Topics

روحانی مسافر


                پروگرام کے مطابق بیٹی کی شادی کا انتظام بھی ہو گیا۔ نکاح کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ گرمیوں میں لڑکوں کے کالج سے چھٹیاں ہوئیں تو انہیں گھر چھوڑ کر میں اور حبیب بیٹی کو لے کر پاکستان روانہ ہو گئے۔ ارادہ یہ تھا کہ شادی سے فارغ ہوتے ہی انڈیا روانہ ہو جائیں گے۔ شادی میں روحانی استاد میرے مرشد کریم نے بھی شرکت فرمائی۔ آپ کی شرکت میرے لئے انتہائی مسرت کا سامان تھی۔ اسی دوران آپ سے دو مرتبہ تھوڑی تھوڑی دیر کو ملاقات ہوئی۔ آپ نے چند دن بعد ہی انگلینڈ جانے کا اظہار کیا کہ پروگرام بن چکا ہے اور بھی کچھ باتیں کیں۔ آپ کی بات میری سمجھ میں یہ آئی کہ آپ چاہتے ہیں کہ وہاں مشن کی ترویج کا کام زیادہ ہو۔ ہم نے انہیں اپنا انڈیا جانے کا پروگرام بتایا کہ پندرہ دن کے بعد ہم واپس آ کر پھر انگلینڈ آ جائیں گے۔ انڈیا میں حضرت صابر پاکؒ کے ہاں حاضری دینی ہے اور میرا اور حبیب کی زندگی کا یہ پہلا موقع ہے کہ ہم کسی ولی اللہ کی درگاہ پر حاضری دینے اور کچھ دن وہاں پر گزارنے کے لئے جا رہے ہیں۔ مرشد پاک نے یہ سن کر فرمایا پہلے تم اپنے دادا پیر سے اجازت لے لو پھر جانا۔ دادا پیر میرے مرشد کریم کے شیخ تھے۔ جن کا مزار اسی شہر میں ہے۔ اس سے پہلے ان کے مزار پر حاضری دینے کا موقع ہمیں گزشتہ سال مل چکا تھا۔ یہ بھی ایک عجیب کہانی ہے ہوا یوں کہ گزشتہ سال میں اکیلی پاکستان آئی تھی۔ حبیب میرے ساتھ نہیں تھے۔ صرف دو تین ہفتے کے لئے آئی تھی۔ مرشد کریم سے ملنے کے مواقع بہت ہی کم ملے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے۔ ایک دن ان کے پاس گئی تو آپ نے کہا چلئے آپ کو اپنے شیخ کی زیارت کرا لائوں۔ میں اپنے ایک رشتے دار کے ساتھ تھی۔ ان کی گاڑی میں ہم چل دیئے۔ مجھے جانے کا شوق تو ضرور تھا مگر اس وقت تک میں کبھی کسی بھی مزار پر نہیں گئی تھی۔ میرے ذہن میں مسلسل یہی خیال آنے لگے میں تو شیخ صاحب کے پاس جا رہی ہوں مگر ان کو کیسے پتہ چلے گا کہ میں ان کی درگاہ پر آئی ہوں اور اگر ان کو پتہ چل بھی جائے تو مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ وہ میری حاضری کو دیکھ رہے ہیں اور میری دلی کیفیات کو جان رہے ہیں اور اگر میرا ان کا رابطہ نہ ہوا تو میری حاضری کیسے ہو گی۔ سارے راستے ذہن میں یہی تکرار رہی کہ وہ تو دوسرے عالم میں مصروف ہیں انہیں کیسے پتہ چلے گا کہ کون ان کے مزار پر آ جا رہا ہے۔ ان ہی خیالت میں غلطاں و بیچاں چلی جا رہی تھی کہ کار مزار مبارک کے احاطے میں داخل ہو گئی۔ میری نگاہ دور مزار پر پڑی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ قبر مبارک پر ایک نورانی ہستی کھڑی ہے جن کا سراپا عام آدمی سے کئی گنا زیادہ لمبا ہے۔ ایک نظر دیکھتے ہی مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ میرے انتظار میں ہیں۔ میں جان گئی کہ آپ کو میرے تمام خیالات سے آگاہی ہو چکی ہے۔ میرے اوپر آپ کی عظمت کا رعب طاری ہو گیا۔ میری حالت ہی بدل گئی۔ میں زور زور سے رونے لگی۔ گاڑی رکی میں نے انہیں سلام کیا وہ مسکرائے۔ فرمایا۔ ہم آپ کے ہی انتظار میں تھے۔ بڑی مشکل سے ہی میں نے جوتے اتارے اور قبر مبارک کے پاس پہنچ گئی۔ سارا وقت جب تک وہاں رہی میری آپ کے ساتھ حضوری رہی۔

                اب جب مرشد پاک نے فرمایا کہ دادا پیر سے اجازت لے لو تو پھر میں، حبیب اور مرشد کریم ہم تینوں ان کی درگاہ پر آئے۔ اب کے میرے دل میں ایک بار بھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ مجھے کس طرح اجازت دینگے۔ میرا ان سے کیسے رابطہ ہو گا۔ میرے دل کو بس یہ پکا یقین تھا کہ میں ان سے ملنے جا رہی ہوں۔ جیسے کوئی زندہ آدمی کسی دوسرے آدمی سے ملنے اس کے گھر جاتا ہے اور ملاقات کرتا ہے۔ جاتے ہی میں نے ان کو دل ہی دل میں سلام کیا۔ بند آنکھوں سے کیا دیکھتی ہوں کہ قبر مبارک درمیان سے دروازہ کے دو کواڑوں کی طرح کھل گئی۔ نیچے جانے کے لئے زینہ تھا۔ زینے کے پاس خادم کھڑا اندر آنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ زینے سے اتر کر ہم آپ کے گھر میں داخل ہو گئے۔ وہاں آپ سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے کلیر شریف جانے کی اجازت دے دی۔ میں نے درخواست پیش کی کہ روحانی علوم سیکھنے کے جس مقصد کو لے کر کلیر شریف جا رہی ہوں وہ مقصد پورا ہونے کے لئے میرے لئے دعا کریں۔ اب میرے اندر اور بھی زیادہ حضرت صابر پاکؒ سے ملنے کا شوق ہو گیا۔ مجھے یقین تھا کہ مرشد کریم کے توسط سے ہی اوپر والوں میں میری شنوائی ہو رہی ہے۔ اللہ کا ہر کام ایک مخصوص سسٹم کے تحت ہے۔ روحانی مسافر کو بغیر مرشد کے اس راہ میں داخلہ نہیں ملتا۔ میرے اندر مرشد کے لئے ایک کشش سی محسوس ہوئی۔ میں نے اندر ہی اندر اللہ کا شکر ادا کیا جس نے اجنبی راہوں پر چلتے ہوئے میرا ہاتھ رہبر کے ہاتھ میں تھما دیا۔ سکون کی ٹھنڈی سانس نور کی طرح میرے باطن میں پھیل گئی۔ زندگی کے افق پر سورج طلوع ہو چکا تھا۔

                حضرت صابر پاکؒ کی درگاہ میں تین دن تک رہے۔ اعتکاف کے دوران آپ نے مجھ پر وہ عنایت کی جس کے لئے آپ نے اپنے مزار پر آنے کا حکم دیا تھا۔ آپ نے مجھے فنا اور بقا کا مشاہدہ کرایا۔ میرے قلب کی آنکھ نے دیکھ لیا کہ اصل انسان روشنی کا بنا ہوا ہے۔ جس کی بقا اللہ کے نور پر ہے۔ مٹی کا جسم اس روشنی کے انسان کا ایک لباس ہے۔ جو وہ دنیا میں آنے کے لئے اختیار کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح زمین پر پانی ڈالو تو زمین پانی جذب کر کے گیلی ہو جاتی ہے اسی طرح جسم مثالی کی روشنیاں زمین پر مٹی کے ذرات میں جذب ہو کر اپنے آپ کو مٹی کے خول میں چھپا لیتی ہیں۔ زندگی بھر اس مٹی کے خول میں جسم مثالی کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ اس مٹی کے بت کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے روشنیوں کے عالم میں پہنچ جاتا ہے۔ رنگ و روشنی کا یہ عالم مجھے صدائیں دینے لگا۔ باغ کا ہر پھول جھوم جھوم کر کہنے لگا کہ اب اس ساحل حقیقت پر قدم رکھ ہی دیا ہے تو پھر یہاں سے لوٹ کر سراب کے پیچھے جانا کہاں کی دانش مندی ہے۔ میرا جی چاہا کہ فنا کی اس دیوار کو ہمیشہ کے لئے توڑ دوں۔

                انڈیا کے پندرہ دن کے دورے کے بعد ہم لوگ واپس انگلینڈ آ گئے۔ مرشد کریم کچھ دن پہلے ہی یہاں آ چکے تھے۔ آپ نے مجھے کچھ روحانی اسباق اور چلے کرنے کے لئے دیئے۔ فرمایا یہ وہ اسباق ہیں جو روحانی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے اس راستے پر چلنے والے تمام لوگوں نے کئے ہیں۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ جس نے میری روح کے تقاضوں کی تکمیل کے سامان کر دیئے۔ ساتھ ہی میں مرشد کی بھی شکر گزار تھی کہ جنہوں نے مجھے اس قابل سمجھا۔ ان اسباق کے ساتھ ساتھ میری روحانی صلاحیتیں نہایت تیزی سے بڑھنے لگیں۔ میرے مشاہدات و روحانی واردات میں نہایت تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ قرآن کی آیات کے مفہوم پہلے کی نسبت زیادہ سمجھ میں آنے لگے۔

                مرشد نے مجھے روحانی وارداتیں قلمبند کرنے کے لئے کہا تھا جو میں ہر روز کرتی تھی۔ حبیب اسے بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھتے جو بات سمجھ نہ آتی وہ مجھ سے پوچھتے۔ میں ان دنوں چھ دن کام کرتی تھی مگر ذہنی توجہ مسلسل غیب کی جانب لگی رہتی۔ جیسے جیسے انکشافات ہوتے جاتے ویسے ویسے انسان کو عطا کردہ علوم اور اس کی صلاحیتوں کی عظمت کا پتہ چلتا جاتا۔ میں سوچتی اللہ نے انسان کو کس قدر زبردست صلاحیتیں اور قوتیں عطا کیں ہیں مگر ان سے لاعلمی کی وجہ سے آدمی خود اپنی صلاحیتوں کو استعمال میں نہیں لاتا۔ ایسے میں علم کی اہمیت دل میں اور زیادہ بڑھتی جاتی۔ میں بڑی لگن کے ساتھ مرشد کریم کے دیئے ہوئے اسباق کرتی اور قرآن کی آیات میں تفکر کرتی۔ ہفتے میں تین دن روزے رکھتی۔ مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے یہ زندگی بہت ہی قیمتی ہے۔ اللہ پاک کی عطا کردہ ان انمول گھڑیوں کو میں یونہی گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ مرشد پاک میری روحانی رپورٹ سے مطمئن تھے۔

                دنیا میں ہم بہت سی ڈوریوں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ یہ رشتے داریاں، یہ معاشرتی ذمہ داریاں، ہمارے پیارے رسول پاکﷺ نے ان سب ڈوریوں کے ساتھ بندھے ہوئے ہی اپنے آپ کو اللہ کی رسی سے مضبوط باندھ لیا تھا۔ انہوں نے دنیاوی ذمہ داریوں کو بھی کماحقہ پورا کیا اور اللہ تعالیٰ کے مشن کی ذمہ داری بھی خوب نبھائی۔ حضور پاکﷺ کی زندگی میرے سامنے ایک نمونہ بن کر آ گئی۔ میں نے اللہ پاک سے دعا کی کہ اے میرے رب! مجھے اپنی محبوب ترین ہستی کی طرز فکر کا عرفان عطا فرما۔

                دن گزرتے رہے۔ میں پوری کوشش کرتی کہ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مشن کی ذمہ داریاں بھی صحیح طریقے سے نبھا سکوں۔ دنیاوی اور روحانی دونوں رخوں میں بھرپور زندگی گزارتے ہوئے اکثر مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے میں خود ایک کتاب ہوں اور میں اپنی ہی کتاب پڑھ رہی ہوں۔ کبھی یوں لگتا جیسے شوہر ایک کتاب ہے جس کو میں پڑھ رہی ہوں۔ کبھی لگتا مرشد ایک کتاب ہے جسے میں پڑھ رہی ہوں۔ میں سوچتی میں تو اللہ کو پہچاننا چاہتی ہوں اس کا قرب چاہتی ہوں پھر کائنات کی کتاب میرے آگے کیسے کھل گئی۔ تنہائی میں بچپن سے لے کر اب تک کے ادوار میری نظروں سے گزر جاتے۔ ماں کی محبت کے ساتھ ساتھ ذہن کے پردے پر اللہ کے تصور سے عشق۔ پھر سہیلی کی محبت۔ بہن بھائیوں کی محبت۔ حبیب کی محبت اور اب رفتہ رفتہ مرشد کی محبت بھی اسی ہار کا ایک موتی بنتی جا رہی ہے۔ میں نے سوچا محبت تو ایک کشش کا نام ہے جو خیال کے مرکز سے ذہن کا رابطہ قائم کر دیتی ہے۔ تصور کا جو بھی مرکز ہو گا محبت کی کشش بندے کے ذہن کو اس کے قریب کر دیتی ہے۔ اس طرح ایک دوسرے کی پہچان ہو جاتی ہے مگر ان دنوں میری یہ بات سمجھ میں نہ آتی تھی کہ اللہ کی پہچان کے لئے اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لئے مجھے بندوں سے گزرنا کیوں پڑ رہا ہے۔ میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ ایسا کیوں ہے۔ عشق حقیقی تک پہنچنے کے لئے مجاز سے کیوں گزرنا پڑتا ہے۔ اور میرے اندر تو عشق مجازی اور عشق حقیقی کی دونوں لائنیں ریل کی پٹری کی طرح متوازی چل رہی تھیں۔ فرق صرف یہ تھا کہ عشق حقیقی والی لائن پر تصور کے پردے پر بس ایک ہی عکس دکھائی دیتا تھا جو بچپن سے اب تک میرے ساتھ چل رہا تھا اور عشق مجازی کی لائن پر عمر کے مختلف دور میں ایک نئی تصویر آتی جا رہی تھی۔ ہر تصویر اپنے مقام پر نقش دکھائی دیتی تھی۔

                میرے تینوں بیٹوں کی شادیاں بھی ہو گئیں۔ اس دوران ہمیشہ مجھے یوں لگا جیسے مرشد کی ذات ایک سورج ہے۔ جس کی کرنیں میری دنیا کو منور کر رہی ہیں۔ سورج کے بغیر زندگی کی حرکت نہیں ہے۔ میرا دل اپنی حیات کے لئے اس سورج سے وابستہ رہنے پر مجبور ہو گیا۔ اس حیات کے لئے جس کی مجھے جنم جنم سے تلاش تھی۔ چاند ستاروں کے ساتھ چلتے چلتے دل یہ بھی بھول گیا تھا کہ چاند ستاروں کی روشنی بھی تو سورج سے مستعار لی گئی ہے۔ سورج کی آب و تاب نے جب چاند ستاروں کو نگل لیا تو مرشد کے تصور نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ میرے تمام حواس اس لمحہ حقیقت کی گواہی پر مستعد ہو گئے۔ زبان اس لمحے کی صداقت کا اقرار کر بیٹھی ۔ مرشد کی صورت سرمدی آہستہ آہستہ میری سماعت کی گہرائیوں سے ٹکرانے لگی۔ اے بنت رسولﷺ اللہ کے سوا کائنات میں اور کوئی نہیں ہے جہاں تم ایک ہو وہاں دوسرا اللہ ہے۔ جہاں تم دو ہو وہاں تیسرا اللہ ہے۔ جہاں تم تین ہو وہاں چوتھا اللہ ہے۔ اللہ ہی ظاہر ہے اللہ ہی باطن ہے۔ اے بنت رسولﷺ یاد رکھو نظر جب کائنات کے ڈائی مینشن سے گزر جاتی ہے تو پھر ہر شئے کی نفی ہو جاتی ہے اور تصور میں صرف اللہ وحدہ لا شریک لہ باقی رہ جاتا ہے۔ کائنات کے ڈائی مینشن کو قطع کرنے والی نگاہ قلب کی گناہ ہے جو باطن میں دیکھتی ہے۔ کائنات کے تمام ڈائی مینشن باطن میں موجود ہیں۔ روحانی راستوں پر مرشد مرید کے زاویۂ نگاہ کی درستگی کرتا ہے تا کہ اس کی نگاہ اپنے رب کو دیکھ لے۔

                مجھے اپنے دل سے بندھی ہوئی بہت سی ڈوریاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ جو ڈوری ٹوٹتی مرشد کے ساتھ بندھ جاتی۔ میرے دل کو یقین ہو گیا کہ مرشد کے بغیر اور کوئی مجھے اللہ تک نہیں پہنچا سکتا۔ مرشد کے سوا اللہ کے ہر عکس نے ثانوی حیثیت اختیار کر لی۔

                میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ انسانوں کے اس جنگل میں کوئی تو ہم زبان نکلا جو روح کے تقاضوں سے واقف ہے۔ روح جس نے ازل میں سب سے پہلے اپنے خالق کو دیکھا اور اس کی ربوبیت کا اقرار کیا۔ میں جانتی تھی کہ روح کا وہ عہد الست اللہ تعالیٰ کے عشق کا اقرار ہے۔ دنیا میں آ کر روح کی نگاہ اسی مقام پر لوٹ جانے کے لئے برقرار رہتی ہے۔ جس مقام پر اس نے اللہ کو دیکھا اور اسی سے کلام کیا تھا۔

                اس موقعہ پر مجھے ایک کہانی یاد آ گئی جو مختصراً یہ ہے کہ مسافر سفر کرتا ہوا ایک ایسی وادی میں پہنچ گیا جو خوبصورت سرسبز پہاڑوں کے درمیان بہت گہرائی میں تھی۔ معصوم فطرت کی کشش نے اسے اپنی جانب کھینچ لیا۔ وہ وادی میں اتر آیا۔ اسے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ ساری کی ساری بستی ہی نابینائوں کی ہے۔ جن کے لئے دن اور رات دونوں ہی برابر ہیں۔ اس نے سوچا میں ان کے لئے مددگار ثابت ہو سکتا ہوں۔ وہ ان کے درمیان رہنے لگا۔ اسے وہاں ایک لڑکی سے محبت ہو گئی۔ وہ اس سے خوبصورت پھولوں کی باتیں کرتا۔ چاندنی راتوں کا تذکرہ کرتا۔ شفق پر پھیلی ہوئی لالی کا ذکر کرتا۔ وہ تو رفتہ رفتہ اسے اندھیروں سے نکال کر رنگ و روشنی کی دنیا میں لانا چاہتا تھا مگر جس نے کبھی اندھیروں کے سوا کچھ دیکھا ہی نہ ہو اس کے لئے یہ باتیں قابل قبول نہ تھیں۔ اس نے خوفزدہ ہو کر اپنے بزرگوں سے بات کی۔ تمام بزرگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کا دماغ چل گیا ہے۔ ایک بزرگ دانا نے فرمایا کہ میں نے اپنے دادا سے سنا تھا کہ ایک بار ایسا ہی آدمی اس وادی میں آیا تھا وہ بھی ایسی ہی الٹی الٹی باتیں کرتا تھا جب بستی کے لوگوں نے مل کر اس کی دونوں آنکھیں نکال ڈالیں تھیں تو پھر وہ بالکل ٹھیک ہو گیا تھا اور ہماری ہی طرح کی باتیں کرنے لگا تھا۔ اس بزرگ کی بات کو حکیم دانا کا قول سمجھ کر سب نے فیصلہ کر لیا کہ کل اس کی آنکھیں نکال دی جائیں گی تا کہ وہ ہم جیسا ہی بن جائے۔ مسافر کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو وہ صبح تڑکے جب سب سو رہے تھے چپکے سے اٹھ کر وادی سے بھاگ گیا۔

                جب میں نے یہ کہانی پڑھی تو دل سے آواز آئی۔ شمامہ یہ دنیا بھی اندھوں کی بستی کی طرح ہے۔ جن کی امداد کے لئے اللہ آنکھوں والوں کو بھیجتا رہتا ہے۔ میں سوچنے لگی۔ پیغمبروں نے کیسے اس دنیا والوں کے ساتھ گزارا کیا ہو گا۔ ان پر اللہ کا سلام ہو۔ بلاشبہ اللہ کی سلامتی کے دائرے میں وہ حقیقت کے منکر اور ظالم و جاہل لوگوں کے شر سے محفوظ رہے اور اللہ کے امر کو کمال تک پہنچایا۔ کتنی درست بات ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں۔ دنیا دل کے اندھوں کی ہی تو بستی ہے جو اللہ کے کلام کو جھٹلاتے ہیں۔ میرا دل درد سے بھر آتا۔ میں اللہ میاں سے کہتی کہ ان بے چاروں کا کیا قصور۔ یہ تو ہیں ہی کم عقل۔ انہیں معاف کر دیں جیسے جیسے مرشد کی مہربانیوں سے مجھ پر حق کی نوازشات ہوتی جاتیں میرا دل خلق کے غم سے ڈوبتا جاتا اور دل کی گہرائیوں میں روح کی دہائیاں سنائی دیتیں۔

                آج بھی میں یہی سوچتی ہوں کہ دنیا بھی کیسی بیوقوف اور اندھی ہے۔ سارے جہان سے محبت کی باتیں کرتی ہے اگر نہیں کرتی تو اپنے رب سے نہیں کرتی۔ سلام ہو میری ماں پر جس نے عشق کا راز مجھ پر کھولا۔ اس نے اپنے عشق کی خوشبو میرے دل میں بھردی۔ مرشد نے خوشبو سے بھری بوتل کا ڈھکنا کھول دیا۔ خوشبو کی ہر لہر میں یہ پیغام ہے۔ اے کلیو، اے پھولوں، اے رنگا رنگ بہارو، خوشبو تمہاری جان ہے۔ اپنی جان سے ہم رشتہ رہو۔ تمہارے رنگ سدا قائم رہیں گے۔

                تم مجھ سے پوچھتے ہو کہ عشق کی حقیقت کیا ہے؟ کیا تم نے اللہ کا کلام نہیں سنا۔

                فلا اقسم بمواقع نجوم

                قسم ان مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔

                )سورہ واقعہ(

                جہاں نظر کے تمام ڈائی مینشن ڈوب جائیں اسی نقطے سے عشق کا آغاز ہوتا ہے۔ اے سننے والے، عشق تو ایک خوشبو ہے۔ جو داستان عشق کے کتنے ہی مقامات پر تمہیں مل جائے گی۔ عشق کا ہر مقام ایک عالم ہے جس میں کائنات کا ہر عکس ڈوب جاتا ہے خواہ وہ عکس ماں کا ہو، سہیلی کا ہو، بھائی کا ہو، شوہر کا ہو یا مرشد کا ہو۔ عشق کی نگاہ کسی عکس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ وہ ہر بار سے آزاد ہے۔ اس کا محبوب تو نظر کا اولین جلوہ ہے جو روز ازل نظر نے دیکھا تھا۔ وہ کون ہے؟ وہ کیا ہے؟ یہ راز تو ان مقامات میں ڈوب کر ہی نظر پا سکتی ہے۔ جن کی قسم کھائی گئی ہے۔ ہے کوئی اس حقیقت کی کھوج لگانے والا………………

 

 

 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی