Topics
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور انبیائے کرام
علیہم السلام کی تعلیمات ہمیں اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ ہر انسان دو رخوں سے مرکب
ہے۔
انسان کا ایک رخ جسمانی رخ ہے اور دوسرا رخ
روحانی جسم ہے۔ مادی جسم کی تعریف یہ ہے کہ اس میں ہر لمحہ ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی ہے۔
مٹی کا جسم فنا ہو کر مٹی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ روحانی جسم اللہ کا امر ہے۔ ہر
مادی وجود کی حرکت روحانی وجود کے تابع ہے۔ مادی وجود روحانی وجود کے تابع ہو کر
حرکت کرتا ہے۔ روح اگر جسمانی وجود سے رشتہ منقطع کر لے تو مادی وجود میں کسی بھی
طرح کی حرکت نہیں ہوتی۔ کھانا پینا، چلنا پھرنا، غم اور خوشی سے متاثر ہونا، شادی
بیاہ اس ہی وقت ممکن ہے جب روح جسم کو سہارا دے۔ دنیا ہزاروں سال سے موجود ہے۔
ہزاروں سال کی تاریخ میں ایک بھی مثال نہیں ہے کہ کسی مردہ جسم نے کوئی ایجاد کی ہو۔
یا مردہ اجسام سے کوئی اور انسانی عمل سرزد ہوا ہو۔
آسمانی کتابوں اور قرآن حکیم میں اس بات کو
وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ دنیا عارضی دنیا ہے۔ اس دنیا کے بعد ایک اور دنیا
ہے جس میں جا کر ہمیں اپنے اعمال کی سزا یا جزا کے مطابق زندگی گزارنی ہے۔ جس طرح
اس دنیا کے بعد دوسری دنیا عالم آخرت ہے۔ اسی طرح اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی ایک
دنیا ہے۔ جہاں سے ہم آئے ہیں۔ اس دنیا کا نام عالم ارواح ہے۔
سورہ رحمٰن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے
کہ:
’’اے گروہ جنات اور گروہ انسان! تم آسمان اور زمین کے کناروں
سے نکل کر دکھاؤ، تم نہیں نکل سکتے مگر سلطان سے۔‘‘(آیت نمبر۳۳)
تصوف میں سلطان کا مطلب چھ شعوروں پر غلبہ حاصل
کرنا ہے، کوئی انسان زمینی شعور پر رہتے ہوئے چھ شعوروں پر غلبہ حاصل کر لے تو وہ
زمینی شعور سے باہر نکل سکتا ہے۔ہر آسمان ایک شعور ہے آسمانی دنیا کو پہچاننے کے لئے ان شعوروں پر
غلبہ حاصل کرنے کے لئےآسمانی دنیا سے واقفیت ہونا ضروری ہے۔جب انسان سات شعور کا
ادراک حاصل کر لیتا ہے تو اس میں عرشِ معلیٰ دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔
مثال
بورڈ کے اوپر گھڑی بنی ہوئی ہے، گھڑی میں سوئی
کے ساتھ ایک ساے بارہ تک ہندسےلکھے ہوئے
ہیں ہندسے جس جگہ لکھے ہوئے ہیںوہ اسپیس ہے سوئی کا گھومنا ٹائم ہے، اگر سوئی کو
اتنی رفتار سے گھمایا جائے کہ وہ پلک جھپکنے سے پہلے ۱۲ سے ۶ کے ہندسے پر پہنچ
جائے تو شعور پردے میں چلا جائے گااور جو شعورایک، دو ، تین کے وقفوں سے گزر کر چھ
تک پہنچتا ہےوہ حذف ہو جائے گا۔ یعنی ذہن کی رفتار اتنی تیز ہو جائے گیکہ اسپیس کے
وقفے نظر انداز ہو جائیں گے۔اور جب سوئی کو اس طرح گھما دیا جائے کہ وہ پلک جھپکنے
سے پہلے بارہ پر پہنچ جائے تو ذہن کی
رفتار اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ ایک سے بارہ تک وقفوں کو نظر پھلانگ جائے گی۔
انسان کے اندر بیک وقت دو نظریں کام کر رہی
ہیں۔ ایک نظر وقفہ وقفہ سے کام کرتی ہے اور دوسری نظر وقفوں کی نفی کر کے آگے اور
بہت آگے دیکھتی ہے۔
ریورس میں بارہ سے گیارہ، گیارہ سے دس اور اسی
طرح گزر کر ایک پر آ جائے تو اسے وہ شعور حاصل ہو جائے گا جو پیدائش کے وقت تھا۔
اگر سوئی بارہ کے ہندسے سے ریورس ہو کر بیک وقت
دس پر آ جائے تو انسان کو وہ شعور حاصل ہو جاتا ہے جو اسے خواب دکھاتا ہے۔ اگر
سوئی بارہ سے اچھل کر نو پر آ جائے تو اسے مراقبہ کا شعور حاصل ہو جاتا ہے۔ اگر
سوئی آٹھ پر آ جائے تو اسے وہ شعور حاصل ہو جاتا ہے جس کو وحی کہتے ہیں۔ اور یہ
وہی وحی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے شہد کی مکھی پر وحی
کی۔ اگر بارہ کے ہندسے پر قائم سوئی تیزی کے ساتھ حرکت کر کے ایک دم سات پر آ جائے
تو انسان کے اوپر کشف کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اگر سوئی چھ پر آ جائے تو
انسان کے اندر وہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے جس کو قرآن نے سلطان کہا ہے۔ یعنی اب انسان
زمین کے کناروں سے باہر نکل سکتا ہے۔
زمین کے کناروں سے باہر دیکھنے کی صلاحیت کے
حامل سالک کے اندر پہلے آسمان کا شعور پیدا ہو جاتا ہے۔ علیٰ ہذالقیاس اس طرح سات
آسمانوں کو وہ دیکھ لیتا ہے اور سات آسمانوں میں وہ داخل بھی ہو جاتا ہے۔
اللہ
کریم نے فرمایا!
’’ہم
نے آسمان اور زمین کو تہہ در تہہ بنایا ہے‘‘۔
’’اللہ
وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم بھی انہی کی مانند ہے‘‘۔
’’اور
تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے تخلیق کے کام سے ہم اچھی طرح واقف ہیں‘‘۔(سورۃ
المومنون: آیت نمبر۱۷)
تہہ
در تہہ سے مراد دراصل وہ شعوری صلاحیتیں ہیں جو اللہ نے انسان کو ودیعت کی ہیں۔
سات تہوں والے آسمانوں یا زمین سے مراد یہ ہے کہ ہر تہہ ایک مکمل نظام ہے اور ہر
نظام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ایسا ضابطہ حیات جس کا ایک دوسرے سے تصادم نہیں
ہوتا۔ ان سب کا رشتہ خالق کائنات کے ساتھ قائم ہے۔
تمام
چیزیں اور مخلوقات اس بات کا علم رکھتی ہیں کہ ہمارا خالق اللہ ہے اور اس علم پر
یقین رکھتے ہوئے اللہ کی حمد و ثناء بیان کرتی ہیں اور شکر ادا کرتی ہیں۔
اربوں
کھربوں سے زیادہ ان چیزوں یا مخلوقات میں سے کوئی ایک مخلوق بھی اللہ کی خالقیت سے
انحراف کرے تو نظام زندگی میں خلل واقع ہو جاتا ہے۔
یہی
بات اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ تمام چیزیں جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں
اللہ کی حمد بیان کرتی ہیں یعنی اللہ کی خالقیت سے انحراف نہیں کرتیں۔
سوال یہ ہے کہ:
ہمارے اشغال و اعمال جو جسمانی اعضاء کے ذریعے
صادر ہوتے ہیں کہاں تخلیق پاتے ہیں؟۔۔۔ اور۔۔۔۔
ان کی
تخلیق کس طرح ہوتی ہے۔
صوفیاء حضرات بتاتےہیں
کہ:
کسی شے کی ماہیت کی طرف رجوع کیا جائے۔ یہ ماہیت شخص اکبر
کا خاصہ ہے۔ اور شخص اکبر تمام مخلوقات کی مختلف انواع کا مجموعہ ہے جن میں سے ہم
کتنی ہی انواع و مخلوقات کو جانتے ہیں۔ شیر، گھوڑا، شاہین، ستارے، چاند، سورج،
زمین، آسمان، جن، فرشتے، انسان، ہوا، پانی، چاندی، سونا، جواہرات، کنکر پتھر،
پہاڑ، سمندر، سبزہ اور حشرات الارض ان میں سے ہر ایک، ایک نوع یا مخلوق ہے۔ ان کی
نوع یا نوعیت ہی ان کی ماہیت ہے۔ اس ماہیت کا وقوع ہمیشہ ایک ہی طرز پر ہوتا ہے۔
جیسے شیر ایک شکل وصورت اور ایک خاص طبیعت رکھتا ہے۔ اس کی آواز بھی مخصوص ہے۔ یہ
چیزیں اس کی پوری نوع پر مشتمل ہیں۔ بالکل اسی طرح انسان بھی خاص شکل و صورت، خاص
عادتیں اور خاص صلاحیتیں رکھتا ہے لیکن یہ دونوں اپنی ماہیتوں
میں ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ البتہ دونوں
میں یکساں تقاضے پائے جاتے ہیں۔یہ اشتراک نوع کی ماہیت میں نہیں بلکہ ماہیت کی
" اصل" میں ہے
اس قانون سے ہمیں روح کے دو حصوں کی معلومات
حاصل ہوتی ہیں۔
1)
ایک ہر نوع کی جداگانہ ماہیت
2)
دوسرے
تمام انواع کی واحد ماہیئت۔
یہی واحد ماہیئت روح اعظم اور شخص اکبر ہے۔ اور
ہر نوع کی جداگانہ ماہیئت شخص اصغر ہے اور اسی شخص اصغر کے مظاہر فرد کہلاتے ہیں
مثلاً تمام انسان شخص اصغر کی حدود میں ایک ہی ماہیئت ہیں۔
ایک شیر دوسرے شیر کو بحیثیت شیر کے شخص اصغر
کی صلاحیت سے شناخت کرتا ہے مگر یہی شیر کسی آدمی کو یا دریا کے پانی کو یا اپنے
رہنے کی زمین کو یا سردی گرمی کو شخص اکبر کی صلاحیت سے شناخت کرتا ہے۔ اصغر
ماہیئت کی صلاحیت ایک شیر کو دوسرے شیر کے قریب لے آتی ہے۔ لیکن شیر کو جب پیاس
لگتی ہے اور وہ پانی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کی طبیعت میں یہ تحریک اکبر ماہیئت
کی طرف سے ہوتی ہے اور وہ صرف اکبر ماہیئت کی بدولت یعنی شخص اکبر کی وجہ سے یہ
بات سمجھتا ہے کہ پانی پینے سے پیاس رفع ہو جاتی ہے۔
چنانچہ ذی روح یا غیر ذی روح ہر فرد کے اندر
اکبر صلاحیت ہی اجتماعی زندگی کی فہم رکھتی ہے۔ ایک بکری سورج کی حرارت کو اس لئے
محسوس کرتی ہے کہ وہ اور سورج شخص اکبر کی حدود میں ایک دوسرے سے الحاق رکھتے ہیں۔
اگر کوئی انسان شخص اکبر کی حدود میں فہم و فراست نہ رکھتا ہو تو وہ کسی دوسری نوع
کے افراد کو نہیں پہچان سکتا نہ اس کا مصرف جان سکتا ہے۔ جب آدمی کی آنکھ ستاروں
کو ایک مرتبہ دیکھ لیتی ہے تو اس کا حافظہ ستاروں کی نوع کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے
اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے۔ حافظہ کو یہ صلاحیت شخص اکبر سے حاصل ہوتی ہے لیکن جب
کوئی انسان اپنی نوع کے انسان کو دیکھتا ہے تو اس کی طرف ایک کشش محسوس کرتا ہے۔
یہ کشش شخص اصغر کا خاصہ ہے۔ یہاں سے اصغر ماہیئت اور اکبر ماہیئت کی تخصیص ہو
جاتی ہے۔ اکبر ماہئیت کشش بعید کا نام ہے اور اصغر ماہیئت کشش قریب کا نام ہے۔
روحانی دنیا میں غیر ارادی حرکت کا نام کشش اور
ارادی حرکت کا نام عمل ہے۔ غیر ارادی تمام حرکات شخص اکبر کے ارادے سے واقع ہوتی
ہے۔ لیکن فرد کی تمام حرکات فرد کے اپنے ارادے سے عمل میں آتی ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اللہ
سماوات اور ارض کی روشنی ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ تمام موجودات ایک ہی اصل سے
تخلیق ہوئی ہیں، خواہ وہ موجودات بلندی کی ہوں یا پستی کی ہوں۔
مذاہب عالم نے کسی نہ کسی طرح ایک نظر نہ آنے
والی روشنی کا تذکرہ کیا ہے۔ ایسی روشنی جو ساری روشنیوں کی اصل ہے اور تمام
موجودات میں موجود ہے۔ انجیل میں ہے:
’’خدا نے کہا روشنی اور روشنی ہو گئی۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وادئ سینا میں سب سے
پہلے جھاڑی میں روشنی کا مشاہدہ کیا اور اسی روشنی کی معرفت اللہ کے کلام سے مشرف
ہوئے۔ ہندو مت میں اسی روشنی کا نام ’’جوت‘‘ ہے۔
تصوف کے مطابق کائنات کی تخلیق کا بنیادی عنصر
نور ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے کہ:
’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔‘‘(سورہ نور آیت نمبر ۳۵)
نور اس خاص روشنی کا نام ہے جو خود بھی نظر آتی
ہے اور دوسری روشنیوں کو بھی دکھاتی ہے۔ روشنی، لہریں، رنگ، ابعاد یہ سب نور کی
گوناگوں صفات ہیں۔ نور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ بیک وقت ماضی اور مستقبل
دونوں میں سفر کرتا ہے اور ماضی و حال کا ربط قائم رکھتا ہے۔ اگر یہ ربط قائم نہ
رہے تو کائنات کا رشتہ ماضی سے منقطع ہو جائے گا۔
بیشک زمین و آسمان کی پیدائش رات اور دن کے بار
بار ظاہر ہونے اور چھپنے میں ان عقلمندوں کے لے نشانیاں ہیں جو لوگ اٹھتے، بیٹھتے،
لیٹتے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ اے اللہ تو نے یہ سب فضول اور بے مقصد نہیں بنایا اور ہمیں دوزخ
کی آگ سے محفوظ کر دے۔‘‘(سورۃ آل عمران۔ آیت نمبر ۱۹۰)
عظیم روحانی سائنسدان
قلندر بابا اولیاء نے سر بستہ رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے
کہ " روح" تجلی، نور اور روشنی سے مرکب ہے۔
کائنات میں ہر فرد ، قدرت کا بنا ہوا ایک
کمپیوٹر ہے ۔ اور اس کمپیوٹر میں کہکشانی نظاموں سے متعلق تمام اطلاعات فیڈ ہیں
اور کمپیوٹر ڈسک کی طرح یہ اطلاعات ہر کمپیوٹر میں ذخیرہ ہیں ۔ کہکشانی نظاموں میں
جاری و ساری یہ اطلاعات ، لہروں کی دوش پر ہمہ وقت سفر کرتی رہتی ہیں ۔ ہر موجود
شے کا دوسری موجود شے سے لہرون کے ذریعہ اطلاعات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے ۔ سائنس
دان روشنی کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتار قرار دیتے ہیں۔ لیکن وہ اتنی تیز رفتار
نہیں ہے کہ زمانی مکانی فاصلوں کو منقطع کر دے ۔ زمانی اور مکانی فاصلے لہروں کی
گرفت میں رہتے ہیں۔ اگر کسی فرد کے ذہن میں جنات ، فرشتوں اور آسمانوں اور زمین
سے متعلق اطلاعات کا تبادلہ نہ ہو تو ، انسان فرشتوں ، جنات ، درخت ، پہاڑ ، سورج
اور چاند کا تذکرہ نہیں کر سکتا ۔ کہکشانی نظام اور کائنات میں جتنی بھی نوعیں اور
نوعون کے افراد کے خیالات کی لہریں ہمیں منتقل ہوتی رہتی ہیں ۔ اسی طرح ہماری
زندگی سے متعلق تمام خیالات لہروں کے ذریعے ہر مخلوق کو منتقل ہوتی رہتے ہیں ۔ یہ
الگ بات ہے کہ انسان کے علاوہ دوسری مخلوقات اس قانون سے واقف نہ ہوں۔
خیالات کی منتقلی ہی دراصل کسی مخلوق کی پہچان
کا ذریعہ بنتی ہے ۔ ہم کسی آدمی یا کسی مخلوق کے فرد سے اس لئے متاثر ہوتے ہیں کہ
مخلوق کے فرد کی لہریں، ہمارے اندر دور کرنے والی لہروں میں جذب ہو رہی ہیں۔ انسان
کا لا شعور کائنات کے دور دراز گوشوں سے مسلسل رابطہ رکھتا ہے ۔ اس ربطہ کے ذریعے
انسان اپنا پیغام کائنات کے ہر ذرہ تک پہنچا سکتا ہے اور دوسروں کے خیالات سے آگا
ہ ہو سکتا ہے ۔ بات صرف اتنی ہے کہ انسان اس قانون سے واقف ہو جائے کہ کائنات کی
تمام مخلوق کا خیالات کی لہروں کے ذریعہ ایک دوسرے سے رابطہ اور تعلق ہے ۔ خیال اس
اطلاع کا نام ہے جو ہر آن اور ہر لمحہ زندگی سے قریب کرتی ہے یا دنیاوی زندگی سے
دور کردیتی ہے۔
"پاک
اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے مقداروں کے ساتھ تخلیق کیا اور پھر اس تخلیقی
فارمولوں سےآگاہ کیا"(سورۂ اعلیٰ۔ آیت نمبر۱ تا ۳)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شئے کو
معین مقداروں (ایٹم) سے بنایا ہے اور معین مقداریں دراصل اس شئے کے ظاہر اور باطن
میں کام کرنے والی صلاحیتیں ہیں جو ایک قانون اور Disciplineکے تحت ایک واحد ہستی کی نگرانی میں برقرار
ہیں۔ بڑے بڑے اجرام سماوی معمولی اور ننھے سے ایٹم، ایٹم کے اندرونی خول یا اجزاء
الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران اس ذات واحد کی نظروں کے سامنے ہیں۔ کوئی بھی ذرہ وہ
چھوٹا ہو یا بڑا اس کے احاطہ قدرت سے باہر نہیں۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’وہ ہر پوشیدہ چیز سے واقف ہے۔ اس کے علم سے کوئی رتی برابر
چیز باہر نہیں۔ وہ چیز آسمانوں میں ہو یا زمین میں اور ان تمام چھوٹی بڑی چیزوں کا
اور ان چیزوں کی تمام اقسام کے فارمولے کھلی کتاب میں موجود ہیں۔‘‘(سورۂ سبا۔ آیت نمبر۱ تا۷)
سورۂ سبا کی اس آیت میں تین قسم کے ذرات کا
بیان ہوا ہے:
۱)رتی برابر ذرہ
۲) اس سے چھوٹا
۳) نسبتاً اس سے چھوٹا
تخلیق میں تین قسم کے ذرات پائے جاتے ہیں۔ ایک
ایٹم دوسرے ایٹم کے اندرونی اجزاء اور سوئم ایٹم کے مرکبات۔
۱) "مشقال ذرہ" یعنی وہ رتی برابر چیز ہے جس میں وزن
پایا جاتا ہو۔ سب جانتے ہیں کہ رتی چھوٹے سے وزن کا تشخص ہے۔ ذرہ برابر چیز کا
مطلب یہ ہوا جس میں کوئی وزن ہو اور معین مقدار یا مقداریں ہوں۔ ایٹم چونکہ ایک
ایسی اکائی ہے جس کے اندر الیکٹران، پروٹان، نیوٹران موجود ہیں۔ اس لئے اس میں
مقدار اور وزن دونوں ہیں۔
۲) اس سے چھوٹا یعنی ایٹم سے
نسبتاً چھوٹا الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران وغیرہ اور ایٹموں کے مرکزوں سے خارج
ہونے والی الفاء، بیٹا اور گاما شعاعیں۔
۳) اور اس سے بڑا (ایٹم سے
بڑا) یعنی قیامت تک دریافت ہونے والے ہر ایٹم کے ذرات اور اجزاء خواہ وہ کتنے ہی
چھوٹے ہوں اور کتنے ہی بڑے ہوں۔
قرآن میں تفکر کرنے سے انسان کی نظر میں اتنی
وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ ایٹم کی اکائی میں روشنی کے جال کو دیکھ لیتی ہے۔ ایک
صوفی یہ جان لیتا ہے کہ ایٹم کا، ایٹم کے اندرونی اجزاء اور ارض و سماء کا خالق ایک
ہے اور پوری کائنات اس کی ملکیت ہے۔ اس نے اس کائناتی سسٹم کو ایک ضابطہ کے ساتھ
تخلیق کیا ہے اور ہر چیز کو معین مقداروں کے ساتھ وجود بخشا ہے۔
مقداروں کا یہ علم وہ لوگ سیکھ لیتے ہیں جو
اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق:
’’اور وہ جن لوگوں نے میرے لئے یعنی میری تخلیق کو جاننے کے
لئے جدوجہد اور کوشش کی میں انہیں اپنے راستے دکھاتا ہوں۔‘‘
(سورۂ عنکبوت۔ آیت نمبر۶۹)
مرشد کی نگرانی میں تصوف کے اسباق کی تکمیل
کرنے والا فرد جب ان مقداروں سے واقف ہو جاتا ہے جو اشیاء کی تخلیق میں کام کر رہی
ہیں تو وہ مقداروں کو کم و بیش کر کے شئے میں ماہیت قلب کر سکتا ہے۔ مقداروں کا
علم اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ دھات سیسہ (Lead)
میں ایسی مقداریں
موجود ہیں جو ایٹم کی قوت پر غالب آ سکتی ہیں۔
کائنات چار نہروں یا چار توانائیوں سے فیڈ ہو
رہی ہے۔
۱۔ نہر تسوید ۲۔ نہر تجرید ۳۔ نہر تشہید ۴۔ نہر تظہیر
یورینیم اور لیڈ دونوں دھاتیں تسویدی لہروں سے
فیڈ ہوتی ہیں۔ لیڈ کے اوپر ایسی لہروں کا غلاف بنا ہوا ہے کہ اگر اسے تلاش کر لیا
جائے تو دنیا ایٹم کی ہلاکت خیزی سے محفوظ رہ سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’زمین اور آسمان اور اس کے اندر جو کچھ بھی ہے۔ سب کا سب
انسانوں کے لئے مسخر کر دیا گیا ہے۔‘‘
(سورۂ جاشیہ۔ آیت نمبر۱۳)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان زمین و آسمان میں
موجود کسی بھی شئے کے اندر جب تفکر کرے گا تو اس شئے کے اندر کام کرنے والی
مقداروں کا علم اسے حاصل ہو جائے گا۔ مختصر یہ کہ ایٹم مقداروں کا ایک مرکب ہے اور
یہ مقداریں مادیت کی اکائی ہیں۔ مادیت کی ہر اکائی نور کے غلاف میں بند ہے۔ نور کے
اوپر روشنی کا غلاف ہے۔ روشنی کی رفتار ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو
بیاسی میل بتائی جاتی ہے۔ روشنی کی رفتار سے ہزاروں گنا نورانی لہروں کی رفتار ہے۔
نور اور روشنی مرکب اور مفرد دو لہروں کا ایک جال ہے جس کے اوپر چھوٹے سے چھوٹا
اور بڑے سے بڑا ذرہ بنا ہوا ہے۔ صوفی جب روشنی کی سطح سے نکل کر نور میں داخل ہو
جاتا ہے تو چھوٹے سے چھوٹے ذرہ میں ناقابل بیان طاقت (Energy) اس کے اوپر منکشف ہو جاتی ہے۔
موجودہ سائنسی ترقی میں جو عوامل کام کر رہے
ہیں ان میں انفرادی سوچ اور مادی مفاد کا عمل دخل ہے۔ اس لئے یہ ساری ترقی نوع
انسانی کے لئے پریشان اور بے سکونی کا پیش خیمہ بن گئی ہے۔ اگر یہی ترقی اور ایجاد
پیغمبرانہ طرز فکر کے مطابق ہو جائے تو سائنس نوع انسانی کے لئے سکون و آشتی کا
گہوارہ بن جائے گی۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ ترقی کا فسوں انسانی نسل کو آتش
فشاں کے کنارے لے آیا ہے۔ اگر اس کا مثبت تدارک نہ کیا گیا تو یہ دنیا کسی بھی وقت
بھک سے اڑ جائے گی۔ جو چیز وجود میں آ جاتی ہے اس کا استعمال ضرور ہوتا ہے۔
موجودہ سائنسدان اور صوفی سائنسدان میں یہ فرق
ہے کہ سائنٹسٹ کے پیش نظر پہلے اپنا مفاد ہوتا ہے اور صوفی کا علم مخلوق کے لئے
وقف ہوتا ہے۔کائناتی نظام کو سمجھنے کی صلاحیت کو تصوف میں مغیبات اکوان کہتے ہیں۔
مغیبات اکوان کے حامل صوفی خواتین و حضرات کے اندر اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ
وہ ہزاروں سال پہلے کے گزرے ہوئے حالات و واقعات اور ہزاروں سال بعد آنے والے حالات
و واقعات کو دیکھ لیتے ہیں اور اس کی تفصیلات سے باخبر ہو جاتے ہیں۔
سائنس کے بقول انسان پانچ ارب سالوں میں انسانی
صلاحیتوں کا پانچ سے دس فیصد تک استعمال جان سکا ہے۔ اس ترقی کو کیسے ترقی کے عروج
کا زمانہ کہا جا سکتا ہے؟
سائنس دان یہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے زمانے میں
ایسی ایجادات ہو چکی ہیں۔ جن ایجادات کے فارمولوں سے آج کی سائنس ابھی تک واقف
نہیں ہوئی ہے۔ آسمانی کتابوں انجیل، توریت ، زبور اور قرآن حکیم کا مطالعہ کیا جائے
تو سب کتابیں یہ درس دیتی ہیں کہ انسان دو رخوں سے مرکب ہے۔ ایک رخ مادی جسم ہے
اور دوسرا رخ روحانی جسم ہے۔ مادی جسم ماں کے بطن میں آنے کے بعد بنتا ہے۔ اسی کو
شعور کہتے ہیں۔ اور روحانی جسم، ماں کے پیٹ میں آنے سے پہلے سے موجود ہے۔ اس کا
لاشعور سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔
اگر انسان شعور میں رہتے ہوئے، ریسرچ اور تلاش
کرتا ہے تو وہ اربوں سال میں پانچ سے دس فیصد صلاحیتوں سے واقف ہوتا ہے اور اگر
انسان اپنی روح سے واقف ہو کر لاشعور میں ریسرچ اور تلاش کرتا ہے تو اس کے اوپر
قلیل عرصے میں باقی نوے فیصد صلاحیتیں بھی منکشف ہو سکتی ہیں۔ زمان اور مکان کے
فارمولوں کا انکشاف اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے۔قرآن حکیم کا ارشاد ہے:
’’ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کو قرآن میں وضاحت کے
ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔‘‘ (سورۃ سبا۔ آیت نمبر۳)
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ارشاد اور اولیا ء اللہ کا قول بھی ہے ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پا یا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے ۔ سپیس کا علم علم کی تجلی کو دیکھتا ہے ۔ جب سپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جا ئے ، کا نوں سے سنا ئی دے تو تجلی نظر آتی ہے ۔قر آن کر یم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کسی کو طا قت نہیں کہ اللہ سے کلام کر ے مگر تین طر یقوں سے (۱)وحی کے ذریعہ (۲)رسول کے ذریعے یا (۳)حجاب سے ۔یہ تینوں سپیس میں حجاب بھی سپیس ہے وحی اسے کہتے ہیں جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جا ئے اور پر دے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجا ئے اور ایک آواز آتی ہے ۔ فر شتے کے ذریعے یا رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کہ معنی یہ ہیں کہ فر شتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طر ف سے بات کر تا ہے اور حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کو ئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طر ح بات کر تی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے حا لانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے بلکہ حجاب ہے ۔