Topics

لیکچر 33 : حواس کی تقسیم

فرشتے، جنات، انسان، اجرام فلکی، کہکشانی نظام اور دوسری تمام نوعوں کی ابتداء اور انتہا شعور کے ردو بدل پر قائم ہے۔ ہم ابتداء کو پیدائش کا مرحلہ کہتے ہیں تو انتہا کو موت کا مرحلہ کہیں گے۔ لیکن جب موت کے مرحلے پر تفکر کرتے ہیں تو موت کا مرحلہ بھی حیات کا ایک قدم ہے ایسی حیات کا قدم جس قدم کے بعد دوسرا قدم بھی حیات ہے۔ کائنات جن حواس اور جن شعوروں میں حیات کے مراحل طے کر رہی ہے وہ مختلف کیفیات ہیں۔ یعنی مختلف کیفیات کے ردوبدل کا نام کائنات ہے۔

ہم شعوری اعتبار سے اتنے کمزور ہیں کہ کسی چیز کو سمجھنا چاہتے ہیں تو محدودیت ہمارے اوپر مسلط ہو جاتی ہے۔ اگر ہم نظر کے سامنے بہت باریک کاغذ رکھ دیں تو شعور کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اسی طرح جب ہم اس محدود کیفیت سے نکل کر لامحدود کیفیت میں داخل ہوتے ہیں تو شعور میں توانائی داخل ہو جاتی ہے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ فرد کا شعور، نوع کا شعور، کائنات کا شعور اور ماورائے کائنات کا شعور ہی زندگی کے مراحل کا تعین کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ شعور ایک ہی ہے اور یہ ایک ہی شعور کائنات کی ہر شئے میں الگ الگ دور کر رہا ہے۔ جیسے جیسے شعور میں حرکت ہو رہی ہے اسی مناسبت سے شعور میں درجہ بندی ہو رہی ہے۔

اللہ کی تمام صفات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے کہ اللہ کی صفات لامتناہی ہیں۔ البتہ اللہ کی ان صفات کا علم ہمیں حاصل ہے جن صفات کو اللہ نے علم الٰہیہ کہا ہے۔ یہ صفات وہ لمحہ ہیں جس لمحہ کے اندر اللہ کا ارادہ جاری ہے۔ اس بات کو مختصر الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کا ارادہ ہی زمان مسلسل ہے یعنی اللہ کا ارادہ زماں ہے اللہ کے ارادے کے تحت اللہ کے ارادے میں خدوخال بننا مکانیت ہے۔

انبیاء کرام کی تعلیمات کی روشنی میں اس ذات کو سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہئے جس ذات کے امر سے کائنات وجود میں آئی ہے۔ جب تک ذات مطلق کو نہیں سمجھا جائے گا، ذات مطلق کے امر یا حکم کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ کچھ لوگ اس بات پر معترض ہیں کہ امر کو سمجھنا یا ذات مطلق کے ارادے کو سمجھنا کس طرح ممکن ہے؟

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

کوئی آنکھ اللہ کا ادراک نہیں کر سکتی۔ اللہ آنکھ کا ادراک بن جاتا ہے۔ جب تک انسان اپنی کُنہ سے واقف نہیں ہوتا اس کا ذہن ذات مطلق کی طرف متوجہ نہیں ہوتا جب انسان خود سے واقف ہو جاتا ہے تو اپنے اندر اللہ کے امر سے واقف ہو جاتا ہے۔ جب تک انسان امر کو نہیں جانتا اپنی ذات سے واقف نہیں ہوتا۔

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر روشنی دیکھ کر سوال کیا۔

کون؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

میں ہوں تیرا رب۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی اللہ کا امر ہے اور خود اللہ ذات مطلق۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو روشنی دیکھی وہ روشنی امر رب (ذات مطلق) تھی۔ اس واقعے سے ذات مطلق اور امر کی حدود کا تعین ہو جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کا امر ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے امر کو روشنی میں مشاہدہ کرنے کے باوجود یہ سوال کیا کہ کون! یعنی امر نے اس بات کی احتیاج محسوس کی کہ وہ ذات مطلق کو پہچانے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روشنی دیکھ کر یہ نہیں جان لیا کہ یہ میرا رب ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس بات کی احتیاج ہوئی کہ روشنی امر سے اپنا تعارف کرائے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔

بعض لوگوں نے اپنے پیرایہ بیان میں ذات مطلق کو حقیقت مطلقہ کہا ہے اور امر کو کائنات کہا ہے۔ یہ پیرایہ بیان حکمائے ربانی کا ہے۔ حکمائے ربانی سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے اندر تفکر اور تلاش ہے اور جو لوگ اپنے شعور کی سطح سے نکل کر لاشعور میں داخل ہونے کے بعد کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ حکمائے ربانی کے زمرے میں شامل ہیں۔ حکمائے ربانی کے برعکس انبیاء کرام کی الگ طرز فکرہے۔ حکماء اور انبیاء میں بہت بڑا فرق ہے۔

انبیاء علمِ حضوری سے حقیقت مطلقہ کو تلاش کرتے ہیں اور حکمائے ربانی مظاہر سے کُنہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ یہ عمل قانون فطرت کے مطابق نہیں ہے۔

انبیاء باطن سے ظاہر کو تلاش کرتے ہیں۔ جب کہ حکماء اور دانشور ظاہر سے باطن کو تلاش کرتے ہیں۔ دونوں طرزیں اپنی جگہ صحیح ہیں اور صحیح ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ظاہری علماء چونکہ باطن سے بے خبر ہیں اس لئے وہ ظاہر کو سامنے رکھ کر ظاہر کی کُنہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

جب ان کے اوپر مخفی چیزوں کا انکشاف نہیں ہوتا تو وہ مخفی چیزوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس طرزِفکر سے کائنات کی ساخت میں بہت سارے حقائق سامنے نہیں آتے جب کہ انبیاء کی تلاش اس نقص سے پاک ہے۔ وہ کائنات کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے پہلے اس ہستی کا ادراک کر لیتے ہیں جس ہستی نے کائنات کو تخلیق کیا ہے۔

جب ہم حواس میں تفکر کرتے ہیں تو ایک ہی نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ ایک ذات ہے اس ذات کے حکم سے حواس وجود میں آئے۔ خدوخال کے ساتھ موجودات کا مظاہرہ منقسم حواس ہیں یعنی امر مطلق منقسم حواس ہیں۔ منقسم حواس ہی خود کو ازل سے ابد تک کا روپ دے کر کائنات کی شکل وصورت میں پیش کرتے ہیں۔ اللہ نے جب حکم دیا تو کائنات وجود میں آ گئی۔ یعنی اللہ کے امر نے کائناتی خدوخال اختیار کر کے خود کا مظاہرہ کر دیا اور یہ مظاہرہ ہی منقسم حواس ہیں۔ منقسم حواس میں شکل وصورت کا ہونا ضروری ہے۔

شکل و صورت کی دو طرزیں ہیں۔ ایک طر ز مادی ہے دوسری طرز نورانی ہے۔ مادی شکل وصورت سے   رُوح کا سراغ نہیں ملتا۔ اس لئے کہ مادہ کثیف ہے اور   رُوح انہتائی درجے لطیف ہے۔   رُوح ہے تو مادہ ہے،   رُوح نہیں ہے تو مادہ نہیں ہے۔ مشاہداتی دنیا پر لمحہ فنا ہے اور   رُوح کے اوپر فنا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مادی شکل و صورت سے   رُوح کی تلاش ممکن نہیں لیکن   رُوح سے مادی شکل وصورت کی کُنہ تک پہنچ جانا یقینی امر ہے۔ نفس سے مراد وہ   رُوح ہے جس   رُوح کے اوپر مادیت کا قیام ہے۔ جب تک   رُوح مادیت کو سنبھالے رہتی ہے مادیت قائم رہتی ہے اور جب   رُوح مادی وجود سے دستبردار ہوجاتی ہے تو مادیت فنا ہو جاتی ہے۔ اس تشریح سے ان لوگوں کی غلطی واضح ہو جاتی ہے جو مادیت کو اولیت دیتے ہیں۔

جب ہم مظاہر کو مادیت کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم مظاہر کو ہی حیات کہتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مظاہراتی خدوخال ہر لمحے فنا ہو رہے ہیں جب ہم مظاہر کو اولیت دیتے ہیں اور مظاہر کو وسعت حیات قرار دیتے ہیں تو ماضی کا انکار کرتے ہیں۔ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ساری کائنات ماضی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ آج کا بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو ابھی ایک لمحہ بھی نہیں گزرتا کہ اس کی پیدائش ماضی میں چلی جاتی ہے۔ کائنات میں حال، مستقبل کا کوئی درجہ نہیں ہے اس لئے بچہ جس آن پیدا ہوتا ہے دوسرے لمحے اس کی زندگی ماضی بن جاتی ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے۔

’’جو کچھ ہونے والا ہے قلم لکھ کر خشک ہو گیا۔‘‘

اس حدیث سے ماضی کے علاوہ زمانے کا کوئی اور اسلوب معلوم نہیں ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ حال اور مستقبل دونوں ماضی کے اجزاء ہیں۔

عالم فطرت

کائنات ماضی میں ہونے والے ظہورات کا عکس ہے۔ ماضی کی حرکات کو سمجھنے کے لئے ہمیں منقسم اور غیر منقسم حواس میں تفکر کرنا چاہئے۔ شکل وصورت منقسم حواس ہیں اور تمثل غیر منقسم حواس  ہیں۔ منقسم حواس سے غیر منقسم کو پا جانا ممکن نہیں ۔ لیکن غیر منقسم حواس سے منقسم حواس کا علم حاصل ہو جاتا ہے۔ دنیاوی علوم کو اگر ہم اولیت دیتے ہیں اور مظاہر کو وسعت حیات قرار دیتے ہیں تو اس کا مطلب بجز اس کے کچھ نہیں ہے کہ ہم ماضی اور مستقبل دونوں کا انکار رہے ہیں۔ جب کہ ماضی اور مستقبل کے ساتھ ساتھ حال کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔

ماضی میں جو کچھ ہو چکا ہے وہی حال اور مستقبل میں ڈسپلے ہو رہا ہے۔ خدا کا امر یہ ہے۔ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے، کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔ یعنی اللہ کے ذہن میں کائناتی پروگرام جس ترتیب کے ساتھ تھا اللہ نے ’’کُن‘‘ کہا اور پروگرام وجود میں آ گیا۔ اللہ کا ارادہ لامتناہی نور ہے۔ لامتناہی نور سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے ارادے میں کائنات موجود ہے۔ کائنات کی ماہیت اور کائنات کے اندر نوعیں اور نوعی افراد پر اللہ کی حکمرانی قائم ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

میں جس چیز کو حکم دیتا ہوں ہونے کا وہ ہو جاتی ہے۔

اس بات کی تشریح یہ ہے کہ امر الٰہی کے تین حصے ہیں۔

۱۔ ارادہ

۲۔ جو کچھ ارادے میں ہے یعنی شئے

۳۔ ارادے میں جو شئے ہے اس کا ظہور

ارادے کے اندر شئے کا ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو اللہ چاہتے ہیں وہ پہلے سے ان کے علم میں موجود ہے۔ چونکہ امر الٰہی کے متحرک ہونے سے پہلے کائنات کی اشیاء اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود ہیں اور ’’کُن‘‘ کے بعد انہی اشیاء کا ظہور ہوا ہے۔ اس لئے جو کچھ موجود ہے سب ماضی ہے۔

ماضی کیا ہے؟ اور اس کی مقداریں کیا ہیں؟

ہمارے پاس ان مقداروں کو سمجھنے کی بہت سی طرزیں ہیں۔ ایک طرز یہ ہے کہ سائنس دان روشنی کی رفتار ایک لاکھ چیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ بتاتے ہیں۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ایک سیکنڈ ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل  کے برابر ہے تو ہمیں مجبوراً ماننا پڑے گا کہ کائنات کے ایک لمحہ کی رفتار روشنی کی رفتار ہے۔

زمان متواتر کا ادراک دراصل حواس کی تقسیم ہے۔ کائنات کے اندر جو کچھ ہے ہم اس کو زمان متواتر کے پیمانے سے ناپتے ہیں۔ کائنات لمحات میں بند ہے۔ ایک لمحہ ہو یا دوسرا لمحہ ہو دونوں لمحات اس بات کے پابند ہیں کہ وہ لمحے کے اندر موجود رہیں۔

کائنات میں کسی بھی وقت ٹھہراؤ نہیں ہے۔ کائنات کا ہر لمحہ متحرک ہے۔ یعنی کائنات کا لمحہ ایک تغیر ہے۔ دوسرا لمحہ دوسرا تغیر ہے۔ تیسرا لمحہ تیسرا تغیر ہے اور چوتھا لمحہ چوتھا تغیر ہے۔ چونکہ کائنات ہر لمحہ تغیر پذیر ہے اس لئے ہر لمحہ الگ الگ ہے اور ہر لمحہ کے افعال و حوادث الگ الگ ہیں۔ جب ہر لمحہ کے حوادث و افعال الگ الگ ہیں تواس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر لمحہ کے درمیان فاصلہ ہے۔ ہر لمحہ کے بعد فاصلہ زمانے کی جداگانہ وحدتیں ہیں۔

زمان متواتر معلوم واردات اور زمان غیر متواتر نامعلوم واردات ہے۔ زمان متواتر کی وحدتیں ایسی واردات کا مجموعہ ہیں جن سے شعور واقف ہے زمان غیر متواتر کی وحدتیں ایسی واردات کا مجموعہ ہے جن سے شعور واقف نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

میں نے آدم کے پتلے میں اپنی   رُوح پھونکی۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

میں نے آدم کو علم الاشیاء عطا کیا۔

اللہ نے آدم کو خلاء سے بنایا۔ اس خلاء میں اللہ نے   رُوح پھونکی   رُوح پھونکنے کے بعد آدم کو علم شئے عطا کیا۔آدم دو ایجنسیوں سے مرکب ہے۔ ایک   رُوح دوسرا علم شئے۔

علم اشیاء حاصل ہونے کے بعد اشیاء کا علم حاصل ہوا۔

علم اشیاء عالم فطرت ہے۔ عالم فطرت، عالم شہادت(زمان متواتر) ہے۔   رُوح کے بالمقابل زمان غیر متواتر عالم غیب ہے۔

 



Euqation:

رُوح الٰہی۔۔۔۔۔۔علم اشیاء۔۔۔۔۔۔عالم فطرت(زمان متواتر) =عالم شہادت

  رُوح الٰہی۔۔۔۔۔۔  رُوح کے اندر علم اشیاء (تکوین کائنات) =آدم

  رُوح + علم اشیاء =آدم

آدم خلاء ہے، خلا میں   رُوح ہے۔   رُوح میں علم اشیاء ہے۔ علم اشیاء عالم فطرت ہے۔ عالم فطرت زمان متواتر ہے۔ زمان متواتر غیر زمان متواتر پر قائم ہے۔ زمان غیر متواتر عالم غیب ہے۔

غیب الغیب

زمان حقیقی، زمان متواتر اور زمان غیر متواتر تین زمانے ہیں۔ زمان متواتر وہ زمانہ ہے جس میں ہم عالم ناسوت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس زمانے میں حواس ہر آن ہر لمحہ تقسیم ہو رہے ہیں۔ نظر آنے والی کائنات کے تمام افعال و حوادث کو ہم زمان متواتر کے پیمانے سے ناپتے ہیں۔ 

زندگی کا کوئی ایک لمحہ ایسا نہیں ہے جو قائم ہو۔ ہماری زندگی کا ہر لمحہ متغیر ہے۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ہم قدم اٹھانے کے بعد دوسرا قدم اٹھاتے ہیں تو پہلا قدم متغیر ہو جاتا ہے تب دوسرا قدم اٹھتا ہے تو تیسرا قدم متغیر ہو جاتا ہے۔ یعنی زندگی کا کوئی لمحہ اس وقت تک لمحہ نہیں ہے جب تک اس میں تغیر نہ ہو۔ ہر لمحہ کی واردات اور زندگی کے حوادث جدا جدا ہیں اور ہر حادثہ(کیفیت) کے درمیان ایک فاصلہ ہے۔ ہم جب ایک قدم کے بعد دوسرا قدم اٹھاتے ہیں تو ایک قدم کا دوسرے قدم میں جانا ایک تغیر ہے اور ایک قدم کے بعد دوسرا قدم فاصلہ ہے۔

عالم غیب کو جاننے کے لئے   رُوح کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ عالم غیب کا انشراح   رُوح میں ہوتا ہے۔   رُوح سے مراد لاشعور ہے۔ اگر ہم عالم غیب کو جاننا چاہیں تو ضروری ہے کہ شعور کی دنیا سے نکل کر لاشعور کی دنیا میں داخل ہوں کیونکہ شعوری دنیا کے حواس میں غیب سے آشنا ہونا ممکن نہیں ہے۔ زمان غیر متواترNon Serial Timeہے۔ زمان حقیقی عالم الٰہی ہے جس کو غیب الغیب کہتے ہیں۔ زمان غیر متواتر فرشتوں کی دنیا ہے جس کو اصطلاح میں غیب کہا گیا ہے۔ شعوری دنیا (زمان متواتر) سے نکل کر بندہ جب لاشعوری دنیا میں داخل ہو جاتا ہے توا س پر غیب منکشف ہو جاتا ہے اور فرشتوں کی دنیا سامنے آ جاتی ہے۔ جس طرح آدمی شعوری دنیا میں رہ کر شعوری دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے اسی طرح سالک لاشعور میں داخل ہو کر فرشتوں کو دیکھتا ہے۔

شعور کے بالمقابل دو ایجنسیاں ہیں۔ ایک غیب الغیب اور دوسری غیب۔

عالم غیب کے لمحات سے ہمارا شعور ناواقف ہے لیکن   رُوح آگاہ رہتی ہے۔ غیب الغیب زمان حقیقی ہے۔ اس لاتناہیت کے مقابل تناہیت ہے۔ ہر تناہیت کی ماہیت کو علم کہا جاتا ہے۔ یہی وہ علم ہے جو لاتناہیت کے اندر تجسس کرتا ہے۔

علم ایک ایسی ہستی ہے جو افہام و تفہیم میں لگی رہتی ہے علم کی ہستی لاتناہیت کی روشنی معلوم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ علم کی ہستی تلاش کرتے کرتے جس روشنی کو پا لیتی ہے اس کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے اور یہ روشنی مستقل نقش بن کر پیوست ہو جاتی ہے۔

اس بات کو پھر سمجھئے نوع جب فرد کی حیثیت میں ہوتی ہے تو زمان متواتر ہے۔ افراد کی ہستی (کُنہ) زمان غیر متواتر ہے۔ ہر نوع یہ جانتی ہے کہ میں انسان ہوں فرشتہ ہوں جنات ہوں پہاڑ ہوں گھاس ہوں درخت ہوں۔ نوع کی موجودگی کا یہ علم ’’زمان حقیقی‘‘ سے منتقل ہوتا ہے۔ 

نوع جب اس علم کو دہراتی ہے تو کائنات کے افراد الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ زمین پر بکری کی نوع اس لئے موجود ہے کہ بکری خود کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے نوعی علم کو دہراتی رہتی ہے۔ علم کا دہرانا ہی نوعی افراد کی موجودگی کا ضامن ہے۔ نوع کا علمی اعتبار سے خود کو دہرانا ایک طرف تناہیت ہے۔ اور دوسری طرف لاتناہیت ہے۔

۱۔ (Timelessness or Real Time) (زمان حقیقی)

۲۔ (Non Serial Time) (زمان غیر متواتر)

۳۔ (Serial Time) (زمان متواتر)

زمان حقیقی = (ورائے لا شعور، علم حضوری، غیب الغیب، لاتناہیت، نور مطلق)

زمان غیر متواتر = (روحانی دنیا عالم غیب عالم تمثال نور مرکب)

زمان متواتر = (شعوری دنیا نسمہ مرکب عالم تخلیط عالم ناسوت عنصری مخلوق عالم فطرت عالم شہادت (منقسم حواس)

خدوخال کی عدم موجودگی ۔ محض احساس = زمان حقیقی

نوع اور نوع کے افراد سے آگاہی ۔ زمان غیر متواتر

اربوں کھربوں دنیائیں ۔ جو ٹائم کی گرفت میں ہیں (زمان متواتر)


Topics


Sharah Loh O Qalam

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)