Topics
جب بھی کسی علم کا تذکرہ ہوتا ہے دو باتیں لازماً درپیش آتی ہیں ۔ علم کا منفی پہلو اور علم کا مثبت پہلو۔ جب ہم انکار کرتے ہیں تو دراصل ہم کسی”ہے’’کی نفی کرتے ہیں۔ یعنی کوئی چیز موجود ہے اگر کوئی چیز موجود نہ ہو تو اس کا تذکرہ ہی نہیں ہو گا۔ ہم جب علم کے بارے میں کچھ کہتے ہیں تو علم کے بارے میں ہمارے ذہن میں معانی ہوتے ہیں۔ اور جب ہم انکار کرتے ہیں تو نفی کو قبول کرتے ہیں۔ یعنی ہم ایسی چیز کا تذکرہ کرتے ہیں جس کے ہونے کا ہم کو علم حاصل نہیں ہے۔ مفہوم یہ ہوا کہ لاعلمی کا نام”نفی’’ ہے اور علم کا نام”اثبات’’ ہے۔ جب تک ہم لاعلمی سے واقف نہیں ہوتے۔ اس وقت تک علم کے دائرے میں قدم نہیں بڑھا سکتے۔ یعنی لا علمی بھی ایک علم ہے۔ روحانی لوگ لا علمی کی معرفت کو‘‘علم لا’’ اور علم کی معرفت کو”علم الا’’ کہتے ہیں۔ نور کی ایک تجلی کا نام”لا’’ ہے اور دوسری تجلی کا نام”اِلّا’’ ہے۔
جب سالک علم لا سے واقف ہو جاتا ہے یا اپنے لاشعور سے متعارف ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ جو کچھ وہ جانتا ہے اس کی نفی کر دے۔ خارجی دنیا کے تواہمات، تصورات اور خیالات کو عارضی طور پر بھول جائے اگر وہ ایسا نہیں کرے گا علم سے واقف نہیں ہو گا۔ ایک پڑھا لکھا آدمی جب نیا علم سیکھتا ہے تو اس کی حیثیت نرسری کے بچے کی طرح ہوتی ہے۔ علم سیکھنے کے لئے موجودہ علم کی نفی کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ اپنی علمی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے کوئی نیا علم سیکھنا چاہتا ہے تو وہ نیا علم نہیں سیکھ سکتا مثلاً انگریزی پڑھا لکھا آدمی جب اردو پڑھے گا تو اسے الف پڑھنے کے لئے A.B.C.Dپر اسرار نہیں ہو گا۔
ایک چھوٹا بچہ ہے جو قاعدے کے ابتدائی حروف سے بھی واقف نہیں ہے اس کو ہم کسی استاد کی شاگردی میں لے جاتے ہیں۔ استاد لا علمی کو علمی دائرے میں جب داخل کرنا چاہتا ہے تو کہتا ہے!"الف" بچہ سمجھے بغیر استاد کی نقل میں الف کہتا ہے۔ اور وہ بتدریج حروف کی شناخت کر کے اپنی لاعلمی کو علم میں منتقل کر لیتا ہے۔ لیکن اگر یہی بچہ استاد کی بات تسلیم نہ کرے تو وہ علم نہیں سیکھ سکتا۔
مثلاً ایک باپ، اپنے بیٹے کے ساتھ مکتب میں جاتا ہے۔ استاد بچے سے کہتا ہے۔ الف۔ باپ اپنے بچے سے یہ کہتا ہے کہ بیٹا استاد سے پوچھو کہ الف کیوں ہے؟ یا الف۔ ب، کیوں نہیں ہے تو نتیجتاً بچہ عالم نہیں بنے گا۔ ہم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ جب تک ہم لاعلمی کی معرفت حاصل نہیں کرتے، ہمیں کوئی علم حاصل نہیں ہوتا۔
کئی مرتبہ لوگ سوال کر بیٹھتے ہیں کہ اللہ سے پہلے کیا تھا۔ یہ ایسا سوال ہے کہ جس سے ہر باشعور آدمی کبھی نہ کبھی پریشان ہوتا ہے۔ جو لوگ تفکر سے واقف نہیں ہیں وہ اس سوال کو محض ایک خیال یا وسوسہ کہہ کر گزر جاتے ہیں لیکن جن لوگوں کے ذہن میں گہرائی ہے ان کا ذہن اس سوال کا بار بار اعادہ کرتا ہے اور اگر جواب نہیں ملتا تو وہ خدا کی ذات سے انکار کر بیٹھتے ہیں۔
بات صرف یہ ہے کہ وہ علم کو عقل سے اور اِلّا کے ذہن سے علم لا کو سمجھنا چاہتے ہیں۔
جب سالک کا ذہن پوری طرح علم لا یا وحدانیت کے تصور کو سمجھ لیتا ہے تو وہ اللہ کی معرفت میں پہلا قدم اٹھا دیتا ہے۔ پہلے پہل اسے اپنی ذات کا عرفان حاصل ہوتا ہے اور تلاش کرنے کے باوجود وہ خود کو کہیں نہیں پاتا۔ جب اس کے علم کی نفی ہو جاتی ہے تو اللہ کی وحدانیت کا صحیح احساس اور معرفت کا صحیح مفہوم اس کے احساس میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کو فنائیت کہتے ہیں۔ جب سالک لا کے انوار کو اپنے ادراک کی گہرائیوں میں محسوس کرنے لگتا ہے تو شعور سے بالاتر ہو کر لاشعور میں داخل ہو جاتا ہے اور جب وہ یہ دیکھ لیتا ہے کہ اس کی اپنی ذات کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس کا علم نفی کا درجہ رکھتا ہے تو اس کے اندر استغراق پیدا ہو جاتا ہے۔ استغراق کو حاصل کرنے کے لئے تفہیم میں پہلا مرحلہ مسلسل بیدار رہنے کا عمل ہے۔ مسلسل بیدار رہنے یعنی بہتر (۷۲) گھنٹے تک جاگنے اور اس کے بعد دو گھنٹے ۴۵ منٹ کی نیند کی مشق کرنے سے سالک کے اندر قوت القا پیدا ہو جاتی ہے۔ قوت القا سے اس فکر کی بنیادیں پڑ جاتی ہیں جس فکر کے دائرے میں”علم لا’’ کے انوار اپنی وسعتوں کے ساتھ موجود ہیں۔ غور و فکر اور بیدار رہنے کی کوشش کے ذریعے اس فکر میں آب و تاب اور توانائی آنے لگتی ہے جب یہ توانائی نشوونما پا چکتی ہے۔ تو”لا’’ کے انوار”ورود’’ میں آنکھ کے سامنے آ جاتے ہیں۔
تفکر جب قوت القا کو اور زیادہ لطیف بنا دیتا ہے تو حضرت خضر ؑ اولیاء تکوین اور ملائکہ نظر کے سامنے آنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد مسلسل توجہ اور مراقبہ کرنے سے سالک اولیاء تکوین اور ملائکہ کی گفتگو سننے لگتا ہے۔ رفتہ رفتہ اولیاء اللہ کی ارواح اور فرشتوں سے سوال و جواب کی نوبت آ جاتی ہے اور سالک کے اوپر غیب کی دنیا روشن ہو جاتی ہے اور غیبی انتظامات کا انکشاف ہونے لگتا ہے۔ لا کے مراقبے میں آنکھوں کو زیادہ سے زیادہ بند رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔
‘‘لا’’ کا مراقبہ
علم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک رُخ کو ہم علم کہتے ہیں اور جن چیزوں سے ہم ناواقف ہیں اس کا نام لا علمی رکھتے ہیں۔ لیکن جب لا علمی کا تذکرہ کرتے ہیں تو بہرصورت ہم اس علم کا تذکرہ کرتے ہیں جس علم سے ہم ناواقف ہیں۔ علم کی کوئی حیثیت ہو وہ علم ہو یا لاعلمی، دونوں کا تعلق بصارت سے ہے۔ تلاش یہ کرنا ہے کہ ظاہر آنکھ سے دیکھنے میں اور روحانی آنکھ سے دیکھنے میں کیا فرق ہے۔ ظاہرا حالات میں جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو اس دیکھنے کی طرز کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ نگاہ کا ٹکراؤ کسی چیز کے دیکھنے کا سبب بنتا ہے اور جب ہم نگاہ کے ٹکراؤ یا نگاہ کے دیکھنے کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات ہر شخص محسوس کرتا ہے کہ آنکھ کے ڈیلوں پر پلک کی ضرب پڑتی ہے۔
آنکھ کے ڈیلے کے اوپر پلک کی ضرب پڑتی رہے تو چیزیں نظر آتی رہتی ہیں۔ دوسری طرز یہ ہے کہ آنکھ کا ڈیلا حرکت نہ کرے اور نہ ہی ڈیلے کے اوپر پلک کی ضرب پڑے تب بھی سب کچھ نظر آنے لگتا ہے۔ یہ دیکھنا باطن میں دیکھنا ہے یا رُوح کی آنکھ کی بینائی ہے۔ اس کا تجربہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ آنکھیں کھول کر آدمی بیٹھ جائے اور آنکھوں کے سامنے کوئی ایک ٹارگٹ بنا لے۔ سفید کاغذ پر ایک سیاہ دائرہ بنا کر اس کے اوپر نظر جما دے۔ اس طرح کہ پلک کی حرکت ساکت ہو جائے اور ڈیلوں کا ہلنا بند ہو جائے۔
جب حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے اوپر استغراق کی کیفیت طاری ہوتی تھی۔ میں نے بہت غور سے ان کی آنکھوں کا مطالعہ کیا ایسا لگتا تھا کہ کسی ایک نقطے پر آنکھ مرکوز ہو گئی ہے نہ پلک جھپکتی تھی نہ ڈیلے میں حرکت ہوتی تھی۔ بعض اوقات یہ حرکت ایک ایک گھنٹے تک قائم رہتی تھی۔ میں نے دیکھا کہ قلندر بابا اولیاءؒ کے سینہ میں لاکھوں دائرے ہیں اور ہر دائرہ میں کوئی مخلوق بندھی ہوئی ہے۔ ان کے دماغ سے نورانی لہر ہر دائرہ کو حرکت دے رہی ہے اور پوری کائنات میں ان کا تصرف جاری ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
میں نے تمہارے لئے مسخر کر دیا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کا سب۔(القرآن)
لا کا مراقبہ دراصل ہمیں اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہم علمی اعتبار سے مادی جسم میں موجود رہتے ہوئے عقل و شعور کے اعتبار سے جو کچھ جانتے ہیں اس کی نفی کر دیں اور نفی کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بیداری میں بینائی جس طرح کام کرتی ہے اس کے طریقہ کار کو بدل دیا جائے یعنی آنکھ کے ڈیلوں کو زیادہ سے زیادہ معطل کر دیا جائے۔ آنکھ کے ڈیلوں کے تعطل میں جتنا اضافہ ہوتا ہے اسی مناسبت سے باطنی نگاہ کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ اگر ڈیلوں میں پوری طرح تعطل واقع ہو جائے تو لطیفہ نفسی کا کام معطل ہونے لگتا ہے کہ روشنیاں Over Flowہو جاتی ہیں۔
روشنیوں کا یہ اُبال باطنی نگاہ یا باطنی نگاہ کی حرکت کا سبب بن جاتا ہے۔ باطنی نگاہ جب بیدار ہو جاتی ہے اور مسلسل مشق کے ذریعے اس بیداری کو قائم رکھا جاتا ہے تو باطنی نگاہ تیز ہو جاتی ہے اور نگاہ کی تیزی ایسی نگاہ کا ذریعہ بن جاتی ہےجو نگاہ مادی خول میں بند ہو کر مادی خول سے آزاد ہو کر بیک وقت عالم دنیا اور علم غیب میں دیکھتی ہے۔ ظاہر اور باطن دونوں دنیاؤں میں بیک وقت دیکھنا تصوف کی اصطلاح میں شہود کہلاتا ہے۔
جب ہم ایک چیز کو دیکھنے کے بعد دوسری چیز کو دیکھتے ہیں یا ایک منظر سے نکل کر دوسرے منظر میں داخل ہوتے ہیں تو پلک جھپکنے کے ساتھ ساتھ روشنیوں کا تعلق عارضی طور پر منقطع ہو جاتا ہے۔ تعلق کا انقطاع اور تعلق قائم ہونے میں وقفہ، اطلاع فراہم کرتا ہے کہ میں نے کیا دیکھا ہے۔ اگر ہم بیداری میں دیکھی ہوئی چیزوں کو روحانی طرزوں میں بیدا رکرنا چاہیں تو ہمیں بیداری میں دیکھنے کی طرزوں کے خلاف اہتمام کرنا پڑے گا اور اس کی صورت یہ ہو گی کہ ہم اپنے ارادے اور اختیار سے آنکھ کو بند کر کے آنکھ کے ڈیلوں کو معطل اور غیر متحرک کر دیں۔ آنکھ کے ڈیلوں کو معطل کرنے کے لئے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ سالک اندھیرے میں آنکھ جھپکائے بغیر نظر جمائے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنے ارادے سے آنکھ بند کر کے آنکھوں کے اوپر کوئی روئیں دار کپڑا یا تولیہ اس طرح باندھ لے کہ آنکھوں کے ڈیلوں کی حرکت غیر متحرک ہو جائے۔ جب ہم دیکھنے کے مادی طریقے کو معطل کر دیتے ہیں تو رُوح کی آنکھ کھل جاتی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
ابدال حق قلندربابااولیاء کی روحانی اولاد کو تین کتابیں بطورورثہ منتقل ہوئی ہیں ۔ 1۔رباعیات قلندربابااولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔2-لوح وقلم ۔3۔تذکرہ تاج الدین بابارحمۃ اللہ علیہ
کتاب لوح وقلم روحانی سائنس پر پہلی کتاب ہے جس کے اندرکائناتی نظام اورتخلیق کے فارمولے بیان کئے گئے ہیں ۔ ان فارمولوں کو سمجھانے کے لئے خانوادہ سلسلہ عظیمیہ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے روحانی طلباء وطالبات کے لئے باقاعدہ لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا جو تقریباً ساڑھے تین سال تک متواترجاری رہا ۔
علم دوست افراد کے لئے ان لیکچرز کو ترتیب دے کرا یک کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ روحانی علوم سے دلچسپی رکھنے والے تمام خواتین وحضرات ان مخفی علوم سے آگاہی حاصل کرسکیں ۔)
‘‘گفتۂ اوگفتۂ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود’’ کے مصداق حامل علمِ لَدْنّی ، واقف اسرار کُن فیکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا، حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی زبانِ فیض ِ ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحب کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کرکتاب " لوح و قلم " بن گئی۔میرے پاس یہ روحانی علوم نوع ِانسان اور نوعِ جنات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔
خواجہ شمس الدّین عظیمی
(لوح و قلم صفحہ نمبر۳)