Topics
انبیاء کرام کی تعلیمات یہ ہیں کہ پوری
کائنات میں دو طرزیں کام کر رہی ہیں، ایک طرز اللہ کے لئے پسندیدہ ہے اور دوسری
اللہ کے لئے ناپسندیدہ ہے، وہ ناپسندیدہ طرز جو بندے کو اللہ سے دور کرتی ہے اس کا
نام شیطنیت ہے اور وہ پسندیدہ طرز فکر جو بندے کو اللہ کے قریب کرتی ہے اس کا نام
رحمت ہے۔جتنے بھی پیغمبر تشریف لائے سب کی طرز فکر یہ تھی کہ ماورائی ہستی کے ساتھ
ہمارا رشتہ قائم ہے۔ اور اللہ وحدہ لا شریک ہے اس کے علاوہ کوئی پرستش کے لائق
نہیں ہے۔
رسول اللہ ؐ نے نوع انسانی کی بقا کے جو
اصول عطافرمائے ہیں اس کی اساس توحید ہے یعنی حاکمیتِ اعلیٰ کا حق ذاتِ باری
تعالیٰ کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ حقوق اللہ میں سب سے پہلا حق یہ ہے کہ
انسان اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اور صرف
اللہ کی عبادت کی جائے۔
بندے کے اوپر اللہ کا یہ حق ہے کہ بندے کو
اللہ کی ذات اور صفات کی معرفت حاصل ہو، اس کا دل اللہ کی محبت سے سرشار ہو، اس کے
اندر عبادت کا ذوق اور اللہ کے عرفان کا تجسس کروٹیں لیتا ہو۔ بندے کا اللہ کے
ساتھ اس طرح تعلق استوار ہو جائے کہ بندگی کا ذوق اس کی رگ رگ میں رچ بس جائے۔ یہ
بات بھی حقوق اللہ میں شامل ہے کہ بندہ اس بات سے باخبر ہو اور اس کا دل اس بات کی
تصدیق کرے کہ میں نے عالم ارواح میں اس بات کا عہد کیا ہے کہ میرا رب، مجھے بنانے
والا، خدوخال بکش کر میری پرورش کرنے والا اور میرے لئے وسائل فراہم کرنے والا
اللہ ہے اور میں نے اللہ سے اس بات کا عہد کیا ہے کہ میں زندگی، خواہ وہ کسی عالم
کی زندگی ہو، آپ کا بندہ اور آپ کا محکوم ہو کر گزاروں گا۔شیطان میرا کھلا دشمن
ہے۔ میں کبھی اس کی ذریت میں شامل نہیں ہونگا۔ ہمیشہ شیطان مردود کے شر اور وسوسوں
سے بچنے کی تدابیر اختیار کروں گا۔
رسول اللہ ؐ کے دیئے ہوئے ضابطہ حیات کا
دوسرا بینادی حقوق العباد پورے کرنا ہے۔حقوق العباد کی تعریف یہ ہے کہ انسان اس
بات کا یقین رکھے ساری نوع انسان اللہ کا ایک کنبہ ہے اور میں خود اس کنبے کا ایک
فرد ہوں۔ اورجس طرح کوئی انسان اپنی فلاح و بہبود اور اپنی آسائش کے لئےاہتمام
کرتا ہے۔ اسی طرح میں کنبہ کے تمام افراد کی آسائش اور بہبود کے لئے کام کروں گا۔یہ مخلصانہ جذبہ انسان کے اندرمحبت، اخوت،
مساوات اورحسن سلوک کا ایسا بیج بو دیتا ہے جو بڑھ کر تناور درخت بنتا ہےتو اس کی
ٹھنڈی چھاؤں نہ صرف اس فرد کے لئے بلکہ پوری انسانی برادری کے لئےراحت کا باعث
ہوتی ہے۔
حقوق العباد انسانوں میں باہمی معاملات و
تعلقات اور اجتماعی طرزعمل کا نام ہے۔رسول اللہ کا ارشاد
ہے کہ میں تمہارے پاس اللہ کی کتاب چھوڑ کر جارہا ہوں ۔ اس مضبوطی کے ساتھ تھامے
رکھنا اور اس میں مندرج اللہ کے احکامات کی تعمیل کرنا، تفرقہ میں مت پڑ جانا۔
تفرقہ اجتماعیت میں دراڑیں ڈال دیتا ہے۔اجتماعی طاقت انفرادی سوچ میں تقسیم ہو
جاتی ہے۔
ابلیس کا مشن ہی یہ
ہے کہ انسان تفرقوں میں تقسیم ہو جائے جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اللہ کی رسی کو
متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔"
رسول اللہ ؐ کا ارشاد
ہے،’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جیسے
عمارت کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کا سہارا بنتی ہے اور ہر اینٹ دوسری اینٹ کو قوت
پہنچاتی ہے۔اس کے بعد آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں
میں پیوست فرما کر مسلمانوں کے باہمی تعلق اور اخوت و محبت کی مثال دی۔
رسول اللہ ؐ نے یہ
بھی فرمایا:۔۔۔۔۔"تم
مسلمانوں کو باہم رحم دلی، الفت و محبت اور آپس میں تکلیف و راحت کے جذبات میں
ایسا پاؤ گے جیسے ایک جسم کہ اگر اس کا ایک عضو بیمار ہو جائے تو سارا جسم بیماری
اور بے چینی میں اس عضو کا شریک بن جاتا ہے۔”
اسلام"
مکمل اجتماعی پروگرام ہے۔ اسلام کا ہر رکن اجتماعی ہے۔
ایک آدمی انفرادی طورپر کام کرتا ہے اور
دوسری طرف ایک لاکھ آدمی اجتماعی طور پرکام کرتے ہیں ۔ اگر اجتماعی قوت کے اصول کے
مطابق دین و دنیا کا کوئی بھی کام کیا جائے تو اس میں فتح و کامرانی فرد کی بجائے
افراد کو حاصل ہوتی ہے۔
رسول اللہؐ نے امتِ
مسلمہ کو غیر متغیر اجتماعی پروگرام عطا فرمایا ہے لیکن مسلمانوں نے تفرقہ نے
اجتماعیت کو نگل لیا ہے اور مسلمان اللہ کے حکم پر کاربند نہیں رہے۔ نتیجہ پست
حالی اور ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔
سوال یہ ہے کہ
۔۔۔ایک ایسا جذبہ انسان میں کیسے پیدا ہو کہ وہ ذاتی مفاد کے اوپر اجتماعی
مداد کو ترجیح دے؟
جواب: رسول اللہؐ کی
تعلیمات میں تفکر کیا جائے تو حقیقت منکشف
ہوتی ہے کہ آپ نے معاشی جدوجہد ، معاشرتی روابط اور زندگی کے دیگر معاملات میں
ایسا نظام قائم فرمادیا ہے جس کے ذریعہ معاشرہ روابط اور زندگی کے دیگر معاملات میں
ایسا نظام قائم فرمادیا ہےجس کے ذریعہ
معاشرہ میں مثبت رونما ہوئی ہیں۔ رسولا للہؐ کا بنایا ہوا معاشرہ خلوص، عفو و
درگزر، ایثار اوراخلاقی طرزوں پر استوار ہے۔
اجتماعی سوچ اور عمل
سے انسان کے اندر مال ودولت کی محبت اور خود غرضی ختم ہو جاتی ہے۔پوری زندگی اللہ
کی رضا کا حصو ل بن جاتی ہے ۔ رسول اللہؐ نے حصول معاش میں اعلیٰ معاشرتی ، اخلاقی
اور قدروں کی پاسداری کر کےعملی مثالیں قائم کی ہیں۔پیغمبرانہ تعلیمات کے ان عملی
نمونوں کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف تو ایک آدمی کا عمل دوسرے نے فردکی فلاح و بہبود
کا ذریعہ بن جائے اور دوسری طرف معاشی سرگرمیوں میں بھی بندے کا رشتہ اللہ سے قائم
رہے۔
عدل و انصاف کے
اصولوں پر کاربند رہے سے ہی معاشرتی امن اور سکون کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ جس
معاشرے میں سماجی انصاف میسر نہ ہو، اور استحصالی قوتوں نے عدل کا راستہ بند کر
رکھا ہو، وہاں جرائم ، لوٹ کھسوٹ، ظلم و جبر کا ایسا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس سے
معاشرہ برباد ہوجاتاہے۔
رسول اللہ ؐ کا ارشاد
ہے۔" تم سے پچھلی قومیں اس لئے تباہ کردی گئیں کہ ان میں جب کوئی بااثر آدمی
جرم کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیا جاتا تھا اور جب کوئی عام آدمی جرم کرتا تھا تو اُسے
سزادی جاتی تھی۔"
متوازن و مہذب معاشرے
کی اکائی " خوشحال گھرانہ" ہے اور گھر کی بنیاد اور رونق عورت ہے۔
معاشرے میں راحت و سکون کو یقینی بنانے کے لئے اور معاشرتی اکائی کو مضبوط کرنے کے
لئے قرآن اور شارح قرآن نے عورت کی عزت وناموس کو وہ تحفظ فراہم کیا ہے جس کا تصور
موجود نہیں تھا۔ عورتوں پر ذہنی و جسمانی تشدد ہر دور کی روایت رہی ہے۔ رسول اللہؐ
جس معاشرہ میں تشریف لائے اس کا چہرہ ہزار ہا برائیوں سے داغدار تھا۔ زمانہ جاہلیت
کے عرب معاشرہ میں بیٹی معاشرہ کا چہرہ جھُلس گیا تھا و ہ بیٹیوں کو زندہ درگور
کرنا تھا۔ رسول اللہؐ نے اس مستحق ہے۔ رسول اللہؐ
نے فرمایا، " عورتیں ریاست کا ستون ہیں اگر وہ اچھی تو ریاست بھی اچھی
ہے اگر وہ خراب ہیں تو ریاست بھی خراب ہوگی۔"
رسول اللہؐ نے آخری
وصیت میں فرمایا، " لوگو!خبردار ہو جاؤ میں تم کو دو کمزوریوں کے حقوق ادا کرنے کی
وصیت کرتا ہوں اور اس میں کوتاہی کرنے سے ڈراتا ہوں ۔ ایک یتیم اور دوسری
عورت۔"
رسول اللہؐ کی تعلیمات پر عمل سے عورت کو جب بنیادی حقوق
عطا ہو گئے تو محبت اور خلوص پر مبنی معاشرے کی تشکیل ہو گئی۔ ایک معاشرہ جہاں
نہ کوئی مرد کسی عورت پر تشدد کرے نہ طعن
و تشنیع اور گالم گلوچ سے اسے ذہنی اذیت پہنچائے اور نہ عورت زبان درازی کرکے
معاشرتی اکائی یعنی " خوشحال گھرانے
" کا ماحول خراب کرے۔
آج امتِ مسلمہ کو در
پیش مسائل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے کو رسول اللہؐ کی تعلیمات کے
مطابق قائم نہیں رکھا۔ ہم بحیثیتِ مجموعی کسی نہ کسی طرح حق تلفی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔
اس وقت معیشت اور اقتصادیات کی نئی جہت ابھر کر سامنے آئی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی
سے عوام حالات و واقعات کے تناظر میں رسول اللہ ؐ کی طرز فکر کے مطابق اشاعت و
فروغ میں ہی ہماری کامیابی اور بقا ہے۔ ہم اگر اپنی حالت بہتر بناتا چاہتے ہیں تو
ہمارے لئے واحد راستہ یہ ہے کہ رسول اللہؐ
کی طرز فکر کو صحیح معنوں میں سمجھیں
اور آپؐ کی تعلیمات پر حقیقی معنوں میں عمل کریں۔
فطرتِ انسانی کے
رازدار ، انسان ِ کامل حضرت محمدؐ نے ایک روز دعا فرمائی ،
"اے اللہ! میں کفر اور افلاس سے پناہ مانگتاہوں۔"
کسی نے پوچھا ،
" کیا یہ دونوں برابر ہیں۔" آپؐ نے فرمایا ہاں دونوں برابر ہیں۔ آپؐ نے
تاکید فرمائی، " مسلمانو ! محتاجی و مفلسی اور ذلت و خواری سے پناہ مانگا کرو۔"
آپؐ دنیا اور آخرت
دونوں کو بہترین انداز میں چلانے کی ہدایت کیا کرتے تھے۔ آپؐ کا فرمان ہے" تم
میں سے وہ شخص بہتر نہیں جو آخرت کی وجہ سے اپنی دنیا کوچھوڑ دے اور نہ وہ جو دنیا
کی وجہ سے اپنی آخرت کو چھوڑ دے۔یہاں تک کہ وہ دونوں کو حاصل کرے کیونکہ دنیا آخرت
تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اور تم لوگوں پر بوجھ نہ بنو۔"
آ۔ کی دعا سورہ
البقرۃ میں اس طرح ہے:
"اے میرے رب! میری دنیا کو اچھا بنا، اور آخرت کو بھی اچھی بنا،
اور آگ کے عذاب سے بچا۔"
روئے زمین پر قائم
کوئی بھی معاشرہ ہو، کوئی بھی نظام ہو اگر اس میں انسانوں کے بنیادی حقوق کا تعین
ہے، خواتین ، بچوں اور کمزوروں کو تحفظ کا احساس ہے، حق تلفی اورظلم کا راستہ روکا
گیا ہے، جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت قائم ہے تو درحقیقت وہ معاشرہ ہے، اب
چاہے وہ سائبیریا کے سرد علاقے میں ہو، عرب کے صحراؤں میں ہو، مشرقی دنیا کو کوئی
پسماندہ علاقہ ہو یا امریکہ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کا جدید
معاشرہ ہو۔
پست حالی اور
ذلت ورسوائی کی زندگی سے نجات حاصل کر کے
فتح و کامرانی حاصل کرنے کے لئے رسول اللہؐ نے امتِ مسلمہ کو غیر متغیر اجتماعی
پروگرام عطا فرمایا۔رسول اللہ کی تعلیمات میں اللہ تعالیٰ پر ایمان کو بنیادی
حیثیت حاصل ہے، جو کہ حقوق اللہ کےزمرے
میں آتا ہے۔ اس کے بعد حقوق العباد ہیں جس میں اخلاقی قدروں کی پاسداری کا حکم دیا
گیا ہے۔ ان دونوں بنیادی باتوں کے ساتھ ساتھ دیگر اہم امور میں غورو فکر ، تلاش و
جستجو اور ریسرچ کی دعوت ہے جو تعلیمات نبوی ؐ کے ہمہ گیر ہونے کی دلیل ہے۔
یہ حقیقت بھی روزِ
روشن کی طرح عیاں ہے کہ رسول اللہؐ کے
لائے ہوئے عظیم الشان انقلاب نے نوع ِ
انسانی کو ایسا عملی عروج عطا کیا اور ترقی کی اس شاہراہ پر گامزن کردیا جو
حیوانیت سے اُسے ممتاز کرتی ہے۔ حقوق و فرائض کے تعین کے لئے آپ کےانقلابی اقدامات
سے ذہنوں کے بند دریچے کھل گئے، غوروفکر ،
تفکر اور عمل کی بنیادی مستحکم ہو گئیں۔
حالات میں مثبت تغیر
پیدا کرنے اور صراط مستقیم پر معاشرہ کی تشکیل کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ ہم اسوۂ
حسنہ پر عمل کریں۔ نوعِ انسانی کے لئے بالعموم اور امتِ مسلمہ کے لئے بالخصوص اللہ
تعالیٰ کا حکم ہے۔
"اللہ کی رسی کو
متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ تھام اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو"
خالق و مخلوق کے رشتہ کو برقرار رکھنے کے لئے رسول اللہؐ نے جو نظام
عطا فرمایا ہے اس میں تغیر اور تعطل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"یہ اللہ کی سنت
ہے جوچلی آرہی ہےپہلے سے، اور نہ پاؤ گے تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی
۔"(الفتح:۲۳)
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ارشاد اور اولیا ء اللہ کا قول بھی ہے ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پا یا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے ۔ سپیس کا علم علم کی تجلی کو دیکھتا ہے ۔ جب سپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جا ئے ، کا نوں سے سنا ئی دے تو تجلی نظر آتی ہے ۔قر آن کر یم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کسی کو طا قت نہیں کہ اللہ سے کلام کر ے مگر تین طر یقوں سے (۱)وحی کے ذریعہ (۲)رسول کے ذریعے یا (۳)حجاب سے ۔یہ تینوں سپیس میں حجاب بھی سپیس ہے وحی اسے کہتے ہیں جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جا ئے اور پر دے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجا ئے اور ایک آواز آتی ہے ۔ فر شتے کے ذریعے یا رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کہ معنی یہ ہیں کہ فر شتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طر ف سے بات کر تا ہے اور حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کو ئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طر ح بات کر تی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے حا لانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے بلکہ حجاب ہے ۔