Topics
مجھے پہلے ہی اندیشہ تھا
کہ کہیں ایسے حالات نہ ہو جائیں کہ مجھے حبیب سے الگ ہونا پڑے۔ حبیب میرا شوہر ہے
میرے بچوں کا باپ ہے۔ اس کی محبت قدرتی بات ہے۔ میرے ذہن میں محبوبیت کی فکر کے
ہمیشہ دو رخ رہے۔ ایک رخ میں کبھی کوئی تغیر نہ آیا۔ یہ رخ اللہ کی جانب تھا، اللہ
کو دیکھنے اللہ کو پانے اور اس کے تخلیقی رموز کو جاننے کی خواہش میں بچپن سے لے
کر آج تک کبھی کوئی تبدیلی نہ آئی۔ دوسرا رخ دنیا کی جانب تھا۔ اس رخ میں محبوبیت
کی فکر شعوری تقاضوں کے ساتھ پروان چڑھ رہی تھی۔ پروان کے ہر دور میں تصور فکر کی
روشنیوں کو کسی نہ کسی خاکے میں ڈھال کر نگاہ کے سامنے لے آتا۔ تصور کا خاکہ ماں
تھی۔ پھر بہن اور بھائی بنے پھر اسکول کی ایک ٹیچر بنی پھر ایک سہیلی بنی اور پھر
تصور کا یہ خاکہ دل کے تمام تقاضوں کے ساتھ رنگین ہو کر حبیب کی صورت میں سامنے آ
گیا۔ دل نے سارے رنگ اس تصویر میں بھر دیئے۔ اب کوئی رنگ باقی نہ تھا۔ نگاہ کے
سامنے ایک تصویر ٹھہر گئی تھی۔ میں جانتی تھی کہ دنیا ایک پردہ ہے اس پردے پر
تصویریں آتی جاتی رہتی ہیں۔ کوئی تصویر ہمیشہ نہیں رہتی۔ ابدی زندگی اللہ ہی کے
ساتھ ہے مگر ابدی زندگی کے خاکے دنیاوی خاکوں سے کیسے مل گئے اگر مل نہ گئے ہوتے
تو تصویر ٹھہر کیسے جاتی۔ دل ہر وقت اپنے رب کی بارگاہ میں درخواست کرتا۔ تیری
کوئی صورت نہیں ہے تیری کوئی حاجت نہیں ہے مگر میں حاجت مند ہوں بغیر ضرورت کے
دیکھنے کا تقاضہ پورا نہیں ہوتا۔ نظر جسے چاہتی ہے تو بھی اس پر محبت کی نظر ڈال
تا کہ یہ سنگم ابدی ہو جائیں۔
مجھے معلوم تھا کہ ابدی
زندگی دو ذہنوں کا میل ہے۔ میں اپنی روح کے تقاضوں سے خوب اچھی طرح واقف تھی۔ روح
کے غیب میں داخل ہونے کی تڑپ کو نہ میں بدل سکتی تھی نہ ہی بدلنا چاہتی تھی۔ البتہ
میری شدید خواہش تھی کہ حبیب بھی اپنی روح کے اس تقاضے کو پہچان لیں اور ہم دونوں
اس دنیا کی طرح ابدی زندگی کے بھی ہمراہی بن جائیں۔ میں جانتی تھی حبیب کے لئے اس
فکر میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کے سامنے اس دنیا کے تقاضے ہیں۔ حج کے لئے بھی ان
کا نظریہ یہ تھا کہ بار بار حج کرنے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ حج کے ان پیسوں سے کسی
غریب کی شادی کرا دو۔ کیا اس کا زیادہ ثواب نہیں ہو گا؟ لیکن میرے نزدیک اللہ کا
حکم بندے کی سوچ پر فضیلت رکھتا ہے۔ میں کہتی جو بات اللہ نے اپنے بندوں کے لئے
مقرر کی ہے اس میں ضرور بندوں کے لئے ایسی منافعت ہے جس کا بدل نہیں ہو سکتا۔ وہ
کہتے نماز روزہ اور دیگر فرائض کی بجا آوری کافی ہے۔ آخرت کے متعلق اور کیا سوچنا
ہے۔ اللہ نے جو مقرر کیا ہے وہی ہونا ہے۔ میں کہتی ہونا تو وہی ہے جو وہ چاہتا ہے
مگر وہ کیا چاہتا ہے ہمیں بھی تو اس کی پسند کا پتہ لگنا چاہئے تا کہ زیادہ سے
زیادہ اس کے قریب آ سکیں۔
بہرحال ہوتا تو وہی ہے جو
اللہ چاہتا ہے بندہ بے بس ہے۔ طے یہ پایا کہ میں بچوں کو لے کر چلی جائوں۔ بہن کے
یہاں رہ کر ان کے برابر والی زمین پر جو ہماری تھی دو کمرے بنوا لوں۔ بعد میں حبیب
بھی آ جائیں گے۔ مجھے پتہ تھا حبیب کے بغیر میں ایک لمحہ بھی خوش نہ رہ سکوں گی
مگر قدرت کے فیصلے کے آگے سر جھکانے پر مجبور تھی۔ اب روزانہ حبیب پریشان کن خواب
دیکھنے لگے۔ ہم دونوں اپنی جگہ پریشان تھے کہ کیا ہونے والا ہے۔ بہرحال میں بچوں
کے ساتھ پاکستان آ گئی اور بہن کے یہاں رہ کر اپنی زمین پر دو کمرے بنوانے میں لگ
گئی۔ بہن کے یہاں ہی تھی۔ ابھی آئے ہوئے ایک دو ماہ ہی گزرے تھے کہ رمضان آ گئے۔
شروع روزوں سے ہی مجھ پر الہامی کیفیات طاری ہو گئیں۔ یہ ایسا دور تھا کہ لاشعور
مجھ پر غالب آ جاتا تھا اور میری زندگی روحانی اور جسمانی دونوں رخوں میں یکساں
طور پر چلتی تھی۔ میری بڑی بہن اور میرے والدین ان چیزوں کو سمجھتے تھے۔ روزوں
میں، میں روزانہ دیکھتی کہ میری روح کیا کر رہی ہے۔ روح کبھی جنت دیکھتی، کبھی
دوزخ دیکھتی۔ روح جب دوزخ دیکھتی تو اللہ تعالیٰ سے دوزخیوں کی بخشش کے لئے دعا
کرتی۔ جب لاشعور غالب ہوتا ہے تو آدمی سب کچھ دیکھتا ہے مگر شعور معنی نہیں پہناتا
بلکہ لا شعور معنی پہناتا ہے۔ شعور اس ساری کارروائی کو ایک اطلاع کے طور پر
دیکھتا ہے اس کے اندر شعوری حواس شامل نہیں ہوتے بلکہ شعور کو اطلاع بھی لاشعوری
حواس میں ملتی ہے۔
آخری عشرہ شروع ہوا۔ مجھے
بتایا گیا کہ فلاں فلاں رات کو شب قدر ہے۔ اس دن سارے گھر والوں کو جمع کر لو۔
مجھے یہ تو پتا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے مگر کیا ہونے والا ہے اس کا کوئی اندازہ
نہ تھا۔ میں نے بڑی بہن کو کہہ دیا۔ انہوں نے دوسری بہنوں کو کہلوا دیا۔ امی ابا
کو بھی بلوانے کا انتظام کر لیا گیا۔ شام ہی سے مجھے غسل کر کے پاک صاف کپڑے پہن
کر تیار رہنے کے لئے کہا گیا۔ دن میں جب امی ابا کو لینے کے لئے بہن نے کسی کو
بھجوایا تو تھوڑی دیر بعد سارا سین میری آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ اس شخص نے دروازہ
کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھلا تو پہلے تو میں یہ سمجھی کہ امی ہیں مگر پھر صورت جو دیکھی
تو امی کے کپڑوں میں چھوٹی بہن تھی۔ اس نے امی کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی۔ امی ابا
گھر آ گئے تو میری بڑی بہن نے لانے والے سے پوچھا کہ دروازہ کس نے کھولا تھا تو وہ
بولا پہلے تو میں سمجھا کہ آپ کی امی ہیں مگر پھر دیکھا تو آپ کی بہن تھیں۔ انہوں
نے آپ کی امی کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی۔ امی ہمیشہ سفید ململ کی پتلی باڈر والی
ساڑھی پہنتی تھیں۔ تو وہ خوب اچھی طرح جانتا تھا میری سماعت نے اسے بھی ایک اطلاع
کے طور پر قبول کیا۔
مجھ پر تو شروع رمضان سے
ہی ایسی حالت طاری تھی کہ میں سوائے ضروری بات کے کچھ نہیں بولتی تھی۔ میں یہ سن
کر چپ رہی مگر دل نے کہا یہ سب تو مجھے پہلے ہی پتہ تھا۔ عقل اس تصدیق کی وجہ سے
کچھ اور بھی مرعوب ہو گئی اور اس کا یقین اور بھی پختہ ہو گیا۔ میں جانتی تھی کہ
غیب کی چیزیں دکھا کر میرے سامنے کسی نہ کسی ذریعے سے شعوری طور پر اس کی تصدیق اس
وجہ سے کرائی جاتی ہے تا کہ میری عقل میں کسی قسم کا شک اور وسوسہ پیدا نہ ہو۔
میرے ساتھ تو بچپن ہی سے ایسے واقعات ہو رہے تھے جس کی وجہ سے ہر دفعہ میری عقل ان
واقعات کو ایک نئے زاویئے سے دیکھتی اور جب میں الہامی کیفیات سے باہر نکلتی تو ان
واقعات کی تشریح ایک نئے انداز سے میرے سامنے آ جاتی۔
ہر آدمی اپنے اندر کی کیفیات
کو خوب جانتا ہے۔ مجھے کبھی خیال بھی نہ گزرا کہ خدانخواستہ میرا دماغ چل گیا ہے
یا ایسی کوئی بات ہے بلکہ وقتاً فوقتاً الہامی کیفیات میرے یقین اور عقل و شعور کو
مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتی اور غیب کو جاننے کا اشتیاق پہلے سے بھی زیادہ
بڑھ جاتا اور اس کے ساتھ ساتھ غیب میں معنی پہنانے کا فہم بھی بڑھ جاتا۔ بہرحال
امی ابا بھی آ گئے۔ سب لوگ ایک کمرے میں جمع ہو گئے۔ اس کمرے میں ایک جانب پڑا
پلنگ تھا جس پر امی بیٹھی تھیں باقی کمرے میں فرش بچھا دیا گیا۔ اب میرے ذہن میں
کمرے کا پورا نقشہ آ گیا۔ میں ایک جانب کھڑی تحکمانہ لہجے میں بڑی بہن کو ہدایت
دیتی جاتی کہ اس طرح بچھائو۔ یہاں جائے نماز بچھائو۔ یہاں یوں یوں کرو۔ میرا لہجہ
تحکمانہ تھا اور بڑی بہن جو مجھ سے کم از کم سات آٹھ سال بڑی تھیں اور میں ان کا
بے حد ادب کرتی تھی نارمل حالت میں ہرگز بھی ان سے اس لہجے میں گفتگو کرنے کی جرأت
نہیں کر سکتی تھی۔ نہ ہی ان سے کسی کام کا کہہ سکتی تھی کیونکہ ادب کا تقاضہ یہ ہے
کہ چھوٹے بڑوں کی خدمت کریں نہ کہ بڑے چھوٹوں کی مگر اس وقت میرے ذہن میں اس کا
بالکل ہی الٹ تھا۔ مجھے تمام بڑے بہن بھائی سب اپنے سے چھوٹے محسوس ہو رہے تھے یہاں
تک کہ اس لمحے میرے ماں باپ بھی مجھے اس طرح لگے جیسے یہ کچھ نہیں جانتے ہیں۔ مجھے
ہی انہیں بتانا ہے۔ اس لمحے بڑے چھوٹے کی درجہ بندی میرے اندر علمی اعتبار سے تھی
اور مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ جو کچھ میں دیکھ رہی ہوں یہ لوگ نہیں دیکھ رہے۔
میری نگاہ وقت کی آنے
والی ساعت کے اندر دیکھ رہی تھی۔ میں نے کمرے کے اندر سب سے پہلے پانچ عدد جاء
نمازیں برابر برابر قبلہ رخ بچھوائیں۔ بہن نے پوچھا یہ کس کے لئے ہے۔ میں نے انہیں
گھور کے دیکھا۔ وہ سمجھ گئیں کہ اس وقت سوال کرنا مناسب نہیں ہے۔ پھر اس کے بالکل
پیچھے درمیان میں ایک جاء نماز بچھوائی۔ پھر باقی سارے فرش پر سفید چادر تو پہلے
ہی بچھی ہوئی تھی سب سے کہا کہ آپ سب لوگ اس چادر پر بیٹھ جائیں۔ اس وقت بڑے
بہنوئی دوسرے کمرے میں تھے۔ ان کی والدہ کا کچھ ہی عرصہ ہوا انتقال ہوا تھا۔ میری
نظروں کے سامنے وہ آ گئیں وہ نہایت ہی نیک بی بی تھیں۔ میں نے انہیں اعراف میں بڑی
اچھی حالت میں دیکھا۔ میرے قدم خود بخود بہنوئی کے کمرے کی جانب اٹھ گئے۔ وہ بیٹھے
تھے میں نے بہنوئی کی والدہ کو بس ایک دو بار ہی دیکھا تھا کیونکہ وہ دوسرے شہر
میں اپنے دوسرے بچوں اور شوہر کے ساتھ رہتی تھیں۔ ان سے بہت ہی کم میری ملاقات
رہی۔ دوسرے لفظوں میں، میں انہیں اچھی طرح جانتی ہی نہیں تھی۔ میں نے بہنوئی سے
کہا کہ آپ کی والدہ اس وقت میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ پہلے تو میں نے ان کا حلیہ
بتایا اور ان کی موجودہ حالت بتائی پھر ان کا پیغام ان ہی کے الفاظ میں دیا جس میں
بہنوئی کے بچپن کے کچھ خاص القاب بھی تھے جسے سن کر بہنوئی رونے لگے۔ میں نے کہا
آپ اب دوسرے کمرے میں آ جائیں۔ تھوڑی دیر بعد ٹھیک اس ٹائم پر شب قدر کا پروگرام
شروع ہونے والا ہے۔ وہ کہنے لگے تم چلو میں ابھی وضو کر کے آتا ہوں۔ اس وقت رات کے
تقریباً پونے نو بج رہے تھے میں نے سب سے کہا کہ ٹھیک نو بجے عشاء کی نما زپڑھائی
جائے گی۔
نو بجنے میں پانچ منٹ رہ
گئے اس وقت کمرے میں بچے بھی موجود تھے۔ میرے چاروں بچے جن کی عمریں سات سال سے لے
کر سوا سال تک کی تھی۔ بہن کے بچے بارہ سال، گیارہ سال اور چھ سال کے تھے۔ میں نے
اپنے چاروں بچوں کو اور بہن کی چھ سالہ بچی کو نام کے ساتھ آواز دی۔ آواز دیتے وقت
مجھے قطعی یہ احساس نہ تھا کہ یہ میرے بچے ہیں یوں لگتا تھا جیسے بس یہ بچے ہیں
اور بچگانہ فطرت کے مطابق یہ ہمارے پروگرام میں رکاوٹ کا باعث بن سکتے ہیں۔ میں نے
نہایت ہی رعب دار آواز میں ایک ایک بچے کا نام لیا اور پکار کر کہا کہ یہاں آئو وہ
آواز سنتے ہی میرے پاس آتے گئے۔ میں انہیں حکم دیتی۔ پلنگ پر لیٹ جائو۔ سرہانے کی
جانب امی ٹیک لگا کر بیٹھی تھیں۔ بچوں کو میں ایک ایک کر کے پلنگ پر آڑا آڑا لٹاتی
چلی گئی۔ تمام بچوں کی نظریں میری جانب لگی تھیں اور وہ بالکل بے حس آنکھیں کھولے
سیدھے لیٹے ہوئے مجھے تک رہے تھے۔ جب سب لیٹ گئے میں نے داہنے ہاتھ کی کلمے والی
انگلی سے ایک ایک بچے کی جانب اشارہ کیا اور نہایت رعب دار تحکمانہ لہجے میں ایک
ایک بچے کا نام لے کر حکم دیا سو جائو۔ جیسے ہی میں انگلی کے اشارے سے نام لے کر
کہتی فلاں تم سو جائو اس کی آنکھیں بند ہو جاتیں۔ اس سارے کو مشکل سے دو منٹ لگے۔
پانچوں بچوں کی گہری نیند
میں گہری گہری سانسوں کی آوازیں آنے لگیں۔ اب میں پیچھے مڑی تو دیکھا کہ سارا
خاندان بھونچکا۔ حیران نظروں سے مجھ دیکھ رہا ہے۔ مجھ پر اس قدر لاشعور کا غلبہ
تھا کہ میں ان کی اندرونی کیفیات کو خوب اچھی طرح دیکھ رہی تھی اور سمجھ رہی تھی
مگر بس یہ علمی حد تک تھا میرے اوپر اس کے شعوری احساس غالب نہیں ہوتے تھے جس کی
وجہ سے میرے اوپر مسلسل ایک سی کیفیت طاری تھی جیسے میرا جسم ایک روبوٹ ہے یا مشین
ہے جو حرکت کر رہا ہے۔ خوشی یا غم کا کوئی اور احساس نہ تھا جس کی وجہ سے چہرے پر
مستقل متانت طاری تھی۔ اب میں پہلی رو کی پانچ عدد جاء نمازیں خالی چھوڑ کر اس کے
پیچھے بچھی ہوئی ایک جاء نماز پر جا کھڑی ہوئی اور سب کو کہا کہ اپنی اپنی صفیں
درست کر لو۔ اب عشاء کی نماز ہونے والی ہے۔ سب لوگ بالکل ہی چپ چاپ تھے۔ اپنے
پیچھے میں نے ابا جان کو کھڑا کیا۔ بڑی بہن اور بڑے بہنوئی برابر میں تھے۔ پھر ان
کے پیچھے والی صف میں دوسری بہنیں تھیں پھر اس کے بعد والی صف میں بہن کے بڑے بچے
تھے اس طرح پورا کمرہ بھر گیا۔ ٹھیک نو بجے عشاء کی نماز شروع کی۔ نماز عشاء ختم
کرنے کے بعد سب لوگ اسی طرح اپنی اپنی جگہ ]پر بیٹھ گئے۔
سحر کا وقت ہو چکا تھا۔
رات کے تقریباً تین سوا تین بجے تھے۔ سارے ہی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ میں
جو جو دیکھ رہی تھی وہ زبان سے بھی خود بخود نکلتا جا رہا تھا۔ اس پوری رات سے مجھ
پر اس حد تک لاشعوری غلبہ تھا کہ اس وقت خود بخود میرے منہ سے نکل رہا تھا کہ میرا
نام شمامہ ہے۔ میرے شوہر کا نام حبیب ہے۔ میرے چار بچے ہیں۔ میں دنیا میں رہتی
ہوں۔ ہر تھوڑی دیر بعد زبان ان الفاظ کو دہرا کر میرے اندر شعوری سکت پیدا کرتی
تھی۔ میری بڑی بہن میری حالت کو خوب سمجھ رہی تھیں۔ وہ میری پشت سہلاتیں اور کہتیں
ہاں ہاں تمہارا نام شمامہ ہے۔ مجھے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اس وقت شعور اپنے وجود
کو برقرار رکھنے کے لئے پوری پوری جدوجہد کر رہا ہے۔ کئی دفعہ یہ جملے دہرانے کے
بعد میرے ذہن میں ایک لمحے کو خیال گزرا کہ مجھے اپنے بال بچوں کے لئے شعوری حالت
درست رکھنی ضروری ہے۔ مجھے خیال آیا کہ ہر شب قدر میں فرشتے زمین پر اترتے ہیں۔ یہ
تمام فرشتے گروہ جبریل ہیں جو زمین پر اتر کر اس مقدس رات میں بنی نوع انسان کی
فلاح و بہبود کے لئے دعائیں مانگتے ہیں اور اس مقدس رات میں عبادت کرنے والوں کی
اللہ پاک کے حضور اور بارگاہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم میں ان کا تذکرہ کرتے
ہیں۔ اور ان کے لئے رحمت کی درخواست کرتے ہیں۔ میں نے اس رات ان مقرب فرشتوں کے
واسطے سے دعا کی کہ میرے ماں باپ پر خصوصی نظر ہو۔
دعا کے بعد بہن نے سحری
کا انتظام کیا جو پہلے ہی تیار تھیں بس گرم کر کے لگا دیا گیا۔ مجھ سے کہا کہ کھو
لو۔ میں چپ چاپ ایک جانب بیٹھی تھی مجھ پر پوری طرح جذب طاری تھا میں اپنے آپ کو
پوری طرح ظاہری طور پر دیکھ رہی تھی مگر وہ صورت مختلف تھی میرا پورا سراپا قطعی
طور پر بدلا ہوا تھا۔ نہ وہ دنیاوی لباس تھا نہ وہ رنگ و روپ میری بہنیں اور میرے
دوسرے گھر والے آپس میں چپکے چپکے ایک دوسرے سے کہتے سنائی دیتے۔ شمامہ کو دیکھا
تم نے یہ تو بالکل ہی تبدیل ہو گئی ہے۔ سب مجھے اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے میں کوئی
عجوبہ ہوں۔ میری بڑی بہن بولیں۔ شمامہ تم نے اپنی صورت دیکھی ہے۔ آئینہ لائوں۔ تم
تو بے حد حسین لگ رہی ہو۔ ہمیں تو کسی طرح یقین نہیں آتا۔ وہ بار بار کہتیں۔ آئینہ
لائوں تم اپنی صورت تو دیکھ لوں۔ میں صرف مسکرا دی اور ہاتھ کے اشارے سے انہیں منع
کر دیا۔ انہیں پتہ نہیں تھا کہ میری نگاہ اندر باہر خوب دیکھ رہی ہے۔
ابھی سحری ختم ہی کی تھی
کہ ایک دم بیٹھے بیٹھے میں تیزی سے اٹھ کر باہر صحن میں آ گئی۔ سارے میرے پیچھے
پیچھے آ گئے۔ میں آسمان پر دیکھنے لگی مجھے سارے آسمان پر نور ہی نور پھیلا ہوا
نظر آیا۔ میں نے اسے دیکھتے ہی بے ساختہ اللہ اکبر اور سبحان اللہ کہنا شروع کر
دیا۔ یہ نور آہستہ آہستہ پھیلتا گیا۔ میری نگاہ آسمان کو نہایت ہی وسیع دیکھ رہی
تھی۔ آہستہ آہستہ اس نور کے جمال کے رنگ دکھائی دیئے۔ بہن نے پوچھا کیا دیکھ رہی
ہو۔ ہمیں بھی بتائو۔ میں نے بتایا کہ نورانی نظارے نگاہ کے سامنے ہیں۔ دعا کرو سب
لوگ دعائیں کرنے لگے۔ میں تو صرف نظارے میں گم تھی۔ میرے اندر کسی قسم کا تقاضہ نہ
تھا۔ نہ کوئی خیال تھا۔ بس نظر دیکھنے میں مشغول تھی۔ اسی وقت میری بڑی بہن بولیں۔
شمامہ اللہ سے اسم اعظم مانگو۔ انہوں نے نہایت ہی شوق میں یہ بات کہی میں تو بس
دیکھنے میں گم تھی۔ یہ نظارہ بہت دیر تک نگاہ کے سامنے رہا۔ کئی منٹ کے بعد جب نور
آنکھوں سے چھپ گیا تو میں اندر آ گئی اور پھر اسی کونے میں بیٹھ گئی۔ میری بہن
میرے پاس بیٹھ گئیں اور پھر نہایت ہی اصرار کے ساتھ کہا۔
شمامہ اللہ پاک سے اسم
اعظم مانگ لو۔ انہوں نے دو تین بار اصرارً کہا۔ میں اسی طرح جذب کی حالت میں تھی
بالکل چپ چاپ اپنی کیفیات میں گم سم بیٹھی تھی کہ اچانک ان کے کہنے کے فوراً بعد
ہی مجھے ایک روشنی سی دکھائی دی اور اس روشنی کا وزن بھی تھا اور اتنا زیادہ تھا
کہ میری پشت اس کے بوجھ سے زمین سے جا لگی۔ شدید درد کے مارے میری سانس رکنے لگی۔
کراہتے ہوئے میرے منہ سے نکلا، بہن کا نام لیتے ہوئے میں نے کہا۔ آہ! یہ تم نے کیا
مانگ لیا۔ یہ بڑی بھاری چیز ہے مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میری گردن اور پشت پر ایک
انتہائی بھای بوجھ لادا گیا ہے۔ جس کی تکلیف اور وزن سے میرے اعصاب ٹوٹے جا رہے
ہیں۔ میری تکلیف دیکھ کر میری بہن سخت شرمندہ بھی ہوئی۔ وہ بار بار معافی مانگتیں
کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ اتنی بھاری چیز ہے ورنہ نہ کہتی۔
چند منٹ کے بعد میری
سانسیں بحال ہوئیں۔ درد کی شدت میں کمی ہوئی اور وزن پشت سے ہٹا لیا گیا۔ مجھے یوں
لگا جیسے نور میرے وجود میں سما گیا ہے۔ میری بہن نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔ اسم
اعظم کیا ہے۔ میں اسی طرح جذب میں بیٹھی رہی۔ انہوں نے پھر کہا اسم اعظم نور ہے؟
میں نے بس اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس وقت مجھے یوں محسوس ہوا کہ اگر میں انہیں اسم
اعظم بتا بھی دوں تو انہیں اس کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اسم اعظم تو اللہ کا نور
ہے۔ یہ نور جب آدمی کے اندر منتقل ہو جاتا ہے تو آدمی کی باطنی صلاحیت بن جاتا ہے۔
اگرچہ میرے دل میں یہ خیال تھا مگر اثبات میں سر ہلتے دیکھ کر میری بہن بہت خوش
ہوئیں۔ مجھے ان پر بے حد پیار آیا اور میں اندر ہی اندر ان کی شکر گزار تھی کہ انہوں
نے روح کی تحریک میں حصہ لیا۔ اب نماز فجر کا وقت ہو چکا تھا۔ سب لوگ نماز پڑھنے
لگے۔ میں مشاہدہ میں گم بیٹھی رہی میرا تو عالم ہی اور تھا۔ اندر اندر ہاتف غیبی
یہ اطلاع دے رہا تھا کہ اب سب کچھ آہستہ آہستہ ہو گا۔
روزے ختم ہوئے تو میری
حالت بھی نارمل ہو گئی۔ وہ جذب کی کیفیت ختم ہو گئی۔ جیسے ہی میں نارمل ہوئی۔ مجھے
سب سے پہلے حبیب کا خیال آیا۔ کاش وہ بھی یہاں ہوتے۔ میں جن حالات سے گزری ہوں
انہیں بھی اس کا علم ہوتا۔ اس خیال کے ساتھ ساتھ مجھے یہ خیال بھی آیا کہ مجھے
انگلینڈ سے اسی لئے بھیجا گیا تا کہ ان کیفیات سے گزارا جائے۔ اگر اللہ کو منظور
ہوتا تو حبیب بھی میرے ساتھ ہوتے۔ مجھے معلوم تھا کہ سب کچھ اللہ ہی کی مرضی سے
ہوتا ہے مگر اس کے باوجود بھی مجھے بڑی تکلیف اس بات کی تھی کہ حبیب ایسی متبرک
رات میں ساتھ نہ تھے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ حبیب سے دین و دنیا کی کوئی نعمت نہ
چھوٹے۔ اللہ پاک کو دیکھنے، ان کو جاننے اور پہچاننے اور ان کی قربت حاصل کرنے کے
ساتھ ساتھ میری دوسری سب سے بڑی خواہش اگر تھی تو بس یہ کہ حبیب میرا ابدی ساتھی
بن جائے۔ میری روحانی کیفیات و واردات سے بھی وہ پوری طرح آگاہ رہے تا کہ اگلی
دنیا میں ہماری ذہنی ہم آہنگی رہے۔ مجھے بار بار خیال آتا اگر میں یہ ساری کیفیات
انہیں لکھوں بھی تو وہ انہیں سمجھ بھی سکیں گے یا نہیں۔ مجھے معلوم تھا انہیں
روحانیت سے اتنی دلچسپی نہیں ہے ان کی تو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ کوئی بندہ اللہ
پاک سے محبت کیسے کر سکتا ہے۔ محبت تو دیکھ کر ہوتی ہے۔ اللہ پاک کو آنکھوں سے
دیکھے بغیر کوئی کیسے محبت کر سکتا ہے۔
میری اکثر اس بات پر اس
سے بحث ہوتی، میں کہتی ہم اپنی ماں سے محبت کرتے ہیں اس لئے کہ اس نے ہمیں پیدا
کیا پالا پوسا۔ باپ سے محبت کرتے ہیں کہ ہماری کفالت کی ذمہ داری اٹھائی۔ بہن بھائیوں
سے محبت کرتے ہیں کہ دکھ درد میں شریک رہے۔ پڑوسیوں سے محبت کرتے ہیں کہ شادی و غم
میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ اللہ جو ماں، باپ، بھائی بہن، پڑوسی ہر ایک سے
زیادہ خیال رکھنے والا ہے اس سے محبت کا خیال کیوں نہیں آتا۔ اس ہستی کو دیکھنے کی
تڑپ کیوں نہیں پیدا ہوتی جب کہ ماں باپ یا بچوں وغیرہ کے آنکھ سے اوجھل ہونے پر
انہیں دیکھنے کے لئے بے چین ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر دنیا کی کسی بھی
ہستی سے کیسے محبت ہو سکتی ہے۔ میرا جی چاہتا حبیب بھی میری طرح اللہ سے محبت کرنے
لگ جائیں۔ ان کی بھی روحانی صلاحیتیں ابھر آئیں۔ ہم دونوں غیب کی دنیا میں ساتھ
ساتھ سفر کریں۔
میں ہر وقت سوچتی رہتی کہ
اب انہیں قرآن پڑھ کر کون سناتا ہو گا۔ تلاوت تو وہ بہت خوش الحانی کے ساتھ کرتے
تھے مگر میں تو انہیں ترجمہ پڑھ کر سناتی تھی اور اس میں غور و فکر کے بعد جو میری
سمجھ میں آتا وہ بھی انہیں بتاتی تھی۔ اب انہیں کوئی بھی بتانے وال نہ ہو گا۔ وہ
وہاں کے ماحول میں گم ہو کر سب کچھ بھول جائیں گے۔ رات کو جب تنہائی ہوتی میں خوب
روتی۔ صبح ہوتی تو بال بچوں میں مصروف ہو جاتی۔ کسی کو پتہ بھی نہ چلتا۔ بہن
بہنوئی اور تمام رشتے دار مجھے اور بچوں کو بہت چاہتے۔ ہمارا خیال رکھتے۔ رات کو
کھانا سب ایک دسترخوان پر کھاتے۔ ماحول بڑا خوشگوار ہوتا۔ ہلکی پھلکی باتیں ہوتیں۔
ہنسی مذاق بھی ہوتا۔
ایک دفعہ کھانا کھانے کے
دوران پانی کی ایک باریک سی دھار مجھ پر پڑی۔ میں نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا۔ آس
پاس بچے وغیرہ بیٹھے تھے۔ چھوٹی تین بہنیں بھی تھیں۔ بہنوئی دسترخوان کے دوسرے
کنارے پر تھے جو مجھ سے دوسرے کونے میں تھے۔ میں نے ان کی صورت دیکھی تو ان کی
شرارت کا اندازہ ہو گیا کہ ضرور انہوں نے ہی پانی پھینکا ہے ورنہ چھوٹوں کی تو
مجال نہیں تھی کہ مجھ سے ایسی شرارت کرتے۔ مجھے پتہ تھا کہ بہنوئی منہ میں پانی لے
کر دانتوں کے درمیان سے دھار نکالتے ہیں مگر کبھی دیکھانہ تھا۔ میں نے سوچا ضرور
بھائی نے ہی پھینکا ہو گا۔ اب جو ادھر ادھر دیکھنے لگی تو بہنوئی بولے کیا ہوا۔
میں نے مسکرا کے کہا کہ آپ نے پانی پھینکا ہے۔ چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے ہوئے
کہنے لگے نہیں تو مجھے کیا ضرورت تھی۔ میں نے کہا خیر جس نے بھی پھینکا، ہے بہت
بڑا آرٹ۔ اتنی دور پھینکنا بڑی مہارت کی بات ہے۔ فوراً بولے میں تو اس سے بھی دور
پھینک سکتا ہوں۔ میں زور سے ہنس پڑی کہ چوری پکڑی گئی۔ سب ہنس دیئے۔ بہنوئی ہنس کر
کہنے لگے تعریف آدمی کی کمزوری ہے تعریف سن کر چپ نہیں رہ سکتا۔
ان دنوں ابھی میں نے مکان
بنانا شروع نہیں کیا تھا۔ بس چار دیواری بنی ہوئی تھی۔ درمیان میں دونوں گھروں کے
صحن میں ایک دروازہ تھا۔ ہمارے پلاٹ پر سبزیاں اور شریفوں کے درخت بوئے ہوئے تھے۔
میرے چھوٹے چھوٹے لڑکوں نے انگلینڈ میں کبھی چیونٹی بھی نہیں دیکھی تھی۔ وہ
چیونٹیاں اور مکوڑوں کو دیکھ کر ایسے خوش ہوتے، تینوں کے تینوں ان کے پاس بیٹھ
جاتے اور خوش ہو ہو کر ہارسی ہارسیHorseyکہتے۔
بارش آئی تو چھوٹے چھوٹے مینڈکوں سے صحن بھر گیا۔ میرا بڑا لڑکا جو چار سال کا تھا
وہ بڑا شریر تھا۔ اسے پتہ تھا کہ امی ایسی چیزوں سے ڈرتی ہیں۔ دونوں ہاتھوں میں
مینڈک بھر لیتا اور میرے اوپر چھوڑ دیتا کبھی میرا بھانجا گرگٹ کی دم پکڑ کر میرے
پیچھے آتا۔ میں آگے آگے وہ پیچھے پیچھے۔ اس صحن سے اس صحن میں خوب دوڑتے۔ بڑا ہی
مزا آتا۔ شام بچوں کے ساتھ کھیلتے کودتے گزر جاتی مگر رات کو خیالات کا دھارا پھر
حبیب کی جانب بہہ نکلتا۔
سچ تو یہ ہے کہ دن ہو یا
رات۔ حبیب کا خیال تو ہر وقت ہی رہتا تھا مگر دن کی مصروفیات اور لوگوں کی موجودگی
دل کے معاملات کسی پر افشا نہ ہونے دیتی مگر رات آتی تو دل اپنے سارے دروازے کھول
دیتا۔ کبھی میں سوچتی، حبیب کو اپنے کپڑے بھی خود دھونے پڑتے ہونگے۔ وہ اپنے جوتوں
پر پالش بھی خود کرتے ہونگے۔ کھانا بھی پکاتے ہونگے۔ میں بے بسی سے رو پڑتی۔ کاش
انسان اتنا بے بس اور کمزور نہ ہوتا۔ کاش اس کے پاس ایسی قوت ہوتی کہ لمحوں میں
دور دراز کا سفر کر لیتا۔ دل کے ہر دروازے سے تقاضے اندر آنے لگتے۔ دل حسرتوں کے
ہجوم میں تلملا کر رہ جاتا۔ مجھے یوں لگتا جیسے کوئی دھیرے دھیرے میری جان نکال
رہا ہے۔ جانکنی کی یہ تکلیف بڑی جان لیوا ہوتی۔ ہر روز رات کے دو تین بجے تک یہی
سلسلہ چلتا رہتا پھر نیند آ جاتی۔
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔
دعا گو:
خواجہ شمس الدین عظیمی