Topics
نسبت اویسیہ کا پہلا انکشاف حضرت عبدالقادرمحی الدین جیلانیؒ کے طریقہ تصرف میں ہوا۔ نسبت اویسیہ کے ذریعہ سالک کی رُوح میں علوم منتقل کر دیئے جاتے ہیں اور وہاں سے یہ علوم چشمے کی طرح پھوٹ پڑتے ہیں اور پھر یہی چشمہ یا علوم کا خزانہ اندر ہی اندر بہتے ہوئے فوارے کی طرح ابل پڑتا ہے۔ حضرت غوث الاعظمؒ پیران پیر دستگیر کے بعد سے یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری ہے۔ نسبت اویسیہ کا فیضان مخفی طور پر ملاء اعلیٰ کے ذریعے یا نبیاء کرام کی ارواح کی معرفت اور اولیاء اللہ کی ارواح کے واسطے سے ہوتا ہے۔ نسبت اویسیہ کے فیض کے لئے مادی جسم کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ نسبت بہت قوی نسبت ہے اور اس نسبت کا مظاہرہ بہت دیر میں ہوتا ہے۔ اور بسااوقات یہ ہوتا ہے کہ جس بندے کو یہ نسبت حاصل ہو جاتی ہے اسے آخر وقت تک اس نسبت کا علم نہیں ہوتا۔ اولیاء اللہ کی ارواح یا انبیاء کی ارواح یا ملاء اعلیٰ کے ذریعے منتقل ہونے والے روحانی علوم سے جب عین یا ثابتہ بھر جاتے ہیں یا رُوح انسانی اور رُوح اعظم ان سے معمور ہو جاتی ہے تو سالک کے اوپر شہودی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ نسبت اویسیہ سے فیض یافتہ سالک کی پہلی نظر ملاء اعلیٰ کے شہود پر کھلتی ہے۔ ملاء اعلیٰ سے مراد گروہ جبرائیل اور گروہ میکائیل ہیں۔ ملاء اعلیٰ کا شہود بیت المعمور میں ہوتا ہے۔ بیت المعمور عرش کے اوپر کا مقام ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ابدال حق قلندربابااولیاء کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ
کتاب لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں کو سمجھانے کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے روحانی طلباء وطالبات کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔
علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)
‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔
خواجہ شمس الدّین عظیمی
(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)