Topics

سیاق کی تجلی


                رات بمشکل ایک ڈیڑھ گھنٹے سوئی ہوں گی کہ نیند کا غلبہ ختم ہو گیا اور ذہن لا شعور کی تحریکات کو دیکھنے لگا۔ سب سے پہلے تو ایک دو جملے سنائی دیئے جو شعور کے لئے بے ربط تھے۔ میں ان کا مطلب سمجھ نہ سکی اور یہی وجہ میرے شعور کی مکمل بیداری کا باعث بن گئی۔ میرا تجسس ابھر آیا اور ذہن غیب کی تحریکات کو سمجھنے کے لئے پوری طرح چاق و چوبند ہو گیا۔ میں بے حس و حرکت بستر پر لیٹی تھی۔ اتنے میں میری پیشانی پر ایک بڑی سی کھڑکی کھلی۔ مجھے اپنی پیشانی ایک دیوار کی طرح دکھائی دی جس میں یہ بڑی سی کھڑکی تھی۔ کھڑکی کے کھلے ہی ایسا لگا کہ پیشانی کے اندر ذہن ایک بہت ہی بڑے ہال کی طرح ہے۔ کھڑکی کھلتے ہی سب سے پہلا آسمان اور اس کے اندر کے تمام عالمین اور ہر شئے اس کھڑکی کے راستے سے اندر داخل ہو گئے۔ پھر اس کے بعد یکے بعد دیگرے دوسرا، تیسرا، چوتھا اور اسی طرح ساتواں آسمان بمع اپنے اندر کی ہر شئے کے کھڑکی کے راستے پیشانی کے اندر داخل ہو گئے۔ پھر عرش اعظم بھی اندر داخل ہو گیا۔ میری حالت بالکل مردے کی طرح تھی۔ آنکھیں بند کئے بے حس و حرکت بستر پر پڑی تھی۔ عقل و شعور کی کیفیت یہ تھی کہ جیسے نظر دیکھ رہی ہے اور عقل سمجھ رہی ہے اور ہر شئے کو پہچان رہی ہے، مگر شعور کے اوپر لاشعور کا غلبہ تھا جس کی وجہ سے بے خیالی کی کیفیت تھی۔ عرش اعظم کی کھڑکی سے اندر جاتے ہی خیال پیدا ہوا کہ ساری کائنات میرے سر کے اندر ہے۔ اب یہ کھڑکی بند ہو گئی اور نظر باہر کی بجائے ذہن کے اندر دیکھنے لگی۔ ایک انتہائی بڑا کمرہ خوب روشن دکھائی دیا۔ اس کے اندر قطاروں میں کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ ان کرسیوں پر پہلے پیغمبران علیہ السلام آئے اور لائن سے کرسیوں پر پہلی قطار میں بیٹھ گئے۔ پھر صحابہ کرامؓ آئے اور ان کے پیچھے کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ پھر اولیاء اللہ آئے اور پھر عام لوگ ان کے پیچھے قطاروں میں کرسیوں پر بیٹھتے چلے گئے۔ اب نظر سامنے پہنچی تو کیا دیکھتی ہوں کہ پیغمبران علیہ السلام کے سامنے کی جانب حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم تخت محمود پر شان مصطفائی کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ آپﷺ کے سر مبارک پر مقام محمود کا تاج جگمگا رہا ہے۔ جمال محمدیﷺ کے ہوش ربا طلسم نے پوری فضا کو اپنے نور میں ڈبو رکھا ہے۔

                ایک جانب حضرت جبرائیل علیہ السلام ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ آسمان، چاند، سورج، ستارے تمام کے تمام بارگاہ نبویﷺ میں عجز و انکساری کا پیکر دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے یہ حشر کا میدان ہے اور حساب کتاب کا دن ہے۔ اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کی جانب سے منادی ہوئی کہ اے اللہ کے بندو! اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے تم سب حشر کے میدان میں جمع ہو۔ اب اللہ تعالیٰ تم سے تمہارے اعمال کا حساب کتاب لینے والے ہیں۔ اس کے لئے تیار ہو جائو۔

                تمام عالم دم بخود تھا کسی کو دم مارنے کا یارا نہ تھا۔ اسی لمحے نظر نے دیکھا کہ سرور کائنات، فخر موجودات، محبوب رب العالمین ہمارے پیارے رحمت اللعالمین حضرت محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک پر اوپر کی جانب سے ایک دم بجلی کی طرح سے تجلی آئی۔ اس تجلی نے چشم زدن میں سب کی آنکھیں خیرہ کر دیں۔ ایک لمحے بعد جب آنکھیں کھلیں تو کیا دیکھتی ہوں کہ حضور پاکﷺ کے برابر تخت خداوندی پر اللہ تعالیٰ رب ذوالجلال والاکرام اپنی شان قادریت و شان مطلقیت کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ نظر نے مشاہدہ کیا کہ تجلی ذات باری تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت میں اپنی مخلوق کے سامنے ظاہر ہونا اپنے لئے پسند فرمایا ہے۔ سبحان اللہ!

                اللہ تعالیٰ کی ذات پاک تو بس صرف نور ہے، نور علی نور۔ جیسے آسمان ہر سمت اور ہر سو پھیلا ہوا ہے اس کی کوئی صورت نہیں ہے۔ ایسے ہی ذات باری تعالیٰ نور ہے اور نور کی کوئی شکل و صورت نہیں ہے۔ اس نور نے اپنے محبوبﷺ کی صورت میں مخلوق کے سامنے آنا پسند فرمایا ہے۔ سبحان اللہ کیا شان ہے اللہ تعالیٰ کے محبوبﷺ کی۔ اسی لمحے تمام مخلوق اللہ اکبر کہہ کر سجدے میں گر پڑی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کچھ دیر بعد اعلان کیا کہ سر سجدے سے اٹھایا جائے۔ نظر نے دیکھا کہ تخت محمود پر محبوب رب العالمین، سراپائے حسن و جمال نور محمدیﷺ کی تابانیوں کو لباس بشریت میں چھپائے بیٹھے ہیں اور آپﷺ کے برابر میں تخت خداوندی پر نور اول، مرتبہ احدیت میں وحدانیت کی تجلیوں سے آراستہ موجود ہے۔ سبحان اللہ!

                ایسا لگاجیسے جمال احمدی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ بے نقاب ہے۔ میرے تمام حواس نظر میں سمٹ آئے۔ ازل کی پیاسی نگاہیں شربت دیدار دل کے پیمانے میں بھر بھر کے پینے لگی۔ پیا کے درشن کو ترسی ہوئی آنکھیں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر عشق کے دیوتا کی بلائیں لینے لگیں۔ دل میں اک ہوک اٹھی، تم ہی ہمارے رب ہو، تم ہی ہمارے اول ہو، تم ہی ہمارے آخر ہو، تمہارے ہی قرب کی آرزو نے ہمارے نفس کو جلا ڈالا ہے، تمہارے ہی عشق کی آگ نے ہماری مٹی کو کندن بنا دیا ہے۔ اے محبوبﷺ! اپنے حسن کی جھلک دکھا کر اب نظر سے دور نہ جانا کہ دل بیتاب میں اب تیری جدائی کی تاب نہیں ہے۔ میری روح عشق حقیقی کی تپش سے پگھلنے لگی۔ اس کے ادراک لطیف سے لطیف تر ہوتے چلے گئے۔ اس کے دل سے ایک سسکی ابھری اور اسی لمحے ایک تجلی چمکی اور اس تجلی نے روح کو بھرے دربار سے اٹھا کر اپنے پیچھے غیب میں ڈال دیا۔ نظر نے دیکھا جیسے ایک شعلہ سا کوندا اور اس شعلے نے روح کو اپنے اندر چھپا لیا۔ آن کی آن میں یہ شعلہ روح کو لے کر تخت خداوندی کے پیچھے غائب ہو گیا۔ نظر دربار کے پیچھے کچھ نہ دیکھ سکی۔

 

 


 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94