہی کوئی رات ایسی ہوکہ ہماری نگاہیں آسمان کی طرف نہ اٹھتی ہوں۔ بڑے مزے کی بات ہے، کہنے میں بھی یہی آتا ہے کہ ستارے ہمارے سامنے ہیں، ستاروں کو ہم دیکھ رہے ہیں، ہم آسمانی دنیا سے روشناس ہیں۔ لیکن ہم کیا دیکھ رہے ہیں اور ماہ وانجم کی کون سی دنیا سے روشناس ہیں۔ اس کی تشریح ہمارے بس کی بات نہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں، قیاس آرائی سے زیادہ نہیں ہوتا۔ پھر بھی سمجھتے یہی ہیں کہ ہم جانتے ہیں۔ زیادہ حیرتناک امر یہ ہے کہ جب ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان کچھ نہ کچھ جانتا ہے تو یہ قطعاً نہیں سوچتے کہ اس دعوے کے اندر حقیقت ہے یا نہیں۔‘‘

فرمایا۔’’جو کچھ میں نے کہا اسے سمجھو، پھر بتاؤ کہ انسان کا علم کس حد تک مفلوج ہے۔ انسان کچھ نہ جاننے کے باوجود اس کا یقین رکھتا ہے کہ میں بہت کچھ جانتا ہوں۔ یہ چیزیں دور پرے کی ہیں۔ جو چیزیں ہر وقت انسان کے تجربے میں ہیں، ان پر بھی نظر ڈالتے جاؤ۔ دن طلوع ہوتا ہے۔ دن کا طلوع ہونا کیا شئے ہے۔ ہمیں نہیں معلوم طلوع ہونے کا مطلب کیا ہے ہم نہیں جانتے۔ دن رات کیا ہیں؟ اس کے جواب میں اتنی بات کہہ دی جاتی ہے کہ یہ دن ہے۔ اس کے بعد رات آتی ہے۔ نوع انسانی کا یہی تجربہ ہے۔

میاں رگھو راؤ! ذرا سوچو کیا سنجیدہ طبیعت انسان اس جواب پر مطمئن ہو جائے گا؟ دن رات، فرشتے نہیں ہیں۔ جنات نہیں ہیں۔ پھر بھی وہ مظاہر ہیں جن سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ تم اتنا کہہ سکتے ہو کہ دن رات کو نگاہ دیکھتی ہے، اس لیے قابل یقین ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ نگاہ کے ساتھ فکر بھی کام کرتی ہے۔ اگر نگاہ کے ساتھ فکر کام نہ کرے تو زبان نگاہ کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتی۔ دراصل نگاہ اور فکر سارے کا سارا عمل تفکر ہے۔ نگاہ محض ایک گونگا ہیولیٰ ہے۔ فکر ہی کے ذریعے تجربات عمل میں آتے ہیں۔ تم نگاہ کو تمام حواس پر قیاس کر لو۔ سب کے سب گونگے، بہرے اور اندھے ہیں۔ تفکر ہی حواس کو سماعت اور بصارت دیتا ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ حواس تفکر سے الگ کوئی چیز ہے حالانکہ تفکر سے الگ ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انسان محض تفکر ہے۔ فرشتہ محض تفکر ہے۔ جن محض تفکر ہے۔ علیٰ ہذا القیاس ہر ذی ہوش تفکر ہے۔

فرمایا کہ اس گفتگو میں ایک ایسا مقام آ جاتا ہے جہاں کائنات کے کئی راز منکشف ہو جاتے ہیں۔ غور سے سنو! ہمارے تفکر میں بہت سی چیزیں ابھرتی رہتی ہیں۔ دراصل وہ باہرسے آتی ہیں۔ انسان کے علاوہ کائنات میں جتنے تفکر ہیں جن کا تذکرہ ابھی کیا گیا ہے۔ فرشتے اور جنات۔ ان سے انسان کا تفکر اسی طرح متاثر ہوتا رہتا ہے جس طرح انسان خود اپنے تفکر سے متاثر ہوتا ہے۔ قدرت کا چلن یہ ہے کہ وہ لامتناہی تفکر سے تناہی تفکر کو فیضان پہنچاتی رہتی ہے۔ پوری کائنات میں اگر قدرت کا یہ فیضان جاری نہ ہو تو کائنات کے افراد کا یہ درمیانی رشتہ کٹ جائے۔ ایک تفکر کا دوسرے تفکر کو متاثر کرنا بھی قدرت کے اس طرز عمل کا ایک جزو ہے۔ انسان پابگِل ہے۔ جنات پابہ ہیولیٰ ہیں، فرشتے پا بہ نور۔ یہ تفکر تین قسم کے ہیں اور تینوں کائنات ہیں۔ اگر یہ تینوں مربوط نہ رہیں اور ایک تفکر کی لہریں دوسرے تفکر کو نہ ملیں تو ربط ٹوٹ جائے گا اور کائنات منہدم ہو جائے گی۔

ثبوت یہ ہے کہ ہمارا تفکر ہیولیٰ اور ہیولیٰ قسم کے تمام جسموں سے فکری طور پر روشناس ہے۔ ساتھ ہی ہمارا تفکر نور اور نور کی ہر قسم سے بھی فکری طور پر روشناس ہے حالانکہ ہمارے اپنے تفکر کے تجربات پابگِل ہیں۔ اب یہ بات واضح ہو گئی کہ ہیولیٰ اور نور کے تجربات اجنبی تفکر سے ملے ہیں۔

عام زبان میں تفکر کو انا کا نام دیا جاتا ہے اور انا یا تفکر ایسی کیفیات کا مجموعہ ہوتا ہے جن کو مجموعی طور پر فرد کہتے ہیں۔ اس طرح کی تخلیق ستارے بھی ہیں اور ذرے بھی۔ ہمارے شعور میں یہ بات یا تو بالکل نہیں آتی یا بہت کم آتی ہے کہ تفکر کے ذریعے ستاروں ذروں اور تمام مخلوق سے ہمارا تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے۔ ان کی اناّ  یعنی تفکر کی لہریں ہمیں بہت کچھ دیتی ہیں اور ہم سے بہت کچھ لیتی ہیں۔ تمام کائنات اس قسم کے تبادلہ خیال کا ایک خاندان ہے۔ مخلوق میں فرشتے اور جنات ہمارے لئے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ تفکر کے اعتبار سے ہمارے زیادہ قریب ہیں اور تبادلہ خیال کے لحاظ سے ہم سے زیادہ مانوس ہیں۔‘‘

ناناتاج الدین ؒ اس وقت ستاروں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کہنے لگے۔’’کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے جو خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اور ان کی آبادیوں سے ہمیں وصول ہوتے رہتے ہیں۔ یہ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ روشنی کی چھوٹی بڑی شعاعیں خیالات کے لاشمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں۔ ان ہی تصویر خانوں کو ہم اپنی زبان میں توہم، خیال، تصور اور تفکر وغیرہ کا نام دیتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ ہماری اپنی اختراعات ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ تمام مخلوق کی سوچنے کی طرزیں ایک نقطہ مشترک رکھتی ہیں۔ وہی نقطہ مشترک تصویر خانوں کو جمع کر کے ان کا علم دیتا ہے۔ یہ علم نوع اور فرد کے شعور پر منحصر ہے۔ شعور جو اُسلوب اپنی انا کی اقدار کے مطابق قائم کرتا ہے تصویر خانے اس ہی اُسلوب کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔

ا س موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ تین نوعوں کے طرز عمل میں زیادہ اشتراک ہے۔ ان ہی کا تذکرہ آسمانی کتابوں اور قرآن پاک میں انسان، فرشتہ اور جنات کے نام سے کیا گیا ہے۔ یہ نوعیں کائنات کے اندر سارے کہکشانی نظاموں میں پائی جاتی ہیں۔ قدرت نے کچھ ایسا نظام قائم کیا ہے جس میں یہ تین نوعیں تخلیق کا رکن بن گئی ہیں۔ ان ہی کے ذہن سے تخلیق کی لہریں خارج ہو کر کائنات میں منتشر ہوتی ہیں اور جب یہ لہریں معین مسافت طے کر کے معین نقطہ پر پہنچتی ہیں تو کائناتی مظاہر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔

میں یہ کہہ چکا ہوں کہ تفکر، انا اور شخص ایک ہی چیز ہے۔ الفاظ کی وجہ سے ان میں معانی کا فرق نہیں کر سکتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ انّا تفکر اور شخص ہیں کیا؟ یہ وہ ہستی ہیں جو لاشمار کیفیات کی شکلوں اور سراپا سے بنی ہیں مثلاً بصارت، سماعت، تکلم، محبت، رحم، ایثار، رفتار، پرواز وغیرہ۔ ان میں ہر ایک کیفیت ایک شکل اور سراپا رکھتی ہے۔ قدرت نے ایسے بے حساب سراپا لے کر ایک جگہ اس طرح جمع کر دیئے ہیں کہ الگ الگ پرت ہونے کے باوجود ایک جان ہو گئے ہیں۔ ایک انسان کے ہزاروں جسم ہوتے ہیں۔ علیٰ ہذاالقیاس جنات اور فرشتوں کی بھی یہی ساخت ہے۔ یہ تینوں ساخت اس لئے مخصوص ہیں کہ ان میں کیفیات کے پرت دوسرے انواع سے زیادہ ہیں۔ کائنات کی ساخت میں ایک پرت بھی ہے اور کثیر تعداد پرت بھی ہیں۔ تاہم ہر نوع کے افراد میں مساوی پرت ہیں۔

انسان لاشمار سیاروں میں آباد ہیں اور ان کی قسمیں کتنی ہیں اس کا اندازہ قیاس سے باہر ہے۔ یہی بات فرشتوں اور جنات کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔ انسان ہوں، جنات ہوں یا فرشتے، ان کے سراپا کا ہر فرد ایک پائندہ کیفیت ہے۔ کسی پرت کی زندگی جلی ہوتی ہے یا خفی۔ جب پرت کی حرکت جلی ہوتی ہے تو شعور میں آ جاتی ہے۔ خفی ہوتی ہے تو لاشعور میں رہتی ہے۔ جلی حرکت کے نتائج کو انسان اختراع و ایجاد کہتا ہے لیکن خفی حرکت کے نتائج شعور میں نہیں آتے۔ حالانکہ وہ زیادہ عظیم الشان اور مسلسل ہوتے ہیں۔ یہاں یہ راز غور طلب ہے کہ ساری کائنات خفی حرکت کے نتیجے میں رونما ہونے والے مظاہر سے بھری پڑی ہے۔ البتہ یہ مظاہر مخفی انسانی لاشعور کی پیداوار نہیں ہیں۔ انسان کا خفی کائنات کے دور دراز گوشوں سے مسلسل ربط قائم نہیں رکھ سکا۔ اس کمزوری کی وجہ نوع انسان کے اپنے خصائل ہیں۔ اس نے اپنے تفکر کو کس مقصد کے لئے پابگِل کیا ہے یہ بات اب تک نوع انسانی کے شعور سے ماوراء ہے۔ کائنات میں جو تفکر کام کر رہا ہے اس کا تقاضا کوئی ایسی مخلوق پورا نہیں کر سکتی جو زمانی، مکانی فاصلوں کی گرفت میں بے دست و پا ہو۔ اس شکل میں ایسی تخلیق کی ضرورت تھی جو اس کے خالی گوشوں کو مکمل کرنے کی طاقت رکھتی ہو۔ چنانچہ کائناتی تفکر سے جنات اور فرشتوں کی تخلیق عمل میں آئی تا کہ خلاء پر ہو جائے۔ فی الواقع انسانی تفکر سے وہ تمام مظاہر رونما نہیں ہو سکے جن سے کائنات کی تکمیل ہو جاتی ۔

کائنات زمانی مکانی فاصلوں کا نام ہے۔ یہ فاصلے انّا کی چھوٹی بڑی مخلوط لہروں سے بنتے ہیں۔ ان لہروں کا چھوٹا بڑا ہونا ہی تغیر کہلاتا ہے۔ دراصل زمان اور مکان دونوں اسی تغیر کی صورتیں ہیں۔ دخان جس کے بارے میں دنیا کم جانتی ہے۔ اس مخلوط کا نتیجہ اور مظاہر کی اصل ہے۔ یہاں دخان سے مراد دھواں نہیں ہے۔ دھواں نظر آتا ہے اور دخان ایسا دھواں ہے جو نظر نہیں آتا۔ انسان مثبت دخان کی اور جنات منفی کی پیداوار ہیں۔ رہا فرشتہ، ان دونوں کے ملخّص سے بنا ہے۔ عالمین کے یہ تین اجزائے ترکیبی غیب و شہود کے بانی ہیں۔ ان کے بغیر کائنات کے گوشے امکانی تموّج سے خالی رہتے ہیں۔ نتیجہ میں ہمارا شعوراور لا شعور حیات سے دور نابود میں گم ہو جاتا ہے۔ ان تین نوعوں کے درمیان عجیب و غریب کرشمہ برسر عمل ہے۔ مثبت دخان کی ایک کیفیت کا نام مٹھاس ہے۔ اس کیفیت کی کثیر مقدار انسانی خون میں گردش کرتی رہتی ہے۔ دخان کی منفی کیفیت نمکین ہے۔ اس کیفیت کی کثیر مقدار جنات میں پائی جاتی ہے۔ ان ہی دونوں کیفیتوں سے فرشتے بنے ہیں۔ اگر ایک انسان میں مثبت کیفیت کم ہو جائے اور منفی بڑھ جائے تو انسان میں جنات کی تمام صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور وہ جنات کی طرح عمل کرنے لگتا ہے۔ اگر کسی جن میں مثبت کیفیت بڑھ جائے اور منفی کیفیت کم ہو جائے تو اس میں ثقل وزن پیدا ہو جاتا ہے۔ فرشتہ پر بھی یہی قانون نافذ ہے۔ اگر مثبت اور منفی کیفیات معین سطح سے اوپر آجائیں تو مثبت کے زور پر وہ انسانی صلاحیت پیدا کر سکتا ہے اور منفی کے زور پر جنات کی۔ بالکل اسی طرح اگر انسان میں مثبت اور منفی کیفیات معین سطح سے کم ہو جائیں تو اس سے فرشتہ کے اعمال صادر ہونے لگیں گے۔

طریق کار بہت آسان ہے۔ مٹھاس اور نمک کی معین مقداریں کم کر کے فرشتوں کی طرح زمانی و مکانی فاصلوں سے وقتی طور پر آزاد ہو سکتے ہیں۔ محض مٹھاس کی مقدار کم کر کے جنات کی طرح زمانی و مکانی فاصلے کم کر سکتے ہیں لیکن ان تدبیروں پر عمل پیرا ہونے کے لئے کسی روحانی انسان کی رہنمائی اشد ضروری ہے۔

قانون:

یہ قانون بہت فکر سے ذہن نشین کرنا چاہئے کہ جس قدر خیالات ہمارے ذہن میں دور کرتے رہتے ہیں، ان میں بہت زیادہ ہمارے معاملات سے غیر متعلق ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق قریب اور دور کی ایسی مخلوق سے ہوتا ہے جو کائنات میں کہیں نہ کہیں موجود ہو۔ اس مخلوق کے تصورات لہروں کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ جب ہم ان تصورات کا جوڑ اپنی زندگی سے ملانا چاہتے ہیں تو ہزاروکوشش کے باوجود ناکام رہ جاتے ہیں۔ انّا کی جن لہروں کا بھی تذکرہ ہو چکا ہے ان کے بارے میں بھی چند باتیں فکر طلب ہیں۔ سائنس دان روشنی کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں لیکن وہ اتنی تیز رفتار نہیں ہے کہ زمانی و مکانی فاصلوں کو منقطع کر دے۔ البتہ انّا کی لہریں لاتناہیت میں بیک وقت ہر جگہ موجود ہیں۔ زمانی مکانی فاصلے ان کی گرفت میں رہتے ہیں۔ باالفاظ دیگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان لہروں کے لئے زمانی مکانی فاصلے موجود ہی نہیں ہیں۔ روشنی کی لہریں جن فاصلوں کم کوکم کرتی ہیں، انّا کی لہریں ان ہی فاصلوں کو بجائے خود موجود نہیں جانتیں۔

انسانوں کے درمیان ابتدائے آفرینش سے بات کرنے کا طریقہ رائج ہے۔ آواز کی لہریں جن کے معنیٰ معین کر لئے جاتے ہیں، سننے والوں کو مطلع کرتی ہیں۔ یہ طریقہ اس ہی تبادلہ کی نقل ہے جو انّا کی لہروں کے درمیان ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ گونگا آدمی اپنے ہونٹوں کی خفیف جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ سمجھ جاتے ہیں۔ یہ طریقہ بھی پہلے طریقہ کا عکس ہے۔ جانور آواز کے بغیر ایک دوسرے کو اپنے حال سے مطلع کر دیتے ہیں۔ یہاں بھی انّا کی لہریں کام کرتی ہیں۔ درخت آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ یہ گفتگو صرف آمنے سامنے کے درختوں میں ہی نہیں ہوتی بلکہ دور دراز ایسے درختوں میں بھی ہوتی ہے جو ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یہی قانون جمادات میں بھی رائج ہے۔ کنکروں، پتھروں، مٹی کے ذروں میں من و عن اسی طرح تبادلہ خیال ہوتا ہے۔

انبیاء اور روحانی طاقت رکھنے والے انسانوں کے کتنے ہی واقعات اس کے شاہد ہیں۔ ساری کائنات میں ایک ہی لاشعور کارفرما ہے۔ اس کے ذریعے غیب و شہود کی ہر لہر دوسری لہر کے معنیٰ سمجھتی ہے، چاہے یہ دونوں لہریں کائنات کے دو کناروں پر واقع ہوں۔ غیب و شہود کی فراست و معنویت کائنات کی رگ جاں ہے۔ ہم اس رگ جاں میں جو خود ہماری اپنی رگ جاں بھی ہے، تفکر اور توجہ کر کے اپنے سیارے اور دوسرے سیاروں کے آثار و احوال کا انکشاف کر سکتے ہیں۔ انسانوں اور حیوانوں کے تصورات، جنات اور فرشتوں کی حرکات و سکنات، نباتات و جمادات کی اندرونی تحریکات معلوم کر سکتے ہیں۔



Nazariya E Rang O Noor

حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔ 

عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔

انتساب
زمان و مکان ( Time&Space) ایک لمحے کی تقسیم در تقسیم ہے
اور لمحہ کی تقسیم ‘ اطلاع ہے جو ہر آن لہروں کے ذریعہ انسانی دماغ پر وارد ہوتی رہتی ہے۔
اگر ہم ان اطلاعات کا مخزن (Source of Information) معلوم کرنا چاہیں تو
اس کا ذریعہ روحانی علوم ہیں اور
روحانی علوم کے لئے دانشوروں کو بہرحال قرآن میں تفکر کرنا پڑے گا۔