Topics
حضرت داؤد علیہ السلام
حضرت داؤد علیہ السلام حضرت یعقوب کے پوتے تھے
آپؑ یروشلم
کے ایک گاؤں بیت لحم میں رہتے تھے۔ آٹھ بھائیوں میں سب سے چھوٹے بھائی تھے۔ بھیڑ
بکریاں چراتے تھے۔ رنگ انار کی طرح سرخ تھا۔ آنکھیں گول تھیں، چہرے پر ہلکی خشخشی
داڑھی تھی۔ قد چھوٹا تھا لیکن نہایت وجیہہ تھے ۔بہادر اور طاقت ور تھے۔ جوانمردی
کا یہ عالم تھا کہ شیر یا بھیڑیا اگر بکریوں اور بھیڑیوں پر حملہ آور ہوتا تو آپ
اسے مار ڈالتے تھے۔حضرت داؤد علیہ السلام فلاخن (سنگریزوں سے بھری ہوئی تھیلیاں)
چلانے میں ماہر تھے۔ فلاخن اور عصا ہر وقت ہاتھ میں رہتا تھا۔ فلاخن چلانے میں
حضرت داؤد علیہ السلام کی مہارت کا چرچا عام تھا۔ فلاخن اتنی طاقت سے پھینکتے کہ
جس چیز پر بھی گرتا تھا، ریزہ ریزہ ہو جاتی تھی۔ گفتگو نہایت شیریں تھی۔ مہذب اور
باادب تھے۔ پورے علاقے میں آپ کی قدر و منزلت تھی۔ بانسری اور بربط بجانے میں آپ
کو کمال حاصل تھا۔حضرت طالوتؑ کے دربار تک آپ کی رسائی تھی۔ آپ نے عبرانی موسیقی،
مصری اور بابلی مزامیر (بانسریاں، مطربوں کے ہر قسم کے ساز) کو ترقی دے کر نئے نئے
آلات ایجاد کئے تھے۔
حضرت طالوتؑ کے دربار تک آپ ؑ کی رسائی تھی حضرت
سموئیلؑ کو عمر کے آخرے حصے میں وحی کے ذریعے حضرت داؤد علیہ السلام کی نبوت اور
بادشاہت کی اطلاع دے دی گئی تھی۔ حضرت سموئیلؑ بیت لحم تشریف لائے اور حضرت داؤد
علیہ السلام سے ملاقات کر کے انہیں خیر و برکت کی دعا دی۔
ایک روز حضرت داؤد علیہ السلام جنگل میں سے گزر
رہے تھے کہ راستے میں پڑے ہوئے ایک پتھر نے مخاطب کر کے کہا "’’میں حجر موسیٰ ؑ ہوں، مجھے اٹھا لیجئے۔ میں وہی
پتھر ہوں جس سے حضرت موسیٰ ؑ نے فلاں دشمن کو ہلاک کیا تھا۔‘‘آپ نے پتھر اٹھا کر اپنے تھیلے میں رکھ لیا۔ کچھ فاصلہ طے
کیا تھا کہ ایک اور پتھر بولا!’’میں حجر ہارونؑ ہوں۔‘‘آپ نے اسے بھی اپنے تھیلے میں رکھ لیا۔ تھوڑی دور جانے کے
بعد ایک پتھر اور ملا اس پتھر نے کہا!’’
میں حجر داؤدؑ ہوں۔
جو خدا کے نبی ہیں اور میرے ذریعے جالوت کو ماریں گے۔‘‘قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ تینوں پتھر تھیلے میں جا کر ایک
ہو گئے۔
حضرت طالوتؑ اور جالوت کی کثیر التعداد فوج کا
جب آمنا سامنا ہوا تو فوج کا سپہ سالار جالوت زرہ اور خَود پہن کر میدان میں اترا
اور مبازرت کے لئے للکارا۔ جالوت کا قد چھ ہاتھ(*توراۃ میں ۶ ہاتھ کا مطلب ۹ فٹ ایک بالشت ہے) ایک بالشت تھا۔ جو زرہ پہنی
ہوئی تھی اس کا وزن پانچ ہزار مشقال(ایک مشقال برابر ہے ۲؍۱ ۴ ماشہ۔ جبکہ ایک تولہ میں ۱۲ ماشہ ہوتے ہیں۔ اس حساب سے ۵۰۰۰ مشقال وزن ۱۸۷۵ تولے یا ۵۰،۲۱ کلو گرام کے برابر ہے)۔ ٹانگوں پر پیتل کے سات یوش(*موزے۔ میوزیم میں
پرانے زمانے کے بادشاہوں کے جنگی لباس جن میں پیتل کا سینہ بند، لوہے کا خود، چہرے
کے سامنے زنجیریں اور پیرسے گھٹنوں تک پیتل کے موزے رکھے ہوئے ہیں۔ اس زمانے کے
لوگوں کی قوت کا اندازہ یہ لباس دیکھنے سے ہوتا ہے۔ سیروں وزن کے لباس پہن کر
میدان میں داد شجاعت دیتے تھے) اور دونوں شانوں کے درمیان پیتل کی برچھی تھی۔
بھالے لوہے کی شہتیر کی مانند تھے اور نیزے کا پھل چھ سو مشقال لوہے کا تھا جسے
ایک سپاہی جالوت کے آگے آگے لے کر چلتا تھا۔
میدان جنگ میں جالوت للکارا۔ آواز اتنی رعب دار
تھی کہ میدان میں گونجار پیدا ہو گئی۔ جب مدمقابل کوئی نہیں آیا تو حضرت داؤد علیہ
السلام نے حضرت طالوتؑ سے اجازت طلب کی اور میدان میں آ گئے۔ آپ کے ہاتھ میں نہ
تلوار تھی نہ برچھی۔ ایک ہاتھ میں بکریوں کو سنبھلانے کے لئے لاٹھی تھی اور دوسرے
ہاتھ میں فلاخن اور کندے پر سنگریزوں سے بھرا ہوا تھیلا لٹک رہا تھا۔نو عمر اور قد
و قامت میں کم نوجوان کو دیکھ کر جالوت نے قہقہہ لگایا اور تمسخر سے بولا ’’کیا تو مجھے کتا سمجھ کر ڈنڈے سے بھگانے آیا
ہے۔‘‘
حضرت داؤد علیہ السلام نے تھیلے میں سے پتھر نکالا
اور فلاخن میں رکھ کر جالوت کی طرف پھینکا۔ فلاخن میں سے نکلا ہوا پتھر ماتھے کی
ہڈی کو توڑ کر کھوپڑی میں گھس گیا۔ کبر و نخوت کا پتلا، دیوہیکل جالوت منہ کے بل
زمین پر گر پڑا۔ حضرت داؤد علیہ السلام آگے بڑھے اور اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم
کر دیا۔فلسطینی فوج اپنے سردار کا کٹا ہوا سر دیکھ کر سراسیمہ ہو گئی۔ بنی اسرائیل
کی فوج نے حواس باختہ دشمن پر حملہ کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر
اسرائیلیوں کو فاتح قوم بنا دیا۔
اس شجاعت، بہادری اور جوانمردی کی وجہ سے حضرت
داؤد علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں انتہائی مقبولیت حاصل ہوئی۔ حضرت طالوتؑ نے
اپنی بیٹی عینیاہ کی شادی حضرت داؤدؑ سے کر دی۔ اور ہر ایک ہزار فوجی جوانوں کا
دستہ آپ کی کمان میں دیدیا۔
’’اے داؤد! ہم نے کیا تجھ کو نائب ملک میں، سو تو حکومت کر
لوگوں میں انصاف سے اور خواہش کی پیروی نہ کر کہ تجھ کو بھٹکا دے اللہ کی راہ سے،
جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں ان کو سخت عذاب ہے کہ انہوں نے حساب کے دن کو
بھلا دیا۔‘(سورۃ ص۔ ۲۶)
حضرت طالوتؑ کی وفات کے بعد حضرت داؤد علیہ
السلام مقام نبوت سے سرفراز ہوئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام ان نبیوں میں سے تھے
جنہیں اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ ساتھ بادشاہی بھی عطا کی تھی۔
حضرت داؤد علیہ السلام کی شجاعت، علم و حکمت
اور فکر و تدبیر سے بنی اسرائیل کا شمار جلد ہی دنیا کی مہذب اقوام میں ہونے لگا۔
بہت سے علاقے بنی اسرائیل کے زیر تسلط آ گئے اور ایک عالیشان سلطنت وجود میں آ
گئی۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے شرعی حدود جاری کیں۔ کافروں اور بندگان خدا کو نیکی
کی تلقین کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کمال درجے کا فہم و ادراک اور عقل و دانش عطا
فرمائی تھی۔
’’اور ہم نے ان کی سلطنت کو مستحکم کیا اور ان کو حکمت عطا کی
اور بات کا فیصلہ کرنا سکھایا۔‘‘(ص۔۲۰)
حضرت داؤد علیہ السلام کے معمولات میں شامل تھا
کہ آپ ایک روز روزہ رکھتے تھے اور ایک روز ناغہ کرتے تھے اور تہائی رات میں عبادت
کے لئے اٹھتے تھے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کو زبور عطا ہوئی۔ زبور
پانچ کتابوں پر مشتمل ہے ہر کتاب میں متعدد ’’مرموز‘‘ ہیں۔ ہر مرموز یا حصہ اللہ
کریم کی حمد و ستائش، عاجزی اور دنیا و آخرت میں بھلائی اور اللہ کی پناہ مانگنے کی
دعاؤں پر مشتمل ہے۔ حوادث زمانہ سے زبور بھی متاثر ہوئی زبور اپنی صورت محفوظ نہیں
ہے۔
حضرت داؤدؑ بہت خوش الحان تھے۔ جب آپ لحن کے
ساتھ زبور کی تلاوت کرتے تھے تو چلتا پانی ٹھہر جاتا تھا۔ اڑتے ہوئے پرندے آپ کے
قریب آ کر بیٹھ جاتے تھے ۔پہاڑ اور چرند پرند آپ کے ساتھ اللہ کی حمد و ثنا اور
تسبیح کرتے تھے۔
’’ہم نے تابع کئے پہاڑ، اس کے ساتھ پاکی بولتے شام کو اور صبح
کو اور اڑتے جاندار جمع ہو کر، سب تھے اس کے آگے رجوع رہتے۔‘‘
(سورۃ ص: ۱۹۔۱۸)
آوازیں ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ آواز آپس میں
رابطے کا ذریعہ اور معلومات کے تبادلے کا ایک طریقہ ہے۔ آواز کی بدولت ہم بہت ساری
چیزوں کو جانتے ہیں اور بہت سی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ درختوں میں بیٹھی
ہوئی چڑیوں کی چہکار، ہوا کی سائیں سائیں، کوؤں کا کائیں کائیں کرنا، کوئل کی کوک،
بلبل کا ترانہ، پنگوڑے میں کھیلتے بچوں کی کلکاریاں، گلی میں پھرنے والے کی صدا،
کارخانوں میں متحرک مشینوں کی گڑگڑاہٹ، ہوائی جہازوں کا شور اور لاتعداد دوسری
آوازیں ہماری سماعت سے ٹکراتی رہتی ہیں بہت سی آوازیں ایسی بھی ہیں جو ہمیں سنائی
نہیں دیتیں۔ یہ آوازیں ہماری سماعت سے تو ٹکراتی ہیں مگر ہمارے کان انہیں نہیں
سنتے ان آوازوں کی طول موج ہماری عام سماعت سے زیادہ یا کم ہوتا ہے۔
سائنس نے انکشاف کیا ہے کہ انسان کی سماعت کا
دائرہ، بیس ہرٹزسے بیس ہزار ہرٹز فریکوئنسی تک محدود ہے۔جبکہ ورائے صوت موجوں کی
فریکوئنسی بیس ہزار ہرٹزسے دو کروڑ ہرٹزتک ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہم ان آوازوں کو سن
نہیں سکتے۔
موج مخصوص فاصلے کو اوپر نیچے حرکت کرتے ہوئے
طے کرتی ہے۔ یہ اس کا طول موج کہلاتا ہے۔ طول موج میں ایک حرکت اوپر کی طرف ہوتی
ہے اور ایک حرکت نیچے کی جانب ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ اوپر اور ایک مرتبہ نیچے دونوں
حرکتیں مل کر ایک چکر
(Cycle) پورا
کرتی ہیں اور ایک سیکنڈ میں کسی موج کے جتنے سائیکل گزر جاتے ہیں وہ موج کی
فریکوئنسی کہلاتی ہے۔ طول موج زیادہ ہو تو فریکوئنسی کم ہوتی ہے۔ جبکہ طول موج کم
ہونے کی صورت میں فریکوئنسی زیادہ ہوتی ہے۔فریکوئنسی اگر بہت بڑھ جائے تو لہریں یا
موجیں شعاعیں بن جاتی ہیں۔ جو سیدھی چلتی ہیں۔ کم طول موج اور زیادہ فریکوئنسی
ہونے کی وجہ سے ان لہروں کی کسی چیز میں سے گزر جانے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔
پیچیدہ امراض کی تشخیص و علاج، صنعت و حرفت اور
تحقیق و تلاش کے لئے الٹرا ساؤنڈ ویوز کا استعمال اب عام ہو گیا ہے۔ صدائے بازگشت
کے اصول اور آواز کے ارتعاش کی بنیاد پر یہ لہریں کام کرتی ہیں۔ یہ مختلف حالتوں
کے درمیان مادے میں امتیاز کر سکتی ہیں۔
قرآن کریم میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
ہے کہ ہر چیز ہماری حمد و ثناء بیان کرتی ہے یعنی کائنات میں موجود ہر شئے بولتی،
سنتی اور ایک دوسرے کو پہچانتی ہے۔
’’ساتواں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں اللہ کی عظمت بیان
کر رہی ہیں جو آسمان اور زمین میں ہیں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ
اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔‘‘(سورۃ بنی اسرائیل۔ ۴۴)
پرندوں اور پہاڑوں کاحضرت داؤد علیہ السلام کے ہمراہ کی تسبیح کرنے
کی توجیہہ میں شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ قوی ہمت والا نفس جب کسی کیفیت سے بھر
جاتا ہے تو اس کے قریب رہنے والے نفوس اور ان کی طبیعت میں بھی اس کی کیفیت سرائیت
کرتی ہے اور جب وہ کسی پتھر یا درخت سے وقت کے موافق کوئی معرفت سنتا ہے تو اس کی
قوت دوسرے لوگوں میں بھی سرایت کرتی ہے اور پھر وہ بھی اسی طرح سنتے ہیں جس طرح اس
نے سنا تھا۔
’’اور ہم نے دی داؤد کو اپنی طرف سے بڑائی، اے پہاڑو پڑھو اس
کے ساتھ اور اڑتے پرندو۔ اور نرم کر دیا ہم نے اس کے آگے لوہا کہ بنائے کشادہ
زرہیں اور اندازے سے جو ڑ کر کڑیاں، اور کرو تم سب سے کام بھلا میں جو کچھ کرتے ہو
دیکھتا ہوں۔‘‘(سورۃ سبا: ۱۰۔۱۱)
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کو لوہے کے استعمال
پر قدرت عطا فرمائی تھی اور آپ لوہے کو ہاتھوں کے ذریعے ڈھالنے پر ملکہ رکھتے تھے۔
آثار قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ لوہے کا باقاعدہ استعمال پہلے پہل ۱۰۰۰ ق م سے ۱۲۰۰ ق م میں ہوا اور یہ حضرت داؤدؑ کے دور کا
زمانہ ہے۔آپ کے زمانے میں لوہے کو پگھلانے اور اس سے چیزیں تیار کرنے کے طریقے
دریافت ہو چکے تھے لیکن وہ اتنے پیچیدہ تھے کہ ان سے تیار کی جانے والی اشیاء بہت
قیمتی تصور کی جاتی تھیں۔ حضرت داؤدؑ نے آہن سازی کے نئے طریقوں کو فروغ دیا جس کی
بدولت لوہے کا استعمال عام ہو گیا اور اس تحقیق کی بدولت آپ کی قوم کو جنگوں میں
بھی برتری حاصل ہونے لگی۔ کیونکہ اس زمانے میں جنگ کے دوران حفاظت کا سب سے موثر
ذریعہ زرہیں اور خود تھے۔ آپ نے آہن سازی کی صنعت کو عروج پر پہنچا دیا۔
موسیقی، ساز اور آواز میں خوبصورت آہنگ ہے۔ نئے
سُر اور ساز تخلیق کرنا اس وقت ہی ممکن ہے جبکہ موسیقار ساز و آواز کے قوانین سے
واقف اور ان پر عبور بھی رکھتا ہو۔ حضرت داؤدؑ خوش الحان تھے اور آوازوں کے علم کے
ماہر تھے۔ ان صلاحیتوں کی بناء پر آپ نے عبرانی موسیقی کو نئے زاویے دیئے اور اس
کے اصول مدون کئے۔ ساتھ ہی آپ نے مصری اور بابلی مزامیر پر تجربات کئے اور نئے
آلات موسیقی ایجاد کئے۔
حضرت داؤدؑ ذکر الٰہی میں مشغول تھے کہ اندر کی
آنکھ نے دیکھا کہ بیت المقدس پر ملائکہ اتر رہے ہیں۔ بیت المقدس جالوت نے منہدم
کرا دیا تھا اور اس کا نام و نشان مٹ چکا تھا۔ آپ نے رب کریم کے حضور استدعا کی کہ
بیت المقدس کی تعمیر کو ان کی نیکیوں میں سے ایک نیکی بنا دے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے دور میں لوگوں نے
سنیچر کے دن کا احترام ترک کر دیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے مطابق
بنی اسرائیل کو سنیچر کے احترام کی تاکید کی گئی تھی، انہیں حکم تھا کہ ہفتہ کا دن
عبادت کے لئے مخصوص ہے اس روز شکار نہ کریں اور دنیاوی مشاغل ترک کر دیں۔ شہر ایلہ
میں آباد اسرائیلیوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جمعہ کے دن دریا کے کنارے بہت سے
گڑھے کھود دیتے تھے اور نالیاں بنا کر دریا کا پانی گڑھوں میں جمع کر دیتے تھے۔
پانی کے ساتھ مچھلیاں بھی گڑھوں میں پہنچ جاتی تھیں جنہیں وہ اتوار کی صبح پکڑ
لیتے ۔ اس تدبیر سے بنی اسرائیل ہفتہ کے دن کے کاروباری نقصان کو پورا کر لیتے
تھے۔
حضرت داؤدؑ نے انہیں اس عمل سے باز رہنے کی
ہدایت کی لیکن بنی اسرائیل نے یہ وطیرہ ترک نہیں کیا۔ نافرمانی کی سزا کے طور پر
ان کی شکلیں مسخ کر کے بندر بنا دیا گیا عقل و حواس تو قائم رہے لیکن قوت گویائی
ختم ہو گئی۔ ان کے جسم سے بدبو کے بھپکے اٹھنے لگے اور تین روز تک روتے روتے مر
گئے۔ ان کی تعداد تقریباً ستر ہزار بتائی جاتی ہے۔
’’اور جان چکے ہو کہ جنہوں نے تم میں زیادتی کی ہفتے کے دن
میں، تو ہم نے کہا ہو جاؤ بندر پھٹکارے ہوئے۔‘‘(سورۃ البقرہ۔ ۶۵)
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے شکلیں مسخ ہونے کی تشریح
اس طرح کی ہے کہ:
’’مچھلی فاسد المزاج اور بدبودار ہوتی ہے۔ اللہ کے حکم کے
خلاف، نافرمانی کر کے جب بنی اسرائیل اس کو کھاتے رہے تو ان میں فساد مزاج سرائیت
کر گیا اور ان کے جسم مثالی میں بگاڑ پیدا ہو گیا۔ (اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ
تعالیٰ کے منع کرنے کے بعد غذا حرام ہو گئی) حلال خوراک سے جو انرجی بنتی تھی اس
میں تبدیلی آ گئی۔ یہ تبدیلی بڑھتے بڑھتے جب تکمیل کو پہنچ گئی تو ان کے جسموں پر
بندروں کی طرح بال نکل آئے وہ بندر بن گئے اور ان پر ذلت و رسوائی مسلط ہو گئی۔
حضرت داؤدؑ کے واقعہ میں تفکر موجودہ دور کی جدید ترین
ایجاد"لیزر بیم" کے اسرار پر سے پردہ اٹھاتا ہے۔
روایت ہے کہ حضرت داؤدؑہاتھوں میں ایسی توانائی
تھی کہ ’’لوہا‘‘ ان کے ہاتھوں میں موم کی طرح نرم ہو جاتا تھا۔ اور وہ بڑی آسانی
سے لوہے کو ہاتھوں سے موڑ کر زرہ اور کڑیاں بنا کرزنجیر بنالیتے تھے اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت
داؤدؑ لیزر شعاعوں سے واقف تھے اس لئے جب وہ لیزر شعاعوں کا استعمال کرتے تھے تو
سخت لوہا نرم ہو جاتا تھااور وہ اس سےزرہ کڑیاں زنجیر یں اور خود بنالیتے تھے۔
اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں یہ معلوم ہونا
چاہیئے کہ لیزر کیا ہے اور کس طرح کام کرتا ہے؟لیزر واحد رنگ کی ایک طاقتور اور
توانا ترین شعاع ہے جو کہ سخت سے سخت دھات کو لمحوں میں پگھلا سکتی ہے لفظ لیزر
انگریزی حملے " لائٹ ایمپلی نیکیشن بائی اسٹی میو لیٹڈ ایمیشن آف ریڈی ایش کا
مخف ہےتوانا ترین شعاع افشانی کے ذریعے روشنی کا پھیلاؤ "۔
لیزر شعاع اور عام روشنی میں یہ فرق ہے کہ عام
روشنی سات مختلف رنگوں سے مل کر بنی ہے لیکن لیزر یک رنگ شعاع ہے۔ عام روشنی کو
منشور میں سے گزارا جائے تو وہ سات مختلف رنگوں میں تقسیم ہو جاتی
ہے لیکن لیزر شعاع منشور میں سے گزرنے کے بعد بھی اپنے ایک رنگ میں برقرار رہتی
ہے۔
عام روشنی کی بیم ۱۰۰۰ فٹ دور کسی دیوار پر ڈالی جائے تو روشنی
تقریباً ۲۰۰ فٹ علاقہ میں پھیل جائے گی اور اس کی طاقت کم ہو جائے گی جبکہ لیزر شعاع
کا پھیلاؤ زیادہ سے زیادہ آدھ یا ایک فٹ ہو گا اور اس کی طاقت بھی برقرار رہے گی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عام روشنی میں شامل ہر رنگ کی لہر کا طول موج مختلف ہوتا ہے۔جب
ایک لہر کا فراز دوسری لہر کے نشیب سے ٹکراتا ہے تو وہ ایک دوسرے کو رد کر دیتے
ہیں اور یہی وجہ ہے کہ روشنی اپنے منبع سے اخراج کے بعد مختلف سمتوں میں سفر شروع
کر دیتی ہے۔ جبکہ لیزر شعاع میں لہروں کے نشیب و فراز یکساں ہوتے ہیں اس لئے یہ
ایک دوسرے میں پیوست اور متحد رہتی ہیں اور ایک سیدھ میں طویل فاصلہ طے کر لیتی
ہیں اور ہمیشہ یکساں حالت میں رہتی ہیں۔لیزر کی کہاںی تب شروع ہوئی جب طبیعات دان
ایٹم کے راز فاش کررہے تھے ۔1920 ء میں امریکی طبیعات داں ٹی ایچ مائی مین نے پہلا
لیزر عملی طور پر بنایا اس نے مصنوعی یاقوت کی ایک سلنڈر نما سلاخ استعمال کی جس
کے سروں کو کاٹ دیا گیا تھا اور پالش کر کے بالکل ہموار اور متوازی بنا لیا گیا
تھا اس سے مختصر فاصلے تک جانے والی خالص سرخ روشنی کی لہریں خارج ہوئیں جن کی شدت
سورج کی کرنوں سے ایک کروڑ گنا زیادہ
بتائی جاتی ہےآج بھی سب سے طاقتور لیزر وہی ہے جس میں " یاقوت"
استعمال کیا جائے۔
روبی لیزر (یاقوت والے لیزر) کے بعد 1920 ء ہی
میں گیس لیزر بنایا گیا اسےامریکا کی مشہور فرم بیل ٹیلی فون لیبارٹریز میں ڈی آر
ہور یوٹ اے جیون اور ڈبلیو آر بینٹ نے بنایا گیس لیزر سے مسلسل شعاع حاصل ہونے
کےباوجود اس کی طاقت روبی لیزر سے کم ہے جس کی شعاع غیر مسلسل ہے۔
لیزر اور اس کی کارکردگی سمجھنے سے پہلے ایٹم سے متعلق چند بنیادی معلومات کا
ہونا ضروری ہے۔
یونانی زبان میں "ایٹم" کے معنی ہیں " نہ تقسیم
ہونے والا" یونانی زبان میں ٹوم تقسیم کرنے کو کہتے ہیں، آریائی زبانوں میں
’’آ‘‘ نفی کا کلمہ ہے جس طرح ہندی زبان میں " اٹل " کے معنی "نہ ٹلنے والا" کے ہیں اسی
طرح یونانی زبان ایٹم کے معنی " نا قابل تقسیم " کے ہیں ۔
ایٹم
کا نام یونان کے فلسفی دمقراط کا وضع کردہ
اس کا نظریہ تھا کہ دنیا کی ہر شئے نہایت چھوٹے چھوٹے ناقابل تقسیم ذروں ( ایٹموں)
سے بنی ہے۔اس کے خیال میں ہر ایٹم کا سائز
ا ہے لیکن وہ اتنا کم ہےکہ آنکھ سے دکھائی نہیں دے سکتا بعد کی تحقیقات سے ثابت ہو
گیا کہ ایٹم کا سائزایک انچ کا ڈھائی کروڑواں حصہ (1,25,000,000) ہےگویا سوئی کی نوک پر لاکھوں ایٹم رکھے جا
سکتے ہیں۔پنسلونیا یونیورسٹی مین چند سال پہلے ایک الیکٹرونک خوردبین کی مدد سے
ایٹم کو 2,75,000 گنا
زیادہ بڑا کر کے نہ صرف دیکھا گیا بلکہ ایٹم کے اولین فوٹو گراف بھی لیے گئے۔
دمقراط کے مطابق " ہلکی اشیاء کے ایٹم ہلکے اور بھاری اشیاء کے
ایٹم بھاری ہوتے ہیں بشمول انسان تمام جانداروں کی روح بھی ایٹموں سے مرکب ہے۔ روح
کے ایٹم باقی تمام اشیاء کے ایٹموں سے چھوٹے اور لطیف ہوتے ہیں۔ موت کے بارے میں
دمقراط کا خیال تھا کہ جب روح کے تمام ایٹم جسم سے نکل جاتے ہیں تو موت واقع ہو
جاتی ہے۔
ایٹم کے جدید نظریہ برطانیہ کے ماہر طبیعات جان ڈالٹن نے 1808 میں پیش کیا
ڈالٹن نےکہا کہ مادہ خواہ کسی بھی شکل میں ہو،ایٹموں سے بنتا ہے کسی عنصر کے تمام
ایٹم سائز اور وزن میں ایک جیسے ہوتے ہیں اور جو خصوصیات کسی عنصر کی ہوتی ہیں وہی
تمام خصوصیات ہو بہو اس کے ایٹم کی بھی ہوتی ہیں ایٹموں کی باہمی ترکیب اور اتحاد
سے "سالمہ" بنتا ہے اگر چہ ایٹموں کے مختلف مرکبات سے مختلف اشیاء بنتی
ہیں لیکن سالمے کے ایٹم کبھی تبدیل نہیں ہوتے ڈالٹن نے بتایا کے خاص اشیاء بنانے کیلئے ایٹم خاص مرکبات کی صورت یکجا اور
متحد ہو جاتے ہیں مثال کے طور پر ہائیڈروجن کے دو ایٹم نائٹروجن کے ایک ایٹم کے
ساتھ مل کر امونیا بناتے ہیں۔
برطانیہ کا مشہور طبیعات
داں سر جے جے تھامس پہلا شخص تھا جس نے
طویل تحقیقات کے بعد بتا یا کہ ایٹم کے اند برقی لحاظ سے مثبت میدان ہوتا ہے جس
میں منفی الیکٹڑون باہم گتھے ہوئے ہوتے ہیں" الیکٹرون" کی دریافت کا
سہرا جے جے تھامسن کے سر ہے۔
تھامس کے بعد لارڈ تھرفورڈ نے نظر یہ پیش کیا کہ
ایٹم میں انتہائی مضبوط مرکزہ یا نیوکلیس
ہوتا ہے جس کے گرد بہت سے الیکٹران گردش کرتے ہیں " مرکزہ" مثبت برق دار
ہوتا ہےاور ایٹم کی اصلیت وقوت اسی مرکزہ پر منحصر ہے رتھر فورڈ نے یہ بھی بتا یا
کہ ایٹم زیادہ تر کھوکھلا ہوتا ہےیا " خلا" پر مشتمل ہے۔
ایٹم کے
مرکز ے میں پروٹونز کی تعدادمرکزے کے گرد مدار میں موجود الیکٹرونز کی تعداد کے
برابر ہوتی ہےایٹم جتنا چھوٹا ہوتا ہےاس کے اندر " خالی پن " اتنا زیادہ
ہوتا ہے۔
ایٹم کے اندرخلا کو سمجھنے کیلئے تخیلاتی طور
پر اپنے ذہن میں ایٹم کے مرکزے کو ایک فٹ بال کے برابر تصور کر لیں اس تناسب سے
الیکٹرون مرکزے سے ایک ایک میل کے فاصلے پر اپنے اپنے مدار پر گھومتے ہوئے ایک
دائرہ بنارہے ہوں گے اس دائرے کا قطر ایک سرے سے دوسرے سرے تک دو میل ہوگا اب پورے
دائرے پر نظر ڈالیں ، کتنی ٹھوس ہے اور کتنی جگہ خلاء ہے اس تخیلاتی ایٹم کی تمام کمیت جوکہ ایٹم کے وزن کی زمہ دار ہے
اس کے مرکزے میں جمع الیکٹرون جو اس کے گرد فاصلے پر گھو م رہے ہیں فی الحقیقت
بالکل بے وزن ہیں آسان اور سادہ ترین ایٹم ہائیڈروجن کا ہے جس کو بعض سائنسدان
" بنیادی ایٹم" کہتے ہیں یہ سب سے ہلکا ہے اس کے مرکزے میں صرف ایک ذرہ
پروٹون ہوتا ہے اور اس کے گرد صرف ایک الیکٹرون گھومتا ہےایٹم کو سمجھنے کیلئے
نظام شمسی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جس طرح نظام شمسی کا مرکز سورج ہے جس کے گرد
سیارے اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں اسی طرح ایٹم کے قلب میں مرکزہ ہے او راس
کے گرد الیکٹران سیاروں کی مانند اپنے مداروں میں گھوم رہے ہیں سوال یہ ہے کہ
الیکٹرون مرکزے کے گرد کیوں گھومتے ہیں وہ کون سی قوت ہے جو الیکٹرونوں(سیاروں) کو
مرکزے(سورج) کے گرد گھمائے رکھتی ہے۔؟
جواب یہ ہے کہ مثبت برق دار زرہ اس ذرے کیلئے
زبردست کشش رکھتا ہے جو منفی برق دار ہے تمام الیکٹران منفی چارج کے حامل ہوتے ہیں
مرکزے میں مثبت برق دار ذرہ پروٹون ہوتا ہے مثبت اور منفی کی باہمی کشش مرکزے
اورالیکٹروں کو ایک دوسرے سے باہم مربوط و پیوست رکھتی ہے ایٹمی پیمانے کے دوسرے
انتہائی سرے پر یورینیم کا ایٹم ہے جو تمام قدرتی عناصر میں سب سے بھاری ہے اس کے
مرکزے کے گرد 92 الیکٹرون گھومتے ہیں۔
چونکہ ایٹم کا تمام تر وزن فی الحقیقت اس کے
پروٹون میں ہوتا ہے اس لئے یہ فرض کیا گیا کہ ہیلئیم کے ایٹم کا وزن ہائیڈروجن کے
ایٹم سے دگنا ہوگا ور لیتھیئم کے ایٹم کا وزن ہائیڈروجن کے ایٹم سے تین گنا ہونا
چاہیے چوتھا عنصر بیری لیم جو چار پروٹون اور چار الیکٹرون پر مشتمل ہے اسے ہائیڈروجن
سے چار گنا وزنی ہونا چاہیے لیکن صورتحال مختلف ہے اس کا وزن نو گنا زیادہ ہوتاہے۔
اب سائنسدانوں کے سامنے یہ سوال درپیش تھا کہ
یہ فالتو وزن کہاں سے آگیا اس کی تحقیق میں سر جیمز چیڈوک نے "نیوٹرون" دریافت کیا کہ یہ
ایٹمی ذرہ ہے اور جوہری توانائی کا پورا نظریہ
اس ذرے پر منحصر ہے سر چیڈوک نے دریافت کیا کہ نیوٹرون کا وزن لگ بھگ وہی ہے جو
پروٹون کا ہے لیکن یہ برقبار نہیں ہوتا ایٹم کے اندرونی نظام میں اس کا کام کمیت
بڑھانا ہے اس صورت میں کہ کمیت بڑھانے کے معاوضہ میں فالتو الیکٹران کا تقاضہ نہ
کرے اس دریافت پر اسے 1935 میں طبیعات کا نوبل انعام دیا گیا۔
مختلف ایٹموں کا وزن مختلف ہونےکا راز فاش ہونے
کےبعد پتہ یہ چلا کہ ہائیڈروجن کے سوا بقیہ تمام عناصر کے مرکزوں میں نیوٹرون کی تعداد کم
ازکم اتنی ضرور ہوتی ہے جتنے کہ پروٹون ہوتے ہیں اورکبھی کبھی یہ تعداد زیادہ بھی
ہو جاتی ہے۔
ایٹم کے اندرونی نظام کی ایک اور دلچسپ اور
مفید سراغ رسانی روس کے سائنس داں ومتری مند یلیف نے کی اس نے دریافت کیا کہ عناصر
میں باقاعدہ کیمیائی مشابہت پائی جاتی ہے اس نے عناصرکا " میعادی نقشہ"
مرتب کیا جسسے ظاہر ہوا کہ عناصر کے بعض گروپ یکساں قسم کی خصوصیات کے حامل ہوتے
ہیں حالانکہ ان کے ایٹمی وزن بالکل مختلف ہوتے ہیں عناصر کےان گروپوں کا نام
خاندان رکھا گیامثال کے طور پر تمام جامد گیسیں(ہیلیم 'نیون' کریپٹان'ریڈان) مقررہ
سانچے کے ایک خاندان سے تعلق رکھتی ہیں تانبے چاندی اور سونے کا پنا الگ خاندان ہے۔
جیساکہ اوپر بیان کیاجاچکا ہے ک ہر ایٹم میں
الیکٹران کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔یہ الیکٹرون مرکزے کے گرد بلامقصد بے ہنگم اور بے
ترتیبی سے بکھرے ہوئے نہیں ہوتے نظریہ کہتا ہے کہ الیکٹرون انتہائی ترتیب اور
توازن کے ساتھ اپنے مداروں میں تہہ در تہہ
گندھے ہوئے ہیں مرکزے کے قریب والی تہہ دو الیکٹرونوں پر مشتمل ہے اس کے ساتھ والی
دوسری تہہ میں آٹھ الیکٹرون اور تیسری تہہ میں بھی آٹھ الیکٹرونوں کی مرکب تعداد
پسند ہے یعنی آٹھ ، سولہ، بتیس وغیرہ اگر ایٹم میں حسن ترتیب کے لحاظ سے الیکٹرونز
کی صحیح تعداد میں موجود نہ ہوتا تو وہ کسی اور عنصر کے ایٹم میں جستجو میں رہتا
ہے تاکہ اس کے الیکٹرونز کی شراکت اور ملاپ سے اپنا بیرونی خول صحیح معنوں میں
مکمل بنا سکے۔
الیکٹرون کا یہ نظریہ کہ وہ اپنے مدار میں
ترتیب سے جڑے ہوئے ہیں اس وقت مفید اور مددگار ثابت ہوتا ہے جب ہم ایٹم کو کیمیائی
شئے خیال کرتے ہیں لیکن یہ نظریہ ایٹم کے طبعی خواص کی وضاحت نہیں کرتا مثال کے
طور پر یہ سوالات ذہن میں آتے ہیں کہ الیکٹرون وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج تھکتے کیوں
نہیں ان کی توانائی میں کمی کیوں آتی وہ ٹوٹ
پھوٹ کر نڈھا ل ہو کر ایٹم کے مرکزے میں کیوں نہیں گر جاتے؟ ان سولات کا یہ جواب ڈنمارک
کے ماہر طبیعات نیلز بوہر نے معلوم کیا بوہر لارڈ رتھر فورڈ کا رفیق کار بھی تھا
اس نے ایک خاصہ پیچیدہ نظریہ پیش کیا جسے آج دنیا بھر میں قبولیت عامہ حاصل ہے اس
نے کہا کہ الیکٹرون مرکزے کے گرد توانائی کی مختلف سطحوں پر ایک خاص ترتیب سے پھیلے
ہوئے گھوم رہے ہیں وہ ایک سطح سے چھلانگ لگا کر دوسری سطح میں داخل ہو سکتے ہیں
لیکن دو سطحوں میں معلق نہیں رہ سکتے، جب کوئی ایٹم کسی بھی قسم کی اشعاع حرارت کو
کاسمک ریز روشنی کی شعاعوں کے زیر اثر آ جاتا ہے تو اس کے الیکٹرانوں میں توانائی
آ جاتی ہے اور وہ چھلانگ لگا کراونچی سطح میں داخل ہو جاتے ہیں جب بیرونی توانائی
ختم ہوجاتی تو الیکٹران چھلانگ کر واپس قریب کی نچلی سطح میں آجاتے ہیں کسی ایٹم کو جب عام حالت میں
توانائی فراہم کی جاتی ہے تو وہ بلند سطح پر چلا جاتا ہے اس حالت کو برانگیختہ
حالت کہتے ہیں قبول شدہ توانائی کی مقدار کو اصطلا ح میں "پیکٹ " کہا
جاتا ہے ایٹم دوبارہ اپنی عام حالت میں آنا چاہتا ہے چنانچہ وہ توانائی جو اس نے
جذب کی تھی روشنی کے چھوٹَ چھوٹَ پیکٹوں کی شکل میں خارج کرتا ہے یہی پیکٹ فوٹون
کہلاتے ہیں اب اگر کوئی ایسا طریقہ استعمال کیا جائے جس کے ذریعہ یہ فوٹون کی ایک
ہی سمت میں اور ایک ہی فیز مِں حرکت کریں ہمیں طاقتور شعاع لیزر حاصل ہو جائےگ ی۔
ہر
شئے کے مالیکیول ایک خاص فریکوئنسی سے حرکت کرتے ہیں۔ ان پر بجلی یا حرارت وغیرہ
اثر انداز ہو تو ہر ایٹم سے جداگا نہ طور پر فوٹون کا اخراج ہوتا ہے۔جس کی دوسرے ایٹموں سے خارج ہونے والے فوٹون سے کوئی
نسبت نہیں ہوتی چنانچہ روشنی کی شعاع برقی مقناطیسی لہروں کا پیچیدہ آمیزہ بن جاتی
ہے لیزرکا اصول یہ ہے کہ فوٹون کا اخراج ہر ایٹم خود نہ کرے بلکہ اسے ایسے اخراج
پر مجبور کیا جائے جس میں فوٹون ایک ہی سمت میں خارج ہوں اور ان سب کا فیز (نشیب و
فراز) ایک ہی ہو۔
بعض عناصر
سے توانائی اشعاع کی صورت میں خودبخود خارج ہوتی رہتی ہے ایسے عناصر میں سب سے
پہلا عنصر جو دریافت ہوا وہ یورینیم تھا لیکن توانائی کا اس سے بھی بڑا ریڈیم ثابت
ہوا ہے یہ دریافت پائے کیوری اور مادام کیوری نے کی۔
انہوں نے دریافت کیا کہ ریڈیم ایک تابکار دھات ہے۔ یعنی اس میں سے
شعاعیں نکلتی ہیں جو دیکھی جا سکتی ہیں اور ان کی پیمائش بھی کی جا سکتی ہے۔تجربات سے انہوں نے حرارت
کی معمولی مقدار حاصل کی جس کی پیمائش بھی ہو سکتی تھی بعض دوسرے سائنس دانوں نے
جو ایک مدت سے ریڈیم کا مطالعہ کر رہے تھے دریافت کیا کہ ریڈیم کی شعاعیں ماپی بھی
جا سکتی ہیں اور مقناطیسی میدان کے ذریعے ان کا رخ بھی موڑا جا سکتا ہے اور اس عمل
کے دوران میں ریڈیم سے ایک گیس نکلتی ہے جو ہیلیئم سے مشابہ معلوم ہوتی ہے ایسی
گیس جس کے دو الیکٹرون ضائع ہو چکے ہوں اور اس کا ذرہ اتنا چھوٹا اور تیز رفتا ہوتا ہے کہ پتلےشیشے
سے گزر سکتا ہے۔
لارڈ تھرفورڈ فریڈرک سوڈی نے ایک ایسا نظریہ
پیش کیا جس سے ایٹم کی تحقیق میں نئے باب کا اضافہ ہوگیا اول روز سے یہ کہاجارہا
تھا کہ ایٹم ناقابل تقسیم ہے لیکن انہوں نے ثابت کر دیا کہ ایٹم قابل تقسیم ہے،
انہوں نے ثابت کیا کہ ریڈیم کا ایٹم مسلسل انتشار اور تقسیم در تقسیم کی حالت میں
رہتا ہے، فعال ذرات ایک طرف ہو جاتے ہیں اور ایک ہلکا پھلکا ایٹم باقی رہ جاتا ہے
جو طبعی اور کیمیائی لحاظ سے اصلی ریڈیم سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔یہ باقی ماندہ
ایٹم ایک عام سا عنصر ہے جسے سیسہ کہا جاتا ہے۔
مقناطیسی
لہروں پر مشتمل لیزر شعاع اصل میں یک رنگی روشنی کی ایک انتہائی طاقتور صورت ہے جو
کہ طیف کے مرئی حصے کے علاوہ بالا بنفشی اور زیریں سرخ حصہ میں بھی ہوتی ہے۔اس کی مثال مرکری اور
سوڈیم سے خارج شدہ روشنی ہےٹھوس اشیاء کو
کاٹنے اور ان میں سوراخ کرنے کے لئے جو لیزر استعمال ہوتی ہے وہ کاربن ڈائی
آکسائیڈ لیزر کہلاتی ہے جو کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن کے باہم ملاپ سے
پیدا ہوتی ہے۔ یہ نہایت طاقتور اور شدت کی زیریں سرخ شعاعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
ایسی لیزر کسی جسم میں داخل ہو کر اس کی اندرونی توانائی بڑھا دیتی ہے نتیجتاً اس
حصے کا درجہ حرارت لیزر کے ٹکراؤ کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے اور وہ بخارات بن کر اڑ
جاتا ہے۔
تخلیق روشنی کے تانے بانے پر قائم ہے
تخلیقی پروسیس کے مطابق ہر فرد روشنی کے جال پر
نقش ہے۔ یہ جال مفرد اور مرکب لہروں سے بنا ہوا ہے۔ ہر انسان میں مرکب لہروں کے
ساتھ مفرد لہریں بھی موجود ہیں۔ اسمائے الٰہی کے علوم کے تحت مفرد لہروں کو کہیں
بھی عارضی طور پر ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت داؤدؑ جب لوہے کی زرہیں، خود اور
دوسری اشیاء بناتے تھے تو مفرد لہروں یعنی لیزر شعاعوں کو ہاتھوں میں سے گزار دیتے
تھے اور ان کے ہاتھوں میں لوہا مولڈ ہو جاتا تھا اور وہ لوہے کو حسب منشاء موڑ
لیتے تھے اور انگلیوں میں لیزر شعاعوں کو جمع کر کے سامان حرب تیار کر لیتے تھے۔
ترکی کے میوزیم توپ کاپی میں حضرت داؤدؑ کے زمانے کی لوہے کی ہنڈیاں رکھی ہوئی ہے۔
جو اس طرح بنائی گئی ہے کہ جیسے کمہار ہاتھ سے مٹی کی ہنڈیا بناتا ہے۔
کائنات
کی ساخت دو رخوں پر کی گئی ہے۔ کائنات میں بے شمار مخلوقات ہیں۔ ان مخلوقات میں
قابل تذکرہ مخلوقات فرشتے، جنات اور انسان ہیں۔ یہ تینوں مخلوقات ہماری زمین کی طرح
ہر عالم اور ہر زمین پر موجود ہیں۔ ہماری زمین پر بے شمار گیسس بھی ہیں۔ ان گیسس
کو روشنیاں فیڈ کرتی ہیں۔ روشنی لہروں کی صورت میں سفر کرتی ہے۔ فرشتوں اور جنات
کی تخلیق میں مفرد لہریں اور انسان کی تخلیق میں مرکب لہریں کام کرتی ہیں۔ کپڑے کی
مثال سے بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے۔کپڑا تانے بانے سے بنا جاتا ہے۔ تانے اور
بانے کو شعاع یا لہر قرار دے دیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ متحرک لکیریں (دھاگے
کے تار) اگرچہ ایک دوسرے سے الگ ہیں مگر ایک دوسرے میں پیوست بھی ہیں اس کپڑے کے
اندر بہت سے نقش و نگار بنا دیئےجائیں تو یہ انسان اور انسان کی دنیاہے یعنی تانے
بانے یا مرکب لہروں پر نقش و نگار کا نام آدمی ہے ۔
مرکب لہروں کے بجائے ایک سیدھی لہر(ایک دھاگہ)
سے کپڑا بنا جائے اور اس کپڑے کے اوپر اعضاء کے نقوش سے تصویر بنائی جائے تو یہ
فرشتے یا جن کی تصویر ہو گی ایک لہر یا مفردحرکت جنات کی دنیا ہے اور دوسری لہر یا
مرکب حرکت انسان کی دنیا ہے مفرد لہر یا نسمہ مفرد کا جسم مادی آنکھ دیکھ لیتی ہے۔
مفرد لہر ہر شئے میں سے گزر جاتی ہے اگر انسان
کے اوپر مفرد لہر کا غلبہ ہو جائے تو وہ ٹھوس دیوار میں سے گزر سکتا ہے آسمانوں میں
پرواز کر سکتا ہے کسی شئے کی ماہیت قلب میں تبدیلی کر سکتا ہے۔
فرشتوں کیلئے ہماری ٹھوس دنیا کوئی حیثیت نہیں رکھتی وہ موٹی سے موٹی دیوار میں سے اس طرح گزر جاتے ہیں جس طرح ہوا کھلی کھڑکی میں سے گزر کر کمرے میں داخل ہو جاتی ہے اسی طرح جنات بھی مرکب لہروں سے بنےمادے (matter) کے ٹھوس پن سے متاثر نہیں ہوتے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ارشاد اور اولیا ء اللہ کا قول بھی ہے ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پا یا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے ۔ سپیس کا علم علم کی تجلی کو دیکھتا ہے ۔ جب سپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جا ئے ، کا نوں سے سنا ئی دے تو تجلی نظر آتی ہے ۔قر آن کر یم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کسی کو طا قت نہیں کہ اللہ سے کلام کر ے مگر تین طر یقوں سے (۱)وحی کے ذریعہ (۲)رسول کے ذریعے یا (۳)حجاب سے ۔یہ تینوں سپیس میں حجاب بھی سپیس ہے وحی اسے کہتے ہیں جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جا ئے اور پر دے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجا ئے اور ایک آواز آتی ہے ۔ فر شتے کے ذریعے یا رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کہ معنی یہ ہیں کہ فر شتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طر ف سے بات کر تا ہے اور حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کو ئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طر ح بات کر تی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے حا لانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے بلکہ حجاب ہے ۔