Topics

لیکچر6: ادراک اور وجدان

آسمانی صحیفے اور الہامی کتابیں بیان کی ایک مخصوص طرز رکھتی ہیں۔ تفکر کیا جائے تو یہ بات بہت آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا طرزِاستدلال یہ ہے کہ وہ ایک ہی بات کو مختلف طرزوں اور مثالوں سے بیان کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان لاشعوری اور روحانی علوم سے واقفیت نہیں رکھتا اور روحانی علوم شعوری علوم سے مختلف ہوتے ہیں الہامی علوم کا شعور پر وزن پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک ہی بات کو مختلف پیرایوں میں بیان کر کے شعور کے اوپر زائد وزن کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کتاب ’’لوح و قلم‘‘ جو حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی تصنیف ہے، ہم سب کے سامنے ہے۔ اس کتاب کا طرزِ استدلال خالص روحانی اور الہامی ہے۔ ایک ہی بات کو بار بار اور مختلف پیرایوں میں اور مختلف مثالوں میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ ہی طرز ِاستدلال قرآن کا بھی ہے اور یہ ہی طرزِ استدلال دوسری الہامی کتب تورات زبور انجیل اور گیتاکا ہے۔ ’’لوح و قلم‘‘ کی تشریح میں بھی ایک ہی بات کو مختلف زاویوں سے بیان کیا گیا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کائناتی علم درجہ بدرجہ تنزل کر کے مخلوق کے خدوخال اور زندگی کے تقاضے ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا علم سیڑھی بہ سیڑھی صعود کرتا ہے۔ (اناللہ و انا الیہ راجعون تحقیق ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ جاتی ہے)۔ اللہ تعالیٰ کا علم جب نزول کرتا ہے تو مخلوق کا ادراک بن جاتا ہے۔

یہ علم ادراک بن کر ایک نقطہ پر کچھ دیر قیام کرتا ہے یعنی اس کے اندر گہرائی پیدا ہوتی ہے تو نگاہ بن جاتی ہے۔ ادراک میں جب تک گہرائی پیدا نہیں ہوتی خیال کی کیفیت رہتی ہے۔ ادراک جب خیال کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو کسی چیز کا ہلکا سا عکس بنتا ہے یہ عکس احساس پیدا کرتا ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ خیال کی حدود میں احساس کام تو کرتا ہے لیکن اس کی حیثیت صرف نظر کی ہوتی ہے۔ جب احساس ایک ہی نقطہ پر چند لمحوں کے لئے مرکوز ہو جاتا ہے تو اس نقطہ میں خدوخال اور شکل و صورت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ خدوخال اندرونی نگاہ کے سامنے آ جاتے ہیں۔ نگاہ کے سامنے آنے والے ماورائی خدوخال جب ایک ہی نقطہ پر چند لمحے اور مرکوز رہتے ہیں تو نقطہ (نوع فرد یا شئے) گویا ہو جاتی ہے اور بولنے لگتی ہے۔ قوت گویائی اگر ذرا دیر اور اس نقطہ یا فرد کی طرف متوجہ رہے تو فکر اور احساس میں رنگینی پیدا ہو جاتی ہے اور نگاہ اپنے ارد گرد نیرنگی کا ایک ہجوم محسوس کرتی ہے۔

اس تشریح سے یہ قانون پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ علم کی ہی جداگانہ حرکات یا حالتوں کا نام خیال نگاہ گفتار شامہ اور لمس ہیں۔ ایک ہی حقیقت یا ایک ہی علم مختلف روپ بدلتا رہتا ہے۔ جس طرح خیال علم ہے اسی طرح نگاہ بھی علم ہے۔ چونکہ ہر چیز کی بنیاد علم ہے اس لئے خیال اور نگاہ کے بعد تمام حالتیں بھی علم ہیں۔ علم کی یہ کیفیت نزولی ہے۔ علم نزول کر کے عالم ناسوت تک آتا ہے اور انسان کی حس گوشت پوست کو چھو لیتی ہے اور یہ ہی کیفیت (علم کی تنزل یافتہ شکل) کسی شئے کی محسوسیت کے لئے انتہا ہے۔ آدم زاد یا کوئی بھی مخلوق اوپر سے نیچے اتر کر پیدا ہوتی ہے۔   رُوح یا امرِ ربی اپنے اظہار کے لئے اور اپنی جلوہ نمائی کے لئے گوشت پوست کا ایک جسم تخلیق کرتی ہے۔ اس کے بعد فکر انسانی تنزل یافتہ شکل سے صعود کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے اور پہلی حس سے یا پہلے حواس سے دور ہونے لگتی ہے۔ دوری سے مراد یہ ہے کہ پیدا ہونے والا ایک دن کا بچہ جب دوسرے دن میں داخل ہوتا ہے تو پہلا دن زندگی کے نزول کا رد عمل ہے۔ یہ ہی ردعمل مکانیت اور زمانیت کا احساس دلاتا ہے۔ بچہ پیدا ہوا ایک لمحہ کے بعد دوسرے لمحے میں بچے کی تمام صفات تمام اعضاء تمام حواس میں تغیر واقع ہو جاتا ہے۔ یہ ہی تبدیلی زمانیت اور مکانیت ہے۔

بچہ شعوری اور لاشعوری طور پر اس بات کو سمجھ رہا ہے یا غیر اختیاری طور پر یہ بات اس کے شعور میں ریکارڈ ہو رہی ہے کہ میں ایک لمحہ سے گزر کر دوسرے لمحہ میں ایک گھنٹہ ایک دن ایک ماہ ایک سال سے دوسرے سال میں داخل ہو گیا ہوں۔ زندگی کا یہ سفر زمانیت اور مکانیت پر قائم ہے۔ یعنی ٹائم اینڈ اسپیس ہمیں اس بات کا علم دیتا ہے کہ ابھی ہم جس چیز کے قریب تھے ایک معین مقدار اور توازن کے ساتھ رفتہ رفتہ اس سے دور ہو رہے ہیں۔ یہ دوری جب زندگی کو محیط ہو جاتی ہے۔ دوری سے مراد یہ ہے کہ وہ نقطہ جس کی حیثیت علم اور علیم کی ہے علمِ نزولی سے دور ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ موت وارد ہو جاتی ہے۔ موت وارد ہونے کے بعد   رُوح اپنے ان تجربات سے جن تجربات پر زمانیت اور مکانیت کا قیام ہے ایک نیا علم سیکھتی ہے۔ یہ نیا علم مکانیت یا زمانیت میں بند ہو کر سامنے نہیں آتا۔ مفہوم یہ ہے کہ   رُوح گوشت پوست کے جسم کے بغیر بھی دیکھتی ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسی دنیا آ جاتی ہے جو گوشت پوست کی آنکھ سے نظر نہیں آتی۔

کائنات کو نگاہ کس طرح ملی کائنات نے اپنے علاوہ دوسری مخلوق کا کس طرح ادراک کیا اور نگاہ کا قانون کیا ہے۔ یہ سب تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جب منظور ہوا کہ موجودات کا سکوت ٹوٹے اور حرکت کا آغاز ہو تو اللہ تعالیٰ نے موجودات کو مخاطب کر کے فرمایا۔

”الست بربکم“

*******

ذات کا عکس ۔۔۔۔۔۔ علم واجب (علم القلم)
علم قلم کا عکس ۔۔۔۔۔۔ علم وحدت (لوح محفوظ)
لوح محفوظ کا عکس ۔۔۔۔۔۔ عالم تمثال (برزخ)
عالم تمثال کا عکس ۔۔۔۔۔۔ عالم ناسوت (مظاہراتی دنیائیں)









 
جیسے ہی اللہ تعالیٰ کی آواز کائنات کی بساط پر گونجی کائنات میں موجود ہر شئے اس آواز کی طرف متوجہ ہو گئی اور مخلوق میں شعور کی بنیاد پڑ گئی۔ اس شعور نے اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا اعتراف کیا۔ جب موجودات کی فہم میں یہ بات آ گئی کہ ہمارے علاوہ بھی کوئی ہستی ہے اور اس ہستی نے ہمیں تخلیق کیا ہے تو موجودات نے اپنے علاوہ دوسری موجودات کو دیکھا اس دیکھنے کو عالم مثال(کثرت) کہتے ہیں۔ کثرت کو عالم مثال یا عالم جو بھی کہتے ہیں۔
Summary:
اللہ تعالیٰ کی ذات کا عکس ۔۔۔۔۔۔ علم واجب یا علم قلم
علم واجب کا عکس ۔۔۔۔۔۔ علم وحدت یا علم لوح محفوظ
علم وحدت سے مراد کائنات کی وہ موجودگی ہے جہاں کائنات گم سم اپنے احساس کے علاوہ کچھ نہیں جانتی۔
لوح محفوظ کا عکس ۔۔۔۔۔۔ علم تمثال
عالم تمثال کا عکس ۔۔۔۔۔۔ عالم تخلیط یا عالم ناسوت

Topics


Sharah Loh O Qalam

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)