Topics

لیکچر 10 : حواس کی رفتار

ہر چیز کا قیام بنیاد پر قائم ہے۔ مثلاً مکان اس وقت تک مکان نہیں ہے جب تک مکان کی بنیادیں موجود نہ ہوں۔ کرسی اس وقت تک کرسی نہیں ہے جب تک کرسی میں چار ٹانگیں نہ ہوں۔

انسانی عمارت چھ ستونوں پرکھڑی ہے۔ یہ عمارت چلتی پھرتی ہے۔ اس میں زندگی ہے زندگی دو رخوں پر متحرک ہے ایک شعور دوسرا رُخ لاشعور۔ شعور اور لاشعور ایک دوسرے میں رد و بدل ہو رہے ہیں۔ چھ ستونوں میں سے تین ستون بیداری میں کام کرتے ہیں اور تین ستون خواب میں کام کرتے ہیں۔ انسان کے اندر چھ روشن نقطے ہیں ان نقطوں میں سے تین کی حرکت بیداری میں اور تین نقطوں کی حرکت نیند میں ہوتی ہے۔

ہر آدمی سونے کے بعد بیدار ہوتا ہے۔ بیداری کے بعد جب اس کی آنکھ کھلتی ہے یا وہ شعوری حواس میں داخل ہوتا ہے تو نیم بیداری کی کیفیت میں ہوتا ہے۔ نیم بیداری کا مطلب ہے کہ ابھی آدمی پوری طرح شعور میں داخل نہیں ہوا لیکن جیسے ہی وہ سو کر اٹھنے کے بعد بیداری کی پہلی کیفیت میں داخل ہوتا ہے اس کے اوپر فکر و عمل کا ہجوم ہو جاتا ہے۔ بیداری کے حواس میں فکر و عمل کی طرزیں یکجائی طور پر دور کرنے لگتی ہیں۔ یہ کیفیت انسان کے اندر اس نقطے سے شروع ہوتی ہے جس نقطے کا نام لطیفہ نفسی ہے۔ نیم بیداری کے بعد جو دوسرا وقفہ شروع ہوتا ہے اس میں آدمی کے ہوش و حواس میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ ہوش و حواس کی اس گہرائی سے دماغ کے اوپر جو خمار ہوتا ہے وہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ وقفہ سرور پر مشتمل ہوتا ہے۔ کبھی سرور کی کیفیت بڑھ جاتی ہے اور کبھی سرور کے برعکس احساس بڑھ جاتا ہے۔ اس کیفیت میں لطیفہ قلبی متحرک ہوتا ہے۔ سرور کے احساسات گہرے ہونے کے بعد تیسری کیفیت وجدان کی ہے۔ وجدان بیداری کا تیسرا وقفہ ہے۔ وجدان میں لطیفہ روحی کام کرتا ہے۔

جس طرح بیداری میں تین وقفے ہیں اسی طرح نیند کے بھی تین وقفے ہیں۔ جس طرح کوئی انسان تین اسٹیج سے گزر کر بیداری میں داخل ہوتا ہے اسی طرح تین Stagesسے گزر کر نیند میں داخل ہوتا ہے۔ نیند کے وقفہ کا نام غنود ہے۔ غنود میں لطیفہ سری حرکت میں رہتا ہے۔ نیند کی دوسری حالت جسے ہلکی نیند کہنا چاہئے لطیفہ خفی کی حرکت ہے اور نیند کی تیسری حالت میں جب آدمی پوری طرح گہری نیند سو جاتا ہے۔ لطیفہ اخفیٰ کی تحریکات ہیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ان تمام حالتوں کے شروع میں انسان پر سکوت کی حالت ضرور طاری ہوتی ہے۔ جس وقت آدمی سو کر اٹھتا ہے اس وقت اس کا ذہن قطعی طور پر پرسکون اور خالی ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسری کیفیات میں انسان کی طبیعت لمحوں کے لئے ضرور ساکت ہو جاتی ہے۔ قانون یہ ہے کہ ایک حالت سے دوسری حالت میں داخل ہونے کے لئے سکوت کا ہونا ضروری ہے۔ جس طرح بیداری کی حالت میں ہر حالت سکوتسے شروع ہوتی ہے۔اسی طرح غنودگی کے وقت بھی حواس پر ہلکا سا سکوت طاری ہوتا ہے اور چند لمحے گزر جانے کے بعد حواس کا یہ سکوت بوجھل ہو کر غنودگی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ابتدائی نیند کے چند ساکت لمحات سے ہلکی نیند کی شروعات ہوتی ہیں اور پھر گہری نیند کی ساکت لہریں انسانی جسم پر غلبہ حاصل کر لیتی ہیں۔ یہی غلبہ گہری نیند ہے۔

بیداری ہو یا نیند دونوں کا تعلق حواس سے ہے۔ ایک حالت میں حواس کی رفتار تیز ہو جاتی ہے اور دوسری حالت میں حواس کی رفتار کم ہو جاتی ہے لیکن حواس کی نوعیت تبدیل نہیں ہوتی۔

بیداری ہو یا خواب دونوں میں ایک ہی قبیل کے حواس کام کرتے ہیں۔ بیداری اور نیند کے لئے دماغ کے اندر دو خانے ہیں ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان کے دو دماغ ہیں۔ ایک دماغ میں حواس متحرک ہوتے ہیں تو اس کا نام بیداری ہے اور دوسرے دماغ میں حواس متحرک ہوتے ہیں تو اس کا نام نیند ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ ایک ہی حواس بیداری اور نیند میں رد و بدل ہو رہے ہیں اور حواس کا رد وبدل ہی زندگی ہے۔ 

جب دماغ کے اوپر کسی ایک حواس کے متعلق سکوت طاری ہو جاتا ہے تو دوسرے حواس متحرک ہو جاتے ہیں۔ بیداری میں حواس کے کام کرنے کا قاعدہ اور طریقہ یہ ہے کہ آنکھ کے ڈھیلے پر پلک کی ضرب پڑتی ہے تو حواس کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی احساس نیند کے حواس سے نکل کر بیداری کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال کیمرے سے دی جا سکتی ہے۔ کیمرے کے اندر فلم ہے۔ گلاس بھی موجود ہے اور گلاس کے سامنے مناظر بھی ہیں۔ لیکن اگر کیمرے کا بٹن نہ دبایا جائے اور شٹر میں حرکت واقع نہ ہو تو فلم پر تصویر نہیں بنتی۔ بالکل اسی طرح آنکھ کے ڈھیلے پر اگر پلک کی ضرب نہ پڑے۔ مناظر دماغ کی اسکرین پر فلم نہیں بنتے۔

بیداری میں دیکھنے کا دوسرا قانون۔

پہلا قانون یہ بتایا گیا تھا کہ جب انسان سونے کے بعد بیدار ہوتا ہے تو فوری طور پر اسے کوئی خیال آتا ہے اور یہ خیال ہی بیداری اور نیند کے درمیان حد فاصل ہے۔ جب اس خیال میں گہرائی واقع ہوتی ہے تو پلک جھپکنے کا عمل شروع ہوتا ہے اور پلک جھپکنے کے ساتھ ہی دماغ کی اسکرین پر مناظر منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

دیکھنے کا تیسرا قانون۔

علمی حیثیت میں دماغ ایک اطلاع موصول کرتا ہے اور ذہن اس اطلاع میں معانی پہنا دیتا ہے۔ پلک جھپکنے کے عمل کے ساتھ انسانی دماغ میں جو عکس منتقل ہوتا ہے اس کا وقفہ پندرہ سیکنڈ ہے۔ ابھی پندرہ سیکنڈ نہیں گزرتے ایک دو یا زائد مناظر پہلے منظر کی جگہ لے لیتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ قائم رہتا ہے۔

استرخاء

بیداری میں نگاہ کا تعلق آنکھ کے ڈیلوں اور پلکوں سے براہ راست ہے۔ آنکھ کے ڈیلوں کے اوپر پلکوں کی ضرب انسانی کیمرے کا وہ بٹن ہے جو بار بار تصویر لیتا ہے۔

اگر آنکھ کے ڈیلوں کے اوپر پلک کی ضرب نہ پڑے تو آنکھ کے اندر موجود اعضاء کام نہیں کرتے۔ آنکھ کے اندر موجود اعصاب کی حسیں اسی وقت کام کرتی ہیں جب ان کے اوپر پلک یا آنکھ کے پردوں کی ضرب پڑتی رہے۔ اگر آنکھ کی پلک کو باندھ دیا جائے اور ڈیلوں کی حرکت رک جائے تو نظر کے سامنے خلا آ جاتا ہے۔ مناظر کی فلم بندی رک جاتی ہے عمل استرخاء میں اسی بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ آنکھ کے ڈیلوں کی حرکت رک جائے اور آنکھ کے پردے کی ضرب ڈیلوں پر نہ پڑے تا کہ بیداری کی نظر خواب کی نظر میں منتقل ہو جائے۔ 

ہم جب خواب دیکھتے ہیں تو آنکھ کے ڈیلوں پر پلک کی ضرب نہیں پڑتی۔ آنکھ کی ڈیلوں پر پلک کی ضرب سے یعنی کھلنے اور بند ہونے کے عمل سے مناظر کا عکس دماغ کی اسکرین پر منتقل ہوتا رہتا ہے۔

لطیفہ نفسی کی مسلسل حرکت سے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لطیفہ نفسی کی روشنیاں جب کسی طرف میلان کرتی ہیں تو تمام محسوسات اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ حسیات میں سب سے لطیف حس بصارت ہے چونکہ بصارت سب سے لطیف حس ہے اس لئے لطیفہ نفسی کی روشنی سب سے پہلے متاثر ہوتی ہے۔ یہ روشنی سب سے پہلے خیال سے روشناس کراتی ہے۔ پہلے پہل جب قوت باصرہ حرکت کرتی ہے تو نگاہ خارج کی چیزوں کو داخل میں اور داخل کی چیزوں کو خارج میں دیکھتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسانی ذہن ہر حالت میں آئینہ کا کام انجام دیتا ہے اور   رُوح انسانی اسی آئینے میں خیالات توہمات اور تصورات کو مجسم شکل و صورت میں دیکھتی ہے۔ لطیفہ نفسی کی روشنیاں پوری کائنات کو دیکھتی ہیں اور پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان روشنیوں سے کسی وہم خیال یا تصور کا باہر نکل جانا ممکن نہیں ہے۔ ساری کائنات پر یہ روشنی ایک دائرے کی صور ت میں محیط ہے۔ روشنیوں کا یہ دائرہ جویہ ہے۔ جویہ سے مراد لطیفہ نفسی اور لطیفہ قلبی ہے۔ جویہ کی روشنیاں ذات انسانی کو لامتناہی حدوں تک وسیع کر دیتی ہیں۔ جویہ کو متحرک کرنے اور جویہ کی تمام وسعتوں سے باخبر ہونے کے لئے نیند کے اوپر کنٹرول حاصل کرنا ضروری ہے اور روحانی تعلیمات میں اس کوشش کا پہلا سبق دن اور رات کے اندر ۲۱ گھنٹے ۲۰ منٹ جاگ کر پورا کیا جاتا ہے۔ یعنی چوبیس گھنٹوں میں ۲ گھنٹہ ۴۰ منٹ نیند کے لئے کافی ہیں۔ بیدار رہنے کے اس عمل کے ساتھ ساتھ یا نیند کے اوپر کنٹرول حاصل ہو جانے کے بعد دوسرا سبق پلک جھپکائے بغیر تاریکی میں نظر جمانا ہے۔

قانون آپ حضرات سمجھ چکے ہیں کہ دیکھنے کا عمل ڈیلوں کے اوپر پلکوں کی ضرب سے واقع ہوتا ہے۔ ۲۱ گھنٹے ۲۰ منٹ تک جاگنے کے عمل کو تلوین اور تاریکی میں پلک جھپکائے بغیر نظر جمانے کو استرخاء کہتے ہیں۔


Topics


Sharah Loh O Qalam

خواجہ شمس الدین عظیمی

ابدال حق قلندربابااولیاء  کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ

کتاب لوح وقلم روحانی سائنس  پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق  کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں  کو سمجھانے  کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ  حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی  نے روحانی طلباء وطالبات  کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔

علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)



‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ  کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔


خواجہ شمس الدّین عظیمی

(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)