Topics
ہمارا یقین ہے کہ کائنات ایک ہستی نے بنائی ہے اور کائنات پر اسی ہستی کی حکمرانی ہے۔ کائناتی تقاضے تواتر کے ساتھ مخلوق کو منتقل ہو رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ نگاہ کا وصف کسی ہستی سے ہمیں منتقل ہوا ہے۔ یعنی اللہ ایسی ہستی ہے جو بصیر ہے اور بصیر ہونے کے ساتھ ساتھ اسے قدرت حاصل ہے کہ وہ افراد کائنات کو بصارت منتقل کر رہا ہے۔ یعنی بندے کا دیکھنا دراصل اللہ تعالیٰ کی صفت بصیر کا مظاہرہ ہے۔
کائنات مجموعی طور پر اللہ کی صفات کا عکس ہے اور صفات اللہ کے اسماء ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہر اسم ایک تجلی ہے اور تجلی کے ساتھ قدرت اور رحمت شامل ہے۔ گویا اللہ کا ہر اسم تین تجلیوں کا مرکز ہے۔ (۱) اللہ تعالیٰ کی ذات (۲) اللہ تعالیٰ کی صفت (۳) اور صفت کے ساتھ قدرت۔
جب ہم اللہ کا تذکرہ کرتے ہیں یا اللہ کا کوئی اسم ذہن یا زبان سے ادا کرتے ہیں تو تجلی اپنی صفت اور قدرت کے ساتھ حرکت میں آ جاتی ہے۔ یعنی ہم اللہ کو بصیر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں یا اللہ کے اسم بصیر کا ورد کرتے ہیں تو ہمارے اندر اللہ کی نگاہ اور اللہ کی نگاہ سے متعلق قدرت اور نگاہ سے متعلق رحمت کا علم متحرک ہو جاتا ہے۔
کائنات ایک علم ہے۔ یہ علم نزول کر کے حواس کی شکل و صورت میں نمایاں ہو رہا ہے اورعلم تین رُخ پر مشتمل ہے۔ پہلا رُخ تجلی ہے جو لطیفہ اخفیٰ کے اندر نزول کرتا ہے اور تجلی کا علم بن جاتا ہے۔ دوسرا رُخ اس تجلی کا وصف ہے یعنی تجلی کی تشریح ہے۔ تجلی کا یہ وصف لطیفہ سری میں متحرک ہوتا ہے۔ تیسرا رُخ تجلی کے وصف کی تشکیل ہے یعنی تجلی اپنے وصف کے ساتھ خدوخال اختیار کرتی ہے اس وصف کا نزول لطیفہ قلبی میں ہوتا ہے۔ اسی وصف کا نام نگاہ ہے اور لطیفہ قلبی کے اندر جب گفتار سماعت شامہ اور مشام شکل و صورت اختیار کر کے مزید حرکت کرتے ہیں تو نقش و نگار کا ایک رنگین پیکر بن جاتا ہے۔ گفتار سماعت شامہ اور مشام کا یہ رنگین پیکر لطیفہ نفسی کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ لطیفہ قلبی اور لطیفہ نفسی کے درمیان کشش کا یہ عمل مظاہراتی طور پر ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔
تین حرکتیں بیک وقت صادر ہوتی ہیں۔ پہلی حرکت کسی چیز کو جاننا ہے۔ جب ہم کسی چیز کو جاننے کا ارادہ کرتے ہیں یا ہمارے ذہن کی حرکت کسی چیز کو جاننے میں استعمال ہوتی ہے تو یہ عمل لطیفہ اخفیٰ میں ہوتا ہے۔
جاننے کے بعد دوسری حرکت کسی چیز کو محسوس کرنا ہے۔ محسوس کرنا لطیفہ سری کا عمل ہے۔ جاننے اور محسوس کرنے کے بعد کسی چیز کے بارے میں خواہش پیدا ہوتی ہے۔ خواہش کے بعد عمل کا صدور ہوتا ہے۔ خواہش اور عمل کا صادر ہونا لطیفہ قلبی اور لطیفہ نفسی کی حرکت ہے۔ کسی چیز کا علم یا کسی چیز کو جاننے کی حرکت ثابتہ سے شروع ہو کر جویّہ پر ختم ہو جاتی ہے اور یہ علم ہر ہر اسٹیج پر ہر ہر نزول پر ریکارڈ ہوتا رہتا ہے۔ جاننا لطیفہ اخفیٰ میں واقع ہوا ہے اور اس کو لطیفہ خفی ریکارڈ کر لیتا ہے۔ لطیفہ سری میں محسوساتی عمل شروع ہوتا ہے جس کو لطیفہ روحی ریکارڈ کر لیتا ہے۔ لطیفہ قلبی میں جاننے اور محسوس کرنے کے بعد عمل واقع ہوتا ہے اور یہ عمل لطیفہ نفسی میں ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ اخفیٰ، خفی یعنی رُوح اعظم نے جانا۔ سر اور رُوح یعنی رُوح انسانی نے محسوس کیا قلب اور نفس یعنی رُوح حیوانی نے عمل کیا۔ جاننا محسوس کرنا عمل کرنا بیک وقت صادر ہوتا ہے اور بیک وقت ختم ہو جاتا ہے۔ ختم ہونے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی تجلی کا وصف قدرت اور رحمت کے ساتھ علم کی حیثیت میں نزول کر کے پہلے جاننے کا عمل بنتا ہے پھر یہ عمل محسوساتی علم بن جاتا ہے۔
اس فارمولے یا Equationکی حیثیت کائناتی بھی ہے، نوعی بھی ہے اور فرد کی زندگی سے متعلق بھی ہے۔ ہمارے پیش نظر اس وقت فرد کی روحانی صلاحیتوں کا انکشاف ہے۔ اس لئے ہم اس فارمولے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ فرد کی زندگی سے متعلق اسمائے الٰہیہ کی تمام تجلیوں کا علم، اس علم میں صفت قدرت و رحمت شامل ہے۔ فرد کے ثابتہ میں یا رُوح اعظم میں موجود ہے۔ محسوساتی علم یا فکر سے متعلق اللہ کی تمام تجلیاں صفت اور قدرت و رحمت کے ساتھ فرد کے اعیان یا رُوح انسانی میں موجود ہیں۔ جاننے اور محسوس کرنے کے علم کے بعد عمل صادر ہوتا ہے۔ عمل کے تمام نقوش جویہ یا رُوح حیوانی میں موجود ہیں۔ اس فارمولے پر غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ کا کائناتی پروگرام ہر فرد میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات کے اندر موجودات کے تمام افراد ان کا نام کچھ بھی ہو ان اجسام یا افراد کا تعلق نباتات سے ہو، جمادات سے ہو، حیوانات سے ہو سب کا آپس میں ایک رشتہ ہے۔ یہ رشتہ ہی ایک دوسرے کے تعارف اور پہچان کا ذریعہ ہے۔ نوعِ انسانی کے کسی ایک فرد کا یا تمام افراد اور بکری کے درمیان اگر کوئی مخفی رشتہ نہ ہو تو انسان بکری کو نہیں پہچان سکے گااور بکری انسان کو نہیں پہچان سکے گی۔ اس رشتے کو تلاش کرنے سے انسان روحانی رموز سے واقف ہو جاتا ہے۔ کوئی روحانی آدمی اس بات پر لازماً تفکر کرتا ہے کہ میں بکری کو پہچانتا ہوں۔ بکری مجھے پہچانتی ہے۔ شیر جانتا ہے کہ یہ انسان ہے، انسان کے علم میں بھی یہ بات ہے کہ میرے سامنے شیر ہے۔ جب کوئی انسان آسمان کی طرف نظر اٹھاتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ سورج ہے ستارہ ہے صرف کہتا ہی نہیں بلکہ محسوس بھی کرتا ہے۔ روحانی آدمی جب تفکر کو اپنا شعار بنا لیتا ہے اور اس کے اندر اللہ کی تجلی کا علم متحرک ہو جاتا ہے تو وہ کائنات میں تمام آسمانی اجرام اور اجرام کے بسنے والے ہر ذی رُوح اور غیر ذی رُوح افراد کو ایک مخفی رشتے میں بندھا ہوا دیکھتا ہے۔ جب ہم ستارے کو دیکھتے ہیں تو ستارہ کبھی منع نہیں کرتا کہ مجھے نہ دیکھیں۔ جب ہم سورج کو دیکھتے ہیں تو سورج ہمیں منع نہیں کرتا کہ مجھے نہ دیکھو۔ اگر سورج اور ستارے اور انسان کے درمیان کوئی مخفی رشتہ موجود نہ ہوتاتو ہر ستارہ اور ہر آسمانی نظارہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور پیدا کرتا۔ اللہ تعالیٰ کی تجلی کا یہی رشتہ کائنات کے پورے افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کئے ہوئے ہے۔ کائنات ایک مخفی رشتے میں اس لئے بندھی ہوئی ہے کہ ساری کائنات ایک ہستی کی ملکیت ہے۔ کائنات اور کائنات کے افراد اگر مختلف ہستیوں کی ملکیت ہوتے یا کائنات کے افراد پر مختلف ہستیوں کی حکمرانی ہوتی تو یقیناً ایک دوسرے کی روشناسی میں تصادم پیدا ہو جاتا۔ ایک ہستی کی ملکیت دوسری ہستی کی ملکیت سے متعارف ہونا پسند نہ کرتی۔ قرآن پاک نے اسی مالک ہستی کا تعارف اللہ کے نام سے کرایا ہے۔ اسمائے مقدسہ میں یہی لفظ اسم ذات ہے۔ ہم بتا چکے ہیں کہ اللہ کا ہر اسم ایک تجلی ہے اور ہر تجلی رحمت اور قدرت کے ساتھ قائم ہے۔ ہر اسم بحیثیت قادر کے قدرت رکھتا ہے۔ ہر اسم قدرت سے متعارف ہے۔ قادرانہ اور رحیمانہ اوصاف ہی موجودات کے تمام افراد کے درمیان مخفی رشتے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سورج کی روشنی اور چاند کی چاندنی اہل زمین کی خدمت گزاری ہے۔ اس لئے انکار نہیں کر سکتی کہ زمین سورج اور چاند اللہ کی ملکیت ہیں۔
چونکہ اللہ مالکانہ حقوق میں قادر مطلق ہیں اس لئے اللہ کی رحمت اور قدرت اس کو گوارا نہیں کرتی کہ اللہ کی ملکیت ایک دوسرے سے منکر ہو جائے۔ نظام کائنات کے قیام ترتیب اور تدوین پر اللہ کے جن اسماء کی حکمرانی ہے ان میں ایک اسم”اللہ’’ اور دوسرا اسم”قدیر’’ ہے اور اللہ کے تمام اسم اللہ اور قدیر کے ساتھ منسلک ہیں۔
اجمال
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور ان کی اولاد کو علم الاسماء اس لئے سکھایا ہے کہ بندہ کائنات کی رنگا رنگ زندگی کا مشاہدہ کرے اور کائناتی حیات میں تفکر کرے۔ جب کوئی بندہ جدوجہد اور کوشش سے اللہ کے قانون کا تقاضا پورا کر دیتا ہے تو اس کے اوپر عرفان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
عرفان دو طرح ہوتا ہے۔ ایک صفات کا عرفان۔ دوسرا ذات کا عرفان۔ صفات کا علم جاننے والا بندہ ظاہراً خدوخال کے اندر باطنی خدوخال کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یعنی وہ فرد کائنات کی رُوح کا وقوف حاصل کر لیتا ہے اس کے سامنے عالمین کا ریکارڈ آ جاتا ہے۔ صفات کا علم رکھنے والا بندہ فرشتوں سے حشر نشر سے۔ عالم اعراف سے۔برزخ سے۔ سماوات سے۔ا ور عرش و کرسی سے واقف ہوتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ ہماری دنیا کی طرح اور بھی بے شمار دنیائیں ہیں۔ جس طرح ہماری زمین پر نوعِ انسانی نوعِ حیوانی نباتات و جمادات ہیں اسی طرح دوسری دنیاؤں میں موجود ہیں۔ دوسرا رُخ اللہ کی ذات کا عرفان ہے۔ ذات کا عارف یہ جانتا ہے کہ کائنات کی تخلیق کن فارمولوں پر ہوئی ہے اور کائنات میں اللہ کی کون سی مشیئت کام کر رہی ہے۔ عرفان ذاتی ہو یا صفاتی۔ اس کو حاصل کرنے کے لئے اپنی رُوح کا عرفان ضروری ہے۔ اللہ کا ہر اسم بحیثیت علم کے علیم ہے اور اللہ کا ہر اسم بحیثیت خالق کے قدیر ہے۔
اللہ کا ہر اسم تین تجلیوں کا مجموعہ ہے اور اللہ کے ہراسم کی حکمرانی کائنات کے اوپر محیط ہے۔ انہی تجلیات کا نزول مختلف مدارج میں ہوتا رہتا ہے۔ اللہ کی ذات کا عرفان جن انوار سے ہوتا ہے ان انوار کا نام نہر تسوید ہے۔ یہ بات مزید وضاحت طلب ہے رُوح کے تین پرتوں کو اللہ کے انوار کی چار نہریں سیراب کرتی ہیں۔ پہلی نہر کا نام نہر تسوید ہے۔ نہر تسوید لطیفہ اخفیٰ میں نزول کرتی ہے۔ جتنی بھی نوعوں کے اندر لطیفہ اخفیٰ موجود ہے اس نورانی نہر کے ذریعے ایک دوسرے سے متعارف اور روشناس ہیں۔ ہم جب علم کا تذکرہ کرتے ہیں تو علم کو محفوظ کرنے کے لئے حافظہ کا نام دیتے ہیں۔ نہر تسوید کے انوار ہی وہ شعاعیں ہیں جو انسان جنات اور ذی رُوح افراد کے اندر حافظہ بنتی ہیں۔ ہم جب کسی چیز کو یاد کرنا چاہتے ہیں یا کسی بھولی ہوئی چیز کو شعور کے اندر محسوس کرتے ہیں تو یہ کام حافظہ کا ہے۔ اس کو بہت آسان اور مختصر الفاظ میں بیان کرنا اس طرح ممکن ہے کہ کائنات میں ازل سے ابد تک تمام ریکارڈ اور تمام معلومات کا ذخیرہ نہر تسوید میں ہے۔ اگر سالک اس ذخیرے سے استفادہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے تو وہ لاکھوں سال بعد کے یا لاکھوں سال پہلے کے زمانوں میں گزرے ہوئے واقعات و حادثات کو دیکھ سکتا ہے۔ لطیفہ اخفیٰ کے اندر کائنات سے متعلق جو اجزاء منتقل ہوتے ہیں وہ بھی نہر تسوید کی شعاعوں کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات کی تخلیق سے پہلے اللہ کے ذہن میں کائناتی تخلیقی پروگرام جس طرح موجود تھا، وہ سب نہر تسوید کے ذریعے لطیفہ اخفیٰ میں نزول کرتا رہتا ہے۔ ہر عمل اور کائنات کی ہر حرکت نہر تسوید سے شروع ہوتی ہے اور نہر تظہیر پر اس کی تکمیل ہوتی ہے۔ ابتداء اور تکمیل کا یہ سلسلہ ہر آن اور ہرلمحہ جاری و ساری ہے۔ زندگی کی ہر حرکت اللہ کے ذہن سے شروع ہوتی ہے اور اللہ کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ يہی وجہ ہے کہ اللہ کی صفات کا سہارا لئے بغیر کسی حرکت کا وجود میں آنا ممکن نہیں ہے۔
انسان ایک گمشدگی کے عالم میں تھا۔ اس کو سماعت حاصل تھی نہ بصارت چونکہ سماعت اور بصارت دونوں حاصل نہیں تھیں اس لئے اس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اللہ نے جب مخلوق کو مخاطب کیا تو مخلوق کی حیثیت قائم ہوئی۔ انسان کا اور تمام کائنات کا اللہ کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔ یہ رشتہ ہمارے اندر دو رُخ متعین کرتا ہے۔ ایک رُخ کا نام احساس ہے اور دوسرے رُخ کا نام محسوس کرنا ہے۔ جس طرح انسان نے اللہ کو دیکھ کر یہ محسوس کیا تھا کہ میں مخلوق ہوں مغلوب ہوں یا کسی کے تابع ہوں۔ یہی قانون پوری زندگی اور عالمین میں جاری ہے۔ آپس میں جب دو دوست یا دو افراد ملتے ہیں یا ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو اس دوست کا اثر قبول کرتے ہیں۔ یہ اثر دو طرح کا ہوتا ہے۔ دو دوستوں میں ایک اثر ڈالنے والا ہوتا ہے اور دوسرا دوست اثر قبول کرنے والا ہوتا ہے۔ دوست دوسرے دوست کو دیکھ کر اپنی معلومات کے مطابق کوئی رائے قائم کرتا ہے۔ یعنی دوسرے دوست کی صفات کو بطور احساس اپنے اندر قبول کرتا ہے۔ صفات کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ فرد کی صفات کو قبول کرکے اپنی محکومیت کا اعتراف کیا جائے۔ یہ قانون انسان حیوانات سماوات نباتات سب میں مشترک ہے۔ درخت کو ہم اس وقت تک درخت تسلیم نہیں کر سکتے جب تک درخت کی صفات کو اپنے اندر قبول نہ کر لیں۔ اسی طرح کوئی درخت اس وقت تک درخت نہیں ہے جب تک کسی انسان کی صفت سے مغلوب ہو کر اپنی محکومیت کا اعتراف نہ کرے۔ دیکھنے کی طرز یہ ہے کہ مخلوق کا ہر فرد دوسرے فرد کو اپنے اندر دیکھتا ہے اور اپنے اندر دیکھنا اس وقت ممکن ہے جب نفی کر دی جائے۔ اپنی نفی کرنا ہی مغلوب ہونا اور محکوم ہونا ہے۔
دیکھنے کی دو طرزیں ہیں۔ ایک طرز براہ راست دیکھنا ہے اور دوسری طرز بالواسطہ دیکھنا ہے۔
براہ راست دیکھنا یہ ہے کہ ہر فرد دوسرے فرد کو دیکھنے کو دیکھ رہا ہے اور یہ بالواسطہ دیکھنے کی طرز ہے کہ ہر آدمی خود دیکھ رہا ہے۔ ہم جب آئینہ دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم آئینہ دیکھ رہے ہیں، یہ دیکھنا بالواسطہ دیکھنا ہے۔
براہ راست دیکھنا یہ ہے کہ پہلے آئینے نے ہمیں دیکھا اور ہم آئینے کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔
انسانی فضیلت یہ ہے کہ اس کے اندر براہ راست دیکھنے کی طرز متحرک ہو جائے۔ انبیاء علیہم السلام براہ راست دیکھنے کی مستحکم طرزِفکر رکھتے ہیں۔ اس طرزِفکر کو حاصل کرنے کے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ تکوینی ہے اور ایک راستہ قرب نوافل والے اولیاء کرام کا ہے۔ براہ راست دیکھنے کی طرزِفکر کو حاصل کرنے اور اپنے اند رمستحکم کرنے کے لئے اولیاء اللہ ریاضت اور مجاہدوں سے اس بات کی مشق کرتے ہیں کہ ہمارے اور کائنات کے درمیان ایک رشتہ ہے اور وہ رشتہ اللہ کی ربوبیت ہے یعنی ساری کائنات ایک رشتے میں بندھی ہوئی ہے اور اس رشتے کا تعلق اوراس رشتے کی مرکزیت اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ وہ اس بات کی مشق کرتے ہیں کہ کوئی بھی بات ہو کوئی بھی کام ہو کوئی بھی عمل ہو اس کا رشتہ اللہ کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور اس مشق اور مسلسل عمل سے انہیں اس چیز کی عادت ہو جاتی ہے کہ کوئی بھی عمل ہو اس کا تعلق ہم سے براہ راست نہیں ہے۔ اس چیز کا اور ہمارا واسطہ اللہ کی وجہ سے ہے۔ پیاس اور پانی پر تفکر کیا جائے تو پانی بھی اللہ کی تخلیق ہے۔ بندہ بھی اللہ کی تخلیق ہے۔ پیاس کا تقاضا بھی اللہ کی تخلیق ہے۔ بندہ پیاس اور پانی تینوں آپس میں اس لئے ہم رشتہ ہیں کہ یہ تینوں اللہ کی مخلوق ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ اگر پانی تخلیق نہ کرتے تو پیاس نہ ہوتی اور نہ ہی انسان کے اندر پیاس کا تقاضا پیدا ہوتا۔ علی ہذالقیاس زندگی کے تمام وسائل کے بارے میں تفکر کرنے سے یہی نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ مشق کے بعد انسان عادتاً یہ سوچنے لگتا ہے کہ میرا اللہ کے ساتھ براہ راست ایک رشتہ ہے۔ جب یہ طرزِفکر سالک کو حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے اندر تصرف کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔
صاحب ارشاد اور قرب نوافل والے اولیاء کرام براہ راست طرزِفکر کو اپنی محنت کوشش اور مجاہدوں سے حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ لیکن اہل تکوین یا اہل نظام میں یہ طرزِفکر اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتقل ہوتی ہے اور منتقلی سے پہلے پیر و مرشد یا مراد اپنے مرید کی ذہنی تربیت اس طرح کرتا ہے کہ ذہن میں چوں چرا کا عمل دخل نہیں رہتا۔ اور اس کے اندر معانی پہنانے والی ایجنسی نیوٹرل ہو جاتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ابدال حق قلندربابااولیاء کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ
کتاب لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں کو سمجھانے کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے روحانی طلباء وطالبات کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔
علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)
‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔
خواجہ شمس الدّین عظیمی
(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)