Topics
تصوف اور رُوحانیت کے بارے میں عام طور پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضورﷺ کے زمانے میں صحابہ کرامؓ نے روحانی علوم یا تصوف کی تدوین نہیں کی۔ چونکہ صحابہ کرام کے زمانے میں روحانی علوم کی تدوین نہیں ہوئی اور روحانی علوم کے بارے میں ایسے مشاہدات نہیں ہیں جن کو سند مان کر تصوف و رُوحانیت کو تسلیم کر لیا جائے۔ بعض حضرات کا یہ خیال بھی ہے کہ یہ پرانا علم ہے جو ہندو ازم سے تعلق رکھتا ہے یا اس علم کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو عیسائی یہود اور راہب ہیں۔ یعنی انہوں نے دنیا کی دلچسپیاں ختم کر کے دنیا کے ہنگاموں سے اپنا رشتہ منقطع کر کے ایک ایسی راہ اختیار کی ہے جو عوام الناس کو دنیا سے دور کر دیتی ہے۔ کائنات اور کائنات کے اندر موجود رنگینیاں اللہ تعالیٰ نے اس لئے پیدا نہیں کیں کہ آدمی ان سے فرار اختیار کر کے بیاباں یا کسی گوشے میں بیٹھ جائے۔ تصوف کے بارے میں اس قسم کے اعتراضات ہمیشہ اٹھتے رہے ہیں۔
نوع انسانی نوعِ جنات کا تعلق اللہ تعالیٰ سے دو طریقوں پر قائم ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی تجلی کسی بندے کو اپنی طرف متوجہ کر لے اور اس بندے کی طرزِفکر میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات مستحکم ہو جائیں جب وہ کوئی عمل کرے تو ارادتاً یا غیر ارادی طور پر اس کا ذہن اللہ کی طرف متوجہ رہے۔ یہ انبیاء علیہ السلام کی طرزِفکر ہے۔ ایک طرز یہ ہے کہ انسان اللہ کے بارے میں اور اللہ کی موجودگی کے بارے میں عملی طور پر یقین رکھتا ہو۔ اس یقین کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مرتبۂ احسان کا نام دیا ہے۔
یہ بات کہ صحابہ کرامؓ کے زمانے میں رُوحانیت کے اوپر کوئی خصوصی علم مرتب نہیں ہوا اس کی وجہ یہ ہے کہ سیدنا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں حضورﷺ پر مرمٹنے والے اور فدا ہونے والے صحابہ کرامؓ کی ارواح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت سے رنگین تھیں۔ ان کے ذہن کو مکمل یکسوئی اس بات سے تھی کہ وہ حضورﷺ کی باتوں میں حضورﷺ کے عمل میں حضورﷺ کے اٹھنے بیٹھنے اور حضورﷺ کے نورانی چہرے پر غور و فکر کرتے رہتے تھے۔ اس غور و فکر سے حضورﷺ کے قریب رہنے والے حضرات کی روحانی پیاس بجھتی رہتی تھی۔ صحابہ کرامؓ کو حضورﷺ کے اقوال میں بھی بہت زیادہ شغف تھا اور حضورﷺ کی ذات اقدس اور حضورﷺ کی گفتار میں انہماک کی وجہ سے حضورﷺ کے ہر ہر قول اور ہر ہر عمل کی صحیح صحیح ادبیت اور صحیح صحیح مفہوم پوری گہرائیوں کے ساتھ ان کے اوپر واضح ہوتا رہتا تھا۔ احادیث پڑھنے کے بعد احادیث سننے کے بعد اور حضورﷺ کے عمل کو دیکھنے کے بعد حضورﷺ کی ذات اقدس کے انوار سے وہ لوگ پورا پورا استفادہ کرتے تھے۔ اس طرح ان کی رُوح کے اندر انوار کے تمثلات، ریاضت و مجاہدات کے ذریعے ذخیرہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ وہ حضورﷺ کے قدسی الفاظ اور حضورﷺ کے نورانی کردار اور حضورﷺ کے پیغمبرانہ ذہن سے بغیر کسی کوشش کے روشناس تھے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔
جب مجھے عالم بالا کی سیر کے مواقع حاصل ہوئے تو میں نے دیکھا کہ صحابہ کرامؓ کی رُوح انسانی میں، ان کے لطیفہ روحی اور سری میں قرآن پاک کے انوار اور احادیث کے انوار موجود ہیں اور انوار کا تقدس اور نورانی لہریں صحابہ کرامؓ کی ارواح میں اس طرح موجود ہیں کہ ان کی روحیں نور سے لبریز ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔
اس دور میں روحانی قدروں کا نہ ہونا اور روحانی علوم کا تفصیلی تذکرہ نہ ہونا اسی وجہ سے ہے۔ صحابہ کرامؓ کے بعد زمانہ جیسے جیسے حضورﷺ کے واصل بحق ہو جانے کے بعد دور ہوتا چلا گیا۔ اسی مناسبت سے لوگ رسول اللہﷺ کے اقوال اور رسول اللہﷺ کے کردار کے انوار سے دور ہوتے چلے گئے۔ تبع تابعین کے بعد لوگوں کے دلوں سے قرآن پاک کے انوار اور احادیث کے انوار معدوم ہو نے لگے۔ اس دور میں ان لوگوں نے جو رسول اللہﷺ سے صحابہ کرامؓ کی طرح تعلق خاطر رکھتے تھے اور جن لوگوں کی روحیں حضورﷺ کی محبت سے لبریز تھیں، انہوں نے تشنگی محسوس کی اور یہ محسوس کیا کہ اگر روحانی علوم کے قوانین، قاعدے اور ضابطے جو روحانی طور پر رسول اللہﷺ سے منتقل ہوئے ہیں، عام نہ کئے گئے تو امت مسلمہ میں بہت بڑا خلا واقع ہو جائے گا۔ لہٰذا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار کو اپنی رُوح میں ذخیرہ کرنے کے بعد اللہ کا عرفان حاصل کرنے کے ذرائع تلاش کئے اور پھر ضابطے اور قاعدے بنا ئے یہ قاعدے اور ضابطے علمی اعتبار سے بنائے گئے تا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا امتی ہر شخص یہ علم حاصل کر سکے۔
رسول اللہﷺ کے انوار سے اپنی رُوح کو لبریز کرے اور ان روحانی قدروں سے اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہو جائے۔ چنانچہ شیخ نجم الدینؒ اور ان کے شاگرد مثلاً شیخ شہاب الدین سہروردیؒ ، خواجہ معین الدین چشتیؒ ایسے حضرات گزرے ہیں جنہوں نے علمی حیثیت میں اللہ کے ان اسماء اور قرآن پاک کی ان آیات کا انتخاب کیا جن کے ورد سے ذہن انسانی میں زیادہ سے زیادہ نورانی ذخیرہ ہوتا ہے۔ شیخ حسن بصریؒ کے زمانے تک یہ چیزیں نہیں ملتیں۔
یہ بات تاریخ کے صفحات پر موجود ہے کہ حضرت علیؓ نے تمام واعظین کو وعظ کرنے سے منع کر دیا تھا۔ صرف ایک ہستی شیخ حسن بصریؓ ایسی تھی جن کو حضرت علیؓ کی طرف سے وعظ کی اجازت تھی۔ حضرت حسن بصریؓ کے بعد ایسا دور آیا کہ حضورﷺ کی ذات بابرکات سے متعلق انوار و تجلیات لوگوں کے ذہن سے دور ہونے لگے اور اللہ کی صفات کے جاننے میں وہ انہماک نہیں رہا جو صحابہ کرامؓ کے زمانے میں تھا۔ لہٰذا علمائے باطن اولیاء اللہ نے اللہ کی ذات اور حضورﷺ کے انوار کو سمجھنے کے لئے طرزِفکر کی قدریں قائم کیں۔ اس طرزِفکر کو حاصل کرنے کے لئے جو قاعدے اور ضابطے متعین کئے گئے ان کا اصطلاحی نام”نسبت علمیہ’’ ہے۔
قرب نوافل۔ قرب فرائض
روحانی علوم سیکھنے اور روحانی دنیا میں داخل ہونے کے لئے دو طرزیں معین ہیں۔ ایک طرز کا نام قرب نوافل ہے اور دوسری طرز کا نام قرب فرائض ہے۔
قرب نوافل ہو یا قرب فرائض دونوں علوم مرشد کریم اور کسی ولی اللہ سے منتقل ہوتے ہیں۔ براہ راست اولیاء اللہ کی ارواح سے منتقل ہونے والے روحانی علوم نسبت اویسیہ کے تحت منتقل ہوتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ابدال حق قلندربابااولیاء کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ
کتاب لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں کو سمجھانے کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے روحانی طلباء وطالبات کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔
علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)
‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔
خواجہ شمس الدّین عظیمی
(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)