Topics

مراقبہ


                شروع سے ہی مجھے غیب کے بارے میں جاننے کا شوق تو تھا ہی۔ مرشد کی رہبری میں غیب کی سیر کے مواقع حاصل ہوئے تو تقاضائے دل کم ہونے کے بجائے اور بڑھنے لگا۔ مرشد پاک نے مجھے کشف القبور کے مراقبے کے اسباق دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے غیب کوانسان کی نظر سے چھپا کر نہیں رکھا بلکہ اللہ تعالیٰ تو انسان کو غیب میں داخل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ البتہ غیب کو اللہ پاک نے شیطان کی نظر سے چھپا رکھا ہے۔ جیسا کہ کلام پاک میں آیا ہے کہ ‘‘ہم نے آسمانوں میں بروج بنائے ہیں اور انہیں شیطان کی نگاہ سے چھپا دیا ہے۔’’ اس موقع پر میں نے مرشد کریم سے پوچھا کہ انسان غیب سے واقف کیوں نہیں ہے۔ اتنے تھوڑے لوگ کیوں اس طرح آگے بڑھتے ہیں۔ مرشد پاک فرمانے لگے کہ لوگوں کے ذہن میں دنیا کی قدر و قیمت آخرت کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ جس وقت اس کے ذہن کا مرکز دنیا کی بجائے آخرت بن جائے گا۔ وہ اپنی سکت کے مطابق آخرت کا مشاہدہ کریں گے۔ میں نے سوال کیا کہ حضور سکت کا کیا مطلب ہے۔ فرمایا قدرت کا قانون ہے کہ آدمی جس قدر کوشش کرتا ہے اسی مناسبت سے اسے اس کا نتیجہ حاصل ہوتا ہے۔ گویا کوشش کا دائرہ ہی انسان کی سکت ہے۔ آدمی جتنی زیادہ کوشش کرتا جاتا ہے اس کی سکت اتنی ہی زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جس کام کی لگن دل میں ہو اس کام میں کوشش کرنے سے سکت بہت جلد بڑھتی ہے۔ میں نے مرشد کی یہ بات گرہ میں باندھ لی اور بچپن کے شوق کو پورا کرنے میں سعی پیہم کرنے لگی۔

                مراقبہ میں ہر روز نئی چیزیں دکھائی دیتیں۔ یوں لگتا ہے جیسے دماغ کا ہر سیل ایک مائیکروفلم ہے۔ مرشد کی روشنی اس مائیکروفلم کو میرے ذہن کے پردے پر دکھاتی جا رہی ہے اور ساتھ ساتھ مرشد کی روشنی مرشد کا تفکر بن کر ان روحانی وارداتوں کی وضاحت بھی کر دیتی۔ ایک دن مراقبہ میں کیا دیکھتی ہوں کہ میری نظر کے سامنے ایک خاص دروازہ کھلا۔ خیال آیا یہ بہت ہی خاص راستہ ہے جس سے میں پہلے واقف نہیں تھی میں اس راستے پر قدم رکھتی ہوں۔ اس رستے پر قدم رکھتے ہی یوں لگا جیسے یہ رات کا عالم ہے۔ جس طرح رات کے اندھیرے میں کیمرے کی آنکھ فضا Infra Red Lenseکے ذریعے دیکھتی ہے اسی طرح میری آنکھ سے بھی فضا ایسے ہی دکھائی دے رہی تھی۔ مجھ پر لاشعور کا غلبہ تھا اور تمام شعور پر ایک ہی فکر غالب تھی اور اس فکر کو سوائے عشق کے کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ خواہش محبوب نے مجھے ہر شئے سے غافل کر رکھا تھا۔ جیسے میں جوگن بنی دیوانہ وار محبوب کی تلاش میں پھر رہی ہوں۔ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ میں کہاں جا رہی ہوں۔ میرے اندر عشق کی اس قدر کسک ہے کہ میں اس درد میں ڈوبی ہر شئے سے بے نیاز راستے پر بڑھتی چلی جا رہی ہوں۔ خواہش محبوب نے مجھے خود اپنی جانب سے بھی غافل کر دیا تھا۔ بس سارے دماغ پر یہی ایک فکر غالب تھی کہ کسی طرح محبوب سامنے آ جائے۔ ایک مقام پر پہنچ کر مجھے نور کا ایک نقطہ دکھائی دیتا ہے۔ میں انہماک کے ساتھ اس نقطے کو دیکھ رہی ہوں۔ آہستہ آہستہ یہ نقطہ پھیلتا جاتا ہے اور کیمرے کے شٹر کی طرح کھل جاتا ہے۔ میری نگاہ اس نقطے کے اندر دیکھتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے گہرا اندھیرا ہے مگر اس کا رنگ بہت گہرا سرخ ہے جس میں نیلگوں جھلک ہے۔ جیسے یہ ایک سرنگ ہے۔ اس سرنگ کے اندر دور ایک عکس دکھائی دیتا ہے مجھے سکون مل جاتا ہے۔ میرے اندر کی کسک میں ٹھنڈک سی پڑ جاتی ہے۔

                مرشد کے تفکر نے اس کی توجیہہ میرے ذہن میں اس طرح پیش کی کہ روح امر ربی ہے اور امر ربی اللہ پاک کے ارادے کا ایک نور ہے۔ جن مراحل سے گزر کر امر ربی اپنے عمل کا دائرہ مکمل کرتا ہے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے کے درمیان ایک وقفہ ہے۔ یہی وقفہ موت کہلاتا ہے۔

                انسان امر ربی کا شعور ہے۔ امر ربی کے عمل کا دائرہ انسانی شعور کا اپنے ازلی مقام تک پہنچنا ہے۔ انسانی شعور کے راستے میں موت سے متعلق جتنے بھی عامل ہیں جیسے حشر نشر، یوم الحساب، نفخ صور، اعراف وغیرہ سب کے سب انسانی شعور کی نشوونما کا ایک مرحلہ ہے۔ جب روحانی راستوں پر سالک قدم رکھتا ہے تو اس کا روحانی شعور ان مراحل سے گزر جاتا ہے تو اسے حقیقی زندگی کا عرفان حاصل ہو جاتا ہے۔ اس روحانی مشاہدے نے میرے ذہن کو کھول دیا۔ خیال آیا کہ قربانی کا تفکر یہ ہے کہ جس مقصد یا نیت کے ساتھ قربانی کی جائے اس کام کے راستے میں تمام مراحل آسانی سے طے ہو جائیں اور کام یا فکر اپنے انجام کو پہنچ جائے۔ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی عزیز ترین چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنے کی نیت سے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی۔ جسے اللہ نے قبول کر کے ان کی جگہ دنبہ رکھ دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی فکر کو ابدی زندگی حاصل ہو گئی۔ اس کا نتیجہ آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ قربانی کی سنت آج بھی عید قرباں کے طور پر جاری ہے۔ حبیب کو میں نے یہ سب کچھ بتایا تو وہ بھی کہنے لگے کہ ہاں صحیح تو ہے پہلے کبھی ایسی بات ذہن میں نہیں آئی۔ واقعی روحانی علوم سیکھنے کے لئے شیخ کا ہونا ضروری ہے۔

                دو تین دن تک پھر میرے ذہن میں مرنے کے بعد کی زندگی کو جاننے کا تقاضہ پیدا ہوتا رہا۔ کبھی خیال آتا مرنے کے بعد اعراف میں حبیب کے ساتھ میری زندگی کیسی ہو گی۔ کبھی سوچتی مرشد کریم جو روحانی راستوں پر قدم قدم چلا کر مجھے غیب کی دنیا سے مانوس کر رہے ہیں۔ اعراف میں، میں انہیں کس طرح پہچانوں گی۔ موت تو حواس کی تبدیلی کا نام ہے۔ اس دنیا میں آدمی ایک دوسرے کے لئے جو محسوسات رکھتا ہے اعراف میں ان محسوسات کی نوعیت کیا ہو گی؟ کیونکہ زندگی کی حرکات کا حاصل ہی محسوسات ہیں۔ ایک ماں اپنے بچے کو جب گلے سے لگاتی ہے تو ماں اور بچے کے درمیان حواس کا ایک رابطہ قائم ہو جاتا ہے جو جسم میں دوڑنے والی برقی رو ہے۔ دونوں کے جسموں کی برقی رو ایک دوسرے میں ٹرانسفر ہوتی ہے جس کا ادراک ماں اور بچہ دونوں ہی سرور کی صورت میں کرتے ہیں۔ میں سوچتی یہی سرور تو زندگی کا حاصل ہے۔ اگر ماں اور بچے کو ایک دوسرے کی قربت سے سرور محسوس نہ ہو تو نہ ماں کبھی بچے کو گود میں اٹھائے نہ بچہ لپک لپک کے ماں کی آغوش میں جائے۔ میں سوچتی انسان کا انسان سے رشتہ محسوسات کی انہی بنیادوں پر ہی تو ہے۔ ماں باپ اور اولاد مخصوص ہیں۔ یہ تمام تعلقات جسمانی وجود کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ جب یہ مٹی کا جسم ختم ہو جائے گا تو اعراف میں ہم ان رشتوں کو کس طرح محسوس کریں گے۔

                ان دنوں دماغ میں اکثر یہی خیال آتا کہ اس دنیا میں ہمارے محسوسات کے تار کن کن لوگوں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ کل کو یہ تار ٹوٹ جائیں گے تو پھر کیا ہوگا؟ کیا ہم سب ایک دوسرے کے لئے اجنبی بن جائیں گے۔ زندگی کی تو دلچسپی اسی لطف و سرور میں ہے۔ یہی تجسس مجھے گاہے بگاہے اعراف میں دیکھنے پر اکساتا۔ اور میں مرشد کریم کے بتائے ہوئے طریقے پر مراقبہ کرتی۔ مجھے اپنے شیخ پر ہمیشہ ناز رہا کہ انہوں نے روحانی علوم سکھانے میں مجھ پر بھرپور توجہ و محنت سے کام لیا۔ باوجود اس کے کہ میں انگلینڈ میں ان سے کوسوں دور رہی مگر روحانی طور پر وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے۔ راہ سلوک میں میری عقل مرشد کے سامنے ہمیشہ سوالیہ نشان بنی رہتی۔ اس قدر سوالات میرے ذہن میں آتے مگر ان سب کے جوابات بھی مرشد کا تفکر میرے ذہن میں انڈیل دیتا۔ یہاں تک کہ میری عقل مطمئن ہو جاتی۔

                ان دنوں مسلسل اعراف کے خیالات آنے کی وجہ سے ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اعراف کہاں واقع ہے۔ ایک دفعہ شیخ نے ذکر کیا تھا کہ اعراف صرف دو سو میل دور ہے۔ اب میں نے سوچا کہ دیکھنا تو چاہئے کہ جس عالم میں مرنے کے بعد ہم کو جانا ہے وہ عالم ہے کہاں۔ بلکہ میں نے شیخ سے اس وقت پوچھا بھی تھا کہ اگر صرف دو سو میل دور ہے تو ہم کیوں نہیں دیکھتے جب کہ سورج نو کروڑ میل دور ہونے کے باوجود بھی دیکھ لیتے ہیں تو جواب یہ ملا تھا کہ ہمارا ارادہ اور توجہ ‘‘کُن’’ کا کام کرتی ہے۔ کن سے غیب میں موجود علوم کے خاکے نقش و نگار بن کر نگاہ سے سامنے آ جاتے ہیں۔ گویا کُن کی قوت سے غیب مظاہر میں تبدیل ہو جاتا ہے اور آنکھ اسے دیکھ لیتی ہے۔ سورج سے ہم واقف ہیں۔ ہماری توجہ ہر وقت اس پر ہے۔ مگر اعراف سے واقف نہیں ہیں جس کی وجہ سے توجہ نہیں ہے۔ جب بھی توجہ اس کی طرف جائے گی اعراف لاشعوری نگاہ کے سامنے آ جائے گا۔ اس وقت شیخ نے فرمایا تھا تمام اعراف دیکھنا چاہتی ہو تو دیکھ لوں۔ اللہ نے تو اپنے کلام میں سینکڑوں بار غور و فکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس دن ایسا ہوا کہ سارا دن شیخ کے الفاظ ذہن دہراتا رہا۔ دن بھر کام کاج کے دوران آپ کی صورت نگاہوں میں بسی رہی۔ میرے دل کو رات کا انتظار ہونے لگا کہ جلدی سے رات آئے تو مراقبہ کروں۔ ویسے بھی شیخ کے دیئے ہوئے اسباق اور مراقبہ میں مجھے بڑا مزا آتا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے دماغ روشن ہو گیا ہے۔ مراقبہ میں جو کچھ دیکھتی سب سے پہلے حبیب کو بتاتی۔ ان کو بتانے میں بھی مجھے بہت مزا آتا۔ جیسے طالب علم اپنا سبق دہراتا ہے۔

                اس رات مراقبہ میں اعراف دیکھنے کے ارادے سے آنکھیں بند کیں تو سب سے پہلے خود میرا اپنا جسم سامنے آ گیا۔ اس جسم کے اطراف میں تقریباً نو انچ کے فاصلے کے بعد روشنیوں کے دائرے تھے۔ میں جان گئی کہ یہ روشنیوں کے دائروں سے ترتیب شدہ جسم میرا جسم مثالی ہے۔ چند منٹ تک میری توجہ اس جسم کی جانب رہی توجہ کے ساتھ ساتھ اس کی روشنیاں میرے اندر جذب ہوتی رہیں اور مجھے اپنے دماغ کے سیلز زیادہ سے زیادہ چارج ہوتے محسوس ہوئے۔ خیال آیا کہ یہ روشنیوں کے دائرے وہ انرجی فیلڈ ہے جس سے میرے جسم کو انرجی سپلائی ہوتی ہے۔ یہ روشنیوں کا جسم میرے مادی جسم کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اس کے فوراً بعد ہی یہ جسم آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا اور دنیا کا پورا گلوب ذہن کے پردے پر آ کر ٹھہر گیا۔ ذہن نے پھر سوال کو دہرایا اعراف کہاں ہے۔ اس سوال کے جواب میں گلوب کے چاروں طرف روشنیوں کے دائرے بن گئے جس طرح جسم کے اطراف میں دیکھے تھے۔ گلوب کے اطراف میں بھی جسم کی طرح کچھ دور تک خلاء تھا۔ اس خلاء کے بعد روشنیوں کے دائرے شروع ہوتے دکھائی دیئے۔ ذہن میں شیخ کی آواز گونجی۔ یوں سمجھو کہ اعراف زمین کا جسم مثالی ہے۔ جس طرح مادی جسم کے اطراف میں نو انچ کا خلاء ہے اسی طرح زمین کے اطراف میں تقریباً دو سو میل کا خلاء ہے اور پھر روشنیوں کے دائرے یا عالم اعراف ہے۔ پھر سارا وقت میری نگاہ گلوب کے اطراف میں پھیلی ہوئی روشنیوں کو دور دور تک دیکھتی رہی۔ جس سے مجھے عالم اعراف کی وسعت کا اندازہ ہوا۔ مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ مادی جسم کا تعلق اعراف سے ہے۔ اب میرے شوق دید کو مزید ہوا لگی۔ میں نے سوچا دیکھنا چاہئے کہ میں وہاں کیا کر رہی ہوں۔ جیسے ہی ذہن میں یہ ارادہ پیدا ہوا ایک دم سے جیسے کیمرے کا شٹر کھل گیا اور نظر اعراف میں کسی جگہ دیکھنے لگی۔ یہ وژن اتنا صاف تھا جیسے خواب میں دیکھتے ہیں۔

                میں نے دیکھا میں سمندر کے کنارے ہوں۔ سمندر کا بیچ ہے۔ ساحل سمندر بڑا خوبصورت بنا ہوا ہے۔ سمندر کے اندر جانے کے لئے اونچی نیچی سیڑھیاں بڑی خوبصورتی کے ساتھ بنی ہیں۔ ساحل پر پانی تک گول گول چکنے چکنے پتھر ہیں یہ بالکل سنگ مر مر کی طرح سفید ہیں۔ میں اور میری بہن سکینہ ہم دونوں اس ساحل پر بچوں کی طرح کھیل رہی ہیں۔ پانی کی فیروزی لہریں ساحل سے ٹکراتی ہیں۔ شفاف فیروزی رنگ کے پانی کے اندر دودھ کی طرح سفید پتھر اس قدر خوبصورت لگتے ہیں۔ ہم دونوں تتلیوں کی طرح ایک دوسرے کے تعاقب میں دوڑتے ہیں۔ میری نظر سکینہ کے بالوں کی طرف گئی اس کے لمبے لمبے سنہری بال اس کے شانوں اور پیٹھ پر لہرا رہے تھے۔ دوڑنے سے ہوا کے جھونکے بالوں کو اور زیادہ پریشان کر دیتے۔ وہ بار بار انہیں اپنے چہرے سے ہٹاتی۔ میں پاس آ گئی اسے بازو سے پکڑ کر ساحل پر ایک بڑے سے پتھر پر بٹھا دیا۔ میں نے کہا ٹھہر جائو، میں تمہارے بال سنوار دوں۔ اس ارادے کے ساتھ ہی میں نے اپنے ہاتھ میں ایک کنگھا دیکھا۔ میں اس کے بالوں میں کنگھا پھیرنے لگی۔ ہر بار کنگھا پھیرنے سے مجھے ایک لطف آنے لگا اور میرا جی چاہنے لگا کہ میں بار بار کنگھی پھیرے جائوں۔ میں کبھی پیار سے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتی۔ ان کی ملاغیت اور سنہری رنگ کی خوبصورتی کی تعریف کرتی۔ اس عمل کے ساتھ ساتھ سکینہ کے لئے میرے دل میں محبت بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ میرے کنگھی کرنے سے وہ بھی لطف محسوس کر رہی ہے۔ اس کے چہرے پر سرور و کیف کی جھلکیاں ہیں۔ جیسے وہ میری محبت کی لہروں کو جذب کر رہی ہے اور جذب کرنے کے بعد ان لہروں کی عکاسی اس کا چہرہ کر رہا ہے۔ مجھے نہیں معلوم میں کتنی دیر تک اس کے بالوں میں نہایت ہی محبت کے ساتھ کنگھی کرتی رہی۔ اس کے بال سنوارتی رہی۔ ساتھ ساتھ ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ اللہ نے سکینہ کے بال اتنے خوبصورت بنائے ہیں یعنی اس سارے عمل میں اللہ کا تصور میرے ذہن میں چھایا رہا۔ گویا میں تعریف سکینہ کے بالوں کی کرتی رہی مجھے اس کے بالوں کو چھونے میں اسی لئے مزا آتا رہا کہ ذہن میں یہ تصور مستقل طور پر تھا کہ یہ بال اللہ نے بنائے ہیں۔ میرا جی چاہنے لگا میں ساری عمر اسی سکینہ کے بال سنوارتی رہوں اور مزے لیتی رہوں۔

                اس کے فوراً بعد ہی میرا ذہن شیخ کی طرف چلا گیا۔ دل کی نظر کے سامنے ایک خوبصورت باغ آ گیا۔ اس کی سجاوٹ جنت کی یاد دلاتی تھی۔ ہر طرف رنگین پھولوں کی کیاریاں تھیں۔ سبزہ تھا۔ میری نظر باغ کے ایک کونے پر گئی پھولوں کی کیاریوں کے درمیان ایک تناور درخت تھا۔ خوبصورت ہرا بھرا درخت۔ اس درخت کے اوپر خوشبودار بیلیں چھائی ہوئی تھیں۔ جن کے پھولوں اور ٹہنیوں سے بھینی بھینی خوشبو فضا میں پھیل رہی تھی۔ درخت کے پاس ایک خوبصورت مسند بچھی تھی۔ اس مسند پر شیخ براجمان تھے۔ میں نے دیکھا شیخ مسند پر بیٹھے ہیں اور انہیں دیکھ کر میرے اندر عقیدت و احترام کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں۔ میں ان کے سامنے ہوں۔ میں نے ہندو داسی کی طرح ساڑھی پہنی ہوئی ہے۔ میرا حلیہ ایک جوگن کا سا ہے۔ جوگیا رنگ کی ساڑھی اور چولی پہنی ہوئی ہے۔ ہاتھوں میں تھالی ہے۔ شیخ میرے سامنے ہے۔ میں انہیں نہایت ہی عقیدت سے دیکھ رہی ہوں اور تھالی کو ان کے گرد دائروں میں گھماتی جاتی ہوں جیسے آرتی اتارتے ہیں۔ عمل وہی ہے مگر میرے دل میں یہ تصور ہے کہ شیخ کی صورت میں میری نظر اللہ کے جمال کو دیکھ رہی ہے۔ میرے ہونٹوں سے جمال حسن کی تعریف کے خوبصورت نغمے نکلنے لگتے ہیں اور میں انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ آرتی اتارتی جاتی ہوں۔ مگر ذہن میں یہ خیال رہتا ہے کہ میں شیخ کے جمال حسن کی نذر اتار رہی ہوں۔ پھر میں تھالی رکھتی ہوں اور اس کے اندر بے شمار ہیرے جواہرات ہوتے ہیں۔ جن سے یہ تھالی بھری ہوتی ہے۔ میں پاس کھڑے لوگوں کو آواز دے کر پکارتی ہوں۔ سب میرے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں۔ اب میں مٹھیاں بھر بھرکر تھالی میں سے جواہرات ان پر یہ کہہ کر لٹاتی ہوں لو یہ میرے شیخ کے جمال حسن کا نذرانہ ہے۔ میرے اندر آہستہ آہستہ عقیدت بڑھتی جاتی ہے۔ شیخ کے جمال حسن کی شعاعیں میرے بدن پر پڑنے لگتی ہیں۔ میرا لباس جوگیا رنگ سے بدل کر سرخ رنگ کا ہو جاتا ہے۔ میرے بدن سے شیخ کی روشنیاں جھلکنے لگتی ہیں اور یہ روشنیاں شیخ کی روشنیوں میں جذب ہو جاتی ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں عشق حقیقی کے سمندر میں سے سر سے پائوں تک ڈوب گئی ہوں۔ میرے بدن کا رواں رواں عشق کی لذت کو محسوس کرتا ہے۔ میرے ذہن سے اس وقت شیخ کا تصور ہی نکل جاتا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں اللہ تعالیٰ کے سمندر تجلیات میں غوطہ زن ہوں۔ اس کے بحر عشق میں فنا ہو رہی ہوں مگر یہ فنائیت مجھے ابدیت سے روشناس کر رہی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے میں ابد تک اس بحر بیکراں میں ڈوبی رہوں۔

               

 

 

 


 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی