Topics

رمضا ن المبا رک

 

اللہ تعالی ٰ کا لا کھ لا کھ شکر ہے کہ اس زمین پر اپنی محدود سی زندگا نی میں ہمیں ایک مرتبہ پھر اللہ تعا لیٰ کی رحمتوں ' نعمتوں ' مغفرتوں  سے بھر پو ر ما ہ رمضا ن کے روز و شب نصیب ہو رہے ہیں رمضا ن کے روزے امت ِ مسلمہ پر فر ض ہیں رمضا ن  میں وہ مبا رک ساعتیں بھی شامل ہیں جن میں اللہ کی آخر ی کتا ب ' نو ع انسا نی کے تا قیا مت ہدا یت و رہنما ئی کی جا مع ترین الہا می دستا ویز ، قر آن کا نزول شروع ہوا ان مبا رک ساعتوں والی شب کا نا م لیلتہ القدر ہے یہ وہ عظیم المر تبت ہے جسے ہز ار مہینوں سے افضل قرار دیا گیا ہے ارشا د با ری تعالیٰ ہے ۔

  ترجمعہ' اے ایما ن والو تم پر روزے فر ض کئے گئے جس طر ح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم متقی ہو۔" ( سور ہ بقر ہ 183)

  کا ئنا ت  کے تما م اوقا ت اللہ تعالیٰ کے ہیں اس زمین پر ہر دن ہر ہفتہ ' ہر مہینہ ہر سال اللہ کا ہے لیکن رمضا ن کو یہ خصوصیت حا صل ہے کہ اسے اللہ نے خو د اپنا مہینہ فر ما یا ہے  نماز ' زکوٰۃ' حج ' اللہ کے احکا ما ت کی بجا آوری ' حقو ق العبا د  کی ادائیگی ' غر ض  اللہ کی عبا دت و اطا عت و فر ما نبر داری کا ہر انداز مقد س و متبر ک ہے ہر عبادت اللہ کی خو شی اور جزا ء کے حصو ل کا ذریعہ ہے تا ہم جزا کے معا ملہ میں روزہ کو مفر د مقا م حا صل ہے  اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں کہ روزہ میرے لئے ہے اور روزہ  کی جزا ء میں خود ہوں۔

  اللہ کے آخر ی رسول معلم اعظم حضر ت محمد ؐ نے شعبا ن میں رمضا ن المبا رک کی اہمیت و فضلیت کے با رے میں امت مسلمہ کو آگہی بخشتے ہو ئے فرما یا ۔

  لوگو ! تم پر ایک بہت عظمت و بر کت والا مہینہ سایہ فگن ہو نے والا ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات ہزا ر مہینوں سے افضل ہے اس مہینہ میں دن کے اوقا ت میں روزہ فر ض کیا گیا ہے اور رات میں قیام کرنا نفل عبا دت ہے ۔"

  آپ علیہ الصلوٰۃ و السلا م  نے فرمایا کہ۔

  رمضا ن صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے یہ ہمدردی اور غمخوا ری کا مہینہ ہے یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں فراخی اور اضا فہ کیا جا تا ہے جس نے اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو افطا ر کروایا تو یہ اس کے لیے گنا ہوں  کی مغفر ت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہے اسے روزہ دار کے بر ابر اجر ہوگا اور روزہ دار کے اجر میں کو ئی کمی نہیں ہو گی اس موقع پر صحا بہ کرا م ؓ نے عر ض کیا۔

  یا رسول اللہ ؐ ہم میں سے ہر ایک کو افطا ر کروانے کے وسائل میسر نہیں۔

  نبی رحمت ؐ نے فرما یا اللہ تعالیٰ کی طر ف سے یہ اجر اس کے لئے بھی ہے جو دودھ کی تھو ڑی سی لسی پر یا صر ف پا نی کے گھونٹ  پر ہی کسی روزہ دار کو افطا ر کر وادے  اور جو کو ئی کسی روزہ دار کو پو را کھا نا کھلا دے اسے اللہ تعالیٰ میرے حو ض کوثر سے ایسا سیرا ب کردے گا جس کے بعد اسے کبھی پیا س نہیں لگے گی تا آنکہ وہ  جنت میں پہنچ جا ئے گا۔

  مختلف روایا ت میں ملتا ہے کہ کئی آسما نی کتابیں اس ما ہ میں نازل ہو ئیں حضر ت ابرا ہیم ؑ کے صحیفے یکم تا تین رمضا ن  حضر ت داوَ د کو زبو ر 12 یا 18 رمضان کو ' حضر ت موسیٰ کو توریت 6 رمضا ن  کو اور حضر ت عیسیٰ ؑ  کو انجیل 12 یا 13 رمضا ن المبا رت کو عطا ہو ئی ۔

  رمضا ن کا مہینہ وہ ہے جس میں اللہ کے آخر ی رسول محمد ؐ کے قلب اطہر پر قر آن نا زل ہوا۔

 

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ

ترجمہ' رمضان  و ہ مہینہ ہے جس میں قر آن نا زل کیا گیا جو انسا نوں کے لئے ہدایت اور ایسی واضح تعلیما ت پر مبنی ہے جو درست راستہ دکھا نے والی اور حق و با طل کا فر ق واضح کردینے والی ہیں جو کو ئی اس مہینہ کو پا ئے وہ اس مہینہ میں روزہ رکھے اور جو کو ئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پو ری کرے اللہ تمہا رے ساتھ نرمی چا ہتا تا کہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور اللہ نے تمہیں جو ہدایت عطا فرما ئی ہے اس پر اللہ کی کبریا ئی کا اظہا ر کرواور اللہ کا شکر گزار بنو۔ " (سورہ بقرہ)

  "ا ے نبی میرے بندے تم سے میرے با رے میں سوال کریں تو انہیں  آگا ہ کر دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکا ر سنتا ہوں اور جواب دیتا وں تو انہیں چا ہیے کہ میرا حکم  مانیں اور ایما ن لا ئیں تاکہ راہ ِ راست پا لیں۔"(سورہ بقرہ)

  رمضا ن کے مہینہ کی نزول قر آن سے نسبت اور اس ما ہ مبا ر ک میں روزہ کی فرضیت سے آگہی عطا فرما نے کے ساتھ ساتھ  آیا ت میں دو باتیں بہت زیا دہ غور طلب ہیں ایک تو امت ِ محمد ی ؐ کے لئے یہ اظہا ر کہ اللہ تمہا رے لئے آسا نی چا ہتا ہے سختی نہیں چا ہتا دوسرے اس حقیقت کا اظہار  کہ اللہ ہم سے بہت قریب ہے وہ ہما ری پکا ر کو سنتا ہے اور اس کا جواب عطا فرما تا ہے ۔

ذہن میں سوال آتا ہے کہ ان امور کا اظہا ر بطور خا ص نزول قر آن کے ذکر اور روزے فر ض قرارد یتے ہو ئے کیوں کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کے ارشا د کے مطابق  روزہ کا نیتجہ یا اس کا حا صل یہ ہے کہ انسا ن متقی ہو جا ئے انہی آیا ت میں اللہ تعالیٰ فر ما تے ہیں   کہ میں اپنے بندوں سے قریب ہی ہوں ان آیا ت سے یہ با ت سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان المبا ر ک کے روز و شب میں روزہ رکھ کر اور قیا م اللیل میں قر آن کی تلا وت اور سما عت کے ذریعہ بندہ کا وجود اللہ تعالیٰ کے انوار کو قبول و جذب کر نے کی استعداد و سکت حا صل کرنے لگتا ہے ۔

قر آن پا ک سے صحیح طو ر پر ہدا یت حا صل کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہدا یت کا خواہشمند تقویٰ کے گونا گوں اوصا ف کا حامل ہو اللہ تعا لیٰ کا ارشا د ہے کہ

"الم ' یہ کتا ب ہر قسم کے شک و شبہ سے مبرا ہے یہ متقویوں کے لئے  ہدایت ہے ۔ (سورہ بقرہ)

قرآن سے فا ئدہ تو ہر کو ئی اٹھا سکتا ہے لیکن اس سے ہدایت حا صل کرنا ن  کہ اللہ ہم سے بہت قریب ہے وہ ہما ری پکا ر کو سنتا ہے اور اس کا جواب عطا فرما تا ہے ۔دہ غور طلب ہیں ایک تو امت ِ محمد ی ؐ کے لئے یہ اظہا ر کہ اللہ تمہا رے لئے آسا نی چا ہتا ہے سختی نہیں چا ہتا دوسرے اس حق

متقیوں کے لئے ہی مخصوص ہے اس کا مطلب یہ ہو ا کہ دنیا میں کامیابی اور آخرت میں سرخروئی کے لئے قرآن سے ہدایت پانے کے لئے ایک مخصوص طرز فکر کی ضرورت ہے قرآن اس طرز فکر کی حامل شخصیت کا تعارف "متقی" کی حیثیت سے کرواتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ تقویٰ کیا ہے؟ قرآنی تعلیمات کے مطابق تقویٰ محض کسی ایک صفت یا وصف کا نام نہیں بلکہ یہ کئی صفات یا اوصاف پر مشتمل ایک پیکج ہے یہ تما م صفات اللہ کے حکم سے اختیاری و اکتسابی  ہیں انسان چاہے تو انہیں اپنالے چاہے تو خود کو محروم رکھے قرآن پاک کے مطابق تقویٰ میں شامل ہیں"ایمان، قیام، الصلوٰۃ، روزہ رکھنا، زکوٰۃ دینا یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اللہ کے گھر کی زیارت یعنی حج، حق داروں کو ان کا حق دینا، حلال روزی کا حصول ، عہد کو پورا کرنا، عدل و انصاف کا مکمل اہتمام  سختی اور تکلیف کے وقت ثابت قدم رہنا، اللہ کے راہ میں قربانی دینا، ظاہری و باطنی پاکیزگی کا اہتمام کرنا، ظاہری پاکیزگی کا مطلب ہےذاتی اور ماحول کی صفائی کا اہتمام کرنا جب کہ باطنی پاکیزگی سے مراد نیت کی صفائی کااہتمام کرنا جب کہ باطنی پاکیزگی سے مراد نیت کی صفائی و پاکیزگی راست بازی اور مثبت طرز فکر یعنی پازیٹو تھینکنگ ، اللہ کے مقرر کردہ ادب و شعائر کی تعظیم و احترام معاشرہ میں ظلم و فساد سے باز رہنا ۔"

یہ ہیں چند نمایاں اوصاف جن کا تذکرہ قرآن پاک میں کیا گیا ہے تقویٰ کے اس پیکج میں جن امور کا تذکرہ ہوا ہےانہیں ہم دو بڑے حصون میں تقسیم کر سکتے ہیں ایک حصہ کا تعلق خالصتاً عبادات سے ہے جب کہ دوسرے حصہ کا تعلق معاملات سے ہے عبادات کا تعلق اللہ او ربندہ سے ہے جب کہ معاملات انسانوں کے مابین عمل پذیر ہوتے ہیں۔

قرآن کے مطابق روزہ کا حاصل تقویٰ ہے حدیث قدسی کے مطابق روزہ کی جزا اللہ ہے۔

رمضان کا مہینہ تقویٰ کے حصول کے لئے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔رمضان المبارک کو اس کے صحیح آداب کے ساتھ بسر کرنے والا بندہ ایسی جسمانی، ذہنی و روحانی کیفیات سے گزرتا ہے جن میں اس پر اللہ کی مشیت کے راز آشکار ہوتے ہیں۔ بندہ کا ذہنی، قلبی و روحانی تعلق اپنے خالق، اپنے مالک اللہ وحدہٗ لا شریک کے ساتھ قائم ہو تا ہے روزہ بندے کی روحانی قدروں میں اضافہ کا ایک موثر عمل ہے اور برائیوں سے بچنے کے لئے ڈھال ہے۔ روزہ انسان کی جسمانی کثافتوں کو دور کرتا ہے۔ روزے سے انسان کے اندر لطیف روشنیوں کا بہائو ہوتا ہے اور انسان کے باطنی حواس بیدار اور متحرک ہو جاتے ہیں۔ ان باطنی حواس کے ذریعہ انسان فرشتوں کی موجودگی اور اللہ تعالیٰ کے انوار کو محسوس کر سکتا ہے۔ اللہ چاہے تو بندہ ان انوار کا مشاہدہ بھی کر سکتا ہے۔ شب قدر اسی مشاہداتی نظر کے حصول کے لئے بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔

رمضان کے ماحول کو کوئی نام دینا چاہیں تو ہم کہیں گے کہ رمضان المبارک ایک خاص روحانی ماحول فراہم کرتا ہے یہ ماحول بندہ عاشق صادق کو اپنے رب محبوب کے خیال میں محو و سرشار رکھتا ہے روزہ دار اپنے محبوب کی رضا کے لئے خوشی بھوک ، پیاس برداشت کرتا ہے محبوب کے تصور اور اس کے جلوؤ ں کی جاہ میں قیام کرتے ہوئے رات کا بڑا حصہ جاگ کر گزارتا ہے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ساری ساری رات جاگ کر اپنے محبوب رب سے اس کی رضا کا مغفرت کا طلبگار رہتا ہے یہ مہینہ ، بندہ میں عشق کی شدت کو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو بڑھاتاہے اس مہینہ کے روز و شب میں مرتب ہونے والی روحانی کیفیات اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان میں اضافہ کا ذریعہ بنتی ہیں۔ رمضان کے مہینے میں مبارک و منور ساعتوں والی وہ رات جس میں نزول قرآن کا آغاز ہوا لیلۃ القدر ہے۔

 

إنا أنزلناه في ليلة القدر، بے شک ہم نے اس کو شب قدر میں نازل فرمایا۔

یہاں ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ شب قدر کا مطلب کیا ہے قرآن خود ہی سوال قائم فرماتا ہے اور پھر اس کا جواب بھی دیتا ہے۔

وما ادراك ما ليلة القدر

اور آپ کیا سمجھے کہ شب قدر کیا ہے۔

لیلۃ القدر خیر من الف شہر

یہ رات(شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

شب قدر کی مبارک ساعتوں میں  غار را میں نزول قرآن ہوا۔

اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے جبرائیل علیہ السلام  اللہ کا پیغام لے کر اللہ کے آخری نبی حضرت محمدؐ  کے پاس آئے اور نوع انسانی کے لئے رہتی دنیا تک کے لئے ہدایت و کامرانی کے فارمولوں پر مشتمل دستاویز کا آغاز ان آیات سے ہوا۔

 

اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا و ربک الاکرام الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم

ترجمہ پڑھو!اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا  جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سےانسان کی تخلیق کی، پڑھو تمہارا رب کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔

            قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس نے اپنے محبوب ترین بندے حضرت محمدؐ  کے ذریعہ نوع انسانی کے لئے نازل فرمایا جن ساعتوں  میں اس کے نزول کا آغاز ہوا ان کی شان یہ ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہیں اس وقت جو آیات نازل ہوئیں ان میں پڑھنے کا ، اللہ کی ربوبیت کا ، انسان کی تخلیق کا، اللہ کی شان کریمی کا، علم اور قلم کا تذکرہ ہے۔ یہ علوم کیا ہیں اور قلم کا کیا مطلب ہے؟

          سلسلہ عظیمیہ کے بزرگوں اور دیگر صوفیاء کی تعلیمات سے حاصل ہونے والی فہم و دانش کے مطابق یہاں علم کا مطلب دراصل اللہ تعالیٰ کا ارادہ  اور اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے یہ ساری کائنات ، آسمان ، زمین، فرشتے، جنات، انسان، چرند، پرند نباتات و جمادات ان میں پائے جانے والے تمام نظام ، تقاضے مثلاً پیدائش، بھوک پیاس، بڑھوتری، بقائے نسل وغیرہ اور تمام جذبات مثلاً محبت، نفرت، پیارغصہ  مسابقت وغیرہ سب اللہ تعالیٰ کے بنائےہوئے ہیں ان سب چیزوں کے بارے میں جاننا اور سمجھنا علم کے دائرہ میں آتا ہے ذندگی کے مختلف تقاضوں کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر نوع کو حسب ضرورت علم عطا کیا ہے مثلاً مچھلی کو زندگی گزارنے کے لئےضروری دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ پانی میں تیرنے کا علم ودیعت کر دیا گیا ہے اسی طرح پرندوں کو فضاء میں اڑنے کا علم ودیعت کر دیا گیا ۔اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو علم عطا کیا جنات کو علم عطا کیا ان کے بعد انسان کو علم عطا کیا مگر انسان کو فرشتوں کو اور جنات سے بہت زیادہ علم عطا کر کے فضیلت عطا فرمادی۔فضیلت دلوانے والا یہ علم کیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ وہ علم ہے جسے علم الاسماء کہا جاتا ہے اسی علم کی وجہ سے انسان کو اللہ کا نائب اور مسجود ملائک ہونے کا شرف ملا ہے۔

علم الاسماء کیا ہے یہ کائنات کے ایک ایک ذرہ ایک ایک فرد ایک ایک نوع، زمین، آسمان، ستاروں ، نطام ہائے شمسی ، کہکشاؤں میں جاری و ساری اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صفات کا علم ہے جو کچھ اس کائنات میں ہو رہا ہے سب کا سب اللہ تعالیٰ کے ارادہ کا مظہر یا ڈسپلے ہے یہاں کوئی چیز کوئی عمل اللہ تعالیٰ  کے احاطہ علم اور قدرت سے باہر نہیں ہے ہر چیز کی فطرت اور مقدار اللہ تعالیٰ کی طرف سے  متعین کردہ ہے۔ علم الاسماء کی کئی جہتیں ہیں مثلاً ایک درخت ہے اس میں پھول اور پھل آتے ہیں ایک درخت بیج سے کونپل، کونپل سے پودا، پودے سے درخت بننے تک جن جن مراحل سے گزرتا ہے یہ سب علم ہے۔ درخت میں تمام مراحل کس کس وقت اور کس طرح طے ہوتے ہیں یہ معلوم کرنا اس علم کی تفہیم ہے کسی چیز کا ہونا علم ہے اور کسی چیز کے بارے میں جاننا اسے دریافت کرنا اس میں تصرف یہ سب کے سب " قلم" سے تعلق رکھتے ہیں ۔چنانچہ سیکھنے، تسخیر کرنے اور تصرف کرنے کا ہر عمل "قلم" کے دائرہ میں آتا ہے معروف معنوں میں پین ہو یا  پینسل، ٹائپ رائٹر ہو یا کمپیوٹر یا آئندہ وقتوں میں سامنے آنے والی کچھ اورچیزیں یہ سب بنیادی طور پر قلم کے زمرہ میں آتی ہیں سیکھنے کا عمل اور سکھانے کے تمام آلات علم کی تشریح، تجزیہ، ترتیب و تدوین کے تمام کام " قلم " سے تعلق رکھتے ہیں۔

شب قدر میں بہ ترتیب نزول قرآن کی ابتدائی آیات میں ہی انسان کی تخلیق اس کے شرف کے حصول اور اس پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کا ذکر بڑا معنی خر اور فکر انگیز ہے ان آیات میں تفکر سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ سورۃ علق کی ابتدائی پانچ آیات دراصل خالق حقیقی اور انسان کے درمیان عبد اور معبود کے تعلق اور انسان اور کائنات کے درمیاب پائے جانے والے تعلق کو سمجھنے کی شاہ کلید ماسٹر کی یا پاس ورڈ ہیں۔

ان پاس ورڈز کو سمجھنے یا اس ماسٹر کی کو بروئے کار لانے کے لئے ایک خاص اہلیت درکار ہے یہ اہلیت صاحب قرآن حضرت محمدؐ کی تعلیمات اور طز فکر کے تحت قرآن میں تفکر کرنے سے حاصل ہوتی ہے جو افراد یا جو قومیں قرآن کے حقیقی فہم سے رہنمائی اور ہدایت حاصل کر کے قدم اٹھاتی ہیں کامیابی ان کے راستہ میں آنکھیں بچھائے کھڑی ہوتی ہے یہ کوئی خوش عقیدگی پر مبنی دعویٰ نہیں اس حقیقت کی گواہی سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں سب سے پہلی گواہی دور نبویؐ سے ملتی ہے۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب تک امت نے قرآن سے تعلق قائم رکھا اور قرآن سے ہدایت حاصل کرتی رہی اسے ترقی و کامیابی حاصل رہی جب امت نے قرآن سے عملاً لا تعلقی اختیار کر لی اور اسے محض دعا و تعویذ کے لئے گھر میں برکت یا ایصال ثواب کے لئے پڑھنے لگی اجتماعی معاملات میں قرآنی احکامات سے چسم پوشی یا انحراف کیا جانے لگا تو ایک متحد و مضبوط امت منتشر لوگوں کے گروہ کی طرح ہوگئی رمضان کا مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے رحمتوں اور مغفرتوں کا مہینہ ہے صبر اور ایثار اور انسانوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ  ہے ۔اپنی حالت زار پر غو کرنے کےلئے اس مہینہ میں میسر ماحول سے بہتر ماحول اور کون سا ہو سکتا ہے۔

رمضان المبارک کے اجتماعی پروگرام سے مسلم معاشرہ میں ایک نہایت پاکیزہ اور ایمان افروز کیفیت پیداہوتی ہے ایک مہینے کی یہ تربیت انسنا کو اس قابل بناتی ہے کہ مسلمان پورے سال اس طرح زندگی گزاریں کہ ہر لمحہ خود احتسابی ان کی زندگی کا حصہ بن جائے  کسی بھی کام کی انجام دہی سے قبل ان کے ذہن میں یہ خیال غالب رہے کہ میرا یہ عمل اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے یا نہیں ۔

 

رمضان المبارک روحانی تربیتی پروگرام

 

قرآن کے ارشاد کے مطابق

ومن کل شئی خلقنا زوجین لعلکم تذکرون

ترجمہ" اور ہر چیز کے بنائے ہم نے جوڑے شاید تم دھیان کرو'

انسانی حواس کے بھی دو رخ ہیں۔

کائنات میں ہر ذی روح کے اندر دو حواس کام کرتے ہیں۔

۱۔ وہ حواس جو اللہ سے قریب کرتے ہیں۔

۲۔ وہ حواس جو اللہ اور بندے کے درمیان فاصلہ بن جاتے ہیں۔

اللہ سے دور کرنے والے حواس سب کے سب مظاہر ہیں اور اللہ سے قریب کرنے والے سب کے سب غیب ہیں۔ مظاہر میں انسان زمان و مکان میں قید و بند ہے اور غیب میں زمانیت اور مکانیت انسان کی پابند ہے۔ جو حواس ہمیں غیب سے روشناس اور متعارف کراتے ہیں۔ قرآن پاک کی زبان میں ان کا نام ’’لیل‘‘ یعنی رات ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم داخل کرتے ہیں رات کو دن مین اور داخل کرتے ہیں دن کو رات میں۔

          دوسری جگہ ارشاد ہے۔

’’ہم نکالتے ہیں رات کو دن میں سے اور دن کو رات میں سے۔‘‘

یعنی حواس ایک ہی ہیں۔ ان میں صرف درجہ بندی ہوتی ہے۔ دن کے حواس میں نہ زمان اور مکان کی پابندی ہے لیکن رات کے حواس میں مکانیت اور زمانیت کی پابندی نہیں ہے۔ رات کے یہی حواس غیب میں سفر کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور انہی حواس سے انسان برزخ، اعراف، ملائکہ اور ملاء اعلیٰ کا عرفان حاصل کرتا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تذکرہ میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:

ترجمہ :اور وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس(۳۰) رات کا اور پورا کیا ان کو دس سے تب پوری ہوئی مدت تیرے رب کی چالیس(۴۰) رات۔

اللہ تعالیٰ فرما تےہیں کہ ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چالیس رات میں توراتوںمیں تورات (غیبی انکشافات) عطا فرمائی۔ فرمانِ خداوندی بہت زیادہ غور طلب ہے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے چالیس (۴۰) دن میں وعدہ پورا کیا، صرف رات کا تذکرہ فرمایا ہے۔جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چالیس (۴۰) دن اور چالیس (۴۰) رات کوہ طور پر قیام فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ چالیس دن اور چالیس رات حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رات کے حواس غالب رہے۔

رات کے حواس (سونے کی حالت) میں ہم نہ کھاتے ہیں، نہ بات کرتے ہیں، اور نہ ہی ارادتاً ذہن کو دنیاوی معاملات میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم مظاہراتی پابندی سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں۔روزے کا پروگرام ہمیں یہی عمل اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ روزے میں تقریباً وہ تمام حواس ہمارے اوپر غالب ہو جاتے ہیں جن کا نام رات ہے۔

گفتگو میں احتیاط اور زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہنا، بات نہ کرنے کا عمل اور زیادہ عبادت ہمیں غیب سے کرتی ہے۔ ذہن کا اس بات پر مرکوز رہنا کہ یہ کام صرف اللہ کے لئے کر رہے ہیں، ذہن کو دنیا کی طرف سے ہٹاتا ہے۔ زیادہ وقت بیدار رہ کر رات(غیب) کے حواس سے قریب ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ وہی حواس ہیں جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کے واقعے میں کیا ہے۔ رمضان کا پورا مہینہ دراصل ایک پروگرام ہے اس بات سے متعلق کہ ’’انسان اپنی روح اور غیب سے متعارف ہو جائے۔

 اللہ تعالیٰ کا ارشادہے کہ

 روزہ کی جزا میں ہوں روزہ کا بدل میں ہوں روزہ  میرے لئے ہے ۔"

دراصل روزہ ہی ہمارے ہاں  وہ نظام ہے جو ’’ترک‘‘ سے تعلق رکھتا ہے۔آپ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزارتے ہیںاس وقت آپ کاروبار کو بھی ترک کر دیتے ہیں معاش بھی آپ کے ذۃن میں نہیں ہوتی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے صاف ستھری زندگی، صحیح نظام الاوقات میں گزارتا ہے تو اللہ خود رہنمائی کرتا ہے۔ اللہ خود ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ قریب ہوتا ہے۔اب آپ اس بات کا اندازہ لگایے کہ اس وقت آپ اللہ سے کتنے قریب ہوتےہیں۔

حضرت مولان روم ایک شعر میں فرماتے ہیں۔

’’گفتۂ او گفتۂ اللہ بود

گرچہ از حلقومِ عبداللہ بود‘‘ 

مولانا جلا ل الدین رومی  نے اسی حالت کے لئے یہ شعر کہا ہے آپ اس کو پڑھ کر ذرا اس کی گہرائی میں جائیں اور غور کریں بار بار غور کریں سوچیں اور بار بار سوچیں کہ یہ شعر کہتے وقت مولانا رومی  پر کس قسم کی کیفیت طاری تھی ایسی کیفیت محض لفظوں کے الٹ پھیر سے نہیں ہوتی بلکہ ایک حقیقت ہے جو اس قسم کے شعر کہلا دیتی ہے۔

لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ اس قسم کے پروگرام جس سے غیب کی دنیا کا انکشاف ہو خاص حضرات کے لئے مخصوص ہیں۔

یہ بات کہہ کر حضرت فرماتے ہیں کہ اگر اس قسم کے پروگرام مخصوص لوگوں کے لئے ہوتے توہم یہ کہتے ہیں کہ مولانا رومی کی بیوی تھیں بچے تھے وہ حدیث کا درس بھی دیتے تھے کوئی یہ کہہ سکتا ہےکہ وہ مجذوب تھے یا وہ ہوش میں نہیں تھے؟ایسا نہیں ہے وہ اس طرح زندگی گزارتے تحَ جس طرح ایک عام آدمی زندگی بسر کرتا ہے فرق یہ ہے کہ وہ ترک کی لذت سے آشنا نہیں ہیں ۔ کیا حضور اکرمؐ  کے ہر امتی کے لئے یہ ممکن نہیں ہے جو مولانا رومی  کےلئے ممکن ہوا یقیناً ہم سب کےلئے یہ ترک ممکن ہے لیکن ہم غفلت میں ہیں۔

قرآن پاک نے جس رات کا نام لیلۃ القدر رکھا ہے وہ دراصل ترک کا پروگرام ہے جو پورے رمضان شریف میں تکمیل پاتا ہے۔رمضان کا پورا مہینہ دراصل ایک پروگرام ہے اس بات سے متعلق کہ انسان اپنی روح اور غیب سے متعارف ہو جائے۔

ماہ رمضا ن میں عبادات

حضور اکرمؐ نے رمضان کے پہلے عشرے کو رحمت ،د وسرے کو بخشش اور آخری عشرے کو نار جہنم سے رہائی فرمایا ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں حضور اکرم مسجدِ نبوی میں اعتکاف فرماتے ۔ اس ماہ کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب بیداری کے ذریعہ شب قدر کی تلاش کا حکم دیا گیا ہے جس کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے۔

ہم نےاس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا اور تمہیں  کیا  معلوم  کہ شب قدر کیا ہے۔شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے ۔ اور اس میں روح ( الامین) اور فرشتے اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں یہ ( رات) طلوع فجر تک سلامتی ہے" القدر:5-1

          "اللہ تعالیٰ کےفرمان کے مطابق لیلۃ القدر ایک ہزار مہینوں کے دن اور رات کے حواس سے افضل ہے اس کو سمجھنے کے لئے ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ رات کے حواس کی رفتار اس رات میں (جو بہتر ہے ہزار مہینوں سے) ساٹھ ہزار گنا بڑھ جاتی ہے کیونکہ ایک ہزار مہنوں میں تیس ہزار دن اور تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں۔"

          اس مبارک رات میں قرآن پاک کا نزول ہوا ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

          ترجمہ:بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے۔"(المائدہ)

          "رمضان کی دس تاریخ تک ہمیں اس ات کی عادت ہو جاتی ہے کہ ہم ان حواس کی گرفت کو توڑ سکیں جو گیارہ ماہ ہم پر مسلط رہے ہیں پس روزے رکھنے کے بعد اگر ہم کوشش کریں تو بہت آسانی کے ساتھ روح کی خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کر سکتے ہیں۔"

          اس مہینہ میں مکمل قرآن کریم کی تلاوت کرنا مسنون ہے احادیث مبارکہ میں ہے کہ حضور پاک ؐ ماہ رمضان میں حضرت جبرائیل علیہ السلام سے قرآن سنا کرتے تھے۔

          رمضا ن المبارک کی خصوصی نماز تراویح ہے تراویح سنت موکدہ ہے جہاں ممکن ہو سکے خواتین کو بھی تراویح میں قرآن سننے کا اہتمام کرنا چاہیے حضورؐ نے فرمایا ہے کہ " جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی غرض سے  تراویح پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ گناہ معاف فرمادیں گے" رمضان المبارک کا چاند نظر آنے کے بعد شوال کا چاند نظر آنے تک ہر روز بعد نماز عشاہ یہ نماز پڑھی  جاتی ہےنماز تراویح اور نماز تہجد کے ذریعہ قیام الیل میں جب بندہ کی پوری توجہ اللہ کی جانب مرکوز ہو جاتی ہے تو اللہ ایسے بندے کے اجر کی زمہ داری لے لیتا ہے اور اسے اس کی عبادت اور نیت کا پورا پورا اجر دیتا ہے۔

          رمضان کے آخری عشرہ کو جہنم سے نجات کا عشرہ قراردیا گیاہے اور حضور پاکؐ کے ارشادات کے مطابق رمضان کی آخری طاق راتوں میں شب قدر ہے شب قدر نہایت قابل قدر چیز ہے اس رات میں شب بیداری کرنی چاہیےاور اللہ کی عبادت کرنے چاہیے کوشش اور دعا کرنی چاہیے کہ شب قدر کی برکات عطا ہوں اس رات کی فضیلت قرآن کے مطابق یہ ہے کہ اس میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں ۔ یعنی انسان غیب کی دنیا کا مشاہدہ کر لیتا ہے ان لوگوں کو کف افسوس ملنا چاہیے جو اس رات  کی رحمت و برکت سے محروم رہ گئے حدیث شریف میں ہے کہ" جو اس رات سے محروم ہو گیا وہ بڑی دولت سے محروم ہو گیا" رمضان کے آخری عشرے میں زیادہ سے زیادہ عبادت ، اعتکاف اور شب بیداری کا اہتمام کرنا چاہیے اگر تما م رات شب بیداری ممکن نہ ہو تو رات کا کچھ حصہ جاگ کر گزار لینا چاہئے۔

مراقبہ:   مراقبہ ایک طرز فکر ہے اور ایک ایسی ذہنی کیفیت کا نام ہے جو خوابیدہ حواس کو بیدار اور متحرک کر دیتی ہے۔رمضان المبار ک میں چونکہ یکسوئی کا حصول اور غیب کے بارے میں جستجو اور مشاہدہ کا ذوق بڑھ جاتا ہے اس لئے اگر کچھ وقت مراقبہ کےلئے وقف کیا جائے تو غیبی صلاحیتوں کے حصول میں مزید آسانی پیدا ہو جاتی ہے ذہنی صلاحیتوں کو جلا ملے گی اوردین و دنیا کے معاملات میں بہتری ہوگی۔

          رمضان المبار ک کی عبادت، روزہ، درحقیقت ایک ایسی عبادت ہے جس میں انسان اپنے جذبات اورتقاضوں کو اللہ کے سپرد کر کے اپنے دل کو یاد الٰہی میں مشغول کرلیتا ہے۔

          یوں تو مسلمان بھائیوں کی خیرخواہی اور ان کی دستگیری کے اہتمام کے لئے کوئی وقت، مہینہ یا دن مخصوص نہیں لیکن رمضان المبارک میں زکوٰۃ کی ادائیگی اور صدقہ و خیرات کرنے کی جانب میلان میں تیزی آجاتی ہے عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں "حضرت محمد ؐ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں رسول اللہؐ عام دنوں سے زیادہ سخاوت فرماتے۔(بخاری )

          امام غزالی فرماتے ہیں کہ " ماہ صیام دراصل خلوت اور خاموشی کا مہینہ ہے۔"

          ذہنی یکسوئی کے لئے ایسا ماحول تشکیل دیا جاے جہاں ہر شخص اپنی ضروریات کی تکمیل کی طرف سے بے فکر ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہو اس کے لئے زکوٰۃ خیرات اور فطرانہ وغیرہ کی مد میں مسلمان بھائیوں کی مالی استعانت پر زور دیا گیا ہے۔

          حضرت علی فرماتے ہیں۔

          "تم میں کوئی شخص اپنے عزیزو اقارب کو فقرو پریشانی میں مبتلا دیکھے تو (کم ازکم ) اتنا مال خرچ کرکے ان کی مدد کردے کہ اگر وہ اسے کہیں اور خرچ نہ کرے تو اس کے مال و دولت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا اور اگر خرچ کر ڈالے تو کمی نہ ہوگی وہ شخص جو اپنے لوگوں کی مدد کرنے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اس کا ایک ہاتھ رکتا ہے تو بہت سے ہاتھ رک جاتے ہیں۔"

          "ترک کی نفسیاتی گہرائیوں پر غور کریں کہ انسان خالصتاً اللہ کے لئے چند پیسے خرچ کر کے کتنی بڑی خوشی حاصل کرتا ہے وہ خوشی اس کی روح کے اندر سماجاتی ہے۔ یہ خوشی اس کے کونے کونے کو منور کر دیتی ہے اس خوشی سے اس کی روح اتنی ہلکی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے جسم کو بھول جاتاہے۔"

          زکوٰۃ اسلام کا بنیادی رکن ہےسال میں ایک بار مال کی متعین کردہ شرح کے مطابق زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے زکوٰۃ کا مقصد دل کو مال وجاہ کی محبت سے خالی کرنا ہے تاکہ بندہ کے دل میں یہ احساس جاگزیں ہو جائَ کہ اس کی زندگی ، مال ودولت سب کچھ اس کے خالق و مالک کا عطا کردہ ہے جب سال پورا ہو جائے تو زکوٰۃ ادا کرنے میں جلدی کرے جو شخص قدرت کے باوجود زکوٰۃ ادا کرنے میں تاخیر کرے وہ گنہگار ہے زکوٰۃ ادا کرتے وقت اس بات کو خاص طورپر ملحوظ رکھنا چاہیے کہ زکوٰۃچھپا کر دی جائے چھپا کردینے میں ریاکاری اور طلب جاہ کا گمان نہیں ہوتا زکوٰۃ کسی بھی مستحق فرد کو دی جاسکتی ہے بہت یہ ہے کہ پہلے اپنے اقرباء کا خیال رکھا جائے ۔

          حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں۔

          زکوٰۃ اس لئے مقرر کی گئی ہے کہ دولت مند کو آزمایا جائے اور ناداروں کی مدد ہو اگر لوگ اپنے مال کی زکوٰۃ دیتے رہتے تو کبھی کوئی مسلمان فقیر اور محتاج نہ ہوتا۔"
صدقہ و خیرات

            قرآن پاک میں ارشاد ہے۔

          "جو لوگ مال و دولت چھپا کر رکھتے ہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو ان کو المناک عذاب کی خوشخبری سنا تو دیجئے(سورہ انفال آیت 36)

          صدقہ و خیرات کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسے بوجھ سمجھ کر اتار کر نہ پھینکا جائے اور صدقہ ، خیرات اور زکوٰۃ ایسے ضرورت مند کو  دی جائے جو کہ اپنی ضرورت کو چھپا تا ہو اپنی تکالیف اور شکایات کا بہت زیادہ اظہار نہ کرتا ہو یا وہ جو کسی وجہ سے اب صاحب ثروت نہ رہا ہواور شرافت اور وضع داری قائم رکھے ہوئے ہو ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے۔

          "اور جو مال خرچ کروگے وہ تمہیں پورا پورا دے دیا جائے گا اور تمہاا کچھ نقصان نہ کیا جائے گا ان حاجت مندوں کے لئے جو خدا کی راہ میں رکے بیٹھے ہیں اورملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے  یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ سے ناواقف شخص ان کو غنی خیال کرتا ہے اور تم قیافے سے ان کو پہچان لو (حاجت مند ہیں اور شرم کی وجہ سے سوال نہین کرتے) اورلپٹ کر نہیں مانگتے۔

(سورہ بقرہ 272-273)

          روزہ دار کو افطار کرانا ایک نہایت مستحسن عمل ہے رمضان المبارک کے مہینہ میں سحر و افطار میں مسلمانوں میں اجتماعیت اور دوسرے کی خیرخواہی کا جذبہ ہمیں عام دنوں کی نسبت زیادہ متحرک نظر آتا ہے اس مہینہ میں مسلمان اپنے سال بھر کی روٹین ترک کر کے اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ شیڈول کے مطابق اپنی زندگی میں خود کار طریقہ سے تبدیلی لے آتے ہیں فجر سے پہلےکی رونقیں ، مساجد میں نمازیوں کا اژدھام ، تراویح کی باجماعت نماز اور ختم قرآن کی محافل کی وجہ سے پورا ماحول پاکیزہ اور نورانی محسوس ہوتا ہے زکوٰۃ وخیرات کی مد میں بھی پورے سال سے زیادہ اس ماہ میں خرچ کیا جاتا ہے مساجد میں روزانہ روزہ داروں کے لئے افطار کا خاص اہتمام ہوتا ہے ناگزیر وجوہات کی بناء پر جو روزہ دار افطار کے وقت اپنے معاش کے کاموں سے فارغ ہو کر گھر نہیں پہنچ پاتے ان کے لئے مختلف چوراہوں پر ایسے اسٹالز لگائَ جاتے ہیں جہاں افطار کے تمام لوازمات مہیا کئے جاتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ کار خیر کا یہ جذبہ پورے سال اور ہر مسلمان کی پوری زندگی پر محیط ہو۔

          ہم خوش نصیب ہیں کہ رحمت و مغفرت اور ایک انتہائی با برکت رات اپنے دامن میں لیے ہوئے یہ مہینہ ہماری زندگی میں آیا ہے اللہ نے ہمیں بے حد و بے حساب اجر سے نوازنے کےلئے پکارا ہے قدرت نے ہمیں اپنا تزکیہ کرنےکا موقع عنایت فرمایاہے ہمارے سامنےہدایت کی شاہرہ کھلی ہوئی ہے اگر خود کو اس راہ کا مسافر بنانا ہے اور رمضان سے بھر پور فیض حاصل کرنا ہے تو پوری یکسوئی اور توجہ کے ساتھ اپنے خالق و معبود کی طرف متوجہ ہو کر اپنی روح کی بالیدگی کا سامان کر لیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور قربت حاصل کرنے کے لئے "ترک " کی لذت سے آشنا ہوکر بے شمار فیوض و برکات اور رضائے الٰہی کا سامان کریں۔

          اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک کی برکتوں سے مالا مال کرے۔


Maut O Zindagi

خواجہ شمس الدین عظیمی


حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ارشاد اور اولیا ء اللہ کا قول بھی ہے ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پا یا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے ۔ سپیس کا علم علم کی تجلی کو دیکھتا ہے ۔ جب سپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جا ئے ، کا نوں سے سنا ئی دے تو تجلی نظر آتی ہے ۔قر آن کر یم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کسی کو طا قت نہیں کہ اللہ سے کلام کر ے مگر تین طر یقوں سے (۱)وحی کے ذریعہ  (۲)رسول کے ذریعے یا (۳)حجاب سے ۔یہ تینوں سپیس میں حجاب بھی سپیس ہے وحی اسے کہتے ہیں جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جا ئے اور پر دے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجا ئے اور ایک آواز آتی ہے ۔ فر شتے کے ذریعے یا رسول اللہ کے ذریعے کہ معنی یہ ہیں کہ فر شتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طر ف سے بات کر تا ہے اور حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کو ئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طر ح بات کر تی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے حا لانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے بلکہ حجاب ہے ۔