Topics

خوشبو کی مہک


                قدرت نے مجھے سادات گھرانے میں پیدا ہونے کا شرف بخشا۔ مجھ سے پہلے میرے ماں باپ کے ہاں دو لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں۔ لڑکے سب لڑکیوں سے بڑے تھے۔ پھر لڑکیوں میں میرا چوتھا نمبر ہوا۔ میرے ماں باپ نے میرا نام ‘‘شمامہ’’ رکھا۔ میرے نام سے متعلق اکثر میری ماں کہا کرتی تھیں کہ تیری پیدائش شب قدر میں سحری کے وقت ہوئی۔ جس وقت تو پیدا ہوئی میں نے ایک نور دیکھا یہ نہایت ہی روشن تھا۔ اس کے ساتھ خوشبو کی مہک بھی تھی۔ اس جمال اور خوشبو میں ولادت کی ساری تکلیف بھول گئی، وہ کہتی تھیں کہ اس نور کی خوشبو میرے اندر بس گئی۔ میری والدہ نے اسی وقت سوچا تھا کہ میں اس بچے کا نام خوشبو رکھوں گی۔ جب امی نے میرے ابا سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا شمامہ رکھ لیتے ہیں۔ شمامہ کا مطلب خوشبو ہے۔ مجھے اپنے نام سے منسوب یہ واقعہ بہت اچھا لگتا تھا۔ اس مناسبت سے مجھے اپنا نام بہت پیارا لگتا تھا۔ بچپن ہی سے میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ مجھے ایسا ہونا چاہئے جیسا میرا نام ہے۔ اگر میرا کردار ایسا نہ ہوا تو پھر میں بن خوشبو کا پھول بن جائوں گی۔ ماں نے میرا نام شمامہ رکھ کر اس نور کو میرے قالب میں ڈھالنا چاہا۔ میں اپنے ماں باپ کی امیدوں کو کبھی نظر انداز نہیں کروں گی۔ اندر ہی اندر میں نے اپنے ماں باپ سے عہد کر لیا تھا کہ دنیا و آخرت میں ان کے نام کو روشن کرنے کی پوری پوری کوشش کروں گی اور اپنی ذات سے ان کو کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گی۔

                میری پیدائش کے بعد میری تین بہنیں اور پیدا ہوئیں۔ دو بہنیں قیام پاکستان سے قبل اور ایک پاکستان آ کر پیدا ہوئی۔ جب ہم پاکستان آئے تو میری عمر تقریباً نو سال تھی۔ بڑی عجیب بات ہے۔ پاکستان آ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں یہاں ہی پیدا ہوئی ہوں۔ مجھے اندیا کی کوئی بات یاد نہیں تھی۔ مجھ سے بڑی بہن کا نام سکینہ ہے۔ یہ مجھ سے عمر میں تقریباً تین سال بڑی ہیں۔ کبھی کبھی وہ انڈیا کی بات کرتیں تو اپنے گھر کی بات کریں۔ میں بڑے اشتیاق سے سنتی۔ ایک خواہش سی پیدا ہوتی کہ کاش مجھے بھی وہاں انڈیا کے شب و روز یاد آ جائیں۔ میں اپنے ذہن پر بہت زور دیتی مگر ذہن کا اسکرین بالکل صاف نظر آتا۔ میں اپنی امی پر گئی تھی۔ وہ بہت کم بات کرتی تھیں۔ میں بھی بہت کم بات کرتی تھی۔ زیادہ دوستی سکینہ سے تھی۔ میری امی کا بہت رعب تھا۔ ہم سب بچے ان سے ڈرتے تھے اور بے انتہا محبت بھی اور ان کا ادب بھی کرتے تھے۔ میں اکثر انڈیا میں گزاری ہوئی زندگی کو یاد کرنے کی کوشش کرتی۔ مگر بس ایک ہی سین میرے تصور کے پردے پر آ کر ٹھہر جاتا جیسے پردے کے باہر میں ہوں اور پردے کے اندر اللہ تعالیٰ موجود ہیں۔ پردہ موٹی ململ جیسا ہے کہ اس میں ایک دم صاف شفاف دکھائی نہیں دیتا مگر پھر بھی خاصی اچھی طرح دکھائی دیتا ہے۔

                میری ماں اکثر کہتیں بیٹی اللہ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ وہ ہم سب سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ ان دنوں میں نے کبھی کسی سے ذکر نہیں کیا کہ مجھے کیا نظر آتا ہے۔ نہ ہی مجھے یہ بات قابل ذکر لگی۔ میں تو یہی سمجھتی تھی کہ سب میری طرح محسوس کرتے ہیں اور ہر ایک کے ذہن کے پردے پر اسی طرح کی فلم چلتی رہتی ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ میرا دل و دماغ تو ہر وقت اللہ کی محبت میں مشغول رہتا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے وہ میرا دوست ہے۔ میں اس سے اپنی عمر کے لحاظ سے باتیں کرتی۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ مجھے ان باتوں کا جواب بھی مل رہا ہے۔ اس کی محبت کا تصور ہر خیال پر غالب رہتا۔ کوئی بھی دوسرا خیال چند لمحوں سے زیادہ ذہن میں نہ ٹھہرتا۔

                اللہ کے خیال میں گزرا ہوا ہر لمحہ میرے ذہن میں ہوتا۔ ہر وقت طبیعت پر خوشی اور محبت کا غلبہ رہتا۔ دنیا میں میری محبتوں کا محور میرے ماں باپ اور بہن بھائی تھے۔ ماں ہمیشہ خوش اخلاقی اور محبت کا درس دیتی اور یہ درس زبانی کم اور عملی زیادہ ہوتا تھا۔

                ہم ایک دوسرے کے سروں میں تیل سے مالش کرتے۔ ہمارے یہاں ناریل کا تیل استعمال ہوتا تھا۔ خصوصاً بھائیوں کے سر میں مالش کرنے کے لئے ہم بہنیں آپس میں لڑا کرتی تھیں۔ میں کہتی میں کروں گی۔ سکینہ کہتی میں کروں گی۔ بڑی بہن کہتی میں کروں گی۔ ہم بھائیوں کے جوتوں پر پالش کرتے۔ ان کے کپڑوں پر استری کرتے۔ مجھے پینٹ پر استری کرنا نہیں آتا تھا تو میں پاجامہ پر استری کرتی اور شرٹ اور پینٹ پر سکینہ استری کرتی۔ بڑی بہنیں کھانا پکانے اور سلائی وغیرہ کے کام کرتیں۔ ہماری امی کی یہ ہدایت تھی کہ بڑی بہنیں چھوٹی بہنوں کو کام سکھائیں۔ لہٰذا ہر کام سب ہی مل جل کر کرتے تھے۔

                انڈیا سے آنے کے بعد ہم دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ وہاں ہم نے تقریباً سات سال گزارے۔ وہ میری عمر کا ایک بہت خوبصورت زمانہ تھا۔ ہماری بلڈنگ میں سب سے اوپر ہماری ہم عمر دو لڑکیاں رہتی تھیں۔ میں اور سکینہ اوپر چلے جاتے اور پھر سب مل کر گٹے کھیلتے یا پھر اسکول سے آ کر شام کے وقت نیچے فٹ پاتھ پر رسی کودا کرتے۔ اسکول کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہی ہمارا روز کا معمول تھا۔

                مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے میں چڑیا کی طرح آزاد ہوں۔ خوشی میرے اندر ہر وقت پھوٹتی رہتی۔ مگر آزادی کے تصور کے غلبے کے ساتھ ساتھ میں ہر وقت عملی طور پر پابند تھی۔ اتنی پابند کہ ماں یا بڑی بہن یا بھائی کے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتی تھی۔ یہاں تک کہ باتھ روم بھی جانا ہوتا تو بغیر اجازت ہرگز نہیں جاتی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن مجھے باتھ روم جانا تھا۔ امی کسی دوست سے باتوں میں مصروف تھیں۔ آپا جان بھی نہیں تھیں۔ اس وقت شاید سب ہی باہر گئے ہوئے تھے۔ بڑا کوئی گھر پر نہیں تھا امی کے سوا۔ میں نے آہستہ سے امی سے ایک دفعہ پوچھا۔ امی ٹائیلٹ چلی جائوں۔ امی نے شاید سنا نہیں۔ باتوں میں مصروف رہیں۔ مجھ پر امیکا رعب اور ادب بہت تھا۔ تھوری دیر بعد پھر میں نے کہا پھر انہیں پتہ نہیں لگا۔ بالآخر مجھے انہیں ہلا کر مخاطب کرنا پڑا۔ امی جلدی سے یہ کہتی ہوئی حیرت سے ہنس پڑیں۔ ارے اتنی بڑی ہو گئی ہو اور ابھی تک ذرا سی بھی عقل نہیں ہے۔ جائو جلدی کرو۔ اس دن میں سوچنے لگی واقعی میں کتنی بدھو ہوں۔ مگر اس کے ساتھ اندر سے آواز آئی۔ یہ میں خود تھی۔ میں شروع ہی سے اندر سے باتیں کرنے کی عادی تھی۔ میں نے کہا ماں تم میرے لئے اتنی عظیم ہو کہ میں تمہارے حکم اور اجازت کے بغیر کوئی حرکت نہیں کرنا چاہتی۔ خواہ کوئی مجھے بدھو سمجھے یا کچھ بھی سمجھے۔ میں نے ہمیشہ اپنے اندر گہرائی سے نکلنے والی آواز کو اور اس کے فیصلہ کو مانا ہے۔ اس دم مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور وہ بھی یہی چاہتا ہے۔ میں نے ہمیشہ اللہ کے چاہنے کو مقدم رکھا ہے۔

                کراچی آنے کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال پرائمری اسکول میں گزرا اور پھر اس کے بعد ہائی اسکول میں چلی گئی۔ پرائمری اسکول میں میری ٹیچر کی حیثیت ماں جیسی ہی تھی۔ میں اپنی استانی سے بے پناہ محبت کرتی تھی اور ان کی ہر بات پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتی۔ محبت کے اظہار کے بغیر میں انہیں پھول پیش کرتی۔ کبھی بڑی بہن سے کروشیا کی بیل دوپٹہ پر بنوا کر دیتی۔ اس کے ساتھ محنت سے پڑھتی تا کہ میڈم بھی مجھ سے اسی طرح محبت کریں۔ میرا جی چاہتا مجھ سے سب خوش رہیں سب مجھ سے محبت کریں۔ جس طرح میں سب سے محبت کرتی ہوں۔ میں اور کسی احساس سے واقف ہی نہ تھی۔ سوائے محبت اور خوشی کے۔ مجھے رونے سے سخت چڑ تھی لیکن میری چھوٹی بہنوں کی پلکوں پر جیسے آنسو دھرے ہوئے تھے۔ جب وہ کسی بات پر روتیں میں فوراً ان کے بال نوچ لیتی کہ تم کیوں روتی ہو۔ میں آنسو بہانے کو سخت کمزوری سمجھتی تھی۔ خصوصاً کسی کے سامنے رونا تو میرے نزدیک سخت ہتک کی بات تھی۔ یہی بات میری بڑی بہن سکینہ میں بھی تھی۔ وہ بھی کبھی نہ روتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری خوب بنتی تھی۔ تین سال بڑی ہونے کے باوجود اس کے ساتھ میرا رویہ برابری کا ور دوستانہ تھا اور میں اسے اس کے نام سے ہی پکارتی تھی۔

                ہمارے فلیٹ کے برابر میں ایک عیسائی گھرانہ رہتا تھا۔ ان کے ساتھ ہماری بڑی دوستی تھی۔ اس گھر کی خاتون کو ہم بھابھی کہا کرتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے ہمارا ایک ہی خاندان اور ایک ہی گھر ہے۔ ہمارے ہاں جو کچھ پکتا اکثر ہم انہیں بھیجتے۔ اسی طرح وہ بھی کرتیں۔ کبھی دن میں ہمیں یا بھائی کو کوئی کھانے کی چیز پسند نہ آتی تو وہ بھابھی کے یہاں جا کر کھا لیتے۔ ہماری امی ہمیشہ کہا کرتیں کہ پڑوسیوں کا بے حد حق ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہئے۔ ان تعلقات کے درمیان مذہب کے فرق کا کوئی تذکرہ ہمارے یہاں نہیں تھا۔ بس ہم انہیں اپنی طرح انسان سمجھتے تھے اور وہ بھی ہمیں اسی اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق سمجھتی تھیں جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے۔

                ہمیں یاد ہے کبھی بھی کسی کے یہاں سے کوئی کھانے کی چیز بلڈنگ میں آتی۔ اگر ہمارے یہاں اس کے بدلے کوئی شئے نہیں ہوتی تو امی برتن میں چینی ڈال کر واپس کرنے کو کہتیں۔ یہ سب کام وہ ہم بہنوں سے کرواتیں۔ خود دیکھا کرتیں تا کہ ہمیں اس کی عادت پڑ جائے۔

                ہم 1947ء سے لے کر 1954ء تک اس فلیٹ میں رہے۔ برابر والوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اتنے اچھے رہے کہ جب ہم فلیٹ چھوڑ رہے تھے تو وہ بھی سخت رنجیدہ تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم بھی یہاں سے چلے جائیں گے۔ ہمارا یہاں اب کون ہے۔ عید پر ہم اکھٹے مل کر خوشیاں مناتے تھے۔ ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے اور خوب دعوت کرتے۔ کرسمس آتا تو ان کی خوشیوں میں ہم بھی شریک ہوتے۔ تحفے دیتے۔ ان کے بچوں کے ساتھ جو ہماری عمروں کے تھے بالکل سگوں جیسی محبت تھیں۔

                مجھے یاد ہے کہ ہم انڈیا سے پاکستان پارٹیشن سے پندرہ دن پہلے ہی آگئے تھے کیونکہ میرے بڑے بھائی کا تبادلہ کراچی ہو گیا تھا۔ امی ابا اور چھوٹی بہنیں پارٹیشن کے ایک ماہ بعد آئے۔ جب ہم پہلے دن اس بلڈنگ میں آئے تو یہاں چند ہندو خاندان پہلے سے رہائش پذیر تھے۔ ابھی وہ جانے والے تھے۔ یہ سب لوگ بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ نیچے ایک فلیٹ میں ایک ہندو عورت اپنے بال بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ میرے بھائی نے اس سے بات کی کہ ہم فلیٹ ڈھونڈ رہے ہیں اس عورت نے ہمیں فوراً اندر بلا لیا۔ سب ہی محبت کے ساتھ پیش آئے۔ ہمیں دو دن اپنے گھر رکھا۔ گرم گرم پراٹھے پکا کر کھلاتیں، بالکل ماں کی طرح ہمارا خیال رکھا کہ دو دن میں ہم بلڈنگ خالی کر دیں گے۔ پھر چابی تم کو دے جائیں گے۔ وہ بے چاری بڑی خوفزدہ تھیں۔ سارے دروازے کھڑکیاں بند کر کے رکھتی کہ کوئی دیکھ نہ لے کہ مسلمان ہندو کے گھر میں ورنہ قتل کر دیں گے۔ میرے بھائی اگرچہ جوان تھے بی ایس سی پاس تھے اور برسر روزگار تھے مگر اس کے باوجود ہمارے اندر مذہبی تعصب ذرا بھی نہ تھا۔ محبت کا درس ماں نے اس قدر سکھایا تھا کہ ہم نے ان دو دن میں اس ہندو عورت کو بالکل اپنی ماں کی طرح چاہا۔ وہ بھی ہمیں چاروں طرف بٹھا لیتی۔ ہم پانچ بہنیں اور دو بھائی تھے۔ توے سے گرم گرم پراٹھے تل کر کھلاتی۔ اس وقت ہمارے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ حالات کی وجہ سے بھائی نے بھی کام جوائن نہ کیا تھا۔ جاتے وقت وہ ہمیں پوری بلڈنگ دے رہی تھی۔ میرے بھائیوں نے کہا نہیں نہیں ہمیں کیا کرنا ہے۔ ابھی ہمارے ماں باپ بھی نہیں ہیں۔ بس ایک فلیٹ دے دیں۔ اس میں سے بھی الماری نکلوا دی کہ کمرے میں جگہ نہیں ہے۔ صرف دو کمرے خالی کر لئے تھے۔ اس میں سات سال ہم سب نے بڑی خوشیوں بھرے دن گزارے۔ وہ ہندو عورت ہمیشہ میرے ذہن پر نقش رہتی۔ جب بھی مجھے اس کی یاد آتی میں سوچنے لگتی محبت بھی کیا چیز ہے جو انسان کو روح کے تاروں سے باندھ لیتی ہے۔

                ان کے جانے کے بعد چند دن کے اندر ہی اندر ہر روز بلڈنگ میں فلیٹوں کے تالے ٹوٹنے لگے لوگ لالچ میں دو چار فلیٹ پر قبضہ کر لیتے۔ برابر والے عیسائی بھی چند روز پہلے آئے تھے۔ ان کا مزاج ہماری طرح کا تھا وہ بھی ذرا لالچی نہ تھے۔ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ فلیٹوں پر قبضہ کرنے کی ہوس کو دیکھ کر ہم حیران ہوئے اور سوچنے لگے کہ یہ کس قدر خود غرض اور بے حس لوگ ہیں جنہیں اپنے پیچھے ہندوستان سے بے یار و مددگار اور بے گھر ہو کر آنے والے اپنے حقیقی بھائیوں کا ذرا خیال نہیں ہے۔ صرف اپنی ذات کی فکر ہے۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ انڈیا سے آنے والے دوسرے لوگوں کو بھی سر چھپانے کے لئے جگہ کی ضرورت ہے۔ ان کے لئے بھی کچھ چھوڑ دیں مگر اس وقت تو بہت ہی کم لوگ ایسے تھے جو اس طرح سوچتے تھے۔ تقسیم کے وقت کی ہنگامہ آرائی اور افراتفری کو ٹھیک ہونے میں کم از کم دو سال لگے تھے۔ دو سال کے اندر کافی سکون ہو گیا تھا۔

                میں تقریباً گیارہ سال کی تھی۔ میں نے کبھی برتن نہیں دھوئے تھے، بڑی بہنیں جو موجود تھیں۔ ایک دن امی نے کہا برتن دھوئو۔ جب میں برتن دھونے بیٹھی تو میرے اندر رنج کی ایک لہر اٹھی میرا احساس بہت گہرا تھا۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے یہ میرا کام نہیں ہے۔ دل نے کہا میں کنیز نہیں ہوں۔ اسی لمحے محسوس ہوا جیسے پردے کے پیچھے اللہ آ گیا ہے۔ میں اندر ہی اندر انتہائی رنج کے عالم میں اس سے شکایت کرتی رہی۔ میں کنیز نہیں ہوں۔ برتن دھونا میرا کام نہیں ہے۔ مجھ پر یہ ظلم کیوں کیا جا رہا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اور مسکرا رہا ہے۔ میں دل میں رنج لئے برتن دھوتی رہی۔ میرا احساس گہرا اور بہت گہرا ہوتا گیا۔ برتن دھو چکی تھی تو چپ چاپ دوسرے کاموں میں لگ گئی۔ پھر دوسرے دن برتن دھونے کو کہا گیا۔ تعمیل حکم پر میں برتن دھونے لگی۔ پھر وہی رنج کا احساس، میری روح تلملائی کہ میں کنیز نہیں ہوں۔ یہ میرا کام نہیں ہے۔ میں اندر ہی اندر کبھی اللہ سے کہتی کبھی ماں سے کہتی۔ ماں میں لونڈی نہیں ہوں۔ یہ میرا کام نہیں ہے مگر میں جانتی تھی کہ ادب کا تقاضہ تعمیل حکم سے پورا ہوتا ہے۔ میں شروع سے اس معاملہ میں سب سے عقلمند اور ہوشیار تھی اور اپنے اندر روح کے جذبات اور احساس کو خوب سمجھتی تھی۔ یہ تو مجھے معلوم تھا کہ اللہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے اور آج مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اگر وہ چاہتا تو ماں مجھے برتن دھونے کو نہ کہتی، کسی اور بہن سے کہہ دیتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ میں برتن دھوئوں۔ مگر اس وقت میری چھوٹی سی عقل اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھی کہ جب میں کنیز نہیں ہوں تو پھر مجھ سے کنیزوں کا کام کیوں لیا جا رہا ہے۔ ہاں میں جانتی تھی کہ میں کنیز نہیں ہوں جب ہی تو میری روح تلملا رہی تھی۔ آج بھی مجھے اس کرب کا احساس ہے۔ جس سے گیارہ سال کی عمر میں واقف ہو گئی تھی مگر یہ معاملہ میرا اور اللہ کا تھا۔ میں نے کسی سے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ میں بے حد کم بولتی تھی۔ بس اپنی دنیا میں مگن رہتی تھی۔ اتنی خوش رہتی کہ میرے لبوں پر ہر وقت گانے رہتے۔ میں ہمیشہ گنگناتی رہتی۔ ہنستی رہتی۔ اکثر یہ گانا جھوم جھوم کر گاتی۔

                مست رام بن کے زندگی کے دن گزارے۔

                بار بار برتن دھونے کے بعد میرے ذہن میں یہ بات آ گئی کہ میرے اندر احساس کی گہرائی پیدا کی جا رہی ہے۔ میں اکثر اپنے اندر ہونے والی تبدیلیوں پر غور کرتی مگر میں کبھی کسی سے اس کا تذکرہ نہیں کرتی تھی۔ میں سمجھتی تھی کہ سب کے اندر ایسا ہی ہوتا ہے۔ سب کو اللہ دیکھتا ہے۔ سب اسی طرح محسوس کرتے اور سوچتے ہیں۔ میرے اندر ہر لمحے مرنے کے بعد کی زندگی کو جاننے کا شوق بڑھتا جاتا تھا۔ اکثر سوچتی کہ میں کہاں سے آئی ہوں۔ کیوں آئی ہوں۔ کہاں جانا ہے۔ اللہ مجھ سے محبت کرتا ہے تو مجھے بھی اپنے آپ کو اس کے قابل بنانا ہے۔ ہر وقت اچھائی کا خیال آتا۔ کبھی برائی کا نہ آتا۔

                مذہبی لحاظ سے ہمارا گھرانہ کئی دوسروں سے مختلف تھا کہ ہمارے یہاں مذہبی احکامات کی پاسداری کسی جبر اور خوف کے تحت نہیں بلکہ اطاعت بالرضا کے احساس سے ہوتی تھی۔ مجھے دینی احکامات پر عمل کر کے ایسی خوشی حاصل ہوتی تھی جیسی کسی کو بھی اپنی محبوب ترین ہستی کی کوئی بات مان کر ہو سکتی ہے۔ امی کہا کرتی تھیں کہ یہ کام لگن اور شوق سے ہوتا ہے۔ جبر سے نہیں۔ ہم سب کے اندر تعمیل حکم کا جذبہ اس قدر تھا کہ ادھر امی کے منہ سے بات نکلی ادھر ہم سب فوراً مان لیتے تھے۔

                امی ابا کو پڑھائی کا بڑا شوق تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں میرے ابا یورپ اور برطانیہ میں پانچ سال رہے۔ ان دنوں میں نے اسکول جانا شروع کیا تھا۔ جب انہیں میری اسکول جانے کی خبر ملی تو انہوں نے میرے نام لاہور سے دو رسالے جاری کئے۔ ایک ‘‘پھول’’ دوسرا ‘‘تہذیب نسواں’’۔ یہ رسالے پاکستان بھی ہم لے کر آئے اور یہاں میں نے پڑھے۔ ہر ایک کے پوسٹل ایڈریس پر میرا نام لکھا ہوتا تھا۔ میں بڑا خوش ہوا کرتی تھی کہ ابا کو میرا کتنا خیال ہے کہ میں پڑھ لکھ جائوں۔ تین سال تک یہ رسالے میرے نام سے آتے رہے۔ امی ابا پڑھائی پر بڑا زور دیتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم سب بہن بھائی اچھی تعلیم حاصل کریں۔ امی ابا نے ہمیں مطالعہ سے کبھی نہیں روکا۔ مجھے کہانیوں کا بڑا شوق تھا۔ سکینہ اور میں ہر ہفتہ آنے والی کہانی کی کتاب خریدا کرتی تھیں۔ پھر یہ شوق اتنا بڑھا کہ ہم اپنی سہیلیوں سے بھی مانگ مانگ کر پڑھتی تھیں۔ امی نے ہمیں کبھی منع نہیں کیا۔ نہ ہی ہم نے کبھی ان سے چھپ کر پڑھا۔ ہر کام کا ٹائم مقرر تھا۔ اسکول کی پڑھائی کے وقت اسکول کی پڑھائی کرتے تھے۔ مجھے شہزادیوں کی کہانیاں بڑی پسند تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ایسے کردار پسند تھے جو بہت بہادر ہوں اور بہت خوددار اور بے پناہ محبت اور ایثار والے ہوں۔ کہانیاں پڑھتے پڑھتے یہ کردار زندہ ہو جاتے۔ شہزادی کی جگہ میں آ جاتی اور نئی کہانی پڑھنے تک یہ کردار زندہ رہتے۔ میرے اندر کی شہزادی اپنے شہزادے کے ساتھ کہانی کی دنیا میں گھومتی رہتی مجھے یوں محسوس ہوتا یہ سب کہانیاں حقیقت ہیں۔ یہ سب کہانیاں میری ہیں۔ دھیرے دھیرے اندر کے اس تصور سے میری محبت بڑھتی چلی گئی۔

                بارہ تیرہ سال کی عمر میں میرا یہ عالم تھا، سجدوں میں گر گر کر مرنے کی دعائیں مانگا کرتی تھی تا کہ غیب کی حقیقت سے ہمکنار ہو جائوں۔ مگر ساتھ ہی ماں اور دوسرے گھر والوں کی محبت کا خیال آتا کہ وہ روئیں گے۔ پھر کہتی کہ مجھے مار کے غیب کی دنیا میں داخل کر کے پھر واپس اس دنیا میں لوٹا دو تا کہ میں وہاں کی خبریں ان لوگوں کو دے سکوں۔ ایک دن گیلری کے لوہے کے جنگلے پر پائوں رکھ کر میں اوپر چڑھ گئی۔ اس لمحے میرے اندر غیب میں داخل ہونے اور اپنے اللہ سے ملنے کا ایسا شوق ہوا کہ مجھے کچھ پتہ نہ چلا کہ میں کیا کر رہی ہوں۔ تین منزلہ گیلری سے آدھا دھڑ نکال کر نیچے جھانکنے لگی۔ نیچے سڑک نہیں تھی۔ میں نے دیکھا میری نظر بڑی گہرائی میں دیکھ رہی ہے۔ وہاں پورا عالم بسا ہوا ہے۔ میری نظر اللہ کی اس تصویر کو ڈھونڈنے لگی جو میرے تصور پر نقش تھی۔ میں نے دیکھا وہ وہاں موجود ہے اور بہت سے لوگ بھی ہیں۔ میں بس اسے دیکھتی رہی۔ میرے اوپر مکمل استغراقی کیفیت طاری تھی کون جانتا ہے کہ کب تک اس نظارے میں ڈوبی رہی۔ امی کی زور دار جھاڑنے مجھے چونکا دیا اور میں گیلری کے جنگلے سے نیچے اتر آئی۔ اس دم مجھے یوں لگا جیسے مجھے کسی نے آسمان سے زمین پر پھینک دیا ہے۔ میرے اندر کی شمامہ انتہائی دکھ کے ساتھ ماں سے کہنے لگی۔ ماں مجھے چھوڑ دے۔ مجھے اپنی محبت کی زنجیروں سے آزاد کر دے کہ میں اپنے رب سے مل سکوں مگر باہر والی شمامہ نے چپ چاپ خالی نظروں سے ماں کو دیکھا اور جلدی سے اپنے کمرے میں گھس کر کسی کام میں اپنے آپ کو مشغول کر دیا۔

 

 

 

 


 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی