Topics
کسی علم یا فن کو سیکھنے کے لئے ہمیں استاد کی ضرورت پڑتی ہے جو قدم قدم ہماری
راہنمائی کر کے ہمیں اس فن سے متعارف کراتا ہے جو ہم سیکھنا چاہتے ہیں۔ کوئی مصور
اپنے شاگرد کی رہنمائی نہ کرے تو شاگرد مصوری کے فن میں کمال حاصل نہیں کر سکتا۔
استاد کی رہنمائی میں شاگرد اپنے اندر چھپی ہوئی تصویر بنانے کی صلاحیت کو بیدار
کر لیتا ہے۔ روحانی استاد اپنے شاگرد کے اندر پہلے روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرتا
ہے پھر اسے تعلیم دیتا ہے۔ ضروری ہے کہ روحانی استاد تلاش کرنے کے لئے شاگرد
روحانی انسان کی صحبت اختیار کرے۔ اس کے شب و روز کا بغور مطالعہ کرے اور دیکھے کہ
اس شخص کی اپنی روح سے وابستگی کس حد تک ہے۔ اس کے اوپر دنیا کا غلبہ ہے یا اسے
استغنیٰ حاصل ہے۔ روحانی استاد وہ جس کی قربت میں آدمی کا ذہن ماورائی دنیا کی طرف
متوجہ ہو جائے اور جتنی دیر آدمی اس کے پاس بیٹھے اس کے اوپر غم، خوف، اضمحلال اور
پریشانی کا سایہ نہ پڑے۔ یقین کے بجھتے دیئے روشن ہو جائیں۔ روحانی استاد کی پہچان
یہ ہے کہ وہ کسی سے توقع رکھتا ہے اور نہ اس کے اندر حسد اور لالچ ہوتا ہے۔ روحانی
استاد کی مجلس میں بیٹھ کر دماغ بڑا محسوس ہوتا ہے۔ ذہن کائناتی نظام میں اس طرح
گم ہو جاتا ہے کہ دماغ میں تفکر کا Patternمتحرک
ہو جاتا ہے۔ اس کے اوپر غیبی دنیا کے علوم وارد ہونے لگتے ہیں۔
انسان
کے اندر دن اور رات میں جو تقاضے کام کرتے ہیں ان کی تعداد تقریباً گیارہ ہزار ہے۔
اور ان گیارہ ہزار کیفیات پر ایک اسم ہمیشہ غالب رہتا ہے۔
کائنات
میں ہر ذی روح کے ا ندر دو حواس کام کرتے ہیں۔
1۔
وہ حواس جو غیب سے قریب کرتے ہیں۔
2۔
وہ حواس جو بندے اور غیب کے درمیان دیوار بن جاتے ہیں۔
قانون
یہ ہے کہ مادی مظاہر میں انسان زمان و مکان میں قید ہے اور غیب کی دنیا میں زمانیت
اور مکانیت انسان کے ارادے کے تحت عمل کرتی ہے۔
یہ
ساری کائنات روشنی کے ہیولیٰ میں سفر کر رہی ہے۔ جس روشنی کے ذریعے ہماری آنکھ
دیکھتی ہے اور اس روشنی کی دو سطحیں ہیں۔ ایک سطح کے حواس میں ثقل اور ابعاد دونوں
شامل ہیں لیکن دوسری سطرح میں صرف ابعاد ہیں۔ روشنی ہمیں جو اوپری سطح کی اطلاع
دیتی ہے حواس انہیں براہ راست دیکھتے اور سنتے ہیں۔ جو اطلاعات ہمیں نچلی سطح سے
پہنچتی ہیں ان کی وصولی کے راستے میں کوئی مزاحمت ضرور ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
حواس ان اطلاعات کی پوری گرفت نہیں کرتے۔ جو اطلاعات ہمیں اوپری سطح سے موصول ہوتی
ہیں یہی اطلاعات نچلی سطح سے موصول ہونے والی اطلاعات کے راستے میں مزاحمت بن جاتی
ہیں۔ گویا کہ ایک طرح کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے، یہ دیوار اتنی سخت ہوتی ہے کہ
ہمارے حواس کوشش کے باوجود اسے پار نہیں کر سکتے۔ اوپری سطح کی اطلاعات دو قسم کی
ہیں۔
1۔
وہ اطلاعات جو اغراض پر مبنی ہوں، ان کے ساتھ ہمارا رویہ جانبدارانہ ہوتا ہے۔
2۔
وہ اطلاعات جو انفرادی مفاد سے وابستہ نہیں ہوتیں ان کے حق میں ہمارا رویہ غیر
جانبدارانہ ہوتا ہے۔
اطلاعات
کی ان دونوں طرزوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ
انسان کے پاس ادراک کے وہ زاویے ہیں۔ ایک وہ زاویہ جو انفرادیت تک محدود ہے۔ دوسرا
وہ زاویہ جو انفرادیت کی حدود سے باہر ہے۔ جب ہم انفرادیت کے اندر دیکھتے ہیں تو
کائنات شریک نہیں ہوتی ہے اور جب انفرادیت سے باہر دیکھتے ہیں تو کائنات شریک ہوتی
ہے یہی وہ مقام ہے جہاں سے آدمی طبیعات کے
فرضی دائروں میں خود کو گم کر دیتا ہے۔
کوئی
ذی ہوش آدمی جب ان فرضی دائروں کا تجزیہ کرتا ہے تو وہ ایک روشن راستے پر گامزن ہو
جاتا ہے۔ اس روشن راستہ پر چلنے والا مسافر کائناتی تفکر کی رہنمائی میں ایک منزل
کا تعین کرتا ہے اور اس منزل پر پہنچنے کے لئے علم مابعد النفسیات اس کے لئے مشعل
بن جاتا ہے۔
کائناتی
برادری کا ایک فرد(آدم زاد) جب طبیعات کے دائروں میں خود کو قید کر لیتا ہے تو
کائناتی سسٹم میں خلاء واقع ہونے لگتا ہے اوریہ خلاء ادبار بن کر آدم زاد برادری
کو سکون سے محروم کر دیتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جب کسی ایسے شخص کی ضرورت پڑتی ہے
جو اطلاعات کے اصل علم سے واقف ہو یہی آزاد ذہن شخص اپنے شاگردوں کو ذاتی اغراض سے
نکال کر ماورائی علوم کے راستے پر گامزن کر دیتا ہے۔ جیسے جیسے اس راستہ پر قدم
آگے اٹھتے ہیں شاگرد کی طرز فکر آزاد ہو جاتی ہے۔ یہ آزاد طرز فکر شعور ی دنیا کو
لاشعوری دائرے میں داخل کر دیتی ہے۔
ہر
انسان کے اندر بیک وقت دو دنیائیں آباد ہیں، ایک شعوری دنیا اور دوسری لاشعوری
دنیا۔ شعوری دنیا محدود ہے اور لاشعور ی دنیا لامحدود ہے۔ لامحدود دنیا میں لاکھوں
کہکشائیں اور کہکشاؤں میں کروڑوں دنیائیں آباد ہیں۔ ماہرین اپنا مشاہدہ بیان کرتے
ہیں کہ ہر دنیا میں آدم زاد برادری موجود ہے۔ زمانیت کی درجہ بندی کی وجہ سے اس
انسانی برادری کے خدوخال میں تو کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی البتہ تخلیقی فارمولے
میں یہ فرق ہو جاتا ہے کہ کسی دنیا کی مخلوق Transparentہے،
کسی دنیا کی مخلوق سنہری ہے اور کسی دنیا کی مخلوق Mercuryہے۔
لیکن ہر دنیا میں دوسری مخلوقات کے علاوہ آدم زاد یا انسان یقینی طور پر موجود ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔
عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔