Topics
کھانا
کھاتے ہوئے اچانک خیال آیا میں تو دو وقت نہ کھائوں تو بھوک بے حال کر دیتی ہے۔
روح کو بھی تو بھوک لگتی ہو گی۔ پتہ نہیں وہ کہاں سے کھاتی ہے۔ میں نے مصمم ارادہ
کر لیا۔ آج میں ضرور روح سے پوچھوں گی کہ تم کیا کھاتی ہو اور میں خود ہی خیالات
کے تانے بانے بننے لگی۔ روح درختوں سے پھل کھاتی ہو گی جبھی تو اس کی صحت اچھی ہے
یا پھر من و سلوا کی طرح اللہ کی جانب سے اس کی خوراک کا بندوبست کیا جاتا ہو گا،
پھر خیال آیا جنت میں دودھ اور شہد کی نہریں بھی تو ہیں۔ چلئے جنت میں تو جنتی
میوے اور کھانے ہیں مگر جو بندے اللہ کے خاص ہیں اور جن کا مقام قرب خداوندی ہے وہ
اللہ میاں کے پاس کیا کھاتے ہوں گے۔ اللہ میاں کو تو بھوک پیاس نہیں لگتی۔ پھر
اللہ کے قرب کا مطلب ہی اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شئے سے دوری ہے تو جہاں اللہ کے سوا
کچھ اور نہ ہوا تو…………اسی لمحے دل ہنس پڑا تو بچاری روح کو اللہ میاں بھوکا رکھتے
ہوں گے۔ اسی وقت روح کی آواز آئی۔ اچھا خود تو ایک وقت کا کھانا چھوڑ نہیں سکتی
اور روح کو بھوکا مارنے کا خیال ہے۔ اس کی ہنسی نے فضا میں ترنم بکھیر دیئے۔ میں
بھی بیساختہ ہنس پڑی۔ تو پھر تم کیا کھاتی ہو مجھے بھی تو دکھلائو۔ وہ بڑے موڈ میں
کہنے لگی چلو آج تمہاری دعوت ہو جائے۔ میں نے اسی وقت کھانا چھوڑ کر سارا دھیان
روح پر لگا دیا اور انتہائی شوق میں بولی ہاں ہاں! ابھی تو میں نے صرف چند لقمے ہی
کھائے ہیں۔ وہ بڑے خوشگوار موڈ میں تھی۔ جھوٹی کہیں کی پوری پلیٹ پیٹ کے اندر ہے
اور کہتی ہے چند لقمے کھائے ہیں۔ میں بری طرح جھینپ گئی۔ روح کا بازو زور سے ہلاتے
ہوئے کہا۔ تم بڑی ظالم ہو کوئی بات پردے میں نہیں رہنے دیتیں۔ ہم دونوں ہی ایک
ساتھ ہنس پڑیں۔ اس کے لبوں پر خوشی بھرے نغمے آ گئے۔ ہم دونوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے
ہنستی گاتیں جانے کن راہوں پر چل پڑیں۔ روح کے ساتھ مجھے تو اتنا بھی ہوش نہیں
رہتا کہ پوچھوں کہ آخر کہاں لئے جاتی ہو۔ میرے لئے تو اس کے ساتھ کا ہر لمحہ زندگی
کا حاصل ہے۔ ہر دم یہی دعا دل میں رہتی ہے۔ کاش! یہ لمحات جاوداں ہو جائیں۔ ہم تیز
روشنیوں کی ایک سرنگ سے گزرنے لگیں۔ جیسے ہی سرنگ ختم ہوئی مجھے لگا کہ ہم اپنی
دنیا سے ملتی جلتی دنیا میں پہنچ گئیں ہیں۔ روح بولی۔ یہ عالم اعراف ہے۔ تمہاری
پہلی دعوت یہاں ہو گی۔ اس عالم میں ہر شئے دنیا کی ہی طرح تھی۔ مگر بہت ہی تازگی
محسوس ہوتی تھی۔ سبزہ بہت ہی چمکیلا اور صاف ستھرا، مٹی زرد بہت خوشنما رنگ کی۔
سمندر کے کنارے ریت نہایت ہی دودھیا سفید رنگ کی۔ ساتھ ہی سفید چمکتے گول گول پتھر
ساحل سمندر پر بچھے ہوئے بہت ہی خوشنما لگتے تھے۔ سمندر کا پانی بہت ہی خوبصورت
فیروزی رنگ کا تھا۔ میں تو روح کا ہاتھ چھوڑ کر سیدھی پانی میں جا پہنچی اور چلو
بھر لئے۔ پانی میں عجیب طرح کی ملائمیت تھی۔ ہلکا ہلکا سلکی سلکی۔ میں نے سوچا
سمندر کا پانی تو بہت بھاری کثیف ہوتا ہے۔ یہ تو میٹھے پانی سے بھی زیادہ لطیف لگ
رہا ہے۔ بھلا اس کا ذائقہ چکھوں اور میں نے چلو سے پانی منہ میں ڈالا۔ اس کا ذائقہ
نمکین چھاج جیسا تھا۔ میں نے تو پی لیا اور روح سے بولی یہاں تو سمندر کا پانی بھی
اتنا خوش ذائقہ ہے۔ ہمارے یہاں تو سمندر کا پانی پیا بھی نہیں جاتا۔ اچھا یہ تو
بتائو یہاں وہی چیزیں ہیں مگر رنگ اور ذائقے میں وہاں سے مختلف کیوں ہیں۔ وہ بولی۔
تم نے یہاں کے سورج کی روشنی دیکھی ہے۔ میں نے سورج کی جانب دیکھا اور اس کی روشنی
پر نظر ڈالی۔ سورج کا رنگ چمکتا ارغوانی تھا اور اس کی روشنیوں میں ایسا اجالا تھا
جو آنکھوں کو نہایت ہی بھلا لگتا تھا۔ اس کی دھوپ آنکھوں کو چبھنے والی نہ تھی۔
میں نے کہا۔ یہاں کا تو سورج بھی مختلف ہے۔ وہ بولی۔ ہر زمین پر سورج کی روشنی
مخصوص سطح سے چھن کر آتی ہے۔ ہر زمین کے اطراف میں مختلف گیسوں کی ایک فضا ہے۔
ہماری زمین کے اطراف میں جو فضا ہے اسے اوزون لیئر کہتے ہیں۔ سورج کی شعاعیں اس
سطح سے چھن کر زمین تک پہنچتی ہیں۔ یہ سطح شعاعوں کے لئے فلٹر کا کام کرتی ہے۔ ہر
زمین کے اطراف میں یہ فلٹر مختلف گیسوں کا ہے۔ جس کی وجہ سے اس زمین پر سورج کی
شعاعیں دوسری زمین سے مختلف معلوم ہوتی ہیں اور اس سیارے پر بسنے والی مخلوق ان کی
روشنیوں سے متاثر ہوتی ہے۔ میں نے روح سے سوال کیا۔ زمین کے اطراف میں گیسوں کی یہ
سطح بنتی کیسے ہے؟ وہ بولی تم دیکھ رہی ہو کہ کائنات کی ہر شئے میں حرکت پائی جاتی
ہے۔ ہر شئے کی حرکت کی مقداریں مختلف ہیں۔ سورج کی گردش کی رفتار الگ ہے، چاند کی
الگ اور ستارے کی الگ۔ روشنی جب سورج کی رفتار سے چل کر سطح زمین تک پہنچتی ہے تو زمین
کی رفتار مختلف ہونے کی وجہ سے سورج کی شعاعوں کو دوہری حرکات سے سابقہ پڑتا ہے۔
یہی دوہری حرکت کی لہریں گیسوں کی سطح بناتی ہیں جو اس کرہ زمین کے لئے غلاف کا
کام کرتی ہے اس طرح اس زمین کی رفتار اس غلاف کے اندر بند ہو جاتی ہے اور اس غلاف
سے باہر دوسرے سیاروں اور سورج کی روشنی کی رفتار علیحدہ ہوتی ہے۔ زمین کی مخصوص
رفتار زمین کو اپنے غلاف میں بند رکھتی ہے یہی زمین کی کشش ثقل کہلاتی ہے اور سورج
اور دوسرے سیاروں کی رفتار ایک دوسرے سے فاصلہ متعین کرتی ہیں۔ اس طرح گردش کے
قانون اور اصول گردش کی رفتار اور اس رفتار سے بننے والی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے
ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ جب زمین کے اطراف کا اوزون لیئر کسی وجہ سے متاثر ہونے لگتا
ہے تو زمین کی گردش کے نظام میں خلل پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے موسم میں تبدیلیاں آتی
ہیں اور کرہ زمین پر بسنے والی مخلوق متاثر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
انسان کو کائناتی نظام و تخلیقی فارمولوں کے علوم عطا کئے ہیں تا کہ کرہ ارض پر
انسان اللہ کی مخلوق کو زمین پر پیدا ہونے والے تخریبی عناصر سے محفوظ رہنے میں
مدد کرے۔ میں روح کی باتیں نہایت ہی غور سے سن رہی تھی۔ اب ہم ایسی جگہ پہنچیں
جہاں دور دور تک لاوے کے دریا بہتے دکھائی دیئے۔ روح ایک لمحے کو رکی۔ میری طرف
جائزہ لیتی نظر سے دیکھا۔ کہنے لگی تم ذرا بھی خوف نہ کرنا، میں جو تمہارے ساتھ
ہوں۔ آج میں تمہیں سارے جہان کے کھانے کھلانا چاہتی ہوں۔ تم بے فکر رہو، تمہیں
نقصان نہ ہونے دوں گی۔ میں بچوں کی طرح اس سے لپٹ گئی۔ بھلا تمہارے ہوتے ہوئے مجھے
فکر کی کیا ضرورت ہے۔ تم ہی میرا دل ہو، تم ہی میرا دماغ ہو، تم ہی میرے ہاتھ
پائوں ہو۔ وہ خوش ہو گئی اور پیار سے مجھے چوم لیا۔ اپنے اوپر کا لباس اتار کر
مجھے پہنا دیا۔ پھر بولی چلو چلتے ہیں۔ اس نے میرا ہاتھ زور سے پکڑا۔ اور بولی:
ترجمہ:
‘‘اے آگ! ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی کا باعث بن جا ابراہیم ؑ کے لئے۔’’
یہ
کہہ کر لاوے کے بہتے دریا میں کود پڑی۔ ایک لمحے کو خوف سے میرا دم نکلتا محسوس
ہوا مگر میں نے مضبوطی سے روح کا بازو تھام لیا۔ حیرت سے میری آنکھیں پھٹ گئیں۔ آگ
میں تپش بالکل نہ تھی۔ اب میرے جسم کا تنائو دور ہو گیا۔ چہرے پر اطمینان آ گیا۔
وہ بولی پتہ ہے ہم کہاں جا رہے ہیں۔ دوزخ کی سرزمین کے اطراف میں آگ یا نار کی سطح
ہے جس کی وجہ سے اس زمین پر سخت گرمی ہے۔ اسی گفتگو کے دوران ہم زمین پر پہنچ بھی
گئیں۔
روح
کہنے لگی اگر ہم نے یہ لباس نہ پہنا ہوتا تو ہم کب کی جل گئی ہوتیں۔ پھر ہم نے
نہایت ہی تیزی کے ساتھ اس زمین کے گرد چکر لگایا۔ وہاں کی زمین لاوے کی وجہ سے
زیادہ تر سیاہ رنگ کی تھی جیسے جھلس گئی ہو۔ زیادہ تر پتھریلی اور ریتلی تھی۔ ان
پتھریلے پہاڑوں اور ٹیلوں سے چشمے ابل رہے تھے۔ میں دیکھنے لگی۔ ان کی رنگت ایسی
تھی جیسے تلچھٹ۔ روح بولی۔ آپ چند قطرے زبان پر رکھیں تا کہ آپ کو اس کھانے کا مزا
بھی پتہ چل جائے۔ میں نے روح کے کہنے پر چند قطرے زبان پر رکھے۔ زبان جل کر اکڑ
گئی۔ سخت گرم بدبودار اور زنگ آلود پانی تھا۔ روح نے فوراً ہی اپنا لعاب دہن میرے
منہ میں ٹپکایا۔ اسی وقت میں بالکل ٹھیک ہو گئی۔ اس نے کہا۔ ان پہاڑوں میں ایسے ہی
کیمیکل بنتے ہیں جو پانی میں گھل کر پانی کو زہریلا بنا رہے ہیں۔ پھر اس جلی زمین
پر درخت بھی جھلسے ہوئے تھے۔ ان پر زقوم کا پھل۔ روح نے توڑ کر مجھے دیا۔ اسے چکھ
کر تھوک دیں۔ میں نے ذرا سا کاٹا تو انتہائی کڑوا اور سخت کسیلا تھا۔ جی متلانے
لگا۔ اب اس نے اپنی انگلی میرے منہ میں ڈال دی۔ اس انگلی کو چوسنے پر دودھ کا سا
مزا آیا اور منہ کا ذائقہ نارمل ہو گیا۔ روح بولی جس کرہ ارض پر ایسا پانی، ایسی
ہوا اور روشنی ہو گی وہاں کاشت بھی تو ایسی ہی ہو گی اور پھر یہاں کے رہنے والے
یہی سب کچھ استعمال کرنے پر مجبور بھی تو ہوں گے یا نہیں۔ میں نے اثبات میں سر
ہلایا تم بالکل ٹھیک کہتی ہو اور میں دل ہی دل میں دوزخ سے بچنے کی دعا کرنی لگی۔
ہم
اس زمین سے باہر نکل کر پھر ذرا کھلی فضا میں اڑنے لگے۔ جیسے جیسے آگے بڑھتی
جاتیں۔ ویسے ویسے لطافت کا احساس ہوتا۔ یہاں تک کہ ایک حسین راستے پر آ گئیں۔
پھولوں اور درختوں سے بھرا ہوا یہ راستہ ہمارے دلوں میں فرحت و انبساط کے جذبات
ابھارنے لگا۔ میں ایک دم بول پڑی۔ کیا ہم جنت کی طرف جا رہے ہیں؟ وہ ہنس کر بولی
ہم جنت میں جا رہے ہیں۔ نہایت ہی حسین باغ میں ہم داخل ہوئیں۔ روح بولی۔ تم نے
دیکھا کہ جنت کس غلاف میں بند ہے۔ میں ایک دم بول پڑی جنت نور کے غلاف میں بند ہے۔
جبھی تو اس کے راستے میں خوشیاں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا احساس ہوا۔ وہ بولی تم
بالکل درست کہتی ہو۔ جنت کی زمین کے اطراف میں نور کا لیئر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نور
نے چاروں طرف سے جنت کے مقام کو گھیر رکھا ہے۔ اب تم دیکھو کہ نور اس مقام پر کیا
تخلیق کر رہا ہے۔ میں نے چاروں طرف دیکھا۔ دور دور تک وہی پہاڑ تھے۔ وہی چشمے، وہی
زمین، مگر ہر شئے گزشتہ مقامات سے مختلف تھی۔ ہر شئے میں ایسی کشش تھی کہ دیکھنے
کے ساتھ ہی وہ خود بخود کھینچ کر قریب آ جاتی تھی۔ جیسے دوربین سے دیکھنے پر شئے
بالکل آنکھوں کے سامنے دکھائی دیتی ہے۔ ہر طرف خوشبوئیں، ہر طرف نغمے اور قہقہے۔
ہم ایک دریا پر پہنچے پانی انتہائی شفاف تھا۔ دریا کی تہہ میں جو ریت تھی وہ بہت
ہی خوشنما گلابی رنگ کی تھی۔ دیکھنے پر پانی گلابی لگتا تھا۔ میں نے پیا تو اس کا
مزا نہایت ہی لذیذ اور شیریں تھا۔ وہاں ے پھل بھی بیحد خوش ذائقہ تھے۔ ہر شئے میں
نور نمایاں تھا۔ نور جو اللہ کا عکس ہے، نور جو جمال ہے۔ جنت کی ہر شئے اللہ کے
نور کے جمال کا مظاہرہ دکھائی دی۔ ہر شئے نور کی بنی ہوئی تھی۔ نور کے ڈھلے ہوئے
یہ اجسام جنہیں دیکھ کر خود بخود ان کے بنانے والے پر پیار آ تا تھا۔ اب ہم جنت سے
باہر نکل آئے۔ جیسے جیسے آگے بڑھتے جاتے تجلیات کا ہجوم بڑھتا جاتا۔ یہاں تک کہ ہم
دونوں تجلیات میں گھر گئیں۔ وہ بولی تجلیات کا یہ ہجوم عرش کی ایک بلندی ہے یہ
تجلیات کا دائرہ ہے جس کے درمیان کائنات ہے۔ پھر روح نے ایک مقام پر قدم رکھے۔
کہنے لگی۔ یہ مقام تجلی ذات کا عالم ہے۔ میں نے چاروں طرف دیکھا۔ مجھے یوں لگا
جیسے ہر شئے تجلی کی صورت میں ہے۔ میں نے زمین پر دیکھا زمین تجلی تھی، آسمان بھی
تجلی تھا۔ غرض یہ کہ ہر طرف سوائے تجلی کے کچھ نہ تھا۔ میرے اندر تجلی ہی حواس بن
گئی۔ میں نے زور سے کہا لا الہ الا اللہ مجھ پر عجیب حیرت کا احساس غالب تھا۔ روح
نے میری حیرت کو توڑتے ہوئے زمین کی تجلی کو مٹھی میں بھرتے ہوئے کہا۔ اسے چکھو۔
میں تو جیسے روبوٹ بن چکی تھی۔ سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتں سلب ہو گئی تھیں۔ صرف
نظر دیکھ رہی تھی۔ میں نے روح کے ہاتھ سے لے کر وہ تجلی منہ میں ڈالی۔ وہ نہایت ہی
لذیذ غذا لگی۔ اب روح بولی۔ اے بنت رسولﷺ! مقام قرب میں ہر شئے تجلی کا مظاہرہ ہے۔
اللہ تعالیٰ جو کچھ اپنے بندے کو کھلانا چاہتا ہے وہ غذا تجلی کی صورت میں بندہ
کھاتا ہے، جو لباس اللہ پہنانا چاہتا ہے وہ لباس تجلی کی صورت میں بندہ پہنتا ہے۔
اس مقام پر بندے کی ذات تجلی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور اس کا شعور بھی تجلی ہی
بنتا ہے۔ پس تجلی کی آنکھ اللہ کو دیکھتی ہے۔ میں نے کہا۔ اے روح جب اللہ تجلی ہے
تو بندے کا اپنی ذات کا شعور کس طرح باقی رہتا ہے؟ وہ بولی۔ اللہ کی صفت حی قیوم
ہے۔ صفت حی قیوم خود زندہ اور قائم رہنے والی ہستی ہے اور اس صفت کے اندر جو بھی
علم اور نقش ہو گا اسے بھی اپنی بقا سے باقی رکھنے والی ہے۔ جیسے تم فریزر میں
کھانا رکھ کر اسے محفوظ کر دیتے ہو۔ اسی طرح کائنات کے نقوش تجلی ذات کے عالم میں
محفوظ ہیں۔ یہی لوح محفوظ کا عالم ہے۔ جہاں کائنات اللہ تعالیٰ کی صفت حی قیوم سے
زندگی اور بقا حاصل کر رہی ہے۔ بقا توانائی ہے اور یہ توانائی صفت حی قیوم کی تجلی
سے حاصل ہوتی ہے۔ جب اللہ کی بقا سے کوئی بندہ ہم رشتہ ہو جاتا ہے تو وہ تجلی کے
نقش یا متشکل تجلی کی صورت میں قائم اور زندہ رہتا ہے اور اس عالم میں موجود
تجلیات کو ذات خالق کی حیثیت سے پہچان جاتا ہے۔ تب اس کے اوپر اسمائے الٰہیہ کے حواس
غالب آ جاتے ہیں اور اللہ کی صفات اس کا ادراک بن جاتی ہیں۔
سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی
‘‘زندگی
جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’
یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔ میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔
میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔ روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔
دعا گو:
سیدہ
سعیدہ خاتون عظیمی
تاریخ:
01-09-94