Topics
ایک
ہی خیال ذہن میں بار بار آئے تو وہ حافظے کا نقش بن جاتا ہے اور حافظے کا یہ نقش
بلا ارادہ بھی کبھی کبھی ذہن میں ابھر آتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ نقش حواس کے لئے
باعث تسکین ہو۔ بعض اوقات تو دماغ کے پردے پر ایسی ایسی تصویریں ابھرتی ہیں کہ دل
و دماغ بوجھل ہو جاتے ہیں۔ خیالات کا جہان بھی کیا جہان ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے
گہرا کنواں ہے جو خیالات سے بھرا ہوا ہے۔ جب خیال گہرائی سے سطح پر آتا ہے تو نظر
اسے دیکھ لیتی ہے ورنہ گہرائی میں خیالات کس طرح ایک دوسرے سے ہم آغوش ہیں، کون
جانے۔ بار بار ایک ہی خیال جب دماغ میں پیدا ہوتا ہے تو دل کی آرزو بن جاتا ہے۔ اس
دن میرے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی بات تھی۔ حالانکہ سارا دن کام کاج میں سخت مصروفیت
رہی مگر رہ رہ کر یہی خیال ابھرتا رہا۔ خیالات کے کنویں کی گہرائی میں جھانکنا
چاہئے اور رات کو تمام کام سے فراغت پا کر ذہن بس اسی خیال میں ڈوب گیا۔
مجھے
یوں محسوس ہوا جیسے میں ایک گہرے کنویں میں اتر رہی ہوں۔ گھپ اندھیرا ہے۔ کچھ نظر
نہیں آ رہا مگر خوف نہیں ہے۔ بلکہ جیسے جیسے اندھیرے میں قدم بڑھتے جا رہے ہیں
ویسے ویسے دل کی جستجو بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر قدم پر یوں محسوس ہوتا جیسے بس
اگلے قدم پر نظر کے سامنے کچھ آنے والا ہے اور یہی امید اندھیرے میں بڑھنے کا
حوصلہ دیتی رہی۔ کچھ دیر بعد نظر کے سامنے ایک دم سے روشنی آ گئی۔ جیسے کسی نے
اندھیرے کمرے میں تیز بلب روشن کر دیا ہو۔ حد نگاہ تک روشنی تھی۔ پہلے تو میں نے
رک کر چاروں طرف کا جائزہ لیا۔ روشنی کی اس قدر وسیع و عریض فضا تھی جیسے کوئی
صحرا میں کھڑا ہو۔ جدھر بھی نظر جائے ریت کے سوا کچھ نہ پائے۔ میری نظر بھی روشنی
کی فضا میں ہر طرف سے گھری ہوئی تھی۔ نہ کوئی سمت نہ کوئی رخ، جائوں تو کہاں
جائوں۔ زبان سے ایک دم نکلا۔ یا اللہ! کیا کروں اور اسی لمحے روح سامنے آ گئی۔ اسے
اتنے قریب اچانک دیکھ کر میں نے کئی بار پلکیں جھپکائیں تا کہ دل کو یقین آ جائے
کہ واقعی نظر کے سامنے روح موجود ہے۔ روح میری اس حرکت پر ہنس پڑی اور شگفتہ انداز
میں بولی۔ ارے بھئی! یہ میں ہی ہوں۔ اب تمہارے لئے اتنی بھی انجان نہیں ہوں کہ تم
مجھے نہ پہچان سکو۔ اس کی بات پر مجھے بھی ہنسی آ گئی اور خوشی میں اسے گلے لگا
لیا۔ وہ بولی پہلے یہ بتائو یہاں کیا کر رہی ہو؟ میں نے کہا۔ بہت ہی جی چاہ رہا
تھا تم کو دیکھنے کو اس لئے آ گئی۔ اس نے میری طرف گھور کر دیکھا پھر شرارت سے ہنس
پڑی۔ کہنے لگی بس تو پھر دیکھ لیا۔ میں جاتی ہوں، خدا حافظ۔ میں نے لپک کر اس کا
ہاتھ پکڑ لیا۔ ارے، ارے ایسا غضب نہ کرو بات تو سنو۔ اصل میں، میں یہ دیکھنا چاہتی
ہوں کہ میرے دماغ میں خیالات کہاں سے آتے ہیں؟ میں یہاں تک تو آ گئی۔ اب اس وسیع و
عریض فضا میں مجھے تو روشنی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ کہاں جائو؟ وہ
بولی۔ تو یہ بات ہے اچھا تو آئو میرے ساتھ۔ بس تم صرف دیکھتی رہنا۔ اپنے دل سے
معنی نہ پہنانا۔ میں خود تم کو ہر چیز کی حکمت سے آگاہ کر دوں گی۔ میں نے خوش ہو
کر اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ یہ تو اور بھی اچھی بات ہے۔ اس نے ایک قدم آگے بڑھایا
اور اسی وقت سامنے ایک شفاف روشن سیدھی سڑک آ گئی۔ میں نے حیرت سے کہا۔ یہ پہلے تو
یہاں نہیں تھی۔ اس نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔ یہ پہلے بھی تھی۔ صرف تمہاری نظر اس
زاویے پر مرکوز نہ تھی۔ کہنے لگی کائنات کی ہر شئے نظر کے ایک خاص زاویے سے دکھائی
دیتی ہے۔ اگر نظر کا زاویہ سیٹ نہہو تو روشنیاں بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ یا
بعض اوقات شئے کی صورت اور خاکہ ہی قطعی طور پر بدل جاتا ہے۔ ہر شئے کی ظاہری صورت
نظر کا ایک مخصوص زاویہ ہے۔ جیسے ہی نظر کا زاویہ بن جاتا ہے شئے اپنی شکل و صورت
میں نگاہ کے سامنے آ جاتی ہے۔ دوسے معنوں میں نگاہ کو کیمرے کے لینس کی طرح تصور
کے خاکے پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔ جب نگاہ تصور کے خاکے پر صحیح فوکس ہو جاتی ہے
تو شئے ظاہری شکل و صورت میں سامنے آ جاتی ہے۔ وہ بولی۔ اے بنت رسولﷺ! اندھیرا خود
اپنی ذات میں کچھ نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ذہن جب لا علم ہو تو یہ لاعلمی
اندھیرا بن جاتی ہے۔ علم روشنی ہے اور لاعلمی اندھیرا ہے۔ جب ذہن علم کی روشنی جذب
کر لیتا ہے تو اندھیرا روشنی میں بدل جاتا ہے۔
کہنے
لگی۔ علم تو اللہ کا نور ہے۔ یہ نور عرش سے لے کر فرش تک ہر جگہ یکساں طور پر
موجود ہے۔ خواہ تم اس کی موجودگی محسوس کرو یا نہ کرو، نور کے اندر ذات اور صفات
کا ادراک ہے۔ یہ ادراک جب حرکت کرتا ہے تو تہہ در تہہ نور سے گزرتا ہے۔ ادراک کی
ہر حرکت نور کے اندر صائی مینشن یا ابعاد پیدا کرتی ہے۔ کائنات کی تمام اشیاء
انہیں ابعاد و ڈائی مینشن سے بنے ہوئے نقش و نگار ہیں۔ میں نے روح سے سوال کیا
ادراک کیا ہے؟ بولی۔ ادراک اللہ تعالیٰ کی کن کی آواز ہے۔ یہ آواز کائنات کے دائرے
میں جب داخل ہوئی تو اس دائرے میں ذات کی تجلیات موجود تھیں۔ کیونکہ ذات تو ہمیشہ
سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کوئی تغیر نہیں ہے۔ جب کن کہا تو
تجلیات کی اس فضا میں اللہ تعالیٰ کی آواز منتقل ہو گئی اور آواز کی یہ گونج
کائنات کے دائرے میں مقید ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کی آواز کا نور ہی ادراک ہے جو ازل
اور ابد کے دائرے میں مسلسل حرکت ہے۔ جیسے سمندر کی لہریں اس کنارے سے اس کنارے تک
سفر کرتی رہتی ہیں۔ ادراک وقت یا ٹائم ہے۔ مخلوق کے اندر ادراک تفکر اور حواس بن
کر کام کرتا ہے اور ذات کی تجلیات مخلوق کے اندر نظر یا بینائی کا کام کرتی ہے۔
ادراک حرکت ہے اور نظر روشنی ہے۔ حرکت کی لہریں جب تہہ در تہہ نور کی فضا سے گزرتی
ہیں تو نظر ان حرکات کی لہروں سے بننے والی ڈائی مینشن اور نقش و نگار کو دیکھتی
ہے چونکہ یہ ڈائی مینشن اور نقش و نگار کی ذات سے الگ ہیں۔ پس اللہ کی نظر ان نقش
و نگار کو اپنی ذات سے علیحدہ دیکھتی ہے اور یہی نقش و نگار کائنات کے اجسام ہیں۔
میں نے پوچھا۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نقش و نگار جو اللہ تعالیٰ کی آواز سے
تجلی ذات کی اس فضا میں پیدا ہوئے۔ اللہ میاں کو ان کا پہلے سے علم تھا۔ کیونکہ
بغیر علم کے شئے کا وجود ممکن نہیں ہے روح نے میری جانب ستائش کی نظر سے دیکھا۔
جیسے کہہ رہی ہو کہ تم ٹھیک سمجھیں۔ بولی۔ اللہ کا علم اس کی ذات کا ایک جز ہے۔
اور ذات کا ہر جز اس کی صفات ہیں پس اس کی ذات اور صفات کن سے پہلے بھی تھی اور کن
کے بعد بھی ہے۔ تجلی ذات کے عالم میں کائنات کا علم موجود تھا، کن کہہ کر اللہ
تعالیٰ نے علم کائنات کے تمام اجزاء کو ادراک عطا کر دیا۔ اس ادراک کی پہلی صورت
روح ہے جو تجلی کا جمال ہے۔ دوسرے لفظوں میں تجلی کا ہیولا ہے۔ تجلی ذات کے عالم
میں اللہ کی نظر اسمائے الٰہیہ کو دیکھتی ہے۔ تجلی کے یہی عکس تجلی ذات کے عالم سے
جب نیچے اترتے ہیں تو لوح محفوظ کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ تجلی ذات کے عالم
میں صرف ادراک ہے۔ حرکت نہیں ہے۔ اس عالم میں ادراک نگاہ کے طور پر کام کر رہا ہے
اور نگاہ تجلی ذات کے عالم میں علم کائنات کی ہر تجلی کو اسمائے الٰہیہ کی حیثیت
سے دیکھتی ہے کیونکہ ذات واحد ہے اور نگاہ جو کچھ دیکھتی ہے وہ اپنی ہی ذات میں
دیکھتی ہے مگر کن کہنے سے یہ ادراک جب حرکت میں آ جاتا ہے تو لوح محفوظ پر نور کے
ہیولے اسمائے الٰہیہ کے عکس کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔ لوح محفوظ کے عالم میں
یہ نقوش ارواح ہیں۔ یہ ارواح ان عالمین میں جو حرکات کرتی ہیں اور دیکھتی ہیں وہی
حرکات یا ادراک اطلاع کی صورت میں انسان کے دماغ میں خیالات بن کر ابھرتا ہے یعنی
ہر خیال روح کی ایک مخصوص حرکت ہے۔ یہ حرکت لوح محفوظ سے شروع ہو کر دنیا یا عالم
ناسوت میں آتی ہے۔ پھر یہاں سے واپس لوح محفوظ سے شروع ہو کر دنیا یا عالم ناسوت
میں آتی ہے۔ پھر یہاں سے واپس لوح محفوظ میں روح کے ذہن میں لوٹ جاتی ہے۔ ہر خیال
روح کے دماغ کا ایک عکس ہے جو دراصل عالم نور یا لوح محفوظ کا ایک نقش ہے۔ لوح
محفوظ سے یہ نقوش عکس در عکس اترتے ہوئے تمام عالمین میں ازل سے ابد تک پھیل جاتے
ہیں اس طرح ایک عکس ساری کائنات میں سفر کرتا ہے۔ اگر یہ عکس خود اپنی ذات کا
انفرادی شعور حاصل کر لے تو وہ ازل اور ابد تک حدود میں جہاں جہاں سفر کرے گا اپنی
ذات کو اس عالم میں دیکھ لے گا۔
ہم
نور کے اس عالم میں تھوڑی دیر چلتے رہے مگر یوں لگا جیسے ہم نے زمین و آسمان کے
فاصلے طے کر لئے ہیں۔ اب ہم ایک درے سے باہر نکل آئیں۔ یہاں کا عالم ہی اور تھا۔
ہلکے ہلکے رنگوں کی روشنیاں فضا پر چھائی تھیں۔ کبھیکوئی رنگ جھلکتا، کبھی کوئی
رنگ۔ یوں لگتا جیسے رنگین بادل ہیں اور یہ بادل روشنی کے ہیں۔ یہ بادل بے حد آہستہ
آہستہ حرکت میں تھے اور زمین سے اوپر اٹھتے ہوئے ان کے رنگ آپس میں ایک دوسرے میں
جذب ہوتے جاتے۔ اس طرح رنگوں کے بہت خوبصورت خاکے بن جاتے۔ چونکہ یہ بادل زمین سے
اوپر جا رہے تھے اور مسلسل حرکت میں تھے جس کی وجہ سے خاکے بھی ہر آن اپنی صورت
بدلتے تھے۔ میں تو جیسے اس پرستان میں کھو کر رہ گئی۔
روح
نے میرا کندھا ہلا کر میری محویت کو توڑا۔ بولی، یہ سب بادل خیالات ہیں۔ میرے منہ
سے تعجب میں ایک دم سے نکلا۔ اچھا۔ اتنے حسین خیالات یہ کہاں سے آ رہے ہیں۔ وہ
بولی۔ اگر تم اپنے حواس درست رکھو تو میں لئے چلوں۔ تم تو بس ان کی رنگینیوں میں
کھو کر رہ گئی ہو۔ میں نے مسکرا کر روح کے بازو میں بازو ڈالتے ہوئے کہا۔ اچھی روح
تم ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائو۔ تصور کا یہ حسین عالم بھلا کون یہاں اپنے
ہوش و حواس میں رہ سکتا ہے۔ وہ ہنس پڑی اور شوخی سے بولی۔ تم خود کسی رنگین تصور
سے کم ہو۔ اس کے ان الفاظ پر جیسے میری نظر نے خود اپنے سراپا کو دیکھ لیا۔ میں
واقعی رنگین بادلوں جیسی روشنیوں کا ایک حسین جسم تھی۔ خوشی اور حیرت کے ملے جلے
جذبات کے ساتھ ساتھ میرے اندر شدید خواہش ابھری میں کس کے تصور کا عکس ہوں؟ کون ہے
وہ کہاں ہے؟ میں نے روح کو جوش میں ہلا ڈالا۔ ہم دونوں بہت ہی خوش تھیں۔ ہر قدم پر
رنگین ہیولے آتے جاتے رہے اور ہم دیکھ دیکھ کر محظوظ ہوتی رہیں۔
بہت
دور چل کر ایک سرزمین پر نیچے، یہ زمین اسی فضا کی گہرائی میں تھی۔ یہاں زمین پر
ہیروں کی طرح ستارے بکھرے ہوئے تھے، یہ ستارے کوئی روشن تھے، کوئی بغیر تراشے ہوئے
ہیروں کی طرح مدھم تھے۔ میں نے حیران ہو کر کہا۔ کیا عجیب بات ہے۔ ستارے تو آسمان
پر ہوتے ہیں اور یہ ستارے تو زمین پر اگ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ زمین پر
پودوں کی طرح اگے ہوئے ہیں۔ وہ بولی ہم آسمان پر ہی تو ہیں اور یہ جو تار تم دیکھ
رہی ہو جن سے یہ ستارے اس زمین سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان تاروں سے ستاروں کو روشنی
فراہم ہو رہی ہے۔ میں ٹھہر گئی اور ان ستاروں کو بغور دیکھنے لگی۔ ان کے اندر سے
رنگین شعاعیں نکل رہی تھیں اور یہی شعاعیں رنگین بادلوں کی صورت میں پھیل کر رنگین
ہیولے بنا رہی تھیں۔
روح
کہنے لگی۔ اے بنت رسولﷺ! یہ عالم مثال ہے۔ ہر ستارہ روح کا ایک مرکزی خیال ہے۔ روح
اس ستارے میں اپنی فکر کی روشنی منتقل کرتی ہے اور ستارے کے ذریعے یہ روشنیاں عالم
مثال سے سفر کرتی ہوئی عالم ناسوت میں جا کر مادی صورت میں جلوہ گر ہو جاتی ہیں
اور پھر مادی صورت سے فنا ہو کر واپس روشنی میں اپنے مرکز کی جانب لوٹ آتی ہیںَ وہ
ایک دم بولی تم دیکھنا چاہتی ہو۔ تم کس کے تصور کی مورت ہو۔ میں نے فوراً کہا۔ یہی
تو میں دیکھنے آئی ہوں۔ وہ ایک ستارے کی جانب بڑھی۔ بولی یہ ہے وہ ستارہ۔
میں
نے نظریں جھکا کر اس ستارے کی جانب دیکھا۔ اس ستارے میں پہلے تو میرا اپنا عکس
آئینے کی طرح دکھائی دیا پھر نظریں اس عکس کے اندر اتر گئیں۔ آئینے کی گہرائی میں
خود روح کا عکس موجود تھا۔ میں نے نظریں اٹھائیں اور روح کو دیکھا۔ میرے ہونٹوں پر
جیسے روح کا عکس موجود تھا۔ میں نے نظریں اٹھائیں اور روح کو دیکھا۔ میرے ہونٹوں
پر جیسے ایک سکوت چھا گیا۔ سر الٰہی زبان سے نہیں آنکھوں سے بیان کئے جاتے ہیں۔
ہمارے لب خاموش تھے۔ مگر نظروں نے جانے کیا کیا داستانیں کہہ ڈالیں اور میں روح سے
لپٹ گئی۔
کس
کا حسن تصور ہوں کوئی کیا جانے
ازل
کے لمحہ تنہائی نے گھڑا ہے مجھے
سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی
‘‘زندگی
جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’
یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔ میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔
میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔ روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔
دعا گو:
سیدہ
سعیدہ خاتون عظیمی
تاریخ:
01-09-94