Topics
اللہ تعالیٰ نے جب گوناں گوں اور بے خبری کی صورت کو ختم کرنا چاہا تو کائنات کو مخاطب کیا۔ جیسے ہی کائنات کی سماعت سے اللہ تعالیٰ کی آواز ٹکرائی، سماعت کی حس پیدا ہو گئی۔ سماعت میں حرکت پیدا ہونے کے بعد کائنات میں کسی طرف متوجہ ہونے کی صلاحیت بیدار ہو گئی۔ جیسے ہی متوجہ ہونے کی صفت میں حرکت ہوئی، کائنات نے آواز دینے والی ہستی کی طرف دیکھا نگاہ کھلنے کے بعد اور اپنے علاوہ ایک اور ہستی کو دیکھا تو دو رُخ منکشف ہوئے۔
۱۔ ایک رُخ تخلیق
۲۔ دوسرا رُخ خالق
ان دونوں رخوں کا تعین عالم امر ہے۔ عالم امر میں جو کچھ ہوا یا نگاہ نے جو دیکھا اس میں چونکہ خود تخلیق اور خالق مفرد ہستیاں ہیں اس لئے عالم امر کی تمام حرکات مفرد قرار پائیں۔ عالم امر میں دو حرکات ہیں جن میں کوئی رنگ نہیں ہے اور یہ دونوں حرکات نفی ہیں۔ یعنی ایسا عالم جس عالم میں بے خبری کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ دونوں عالم لطیفہ خفی اور لطیفہ اخفیٰ سے متعلق ہیں۔ لطیفہ اخفیٰ عالم امر خاص ہے اور لطیفہ خفی عالم امر عام۔ لطیفہ خفی (عالم امر عام) تخلیق کی بساط ہے اور لطیفہ اخفیٰ (عالم امر خاص) خالق کی ذات ہے۔ عالم امر خاص خفی سے کشف ہوتا ہے۔ لطیفہ خفی کائنات کا ریکارڈ ہے اور لطیفہ اخفیٰ تجلیات کا ریکارڈ ہے۔ یہ دونوں لطائف موجودات کی اصل ہیں۔ اخفیٰ کسی نوع کے تمام افراد کی اصل ہے۔ اس کی مثال درخت کا بیج ہے۔ ہم جب درخت کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمارا ذہن درخت کی نوع اور اس نوع کی اصل کی طرف جاتا ہے۔ تو ہم جب زمین میں بیج ڈالتے ہیں بیج درخت بن جاتا ہے۔ یہ بیج اس درخت کی اصل ہے لیکن ہم جب درخت کی پوری نوع کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں اس بیج کا تذکرہ کرنا پڑے گا جو سب سے پہلے بویا گیا تھا۔ وہی ایک بیج ہزاروں لاکھوں درختوں سے گزر کر آج بھی درخت بن رہا ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ آم کے درخت کی نوع اور اس نوع کے تمام افراد کی اصل وہ بیج ہے جو زمین میں بویا گیا تھا اس بیج کے نسمے میں ایسی حرکت ہے جو آغاز بھی رکھتا ہے اور جس کا انجام بھی ہے۔ یہ حرکت آغاز سے انجام کی طرف گریز کر رہی ہے ہر نوع کا پہلا بیج نوع کا پہلا فرد ہے۔
نوع کے ہیولے کی پہلی حرکت اخفیٰ ہے اور نوعی ہیولے کی دوسری حرکت خفی ہے۔ اخفیٰ کی نگاہ ہمیشہ پردے کے پیچھے دیکھتی ہے۔ اور خفی کی نگاہ پردے کے اوپر دیکھتی ہے۔ پردے کے پیچھے دیکھنے سے مراد تخلیق سے باہر غیب میں دیکھنا ہے اور پردے کے اوپر دیکھنے سے مراد عالم مظاہر میں دیکھنا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور وہ زبردست حکمت والا ہے۔ اس ہی کی سلطنت ہے۔ آسمانوں اور زمین کو وہی حیات دیتا ہے۔ وہی موت دیتا ہے۔ وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ اس نے آسمان اور زمین کو چھ روز میں بنایا۔ پھر تخت پر قائم ہوا۔ وہ سب جانتا ہے جو زمین کے اندر داخل ہوتا ہے اور جو چیز اس سے نکلتی ہے جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور اس میں چڑھتی ہے۔ وہ دانا اور بینا ہے۔ وہ ظاہر ہے وہ باطن ہے وہ ہر آن ہر لمحہ اپنی مخلوق کے ساتھ رہتا ہے۔ مخلوق کسی بھی سیارے کی ہو یا کسی بھی زمین کی ہو وہ سب کو دیکھتا ہے جو کچھ مخلوق کرتی ہے اس کے علم میں ہے۔ آسمانوں اور زمین کی حکمرانی پر اللہ محیط ہے اور جو چیز زمین و آسمان میں موجود ہے وہ سب اللہ کی طرف لوٹ جائے گی۔
اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر تفکر کیا جائے تو بہت ساری باتوں کا انکشاف ہوتا ہے۔
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ موجود ہے پاکی بیان کرتے ہیں مفہوم یہ ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جو شعور نہ رکھتی ہو مخلوق نہ صرف اپنی ذات کا شعور رکھتی ہے بلکہ یہ بھی جانتی ہے کہ ہمارا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمین اور آسمانوں میں موجود ہر چیز اللہ کی پاکی اور عظمت بیان کرتے ہیں۔ اللہ کی حکمرانی سب پر ہے اس کے قبضے اور قدرت میں پیدائش اور موت ہے کوئی پیدا ہونے والی چیز اس بات سے انکار نہیں کر سکتی کہ ایک دن اسے موت کا مزا چکھنا ہے۔ جب کہ ہر نفس اور ہر ذی شعور یہ چاہتا ہے کہ اس کے اوپر موت وارد نہ ہو لیکن موت آ جاتی ہے۔ موت کا وارد ہونا جب لازم بن گیا تو موجودات کے ہر فرد کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ اس کو سہارا دینے والا اور پیدا کرنے والا، اس عالم سے دوسرے عالم میں منتقل کرنے والا اللہ ہے۔ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا اور تخت پر قائم ہوا نزول و صعود کے سات درجے ہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے یعنی نزول کرتی ہے۔ اللہ جانتا ہے جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور جو چیز اس میں چڑھتی ہے یعنی صعود کرتی ہے۔ آسمانوں سے زمین پر آنا اور زمین سے آسمانوں پر چڑھنا نزول و صعود کی دو حالتیں ہیں۔ جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں سب اللہ کی سلطنت ہے۔ یعنی ہر چیز اللہ کی دسترس میں ہے۔ زندگی کا ہر لمحہ ایک طرف نزول ہے تو دوسری طرف صعود ہے۔ نزول و صعود میں سفر کرنے کے لئے اولیاء اللہ نے چھ رُخ متعین کئے ہیں ہر رُخ ایک حرکت ہے۔ ان چھ رخوں یا چھ حرکتوں کا نام لطائف ستہ ہے۔
۱۔ لطیفہ اخفیٰ
۲۔ لطیفہ خفی
۳۔ لطیفہ سری
۴۔ لطیفہ روحی
۵۔ لطیفہ قلبی
۶۔ لطیفہ نفسی
ہر نوع میں ہر حرکت ایک طول رکھتی ہے۔ ان چھ حرکات میں سے تین حرکات نزولی اور تین صعودی ہیں۔ تین نزولی حرکات کے مقابل دوسرے رُخ پر تین صعودی حرکات بیک وقت وقوع میں آتی ہیں۔
اخفیٰ کی بے رنگی تمام رنگوں کی اصل ہے اور یہ بے رنگی سر میں پہنچنے کے بعد یک رنگ ہو جاتی ہے۔ سر کی یک رنگی اپنے اندر تمام رنگوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ سر کے بعد یہ حرکت ایک طول اور طے کرتی ہے جیسے ہی یہ طول طے ہوتا ہے یک رنگ کے اندر سب رنگ بکھر جاتے ہیں۔ جن حدود میں یہ رنگ منتشر ہوتے ہیں۔ ان حدود کا ایک رُخ قلب(تصور) ہے۔ دوسرا رُخ نفس (احساس) ہے۔ تصور، نفس اور احساس کے رنگوں کے مجموعے کا نام مظہر ہے۔
یہ قانون صرف نوعِ انسانی کے لئے نہیں ہے۔ ہر نوع کے لئے مخصوص ہے۔ وہ انسان کی نوع ہو۔ فرشتوں یا جنات کی نوع ہو یا کسی بھی سیارہ کی نوع ہو سب کے لئے یہی قانون نافذ ہے۔ حرکت میں بے رنگی زمان ہے۔ لیکن یک رنگی کا بہت سارے رنگوں میں بکھرنا شعور ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ جب زماں(Time) سطح پرہوتا ہے تو مکان(Space) عمق میں ہوتا ہے۔ لیکن مظہر کی حدود میں قدم رکھنے کے بعد زماں عمق میں چلا جاتا ہے۔ اور مکان کی سطح پر آ جاتا ہے۔ اخفیٰ سے مظہر کی طرف جو حرکت واقع ہوتی ہے نزولی حرکت ہے لیکن جب مکان سطح پر آ جاتا ہے تو حرکت صعودی ہو جاتی ہے۔ یہ حرکت لطیفہ نفسی سے رُوح کی طرف صعود کرتی ہے اور رُوح سے خفی کی طرف صعود کرتی ہے۔
لطیفہ قلبی اور لطیفہ نفسی کی اجتماعیت عالم ناسوت ہے۔ لطیفہ روحی صعودی اور نزولی حرکت کے درمیان ایک پردہ ہے۔ اس عالم کو اعراف یا برزخ کہتے ہیں۔ نزول سے زمین پر آنے سے پہلے جس عالم یا جس پردے پر قیام ہوتا ہے وہ پردہ لطیفہ روحی ہے۔ اس کو برزخ کہتے ہیں۔ مظہر کے بعد جب صعودی حرکت شروع ہوتی ہے تو بیچ میں ایک پردہ آتا ہے اس عالم کو اعراف کہتے ہیں۔ لطیفہ خفی کتاب المرقوم ہے۔ یعنی انسان جو کچھ کرتا ہے اس کے اعمال کا ریکارڈ تمام حرکات و سکنات کی دستاویزی فلم ہے۔ یہ فلم ہی دراصل حشر نشر کی منزل ہے۔ یہ سب انسانی زندگی کے سات قدم ہوئے۔ ان سات قدموں میں ہر قدم ایک عمر یا شعور ہے اور ساتوں قدم پر انسان نزول و صعود کی حرکات پوری کرتا ہے۔ ان ساتوں قدموں یا عمروں کے دو نام ہیں۔ عالم رنگ یا عالم ناسوت۔ دوسرا عالم حشر نشر۔ ان دونوں منزلوں کے درمیان دو مرحلے اور پڑتے ہیں۔ لوح محفوظ اور عالم ناسوت کا درمیانی مرحلہ عالم مثال ہے۔ عالم ناسوت اور حشر نشر کا درمیانی مرحلہ عالم برزخ اور عالم اعراف ہے۔ نزولی مرحلہ عالم بزرخ اور صعودی مرحلہ عالم حشر نشر ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ابدال حق قلندربابااولیاء کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ
کتاب لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں کو سمجھانے کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے روحانی طلباء وطالبات کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔
علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)
‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔
خواجہ شمس الدّین عظیمی
(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)