Topics
چلتے
پھرتے ہر دم محسوس ہونے لگا جیسے آسمان سے تجلی کا نزول ہوتا ہے اور یہ تجلی نیچے
آتے آتے تک ساری دنیا میں دائرے کی صورت میں پھیل جاتی ہے اور روشنی کے اس دائرے
میں سارا عالم آ جاتا ہے۔ میرا ذہن اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر غور کرنے لگا کہ اللہ
تعالیٰ کی ربوبیت کی تجلیاں سارے عالمین کو فیڈ کرتی ہیں۔ اللہ کی تجلیات سارے
عالمین پر محیط ہیں۔ ان تجلیات میں اسمائے الٰہیہ کا ادراک ہے اور یہی ادراک تقسیم
ہو کر کائنات کے افراد کا شعور بن جاتا ہے۔ میرا ذہن اللہ تعالیٰ کی لامحدودیت کا
مشاہدہ کرنے لگا۔ تجلی کا نور ازل سے ابد تک عالمین پر محیط تھا۔ میری نگاہ آفاق
پر تجلیوں کو گرتا ہوا دیکھنے لگی۔ آفاق پر نمودار ہوتے ہی تجلی کی روشنی نہایت
تیزی سے پھیلتی جاتی اور اس پھیلتی روشنی کے اندر نہایت چمکیلے ذرات ستاروں کی
صورت میں پھیلتے جاتے۔ یہاں تک کہ تجلی روشنی کے اندر تمام عالمین آ جاتے اور تجلی
کی روشنی تمام عالمین کو گھیر لیتی۔ میری نظر روشنی کی فضا میں چمکیلے ذرات پر
گئی۔ یوں لگا جیسے کسی نے ستاروں سے بھرا دوپٹہ اوڑھا دیا۔ جسم سے لگتے ہی مجھے
اللہ تعالیٰ کی شان ربوبیت پر بہت پیار آنے لگا۔ میں سوچنے لگی کہ اللہ تعالیٰ کی
ذات بھی کس قدر رحیم ہے کہ کائنات کی محتاجی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر آن اور ہر
لمحے اسے رزق فراہم کر رہی ہے۔ بلاشبہ تجلی کی روشنی ہی کائنات کا رزق ہے۔ جس کے
بغیر کائنات کا وجود ممکن نہیں ہے۔ میری روحانی نظر دوبارہ افق اعلیٰ پر پہنچی۔
جہاں سے تجلیات کا نزول ہو رہا تھا۔ اس سطح پر نظر پڑتے ہی میرے اندر لا کا تصور
ابھرا۔ جیسے یہاں کچھ نہیں ہے۔ خیال آیا۔ یہ نفی اللہ کی نفی نہیں ہے۔ بلکہ خود
اپنی ذات کی نفی ہے کہ اس مقام پر انا ذات کے پردے میں مستور ہے۔ انا کے بغیر ذات
کا ظہور نہیں ہے۔ انا ذات کی پہچان ہے۔ اسی لمحے تجلی دکھائی دی اور ذہن میں اللہ
کی موجودگی کا تصور ابھرا۔ دل سے آواز آئی۔ الا اللہ۔ اللہ ہے۔ دل نے دہرایا۔ دل
کے اقرار پر ذہن نے چونک کر یہی الفاظ سوالیہ انداز میں دہرائے۔ اللہ ہے؟ سوال کی
توسیع ہوئی۔ اللہ کا اقرار کس نے کیا ہے؟ دل نے کہا۔ ذات کی انا نے۔ ذہن نے کہا۔
انا کہاں ہے؟ اسی لمحے تجلی سے نور نکلا اور متشکل ہو گیا۔ اسی متشکل تجلی کو دیکھ
کر دل نے کہا۔ یہ تجلی کا جمال ہے، یہ ذات کی انا ہے۔ جو ذات کی تجلی کو پہچاننے
کا کردار ادا کر رہی ہے۔ ذات کی ہر تجلی اسماء الٰہیہ ہیں۔ اب میرے ذہن میں آیا۔
انا جو ذات کو پہچاننے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس انا کی خود اپنی پہچان کیا ہے۔
ذہن کے اس سوال پر دل نے مشورہ دیا۔ معراج کے لمحے میں جھانک کر دیکھو۔ مجھے یوں
لگا کہ میری پیشانی سے نور کی ایک روشن دھار نکل رہی ہے۔ یہ نور آہستہ آہستہ فضا میں
بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس نور کے اندر مناظر ابھرنے لگے۔ زمین و
آسمان، عرش و کرسی سب کچھ دکھائی دی۔ یوں لگا جیسے یہ نور پوری کائنات کو محیط ہو
گیا ہے۔ ذہن میں خیال آیا یہ حقیقت محمدیﷺ کا ادراک ہے۔ جو روح اعظم کا شعور ہے۔
مجھے ستاروں بھرے دوپٹے سے رحمت اللعالمین کی رحمت کا احساس ہوا۔ میں نے دوپٹہ خوب
زور سے اپنے چاروں طرف لپیٹ لیا اور ستاروں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ جوں جوں میں
ستاروں پر ہاتھ پھیرتی جاتی تو ں توں حضور پاکﷺ کی محبت دل میں زیادہ ہوتی جاتی۔
دل نے کہا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی تجلیات ساری کائنات پر محیط ہیں۔ اسی
طرح رحمت اللعالمینﷺ کی رحمت کی تجلیات بھی ساری کائنات پر محیط ہیں۔ ربوبیت کی
تجلیات میں ذات کی انا تجلی کی صورت میں اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے اور رحمت کے
انوار میں ذات کی انا تجلی سے ہٹ کر اپنے جمال کو تجلی کی نگاہ کے سامنے ظاہر کرتی
ہے۔ اس طرح رب العالمین اور رب العالمین کو پہچاننے والی حقیقت رحمت اللعالمین کے
نام سے مخلوق میں پہچانی جاتی ہے۔ ذات لامحدودیت ہے اور ذات کی انا لامحدودیت کا
دل ہے۔ دل وہ مقام ہے جو مرکز ذات ہے اور مرکز ہر سمت سے ذات میں گھرا ہوا ہے۔
میرے ذہن میں یہ آیت ابھری۔ دل نے جو کچھ بھی دیکھا۔ جھوٹ نہ دیکھا۔ دل لامحدودیت
میں دیکھنے والی آنکھ ہے۔ ذہن میں خیال آیا۔ لامحدودیت میں دیکھنے والی نظر بھی
لامحدود ہوتی ہے۔ دل کی آنکھ لامحدودیت میں جو کچھ بھی دیکھتی ہے۔ وہ حقیقت محمدیﷺ
کا شعور ہے۔ اس شعور کے ساتھ کائنات کی روح اعظم حرکت کرتی ہے۔ روح اعظم کا متحرک
ہونا ذات کی پہچان ہے۔ روح اعظم کا ذات کو پہچاننا انسانی شعور کی معراج یا
انتہائی بلندی ہے۔ میرے دل میں شدت سے یہ خواہش ابھری کہ کاش میں بھی کسی طور حواس
کی ان انتہائی بلندیوں کو چھو لوں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ میرے اندر یہ
خواہش کہاں سے آ رہی ہے۔ کیونکہ جب میں اپنی ذات سے فنا ہوں اور اصل ذات سوائے ذات
باری تعالیٰ کے اور کوئی نہیں ہے۔ تو پھر میرے اندر خواہشات کہاں سے ڈالی جا رہی
ہیں۔ اسی خیال کے ساتھ ہی میرے سر پر تالو کی جگہ ایک سخت دبائو محسوس ہوا۔ جیسے
کوئی پیوست ڈھکن کھولتا ہے اور تالو کی جگہ کھل گئی۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میرے لئے
غیب میں داخل ہونے کا دروازہ کھولا گیا ہے۔ وہ غیب جو ذات کا عالم ہے۔ ذات ایسی پر
اسرار ہستی ہے جس نے اپنے آپ کو غیر کی نگاہ سے پردوں میں چھپا رکھا ہے۔ کیونکہ
غیر کی نگاہ اس کی حقیقت کو نہیں پہچان سکتی اور اس کے جمال کی قدر و قیمت سے واقف
نہیں ہو سکتی۔ جیسے ناشناس ہیرے اور پتھر میں تمیز نہیں کر سکتا ہے۔ پس ہیرے نے
اپنے آپ کو پتھروں سے علیحدہ رکھنے کے لئے پردوں میں چھپا رکھا ہے۔ میرے دل میں
خیال آیا ہیرے کی پہچان تو جوہری ہی کر سکتا ہے۔ آج ہیرا اپنی چمک دکھا کر جوہری
کو خود دعوت نظارہ دے رہا ہے۔ میرے ذہن میں حدیث قدسی کے الفاظ آ گئے۔ میں ایک
چھپا ہوا خزانہ تھا۔ جب میں نے چاہا کہ پہچانا جائوں تو میں نے کائنات کی تخلیق
کی۔ دل نے کہا۔ آج ہیرے نے جوہری کو اپنی پہچان کی دعوت دی ہے۔ ہیرا تو چھپا ہوا
خزانہ ہے جو انمول ہے۔ مگر جوہری بھی انمول خزانے کی قدر و قیمت سے خوب واقف ہے۔
اس اعتبار سے دونوں ہی انمول ہیں۔ ہیرے کی چمک سوائے جوہرے کے اور کون دیکھ سکتا
ہے۔ میں نے ستاروں بھری اوڑھنی اپنے سر پر کھینچ لی اور چاروں طرف سے اپنے جسم کے
ساتھ ساتھ اس اوڑھنی سے اپنا چہرہ بھی چھپا لیا۔ دل نے دیکھا۔ اے ذات محبوب۔ جن
اسرار کو تو غیر سے چھپانا چاہتا ہے۔ میں بھی ان اسرار کو غیر سے پوشیدہ رکھنا
پسند کرونگی۔ تالو کے راستے ایک تجلی اندر داخل ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ تجلی کے نور
میں ایک عظیم الشان تخت ظاہر ہوا۔ ذہن نے کہا۔ یہ کرسی ہے، یہ کائنات کی بادشاہی
ہے۔ دل نے کہا۔ اے میرے رب مجھے کائنات کی بادشاہی دکھلا۔ جیسی تو نے اپنے دوست
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دکھلائی۔ اس وقت بادشاہی کے تخت پر حضرت ابراہیم علیہ
السلام بیٹھے دکھائی دیئے۔ آپ کے اطراف میں تخت کے چاروں طرف تجلیات چاند، سورج،
ستاروں کی مانند بکھری تھیں۔ یہ تمام تجلیات نہایت ہی منظم و خوبصورت ترتیب کے
ساتھ تھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مجھے تخت پر آنے کی دعوت دی۔ وہ اس طرح کہ
آپ کے قلب سے نور کی ایک شعاع نکلی اور اس شعاع نے مجھے اپنی جانب کھینچ لیا۔ میں
اسی طرح گھونگھٹ میں لپٹی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نہایت ہی شفیق آواز
آئی۔
اے
بنت رسولﷺ! آپ اللہ تعالیٰ کے چھپے ہوئے خزانے کی چمک ہیں۔ ذہن نے سوچا۔ میں تو
اپنی ذات سے فنا ہوئی۔ دل نے کہا۔ یہ پہچان تیری نہیں اس اصل ذات کی ہے جو بقا ہے۔
پھر آپ نے بہت محبت کے ساتھ فرمایا۔ چہرے سے نقاب ہٹا دیجئے کہ یہاں غیر کا گزر
نہیں ہے۔ میں نے آہستہ آہستہ اوڑھنی چہرے اور سر سے سرکائی۔ روح کی روشنیوں سے
سارا تخت جگمگا اٹھا۔ اب ایک ایک کر کے چاند ستاروں سے تجلی نزول کرتی اور تخت پر
آ کر اپنا تحفہ پیش کرتی۔ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کا تعارف فرماتے کہ یہ
فلاں اسم الٰہی ہیں۔ میری اوڑھنی کا ایک ستارہ جگمگا اٹھتا اور اس کی روشنیاں اسم
الٰہی کی روشنی سے مل جاتیں۔ میری نظر حد نگاہ تک اس روشنی کا تعاقب کرتی۔ یہاں تک
کہ اسم الٰہی کی تجلی میں گم ہو جاتی۔ ذہن میں آیت ابھرتی۔
ان
الصفا والمروۃ من شعائر اللّٰہ
(بے شک صفا او مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔)
دل
کہتا شعائر اللہ اسمائے الٰہیہ کے کمالات ہیں۔ یہی کمالات قانون تجلیات ہیں اور ان
ہی تجلیات کے نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ موجودات میں اسماء الٰہیہ کے
کمالات یا شعائر اللہ فطرت بن کر کام کر رہے ہیں۔ ایک ایک کر کے میری اوڑھنی کا
شہر ستارہ روشن ہو گیا۔ جوہری کی نظر کائنات کے خزانوں کو پہچان گئی۔ حضرت ابراہیم
علیہ السلام نے مسکرا کے ایک سند پیش کی۔
اے
بنت رسولﷺ! آپ کے رب نے آپ کو کائنات کی بادشاہی دکھلا دی۔ روح نہایت ادب سے ا ٹھ
کر کھڑی ہوئی شکر کے طور پر کورنش بجا لائی اور عرش پر اسمائے الٰہیہ کی تجلیات کی
جانب دیکھ کر تعظیماً رکوع میں جھک گئی۔ پھر ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔ اے میرے رب
بلاشبہ تو ہی کائنات کا حقیقی بادشاہ ہے، تیری ذات عرش اور کرسی سے ماوراء ہے۔
میرے لئے اپنی ذات میں ایسے راستے بنا کہ مخلوق میرے راز سے واقف نہ ہو سکے۔ مجھے
یوں لگا عرش کے تمام ستارے نیچے اترنے لگے۔ تمام اسمائے الٰہیہ نے مجھے چاروں طرف
سے گھیر لیا اور عرش کے ستاروں کے درمیان ایک راہ بن گئی۔ میں تمام اسمائے الٰہیہ
کی حفاظت میں اس راستے پر چل پڑی۔ دل نے کہا۔ لامحدودیت میں راہ مل گئی ہے۔ ذہن نے
کہا۔ لامحدودیت کا قانون کیا ہے؟ دل نے مسکرا کر جواب دیا۔ لامحدودیت کا قانون
شعائراللہ ہے۔ شعائر اللہ، اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ جن کے کمالات اسمائے الٰہیہ
کی تجلیات کی صورت میں لامحدودیت میں نازل ہوتے رہتے ہیں۔ لامحدودیت کا قانون اللہ
تعالیٰ کی نظر اور اللہ تعالیٰ کی آواز ہے۔ تمام اسمائے الٰہیہ دل کی اس حکمت کو
سن کر بیک آواز بول اٹھے۔ اے بنت رسولﷺ! زندگی ایک ناختم ہونے والا سفر ہے۔ اس سفر
میں تم اللہ کی نظر سے دیکھتی رہو اور اللہ کی آواز پر چلتی رہو۔ لامحدودیت میں
تمہارا سفر جاری و ساری ہو جائے گا۔
منزل
کے سب نشان گزرتے چلے گئے
منزل
ملی نہ پھر بھی تمنائے یار کی
سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی
‘‘زندگی
جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’
یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔ میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔
میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔ روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔
دعا گو:
سیدہ
سعیدہ خاتون عظیمی
تاریخ:
01-09-94