Topics
سابقہ لیکچر میں آئینے کی مثال دے کر بتایا گیا تھا کہ آئینے میں خود کو دیکھنا دیکھنے کی دو طرزوں کا انکشاف کرتا ہے۔ ایک دیکھنا یہ ہے کہ ہم آئینے کو دیکھ رہے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہم نے آئینہ دیکھا۔ یہ طرزِ نگاہ بالواسطہ ہے۔ جب ہم دیکھنے کے عمل کو سمجھنا چاہتے ہیں اور ہمارے شعور میں گہرائی کا ادراک پیدا ہو جاتا ہے تو از خود یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ہم اپنا عکس آئینے کے اندر دیکھ رہے ہیں۔ یہ کہنا کہ ہم آئینہ دیکھ رہے ہیں بالواسطہ دیکھنے کی طرز ہے اور یہ محسوس کرنا کہ ہم خود کو آئینے کے اندر دیکھ رہے ہیں۔ براہ راست دیکھنے کی طرزِفکر ہے۔ یہ ہی صورت حال زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ ایک صورت یہ ہے کہ ہم آنکھوں سے باہر دیکھ رہے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ یہ بات ہمارے ادراک میں موجود ہے ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ باہر نہیں دیکھ رہے بلکہ ہمارے اندر باہر کی چیزوں کا عکس منتقل ہو رہا ہے اور ہم اس عکس کو دیکھ رہے ہیں۔ ایک طرز کو تصوف میں بالواسطہ طرز کہا جاتا ہے۔ اور دوسری طرز کو براہ راست طرز نظر کہتے ہیں۔ مرنے کی مثال سے یہ بات ہمارے سامنے موجود ہے کہ دیکھنے والی شئے آنکھ نہیں ہے، دیکھنے والی شئے رُوح ہے۔ مطلب یہ ہوا اگر کوئی بندہ بالواسطہ نگاہ سے واقف ہوتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ میں باہر دیکھ رہا ہوں اور جب سالک براہ راست دیکھنے کی طرز سے آشنا ہو جاتا ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ دیکھنا دراصل باطن میں دیکھنا ہے۔ جب تک کوئی آدمی بالواسطہ دیکھتا ہے۔ وہ جمادات یا حیوانات کی صف کا ایک فرد ہے اور جب کسی بندے کے اندر براہ راست دیکھنے کی طرز کام کرنے لگتی ہے تو وہ حیوانات کی صف سے نکل کر انسان کی صف میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ جب سالک کے اندر براہ راست نگاہ کام کرتی ہے تو اس کے اوپر اس رشتے کا انکشاف ہو جاتا ہے جو رشتہ خالق اور مخلوق کے درمیان ہے۔ خالق اورمخلوق کے درمیانی رشتے کو علم الٰہی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ نے "الست بربکم" فرما کر کائنات کو نگاہ کا علم عطا کیا۔ دیکھنے کی طرزوں میں قانون بہت زیادہ اہم ہے کہ دیکھنے کا عمل اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک نگاہ کے لئے کوئی ہدف نہ بن جائے۔ یعنی نگاہ کسی چیز کوٹارگٹ کے بغیر نہیں دیکھ سکتی۔ کائنات یا انسان کی نگاہ کا پہلا ٹارگٹ اللہ تعالیٰ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ”میں تمہارا رب ہوں’’ تو انسان کی نگاہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی ذات ایک ٹارگٹ بن گئی اور یہاں سے انسان گمشدگی کے دریا سے باہر آ گیا۔ جب انسان گمشدگی کے دریا سے باہر آیا تو اس نے پہلے اللہ کو دیکھا اور پھر ساری کائنات کو یکجائی پروگرام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کرتے ہوئے سنا۔ اقرار کا سننا اور تمام کائنات کو ایک کنبے کی حیثیت میں دیکھنا اور یہ محسوس کرنا کہ ہماری حیثیت صرف نگاہ کی ہے۔ نگاہ کی دوسری حرکت ہے۔ پھر نگاہ نے دوسری تیسری چوتھی اور پانچویں کروٹ بدلی۔ اب اس نے دیکھا کہ فی الواقع ہر چیز کی حیثیت یہ ہے کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں بس وہی ہے۔ اس دیکھنے کو وحدت الشہود کہتے ہیں۔ جب نگاہ بالواسطہ دیکھتی ہے تو خود کو مکانیت اور زمانیت کے اندر محبوس اور مقید محسوس کرتی ہے اور جیسے جیسے بالواسطہ دیکھنے کی طرزیں گہری ہوتی جاتی ہیں اسی مناسبت سے کثرت در کثرت درجے تخلیق ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ نگاہ کہیں گفتار کہیں نظارہ کہیں شہود کہیں شامہ کہیں سماعت اور کہیں لمس بن جاتی ہے۔ شہود قوت نظارہ شامہ اور لمس، مکانیت اور زمانیت کے اندر محدود ہیں۔ ان حرکات کو تنزلات کہا جاتا ہے۔ ہر تنزل کے دو جز ہوتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے قانون بیان فرمایا ہے کہ ہر شئے دو رخوں پر تخلیق کی گئی ہے۔ اسی طرح تنزل بھی دو رخوں پر قائم ہے۔
اب ہم یوں کہیں گے کہ انسان دوسرے تنزل میں داخل ہو گیا اور اس دوسرے تنزل میں اس نے شعور۔نگاہ۔شکل و صورت۔گفتار۔سماعت۔رنگینی۔احساس۔کشش اور لمس سے وقوف حاصل کیا۔ تنزل اول وحدت کا ایک درجہ ہے۔ اور تنزل دوئم کثرت کے پانچ درجے ہیں۔ اس طرح تنزلات کی تعداد چھ ہو گئی۔ پہلے تنزل کو لطیفہ وحدت اور دوسرے پانچ درجوں کو لطائف کثرت کہتے ہیں۔
وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا جہاں تک تعلق ہے یا جس عالم کو اہل تصوف محض وحدت کا نام دیتے ہیں یہ ذہن انسانی کی اپنی اختراع ہے۔ انسان اپنی محدود فہم کے مطابق یا محدود فکری صلاحیت کے مطابق جو کچھ بیان کرتا ہے وہ انسان کی اپنی محدود فکر ہے۔ یہ کہنا کہ عالمِ وحدت وحدتِ باری تعالیٰ ہے ہرگز صحیح نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدت کو یا اللہ تعالیٰ کے کسی وصف کو انسانی شعور بیان کرنے سے قطعی قاصر ہے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان کرتے ہیں تو دراصل اپنی ہی محدود فکری صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی لفظ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی صفات کا مکمل احاطہ ہو سکے۔ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں جس لامحدودیت کا اظہار کرتا ہے فی الواقع وہ اپنے محدود دائرہ کا تذکرہ کرتا ہے۔ یعنی انسان کی محدود فکر کے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات جس حد تک سما جاتی ہیں اس نے اس کو لامحدودیت کا نام دے دیا۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کی وحدت کا تذکرہ کرتے ہیں تو فی الحقیقت اپنی وحدت کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو اس حد تک سمجھا ہے۔
انسان جس مقام کے تعین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا سمجھنے کے لئے کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے اس ہی مناسبت سے وہ اللہ تعالیٰ کا تذکرہ کر دیتا ہے۔ چونکہ انسان کی لامحدود نگاہ بھی محدود ہے اس لئے آگے اور آگے اسے کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کے ادراک میں یہ بات نہیں آتی کہ جو دیکھا ہے اس سے آگے بھی کچھ ہے۔ وہ بے بسی کی حالت میں سمجھ میں نہ آنے والے عالم کا نام وحدت الوجود یا وحدت الشہود رکھ دیتا ہے۔
آخری نبی سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:
ترجمہ:”پہچاننے کا جو حق ہے وہ ہم سے پورا نہیں ہوا۔’’
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
درخت قلم بن جائیں اور سمندر روشنائی بن جائیں تب بھی اللہ تعالیٰ کی باتوں کا احاطہ نہیں ہو سکتا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ابدال حق قلندربابااولیاء کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ
کتاب لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں کو سمجھانے کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے روحانی طلباء وطالبات کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔
علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)
‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔
خواجہ شمس الدّین عظیمی
(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)