Topics
حضرت عمر ابن خطابؓ سے روایت ہے کہ ایک روز
اچانک جبرائیل علیہ السلام بہ صورت انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں
حاضر ہوئے اور دو زانو مؤدب بیٹھ کر چند سوال کئے۔
v
اے محمد صلی اللہ علیہ و
آلہ و سلم بتایئے کہ اسلام کیا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ
کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کا رسول ہے اور
قائم کرو صلوٰۃ اور ادا کرو زکوٰۃ اور رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔
اگر سفر خرچ کی استطاعت ہو۔
جبرائیل ؑ نے کہا:صحیح فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر سوال کیا
v
یا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم! ایمان کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: ایمان
لاؤ اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور
قیامت کے دن پر اور ایمان لاؤ اس کی تقدیر پر بھلی ہو یا بری۔
جبرائیل ؑ نے فرمایا: سچ فرمایا آپ صلی اللہ
علیہ و سلم نے۔
v
احسان کیا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ ہے
کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اللہ کو دیکھ رہا ہے اور اگر ایسا نہ کر
سکے تو اس طرح عبادت کر کہ گویا اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
جبرائیل ؑ نے کہاسچ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و
آلہ وسلم نے۔
حضرت جبرائیل ؑ کے اس استفسار میں تین باتیں
بطور خاص فکر طلب ہیں۔
* اسلام کیا ہے؟
* ایمان کسے کہتے ہیں؟
* اور احسان کیا ہے؟
اسلام: اللہ وحدہ لاشریک
کو ایک مان لینا اور اسی کو برحق معبود سمجھنا اسلام ہے۔ شریعت مطہرہ پر بلا چوں و
چرا عمل کرنا، یہی امن اور سلامتی کا راستہ ہے۔
ایمان: ایمان یہ ہے کہ
اعمال و اشغال کے نتیجے میں ایسا یقین حاصل ہو جائے جس میں شک کا شائبہ نہ رہے۔
ایمان یقین ہے اور یقین مشاہدہ سے مشروط ہے۔ کوئی عدالت عینی شہادت کے بغیر گواہی
قبول نہیں کرتی۔
احسان: احسان کا مطلب یہ
ہے کہ بندہ اللہ کو دیکھ کر عبادت کرے یا بندہ اس کیفیت میں ہو کہ اسے اللہ دیکھ
رہا ہے۔ یقین کے اس درجے کو تصوف میں مرتبۂ احسان کہتے ہیں۔ اگر آدمی اسلام قبول
نہیں کرے گا تو مسلمان نہیں ہو گا اور اگر مسلمان یقین کی دولت سے مالا مال نہیں
ہو گا تو مومن نہیں ہو گا اور مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ کو دیکھتا ہے یا وہ اس
بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
علماء اس حدیث شریف کی تشریح اس طرح کرتے ہیں:
اسلام یہ ہے کہ شریعت کے آداب و احکامات کا علم
ہو اور اس پر عمل کیا جائے۔ ایمان یہ ہے کہ اللہ پر اعتقاد رکھا جائے کہ اس کی ذات
و صفات اور اس کے فرشتے اللہ کے فرمان کے مطابق برحق ہیں۔فرشتے اللہ کے فرمانبردار
ہیں اور ہم اس کی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں کہ یہ اس کا کلام قدیم ہے جو اس نے
اپنے رسولوں پر نازل فرمایا اور رسولوں کو اللہ نے مخلوق کی ہدایت کے لئے بھیجا
ہے۔ وہ معصوم و گناہوں سے پاک ہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں قیامت، بہشت دوزخ کے عذاب
و ثواب پر۔
اہل تصوف اس حدیث شریف کی تشریح یہ کرتے ہیں:
اسلام یہ ہے کہ احکام شریعت پر پوری طرح عمل کر
کے غیب کی دنیا میں فرشتوں کو دیکھنا اور اللہ رب العزت کے سامنے حضور قلب سے حاضر
ہونا ہے۔جاننا چاہئے کہ یہ مقام شہود و مشاہدہ ہے اور یہ کہ اللہ مجھے دیکھ رہا
ہے۔ یا میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں، یہ مرتبہ احسان ہے۔
صوفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت
طیبہ کا نمونہ ہوتا ہے اس کے اندر سیرت مطہرہ کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ غصہ نہیں
کرتا، عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔ اس کے دل میں ہر چھوٹے بڑے کا احترام ہوتا ہے۔
دوسروں کے کام آتا ہے، ایفائے عہد میں پُرعزم اور پختہ ہوتا ہے۔ ہر اخلاقی برائی
سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور ہر اچھی بات پر دلجمعی سے عمل کرتا ہے
اور دوسروں کو عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ کسی پر طعن و تشنیع نہیں کرتا اور نہ
کسی کو بددعا دیتا ہے۔ ہر کس و ناکس کے ساتھ خوش ہو کر ملتا ہے۔ اخلاق، مروت اس کی
شناخت بن جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’خوش اخلاقی اللہ تعالیٰ کا خُلق عظیم ہے۔‘‘
اخلاق وہی اچھا ہے جس میں صفات ربانی کا عکس
ہو۔ کچھ صفات ایسی ہیں جن میں انسان برابری نہیں کر سکتا مثلاً اللہ واحد ہے اور
مخلوق کثرت ہے، اللہ خالق ہے مخلوق، مخلوق ہے۔ کبریائی اور بڑائی صرف اللہ کے لئے
مخصوص ہے، بندے کا کمال یہ ہے کہ اس میں کبریائی کے مقابلے میں خاکساری اور تواضع
ہو۔ قادر مطلق اللہ کی صفات میں بندہ فروتنی محسوس کرے۔ خوش اخلاق ہو کیونکہ اسلام
نے انسان کی روحانی تکمیل کا ذریعہ اخلاق کو قرار دیا ہے۔ صفات الٰہیہ کے انوار سے
بندہ بشر جس حد تک قریب ہوتا ہے اس کی روحانی ترقی ہوتی رہتی ہے۔
دنیا میں اخلاق کے بڑے بڑے معلم پیدا ہوئے اور
سب نے اخلاقیات پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے۔ تمام مذاہب کی بنیاد بھی اخلاق حسنہ پر
رکھی گئی ہے۔ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے سب نے اس بات کا
اعادہ کیا کہ سچ بولنا اچھا عمل ہے۔ اور جھوٹ بولنا برائی ہے۔ انصاف بھلائی ہے اور
ظلم بدی ہے، خیرات نیکی ہے اور چوری جرم ہے۔ دوسرے کے کام آنا ایسی عادت ہے جو
اللہ کے لئے پسندیدہ ہے اور حق تلفی کرنا اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ’’میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ’’میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاق حسنہ کی
تکمیل ہو جائے‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بعثت نبوی سے
پہلے ہی اس فرض کو انجام دینا شروع کر دیا تھا۔ابوذرؓ نے اپنے بھائی کو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات اور تعلیمات کی تحقیق کے لئے مکہ بھیجا تھا۔ انہوں
نے واپس آ کر اپنے بھائی کو بتایا،’’میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں
کو اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے ہیں‘‘
نجاشی نے جب مسلمانوں کو بلا کر اسلام کے بارے
میں تحقیق کی تو حضرت جعفرطیار نے کہا’’اے بادشاہ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے بتوں کو پوجتے تھے،
مردار کھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، پڑوسیوں کو تنگ و پریشان کرتے تھے اور بھائی
بھائی پر ظلم کرتا تھا، زبردست زیردستوں کو غلام بنا لیتے تھے، ان حالات میں ایک
شخص ہم میں پیدا ہوا۔۔۔۔۔۔اس نے ہمیں سکھایا کہ ہم پتھروں کی پرستش چھوڑ دیں، سچ
بولیں، خونریزیوں سے باز آ جائیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں۔ہمسائیوں سے اچھا سلوک
کریں، ضعیف عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں‘‘
اسی طرح قیصر روم کے دربار میں ابو سفیان نے جو
ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اصلاحی دعوت کا جو
مختصر خاکہ بیان کیا اس میں یہ تسلیم کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خدا کی
توحید اور عبادت کے ساتھ لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ پاک دامنی اختیار کریں۔ سچ
بولیں اور قرابت داروں کا حق ادا کریں۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم
کی تعریف میں کہا:
’’یہ پیغمبر جاہل اور ان پڑھ لوگوں کو پاک و صاف کرتا ہے اور
ان کو حکمت سکھاتا ہے‘‘
اس آیت میں دو لفظ بہت زیادہ تفکر طلب ہیں:۱) تزکیہ ۲) حکمت
۱) تزکیہ کے لفظی معنی
ہیں۔۔۔۔۔۔پاک صاف کرنا، نکھارنا۔۔۔!
قرآن پاک کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ نفس انسانی
کو ہر قسم کی نجاستوں اور آلودگیوں سے پاک کر کے صاف ستھرا کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’بلاشبہ جس نے اپنے نفس کو صاف ستھرا بنایا وہ کامیاب ہوا جس
نے اسے مٹی میں ملایا وہ ناکام رہاُُ (سورۃ شمس: آیت ۹ تا ۱۰)
ان آیات میں تزکیہ کا مفہوم واضح ہے جسے پیغمبر
اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیات قرار دیا ہے۔ یہ مفہوم بھی نکلتا
ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت و رسالت کا سب سے بڑا منصب یہ
تھا کہ وہ انسانی نفوس کو برائیوں، نجاستوں اور آلودگیوں سے پاک کرے اور ان کے
اخلاق و اعمال کو درست اور صاف ستھرا بنائے۔
۲) حکمت کا لفظ نور کی صورت
میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ودیعت کیا گیا ہے۔ جس کے آثار و مظاہر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے سنن و احکام کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔
سورۃ لقمان آیت ۱۲ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور ہم نے لقمان کو حکمت کی باتیں بتائیں کہ خدا کا شکر ادا
کریں‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت میں
اخلاق کے مرتبے کو حکمت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسلام میں عبادات اور دوسرے
احکام کو جو حیثیت حاصل ہے، اخلاق کو بھی اتنی اہمیت حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اے ایمان والو! رکوع کرو، سجدہ کرو اپنے رب کو پوجو اور
نیکی کرو تا کہ تم فلاح پاؤ‘‘ (سورۃ الحج۔ آیت ۱۰)
’’حقوق العباد انسانوں میں باہمی معاملات اور تعلقات کا نام
ہے۔ اللہ تعالیٰ رحمٰن و رحیم ہے۔ اس کی رحمت کا دروازہ کسی نیک و بد بندے پر بند
نہیں ہوتا۔ شرک و کفر کے سوا ہر گناہ قابل معافی ہے۔ مگر حقوق العباد، اخلاق فرائض
کی کوتاہی اور تقصیر کی معافی اللہ تعالیٰ نے ان بندوں کے ہاتھ میں رکھی ہے جن کے
ساتھ یہ ظلم ہوا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’جس بھائی نے کسی دوسرے بھائی پر ظلم کیا تو ظالم بھائی کو
چاہئے کہ وہ اس دنیا میں ظلم کو معاف کرا لے ورنہ یوم حساب میں تاوان ادا کرنے کے
لئے کسی کے پاس کوئی درہم و دینار نہیں ہو گا۔ صرف اعمال ہونگے، ظالم کی نیکیاں
مظلوم کو مل جائیں گی اور مظلوم کے اعمال میں لکھ دی جائیں گی
بے سمجھ واعظوں اور ابن الوقت مذہبی دانشوروں
کی غلط بیانی سے یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی کہ اسلام کی بنیاد صرف توحید، نماز،
روزہ، حج اور زکوٰۃ پر قائم ہے۔ اس بات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پانچ ستونوں پر کھڑی
ہوئی اسلام کی اس عمارت میں اخلاق حسنہ کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ حالانکہ نماز، روزہ،
حج اور زکوٰۃ کے فرائض اور عبادات سے اخلاق حسنہ کی ہی تکمیل ہوتی ہے۔
قرآن حکیم بتاتا ہے کہ نماز کا فائدہ یہ ہے کہ
وہ بری باتوں سے روکتی ہے۔ روزہ تقویٰ کی تعلیم دیتا ہے۔ زکوٰۃ سرتا پا انسانی
ہمدردی اور غم خواری کا درس ہے۔ اور حج مختلف طریقوں سے ہماری اخلاقی اصلاح اور
ترقی کا ذریعہ ہے۔ اسلام کے ان چاروں ارکان کے نام الگ الگ ہیں مگر ان کا بنیادی
مقصد اخلاقی تعلیم ہے۔
اگر ان
عبادات سے روحانی اور اخلاقی ثمر حاصل نہ ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ احکام الٰہی کی
حقیقی تعمیل نہیں ہوئی۔یہ عبادات ایسا درخت ہیں جس میں پھل نہیں آتا، ایسے پھول
ہیں جس میں خوشبو نہیں ہے، یہ اعمال ایسے قالب ہیں جس میں روح نہیں ہے۔
احیاء العلوم میں امام غزالیؒ لکھتے ہیں:
’’اور اللہ فرماتا ہے میرے لئے نماز قائم کرو۔ بھولنے والوں
میں نہ ہو جاؤ۔ نشہ کی حالت میں اس وقت تک نماز نہ پڑھو جب تک تم یہ نہ سمجھو کہ
تم کیا کہہ رہے ہو‘‘
سوال یہ ہے کہ کتنے ہی نمازی ایسے ہیں کہ جو
شراب نہیں پیتے مگر جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو نہیں جانتے کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ ان
کے سامنے معانی اور مفہوم نہیں ہوتے۔ ان کا دل نماز میں نہیں ہوتا۔ وسوسوں کا ایک
طوفان انہیں گھیرے رہتا ہے۔
آسمانی کتابوں میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ’’کہ میں ہر آدمی کی نماز قبول نہیں کرتا۔ میں اس
کی نماز قبول کرتا ہوں جو میری بڑائی کرتا ہے اور بندوں پر اپنی بڑائی نہیں جتاتا
اور بھوکے محتاج کو میرے لئے کھانا کھلاتا ہے۔
صلوٰۃ ذہنی یکسوئی حاصل کرنے کا ایک ایسا طریقہ
ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اختیار
فرمایا ہے۔ اس طریقہ میں بڑی اہمیت تفکر کو ہے۔ صلوٰۃ میں اللہ کے ساتھ بندے کا
تعلق قائم ہو جاتا ہے جب بندہ اس تفکر کے ساتھ اللہ کے سامنے حاضر ہوتا ہے کہ مجھے
اللہ دیکھ رہا ہے تو اللہ کی صفات میں ذہن مرکوز ہو جاتا ہے۔ روحانی کیفیات میں
تفکر بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک طویل مدت تک غار
حرا میں اللہ کی نشانیوں پر تفکر فرمایا ہے۔ تفکر کا مفہوم یہ ہے کہ ہر طرف سے ذہن
ہٹا کر اللہ کی نشانیوں پر غور کیا جائے۔ ارکان اسلام کی تکمیل کے بعد بندہ کا
اللہ کے ساتھ رابطہ قائم رہتا ہے۔
صلوٰۃ اس عبادت کا نام ہے جس میں اللہ کی
بڑائی، تعظیم اور اس کی ربوبیت و حاکمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے، نماز ہر پیغمبر اور
اس کی امت پر فرض ہے۔ نماز قائم کر کے بندہ اللہ سے قریب ہو جاتا ہے۔ نماز فواحشات
اور منکرات سے روکتی ہے۔ صلوٰۃ دراصل اللہ سے تعلق قائم کرنے کا یقینی ذریعہ ہے۔
مسلسل گہرائیوں کے ذریعہ سالک کو ذہنی مرکزیت قائم کرنے کی مشق ہو جاتی ہے اس لئے
مراقبہ کرنے والے حضرات و خواتین جب نماز ادا کرتے ہیں تو آسانی سے ان کا دلی تعلق
اللہ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔
بندہ جب اللہ سے اپنا تعلق قائم کر لیتا ہے تو
اس کے دماغ میں وہ دروازہ کھل جاتا ہے جس سے وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو جاتا
ہے۔صلوٰۃ ک ذہنی مرکزیت
(Concentration) کو
بحال کر دیتی ہے۔ انسان ذہنی یکسوئی کے ساتھ شعوری کیفیات سے نکل کر لاشعوری
کیفیات میں داخل ہو جاتا ہے۔ مراقبہ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ بندہ ہر طرف سے ذہن
ہٹا کر، شعوری دنیا سے نکل کر لاشعوری دنیا غیب کی دنیا سے آشنا ہو جائے۔
بندہ
جب ذہنی توجہ کے ساتھ کلام اللہ کی تلاوت کرتا ہے تو اسے انہماک نصیب ہو جاتا ہے۔
قرآنی آیات کو بار بار پڑھنے سے ملاء اعلیٰ سے ایک ربط پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جس
قدر قلب کا آئینہ صاف ہوتا ہے اسی مناسبت سے معافی و مفاہیم کی نورانی دنیا اس کے
اوپر ظاہر ہونے لگتی ہے۔
اللہ
کی دوستی حاصل کرنے کے لئے قرآن حکیم نے جس پروگرام کا تذکرہ کیا ہے اس میں دو
باتیں بہت اہم اور ضروری ہیں۔
’’قائم کرو صلوٰۃ اور ادا کرو زکوٰۃ‘‘(سورۂ بقرہ۔ آیت نمبر۴۳)
قرآنی
پروگرام کے یہ دونوں اجزاء نماز اور زکوٰۃ، روح اور جسم کا وظیفہ ہیں۔ وظیفہ سے
مراد وہ حرکت ہے جو زندگی کی حرکت کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ نماز میں وظیفۂ
اعضاء کی حرکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رہنے کی عادت ہونی چاہئے۔ ذہن کا
اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونا روح کا وظیفہ ہے۔ اور اعضاء کا حرکت میں رہنا جسم کا
وظیفہ ہے۔ قیام صلوٰۃ کے ذریعے کوئی بندہ اس بات کا عادی ہو جاتا ہے کہ وہ زندگی
کے ہر شعبے میں اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔جس حد تک حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے
اسوۂ حسنہ پر کسی امتی کا عمل ہوتا ہے، اسی مناسبت سے اسے حضوری نصیب ہو جاتی ہے۔
قلب میں جلا پیدا کرنے کے لئے ہمیں خود کو ان چیزوں سے دور کرنا ہو گا جو ہمیں
پاکیزگی، صفائی اور نورانیت سے دور کرتی ہیں۔ اس دماغ کو رد کرنا ہو گا جو ہمارے
اندر نافرمانی کا دماغ ہے۔ اس دماغ سے آشنائی
حاصل کرنا ہو گی جو جنت کا دماغ ہے اور جس دماغ پر تجلیات کا نزول ہوتا ہے۔
طواف ایک ایسی عبادت ہے جو بیت اللہ شریف میں
کی جاتی ہے۔ خانہ کعبہ اللہ تعالیٰ کی مرکزیت کا Symbolہے۔ ہر شئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے آ رہی ہے
اور اللہ تعالیٰ کی جانب لوٹ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے آنے والی ہر شئے کی
صفت کائنات کا شعور ہے اور کائنات کا علم لاشعور ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات علیم ہے
اور علم کا سورس اللہ ہے۔ علم الٰہیہ کے انوار و تجلیات کا مظاہراتی سطح پر نزول
کرنا کائنات کی نزولی حرکت ہے۔ نزولی حرکت میں علم کی تجلی اپنے علوم کا مظاہرہ کرتی
ہے۔
بیت اللہ شریف کے طواف میں یہ نیت ہوتی ہے کہ
ہم اللہ کے گھر کا طواف کر رہے ہیں۔ طواف صعودی اور نزولی دونوں کیفیات پر مشتمل
ہے۔ صعودی حرکت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور نزولی حرکت یہ ہے
کہ بندہ مقدس زمین پر جسمانی طور پر اللہ کے گھر کے ارد گرد گھومتا ہے۔ حجر اسود
کے سامنے تھوڑی دیر قیام کرنا، حجرہ اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرنا
اور خانہ کعبہ کے گرد چکر لگانا طواف ہے۔
طواف کعبہ میں شعور و لاشعور میں روشنیوں کا
ہجوم ہوتا ہے۔ روشنیوں اور نور کا ذخیرہ ہو جانے کی وجہ سے روح حق کے مشاہدہ میں
مصروف ہو جاتی ہے۔ طواف کرنے والے پر بے خودی طاری ہو جاتی ہے۔ بیت اللہ شریف پر
ہر لمحہ اور ہر آن انوار و تجلیات کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ فرشتے ہمہ وقت طواف کرتے
رہتے ہیں۔ انبیاء اور اولیاء اللہ کی ارواح طیبہ طواف میں مشغول رہتی ہیں۔ فرشتوں
اور انبیاء علیہم السلام کے انوار اور اولیاء کرام کی فراست کی روشنیاں ایسا ماحول
بنا دیتی ہیں کہ طواف میں حاجی کے اوپر انوار کی بارش برستی ہے۔ نور کی بارش اور
تجلی کی لطافت کثیر تعداد میں لوگ محسوس کرتے ہیں اور اس سے پوری طرح فیضیاب اور
متاثر ہوتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’جس کی نماز اس کو برائی اور بدی سے نہ روکے ایسی نماز اس کو
اللہ سے دور کر دیتی ہے‘‘
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’روزہ رکھ کر جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہ چھوڑے
اللہ کو اس کی ضرورت نہیں ہے‘‘ ان تعلیمات سے منکشف ہوتا ہے
کہ عبادات کا ایک اہم مقصد اخلاق کا تزکیہ بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’بلاشبہ وہ ایمان والے کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی نماز میں
خشوع اور خضوع کرتے ہیں اور جو لا یعنی بات پر دھیان نہیں کرتے۔ اور جو زکوٰۃ دیا
کرتے ہیں(سورۃ مومنون: آیت ۱ تا ۴)
’’اور جو اپنی امانتوں میں خیانت نہیں کرتے‘‘ (سورۃ مومنون۔
آیت ۸)
جب صوفی ان الفاظ کی اہمیت پر غور کرتا ہے تو
اس پر یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تقرب الٰہی اور
دعا کی قبولیت کے بہترین موقع پر بھی اللہ تعالیٰ سے حسن اخلاق کے لئے درخواست کی ہے۔
صوفی یہ بات جانتا ہے کہ ایمان میں اخلاق کی
بڑی اہمیت ہے۔حدیث شریف میں ہے:
’’مسلمانوں میں کامل ایمان اس کا ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا
ہے‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ’’حسن اخلاق سے انسان وہ درجہ پا لیتا ہے جو دن
بھر روزہ رکھنے اور رات کو شب بیدار رہنے سے حاصل ہوتا ہے‘‘
خانقاہی نظام میں سالک کو پہلا سبق یہ دیا جاتا
ہے:
’’باادب با نصیب بے ادب بے نصیب‘‘
سالکین کو سیرت طیبہ کا ہر پہلو پڑھایا جاتا ہے
اور ان پر عمل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے ان کے ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ:
۱) اگر تمہیں کسی سے تکلیف
پہنچے تو تم اسے معاف کر دو حالانکہ تم الٰہی قانون کے تحت بدلہ لے سکتے ہو لیکن
معاف کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے۔
۲) اگر تم سے کسی کو تکلیف
پہنچ جائے۔ وہ اعلیٰ ذات ہو یا چھوٹی ذات میں شمار کیا جاتا ہو، کمزور ہو یا
طاقتور ہو تم اس سے معافی مانگ لو۔
۳) دین اور دنیا کے معاملات
میں تندہی کے ساتھ پوری کوشش کرو لیکن نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو۔
۴) قیام الصلوٰۃ کا مطلب ہے
اللہ کے ساتھ رابطہ میں رہنا یعنی اللہ کو دیکھ کر یا اللہ کو محسوس کر کے اس کی
عبادت کرنا۔
۵) جہاں بھی رہو علم دین کے
ساتھ علم دنیا بھی سیکھو۔ تا کہ شعوری استعداد میں اضافہ ہو اور اس علمی استعداد
سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچاؤ۔
۶) اللہ کی پسندیدہ عادت
مخلوق کی خدمت کرنا ہے۔ سالک کو چاہئے کہ بغیر غرض کے اللہ کی مخلوق کی خدمت کرے۔
جب کوئی بندہ مخلوق کی مخلصانہ خدمت کرتا ہے تو اسے اللہ کی دوستی کا شرف حاصل ہو
جاتا ہے اور اللہ کے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا۔
۷) قرآن ان لوگوں کی رہنمائی
کرتا ہے جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور ایمان
مشاہدہ سے مشروط ہے۔
۸) رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و سلم اللہ کے محبوب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب سے محبت کرتے ہیں۔ جو لوگ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجے بلند کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے فرستادہ بندے اور رسول ہیں۔
اس ذات مبارک صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کرنا
ہر انسان پر فرض ہے۔
۹) اولیاء اللہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت سے اللہ کے دوست ہیں۔ جب کوئی بندہ اللہ کے دوست سے
دوستی نبھاتا ہے اور ان کی قدر و منزلت کرتا ہے تو ایسے بندوں پر رحمت کی بارش
برستی ہے۔
انسان جس جسمانی وجود سے اس دنیا میں چلتا،
پھرتا، کھاتا، پیتا ہے اور دوسرے مشاغل میں مصروف رہتا ہے وہ فانی ہے۔ ہر انسان کی
اصل اس کی روح ہے۔روح کا ادراک ہونے سے انسان اپنی اصل سے واقف ہو جاتا ہے اور
اپنی اصل سے واقفیت ہی عرفان الٰہی کا وسیلہ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’نیکی یہ نہیں کہ تم نماز میں اپنا منہ مشرق (بیت المقدس)
مغرب (خانۂ کعبہ) کی طرف کرو بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ اللہ پر، قیامت پر، فرشتوں
پر، کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور خواہش کے باوجود اللہ کی محبت میں
اپنا مال، رشتے داروں، یتیموں، غریبوں، مسافروں، مانگنے والوں اور غلاموں کو آزاد
کرانے میں خرچ کرے، نماز ادا کرتا رہے، زکوٰۃ دیتا رہے اور جو وعدہ کرے اپنے وعدے
کو پورا کرتا رہے اور جو مصیبت، تکلیف اور پریشانی میں ثابت قدم رہتے ہیں یہی وہ
لوگ ہیں جو راست باز ہیں اور یہی تقویٰ ہے‘‘(سورۃ البقرہ: آیت ۱۷۷)
آیت کی تفہیم یہ ہے کہ راست بازی اور تقویٰ کا
پہلا نتیجہ جس طرح ایمان ہے اس ہی طرح دوسرا لازمی نتیجہ بہترین اوصاف، فیاضی،
ایفائے عہد اور صبر و ثبات وغیرہ ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور رحم والے اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر دبے پاؤں چلتے
ہیں اور جب ناسمجھ لوگ ان سے بات کریں تو وہ سلام کہیں اور جو اپنے پروردگار کی
عبادت کی خاطر قیام اور سجدے میں رات گزارتے ہیں اور جو کہتے ہیں کہ اے ہمارا
پروردگار ہم سے جہنم کا عذاب دور کر کہ اس کا عذاب بڑا تاوان ہے اور جہنم برا
ٹھکانہ اور مقام ہے اور جو خرچ کرتے ہیں وہ فضول خرچ نہ کریں اور نہ تنگی کریں
بلکہ ان دونوں کے درمیان اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہیں پکارتے اور جو کسی
جان کا بے گناہ خون نہیں کرتے، جس کو اللہ نے منع کیا ہے اور نہ بدکاری کرتے ہیں
اور جو ایسا کرے گا وہ گناہ سے پیوست ہو گا‘‘(سورۃ فرقان: آیت ۶۲ تا ۶۳)
’’اور جو جھوٹے کام میں شامل نہیں ہوتے اور جب کسی لغویات سے
گزر رہے ہوں تو سنجیدگی اور وقار سے گزر جاتے ہیں اور جب اللہ کی نشانیاں ان کو
سنائی جاتی ہیں تو وہ اندھے اور بہرے ہو کر ان کو نہیں سنتے اور یہ دعا مانگتے
ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ہم کو ہمارے بیوی بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک بخش اور ہم کو
پرہیز گاروں کا پیشوا بنا دے‘‘(سورۃ فرقان: آیت ۷۱ تا ۷۴)
اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی
زبانی اہل ایمان (یعنی صاحب مشاہدہ خواتین و حضرات) کے اخلاقی اوصاف اس طرح بیان
کرتے ہیں:
اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں اور
بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور جو غصے کی حالت میں
معاف کرتے ہیں اور اپنے پروردگار کی پکار کا جواب دیتے ہیں (یعنی اللہ ان سے
ہمکلام ہوتا ہے) نماز قائم کرتے ہیں (یعنی ان کا اللہ سے رابطہ ہوتا ہے) اور ان کے
کام باہم مشورہ سے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو دیا ہے اس میں سے کچھ خدا کی راہ
میں دیتے ہیں اور جو ان پر چڑھائی ہو تو وہ بدلہ لیتے ہیں اور برائی کا بدلہ ویسے
ہی برائی ہے تو جو کوئی معاف کر دے اور نیکی کرے تو اس کا درجہ اللہ کے ذمہ ہے، وہ
ظلم کرنے والوں کو پیار نہیں کرتا۔ اگر مظلوم ہو کر بدلہ لے تو اس پر کوئی ملامت
نہیں، ملامت تو ان پر ہے جو لوگوں پر از خود ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق فساد
برپا کرتے ہیں ان کے لئے بڑا درد ناک عذاب ہے، بلاشبہ جو مظلوم ہونے پر بھی ظالم
کو معاف کر دے اور سختی سہہ لے تو یہ ہمت کے کام ہیں‘‘(سورۃ الشوریٰ: آیت ۳۶ تا ۴۳)
’’یہ وہ ہیں جن کو دوہرا اجر ملے گا، اس لئے کہ انہوں نے صبر
کیا اور وہ برائی کو بھلائی سے دور کرتے ہیں اور جو ہم نے دیاہے اس میں سے خدا کی
راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جب کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں، اس سے کنارہ کشی اختیار کر
لیتے ہیں، کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارا عمل اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے، تم
سلامت رہو ہم ناسمجھوں کو نہیں چاہتے‘‘(سورۃ القصص: آیت ۵۴ تا ۵۶)
’’اور کھانے کی خود ضرورت ہوتے ہوئے مسکین، یتیم اور قیدی کو
کھلا دیتے ہیں‘‘(سورۃ دہر۔ آیت ۸)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جو دعا
مانگتے تھے اس میں یہ جملہ بھی ہوتا تھا:
’’اے میرے اللہ! تو مجھ کو بہتر سے بہتر اخلاق کی رہنمائی کر، تیرے سوا کوئی بہتر سے بہتر اخلاق کی راہ نہیں دکھا سکتا اور برے اخلاق کو مجھ سے پھرا دے اور ان کو نہیں پھیر سکتا لیکن تو‘‘۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ارشاد اور اولیا ء اللہ کا قول بھی ہے ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پا یا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے ۔ سپیس کا علم علم کی تجلی کو دیکھتا ہے ۔ جب سپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جا ئے ، کا نوں سے سنا ئی دے تو تجلی نظر آتی ہے ۔قر آن کر یم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کسی کو طا قت نہیں کہ اللہ سے کلام کر ے مگر تین طر یقوں سے (۱)وحی کے ذریعہ (۲)رسول کے ذریعے یا (۳)حجاب سے ۔یہ تینوں سپیس میں حجاب بھی سپیس ہے وحی اسے کہتے ہیں جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جا ئے اور پر دے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجا ئے اور ایک آواز آتی ہے ۔ فر شتے کے ذریعے یا رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کہ معنی یہ ہیں کہ فر شتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طر ف سے بات کر تا ہے اور حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کو ئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طر ح بات کر تی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے حا لانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے بلکہ حجاب ہے ۔