Topics

تجلی


                میری ماں کہا کرتی تھیں بیٹا اولاد اللہ کی امانت ہے۔ کسی امانت کی جان سے بھی زیادہ حفاظت کرنی چاہئے۔ میں نے اپنی اولاد کو ماں کی اسی فکر کی روشنی میں پالا۔ جب تک بچے گھر کے اندر رہتے میں دل و جان سے ان کی خبر گیری کرتی اور جب یہ گھر سے باہر قدم نکالتے تو انہیں اللہ کے سپرد کر دیتی کہ غیب میں انہیں تیری ہی نظر دیکھ سکتی ہے۔ چاروں بچوں کی شادیوں کے بعد میرے کندھوں میں اس امانت کا بوجھ اترتا محسوس ہوتا۔ میں اپنے آپ کو بالکل ہلکا پھلکا محسوس کرتی۔ بچوں کے لئے بس یہی دعا کرتی کہ اللہ انہیں دنیا و آخرت میں سدا خوش رکھے۔ ایک دن یونہی فارغ بیٹھی تھی کہ ماں کا یہ قول یاد آ گیا کہ بیٹا اولاد اللہ کی امانت ہوتی ہے۔ میں سوچنے لگی۔ امانت سے ماں کی کیا مراد تھی؟ یہ سوال سارا دن دماغ میں گردش کرتا رہا پھر رات کو مراقبہ میں دیکھا کہ شیخ کا نورانی ہیولا سامنے آ گیا ہے۔ اس ہیولے نے ہاتھ میرے سامنے کیا۔ ان کی چٹکی میں کوئی چیز تھی۔ میں نے دیکھا کہ انگوٹھے اور انگلی کے درمیان اس کی چٹکی میں ایک بیج ہے۔ انہوں نے یہ بیج میرے سامنے زمین پر گرا دیا۔ بیج زمین کے اندر مٹی میں دھنس گیا اور پھر دوسرے ہی لمحے اس سے ننھی سی کونپ پھوٹ نکلی اور دیکھتے دیکھتے ایک تناور درخت سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس دوران شیخ کے ہیولے سے روشنی کی لہریں میرے اندر برابر جذب ہوتی رہیں۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے سوال کا جواب مل گیا ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی شیخ کی شبیہہ سامنے سے غائب ہو گئی۔ اب میری فکر نے پھر اس تمثیل کو دہرایا۔ میں نے دیکھا میرے رحم کی زمین پر بچے کی تخلیق کا جین بیج کی حیثیت سے بویا گیا۔ ایک مدت معینہ تک میرے رحم نے اس امانت کی پرورش کی۔ جب رحم اس کو اٹھانے سے عاجز آ گیا تو سارے جسم کے حواس اس کی حفاظت کے لئے مستعد ہو گئے۔ میرے ہاتھوں نے اس امانت کو اٹھایا۔ میری نظریں اس پر اس خیال سے جمی رہیں کہ کہیں پھر وہ میری آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جائے۔ میرے کان اس کی رسیلی آواز کا رس ٹپکانے کے لئے ہر وقت اس کی راہ میں رہتے میرا دل اپنی تخلیق کی بلائیں لینے کے لئے ہر وقت بے قرار رہتا اور پھر میں نے جب اپنے سارے حواس کے ساتھ اپنی تخلیق کو پہچان لیا تو میں ماں بن گئی۔

                ماں! ایک زرخیز زمین۔ جس زمین میں تخلیقی فکر بوئی جاتی ہے۔ یہ فکر ذات کی امانت ہے۔ جس میں اس کی حکمتیں اور اسرار بند ہیں۔ رحم ایک ایک کر کے اس امانت کو حواس کے پردوں میں لپیٹتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ سارے اسرار مادیت کے لباس میں چھپ جاتے ہیں۔ اب ماں کی نظر پھر اس امانت سے ایک ایک کر کے پردے کھولتی جاتی ہے۔ جب بچہ جوان ہوتا ہے تو وہ خود ایسی زمین بن جاتا ہے جس میں تخلیق کے اسرار پلنے لگتے ہیں۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ میرے بچے میری تخلیق۔ میرا عکس۔ مجھے یوں لگا جیسے میں چار آئینوں کے روبروکھڑی ہوں۔ ہر آئینے میں میرے سراپے کا ایک ایک عکس ہے۔ خوشی کی ایک لہر میرے سارے بدن کے روئیں روئیں پر یہ راز کھولتی ہوئی گزر گئی کہ میں ہی تو امانت ہوں جو اللہ کی فکر خالقیت کا عکس ہے۔ جس کے اندر ساری کائنات کی تخلیق کی اسرار بند ہیں۔

                اکثر مجھے محسوس ہوتا جیسے میرے جسم سے ایک اور شمامہ نکلی اور آزاد پنچھی کی طرح فضائوں میں اڑنے لگی وہ جہاں باقی جو کچھ کرتی میں اسے دیکھتی رہتی۔ کبھی آدھی رات میں بستر پر لیٹے ہوئے بدن میں جھٹکا لگتا اور جھٹکے کے ساتھ میرے اندر سے روح کے پرت نکل کر فضا میں اڑ جاتے۔ میں اپنے اندر ہونے والی تبدیلی سے خوب اچھی طرح واقف تھی کیونکہ شیخ روح کے متعلق جو بھی بات کرتے وہ باتیں میرے اندر داخل ہو جاتیں اور آہستہ آہستہ اپنے وقت میں مجھے ان کے کلام کا تجربہ ہو جاتا۔ مجھے یوں لگتا جیسے شیخ کا ہر کلام میرے اندر دل و دماغ سے گزر کر ظاہر ہوتا ہے۔

                روح کے پرت کے متعلق ایک مرتبہ آپ نے فرمایا۔ روح اللہ کا امر ہے جو اللہ تعالیٰ کے ارادے سے روح کی صورت میں ظاہر ہوا۔ روح کو صورت بخشنے کا مقصد روح سے کام لینا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے روح کے دماغ میں روح سے جو کچھ کام لینے تھے ان تمام امور کا ریکارڈ منتقل کر دیا۔ اسی ریکارڈ کو لوح محفوظ کہتے ہیں۔ یہ انسان کا ثابتہ کہلاتا ہے۔ جب سالک کے اندر روحانی شعور متحرک ہوتا ہے تو سالک کی روح اپنے ثابتے کے ریکارڈ میں اللہ کے امر پر جو کام کرتی ہے اس امر کی حرکت سے سالک کا شعور بھی واقف ہو جاتا ہے۔ واقف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ روح کے کاموں میں انسان کا ارادہ بھی شامل ہو جاتا ہے۔ روح اللہ تعالیٰ کے امر کی تکمیل کے لئے اپنے ایک سے زیادہ اجسام کے ساتھ حرکت کرتی ہے۔ یہی اجسام روح کے پرت ہیں۔

                شیخ کے کلام نے میرے اندر تقاضے ابھار دیئے تھے۔ میں اکثر سوچتی کاش میرے بھی بہت سارے جسم ہوں۔ میں اپنے بہت سارے جسموں کے ساتھ اللہ کے کام کروں۔ شیخ کی یہ فکر میرے اندر سے گزر کر روح کے پرت میں ڈھل کر میرے سامنے آ گئی تھی۔ انسان تو اللہ تعالیٰ کا شاہکار ہے۔ اپنے شاہکار میں اس نے کیسے کیسے عجائب بھر رکھے ہیں۔

                اس کے اگلے سال حج کے دن قریب آ گئی۔ میری چند دوستوں نے مجھے بتایا کہ ہم حج پر جا رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ ہمارا سلام وہاں تک پہنچا دینا۔ حج کے دن آیا تو مجھے نیم خوابیدہ حالت میں یوں لگا جیسے میں خود وہاں موجود ہوں۔ موجودگی کا احساس شدید تھا کہ میرے دل میں یقین پیدا ہو گیا کہ میری روح وہاں ضرور موجود ہو گی اور حاجیوں کے ساتھ طواف کر رہی ہو گی۔ میں نے حبیب سے بھی اس کا ذکر نہ کیا۔ یہ سوچ کر کہ روح تو اللہ پاک کے امر پر نہ جانے کیا کیا کرتی رہتی ہے۔ میری روح کو اللہ کی یاد آ گئی ہو گی تو وہ وہاں پہنچ گئی۔ روح تو اللہ کی ڈور میں پتنگ کی طرح بندھی ہوئی ہے۔ وہ جدھر کو ڈور کھینچتا ہے ادھر ہی کھنچی جاتی ہے۔ دوسرے سال پھر حج پر جانے سے پہلے مجھے بہت سے فون بھی آئے اور کئی سہیلیاں ملنے بھی آئیں کہ کچھ وہاں سے منگوانا ہو کچھ دعا کرانی ہو تو بتائیں۔ میں نے کہا کہ بس سلام پہنچا دیتا اور ہم سب کی سلامتی کی دعا کرنا۔

                حج کے دن آئے مجھے پھر یوں لگا جیسے ایک دم سے میں وہاں پہنچ گئی ہوں۔ میں نے مراقبے کی کیفیت میں دیکھا کہ میں بہت تیز رفتاری کے ساتھ وہاں پہنچی۔ جیسے ہی حرم شریف میں قدم رکھا۔ اس وقت حرم شریف حاجیوں سے خالی تھا۔ میں مسجد میں دو ستون کے درمیان آ کر ٹھہر گئی۔ یہاں سے بالکل سامنے کعبہ شریف تھا۔ میں نے دیکھا حرم شریف کا غسل دیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر عرب کے بادشاہ اور عرب کی دوسری حکومتوں کے سربراہ وہاں موجود ہیں۔ گلاب اور صندل اور مختلف خوشبوئیں یہ لوگ پانی میں ڈال رہے ہیں۔ سارا حرم شریف گلاب کی خوشبوئوں سے مہک رہا ہے۔ پھر کعبہ شریف کا دروازہ کھولا گیا۔ ایک سونے کے تھال میں سونے کی بڑی سی کنجی تھی جو عرب کے بادشاہ نے اٹھائی اور کعبے کا تالا کھولا۔ اس وقت میرا جی چاہا کہ میں بھی اندر جا کر دیکھوں مگر میں جہاں چھپی کھڑی تھی وہاں سے مجھے کوئی دیکھ نہیں رہا تھا۔ سب لوگ غسل کعبہ میں مصروف تھے۔ میں نے سوچا اگر میں اس وقت گئی تو سب مجھے دیکھ لیں گے شاید مجھے روک لیں۔ خیال آیا میں اس وقت جائوں گی۔ جب یہ لوگ نہیں ہوں گے۔ غسل کے بعد غلاف کعبہ کو چوم کر اور آنکھوں سے لگاتے ہوئے خانہ کعبہ پر چڑھایا گیا۔ اس دوران سب لوگ اکٹھے مل کر قرآنی آیات کی تلاوت با آواز بلند کرتے رہے۔ میں نہایت ہی اشتیاق و عقیدت کے ساتھ یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ پھر آب زمزم پی کر واپس آئی۔ اگلے ہی لمحے حاجیوں کے ساتھ تھی جو مزدلفہ اور عرفات میں تھے۔ وہاں سے پھر کچھ دیر بعد میں واپس خانہ کعبہ آئی۔ اب وہاں پر غسل کا کام ہو چکا تھا اور کعبہ کا دروازہ بند تھا۔ اس وقت رات ہو چکی تھی۔ میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ طواف کر رہے ہیں۔ میں بھی ان میں شامل ہو گئی اور جیسے ہی میں ملتزم کے پاس پہنچی میں نے دروازے کے ساتھ کھڑے ہو کر تالے پر اپنی نظریں گاڑ دیں۔ چند حاجیوں نے طواف کرتے ہوئے مجھے دیکھا کہ یہ یہاں طواف کرتے کرتے رک کیوں گئی۔ ایک لمحے کو انہوں نے مجھے اس خیال سے دیکھا پھر اپنے ہی خیال کو رد کر کے آگے بڑھ گئے۔ میں ان کے خیال سے آگاہ ہو گئی تھی۔ چند لمحے بعد خانہ کعبہ کا دروازہ کھل گیا۔ میں نے دیکھا کہ قفل کھل گیا میں تیزی سے آگے بڑھ کر تھوڑا سا دروازہ کھول کر کہ کوئی دیکھ نہ لے جلدی سے اندر داخل ہوئی۔ وہاں گھپ اندھیرا تھا مگر داخل ہوتے ہی اوپر سے ایک تجلی بیچوں بیچ آ کر بیم لائٹ کی طرح ٹھہر گئی۔ اس وقت مجھ پر یہی تاثر غالب تھا کہ مجھے یہاں پر اللہ نے بلایا ہے۔ میں نے تجلی کی روشنی میں کعبہ کے اندر چاروں طرف دیکھا۔ یہ ایک کمرہ دکھائی دیا۔ اتنے میں اس کے اندر تجلیاں چمکنے لگیں اور مجھے اللہ تعالیٰ کی آواز سنائی دی جو مجھے خاص ہدایتیں دے رہی تھی۔ اب میرے ذہن میں صرف اللہ کا تصور باقی تھا اور مجھے اللہ تعالیٰ کی قربت کا احساس ہوا۔ مجھے مشاہدہ ہوا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی جنتوں میں سیر کر رہی ہوں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں تین دن تک خانہ کعبہ کے اندر اپنے ر ب کے ساتھ رہی۔ اس کے بعد میں اسی طرح دروازے سے باہر نکلی اور تیزی سے مسجد سے گزر کر حرم شریف کے ایک دروازے سے باہر جانے لگی تو دیکھا کہ اب حرم شریف میں حاجی آ گئے ہیں اور عرفات سے واپس آتے جا رہے ہیں۔ دروازے سے جب میں باہر جانے لگی تو باہر سے اندر میری ایک جاننے والی آ رہی تھی اس نے مجھے پہچان لیا۔ میں نے بھی اسے دیکھا ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائیں۔ اس کے بعد حاجیوں کا ایک ریلہ آیا اور وہ گم ہو گئیں اور میں جلدی سے باہر نکل گئی۔ باہر نکلتے ہوئے میرے دل میں یہ خیال تھا کہ حج تو محبوب کے ساتھ قربت اور مشغولیت ہے۔ میرا حج ہو چکا ہے اور میں مراقبہ کی کیفیت سے شعوری کیفیت میں لوٹ آئی۔

                کچھ دنوں بعد وہی عورت جب مجھے کعبہ شریف کے دروازے پر ملی تھی وہ میرے گھر آئی اس وقت حبیب بھی موجود تھے وہ حبیب کے سامنے ہی کہنے لگیں۔ شمامہ بہن حج پر جس طرح آپ سے ایک مرتبہ ملاقات ہوئی پھر آپ ملی ہی نہیں۔ میں مسکرائی حبیب میری طرف دیکھنے لگے کہ شاید میں ہی کچھ بولوں میں نے اپنا راز راز ہی رکھنے میں عافیت جانی۔

                اب میری دلچسپی خود اپنی ذات میں بڑھنے لگی۔ میں سوچتی انسان اللہ تعالیٰ کا شاہکار ہے۔ اللہ کی تو ہر تخلیق ہی لاجواب ہے مگر جس کو خدا نے بہترین تخلیق کہا ہے اس میں اس نے کیا کچھ گن نیہں بھر دیئے ہوں گے۔ ساری زندگی ہم خود اپنے آپ کو سمجھنے میں گزار دیتے ہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا جیسے یہ ساری کائنات خود میری روح کا پھیلائو ہے۔

                ایک دن حبیب سے روح کے حواس کے متعلق باتیں ہونے لگیں۔ میں نے کہا سارے حواس تو روح ہی کے ہیں۔ روح اللہ کے عشق میں سارے جہانوں کی خاک چھانٹی رہتی ہے۔ ہنسے کہنے لگے مگر عشق مجازی میں جو مزہ ہے وہ اللہ کے عشق میں کہاں۔ میں نے کہا جس نے آم کبھی چکھا ہی نہ ہو وہ آم کا مزہ کیا جانے پھر میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میاں روح کی تو ساری زندگی الف لیلیٰ کی داستان کی طرح عشق حقیقی کی داستانوں سے رنگین ہے۔ کہنے لگے روح اور اللہ کے متعلق تو تصور ہی نہیں بنتا کہ روح اللہ سے عشق کر سکتی ہے۔ میں تو جب بھی تصور کرتا ہوں تو تم ہی سامنے آ جاتی ہو۔ اب کے مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے کہا اچھا یہ بتائو ہم دونوں کی مرنے کے بعد کیا حیثیت ہو گی۔ بولے ہم روح بن کر زندہ رہیں گے میں نے کہا ہم تو اب بھی روح بن کر ہی زندہ ہیں۔ مردہ جسم میں حواس کہاں۔ کہنے لگے تو پھر یہ ساری زندگی۔ میں نے کہا روح کی داستان الف لیلیٰ ہی تو ہے۔ میاں یہ کائنات روح کا ایک مے خانہ ہے جس میں جسموں کے ساغر رکھے ہیں۔ ان ساغروں میں شراب اللہ کا نور ہے۔ روح مے خانے کی رونق ہے کہ خود پیتی بھی ہے اور پلاتی بھی ہے۔ جب جام سے جام ٹکراتے ہیں تو رنگین کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ کہنے لگے اس میں اللہ کا عشق کہاں سے ہوا یہ تو روحوں کا آپس میں میل جول ہو گیا۔ میں نے کہا خالی گلاس سے ہونٹوں کی پیاس بجھی ہے کبھی۔ وہ نور جو روحیں اپنے حلق میں ٹپکاتی ہیں وہ اللہ کا نور ہے جو انہیں حیات جاودانی بخش رہا ہے ہر ساغر اپنے اندر ایک رنگین داستان ہے دنیا کے مے خانے کا ایک ساغر تم ہو ایک میں ہوں۔ اس کے اندرپینے والی تو روح ہی ہے جس چیز کے پینے سے سرور و لذت حاصل ہو رہی ہے وہ اللہ کا نور ہی تو ہے۔ کہنے لگے تو پھر مذہب نے اتنی پابندیاں کیوں لگائی ہیں۔ میں نے کہا نہ پینے پر لگائی ہیں نہ پلانے پر لگائی ہیں البتہ اصل میں نقل کی ملاوٹ کرنے پر ضرور لگائی ہیں کہ حق کو باطل سے نہ ملائو۔ دودھ میں مٹی ڈالو گے تو دودھ کب صاف رہے گا۔ اللہ کی معرفت دودھ کی طرح پاک اورشفاف ہے۔ اس میں نفس کی گندگی ملانے سے پاکی کہاں نظر آئے گی۔ حبیب حیرانی سے مجھے گھورتے ہوئے بولے۔ ارے بھئی کمال ہو گیا تم تو اب اچھی خاصی روحانی فلاسفر بنتی جا رہی ہو۔ میں نے بھی فخر سے اپنی گردن مٹکاتے ہوئے کہا میاں یہ سب ہمارے مرشد کریم کا کمال ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ کہنے لگے مجھے ساتھ لے کر چلنا۔ تو ہی تو میرے بڑھاپے کی لاٹھی ہے۔ میری بھی رگ ظرافت پھڑک اٹھی میں نے کہا۔ میاں ذرا فکر نہ کرو اگر میں آگے بڑھ بھی گئی تو لاٹھی یہیں چھوڑ جائوں گی اور پھر ہم دونوں کے قہقہوں سے سارا گھر گونج اٹھا۔



Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی