Topics
یہ دور علم کا دور ہے اور
نئی نئی ایجادات کے حوالے سے سائنس کا زمانہ ہے آنکھ کا اندھا بھی اس حقیقت سے
انکار نہیں کر سکتا کہ موجودہ زمانے کی
ساری ترقی تحقیق اور علم کے اوپر قائم ہے قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ واضح طور
پر یہ انکشاف کرتی ہے کہ جن قوموں نے جدو جہد نہیں کی وہ علمی خزانوں سے تہی دست
ہو گئیں ، ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی۔
چودہ سوسال پہلے زمین پر جہالت کی سیاہ چادر پھیلی
ہوئی تھی، ہر طرف فساد برپا تھا۔ جہالت اور بربریت کی اس سے زیادہ بری مثال اور
کیا ہو سکتی ہے کہ والدین اولاد کو قتل کر دیا کرتے تھے۔ بے حیائی اور فحاشی کوئی
خلاف عقل بات نہ تھی۔ زمین جب فساد اور خون خرابے سے بھر گئی اور اشرف
المخلوقات نے انسانی حدود کوپھلانگ کر حیوانیت کو اپنا لیا اور اللہ کے عطاء کردہ
انعام ’’فی الارض خلیفہ‘‘ کے منصب کو یکسر بھول گیا تو اللہ نے زمین کو دوبارہ پر
سکون بنانے کے لئے اپنے محبوب بندے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث
فرمایا۔
اس برگزیدہ مقدس اور مطہر بندے نے عجیب و غریب،
حیرت انگیز، محدود و لامحدود رنگ رنگ اللہ کی نشانیوں کو اس طرح کھول کھول کر بیان
کیا کہ ابتدائی دور میں زمین و آسمان کی حقیقت عربوں پر عیاں ہو گئی۔
قرآن نے بتایا:
بیشک زمین و آسمان کی پیدائش رات اور دن کے بار
بار ظاہر ہونے اور چھپنے میں ان عقلمندوں کے لے نشانیاں ہیں جو لوگ اٹھتے، بیٹھتے،
لیٹتے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں
اور کہتے ہیں کہ اے اللہ تو نے یہ سب فضول اور بے مقصد نہیں بنایا اور ہمیں دوزخ
کی آگ سے محفوظ کر دے(سورۃ آل عمران۔ آیت نمبر ۱۹۰۔۱۹۱)
کیا ان لوگوں نے آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم
نے اس کو آراستہ کیا اور اس میں کسی قسم کا سقم نہیں ہے اور زمین کو ہم نے پھیلایا
اور اس میں پہاڑ بنائے اور اس میں سے ہر قسم کی خوشنما چیزیں اگائیں، یہ ان لوگوں کے
لئے ہے جو دانا اور بینا ہیں اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہیں (سورۃ ق۔ آیت
نمبر۶تا۸)
عربو
ں پر علم و دانش آشکار ہو گئی اور جب مسلمان علم کی تلاش میں صف بستہ ہو گئے تو
انہوں نے علم کا کوئی شعبہ نہیں چھوڑا جو ان کی تحقیقات سے تشنہ رہا ہو۔ ان کی
تحقیقات پوری امت مسلمہ کے لئے سبق آموز ہیں اور عبرت انگیز بھی۔ مغربی ممالک کی
لائبریریاں آج بھی مسلمان اسلاف کی کتابوں سے بھری پڑی ہیں۔ یہ وہ دانشور مسلمان
ہیں جنہوں نے تحقیقات کر کے علوم کی شمعیں روشن کیں۔ مسلمانوں نے دنیا میں اس وقت
روشنی پھیلائی جب دنیا جہالت کی تاریکی
میں ڈوبی ہوئی تھی ان مین سے چند محققین ، مفکرین اور سائنسدانوں کے نام یہ ہیں۔عبدالمالک
اصمعی نے علم ریاضی، علم حیوانات، علم نباتات اور انسان کی پیدائش اور ارتقاء پر
تحقیق کی۔ عبدالمالک اصمعی سائنس کا پہلا بانی ہے اس سے پہلے سائنس کے علم کا وجود
تاریخ کے صفحات پر موجود نہیں ہے۔
جابر بن حیان کی کتابوں کے تراجم پندرھویں صدی
عیسوی تک یورپ کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ اس سائنس دان نے
کپڑے کو واٹر پروف، لوہے کو زنگ سے محفوظ رکھنے اور شیشے کو رنگین کرنے کا طریقہ
ایجاد کیا۔
محمد بن موسیٰ الخوارزمی نے صفر کا اضافہ کر کے
ہندسوں کی قدر کو بڑھایا۔ اس نے کرہّ ارض کے نقشے بنائے اور جغرافیہ میں تحقیقات
کیں۔
علی ابن سہیل ربان الطبری نے فردوس الحکمت کے
نام سے ایک مکمل کتاب لکھی۔
یعقوب بن اسحاق الکندی علم فلکیات، کیمسٹری،
موسیقی اور طبیعات میں ماہر تھا۔بن اسحاق الکندی 225 کتابوں کا مصنف ہے۔
ابوالقاسم عباس بن فرناس ہوا میں اڑنے کے تجربے
کرتا رہا اس کی کوششیں ہوائی جہاز بننے کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ دھوپ گھڑی بھی اس
کی ایجاد ہے۔ثابت ابن قرۃ نے لیور اور گیئر ایجاد کئے۔ لیور اور گیئر نہ ہوتے تو
آج ہم بڑی بڑی مشینوں کے ذریعہ نئی نئی ایجاد نہیں کر سکتے تھے۔
ابو بکر محمد بن زکریا الرازی کو سرجری میں
مہارت حاصل تھی۔ آپریشن کے بعد جلد کو سینے کا طریقہ بھی اس کی ایجاد ہے۔
ابوالنصر الفارابی نے موسیقی کا ایک آلہ ایجاد
کیا تھا جس کی آواز سننے والا کبھی سو جاتا تھا، کبھی روتا تھا اور کبھی ہنستا
تھا۔
ابو الحسن المسعودی سب سے پہلا شخص ہے جس نے
بتایا کہ زمین کی جگہ سمندر تھا اور سمندر کی جگہ زمین۔ یہ بات اس نے اس وقت بتائی
تھی جب پیمائش کے لئے کوئی آلہ موجود نہیں تھا۔
ابن سینا میڈیکل سائنس کا ماہر تھا اس نے علم
الابدان کا نقشہ بنایا اور اس کے الگ الگ حصے کر کے اس کی تصویریں بنائیں۔
موجودہ میڈیکل سائنس
میں
ANATOMY اسی کی
تحریر کردہ کتاب کا ترجمہ ہے۔ ابن سینا نے جسمانی حرارت ناپنے کا آلہ ایجاد کیا جو
تھرمامیٹر کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ علیٰ ہذا القیاس بیان کردہ سائنس دانوں کے
علاوہ انیس یا بیس سائنسدان اور ہیں جنہوں نے تحقیق و تلاش کے بعد سائنسی علوم کی
بنیاد رکھی۔
عربوں سے پہلے یورپ، امریکہ، مصر اور ایشیائی
ممالک چین، ہندوستان اور جاپان وغیرہ میں سائنس کا عمل دخل نہیں تھا۔ البتہ یونان
میں کسی قدر علم موجود تھا۔ علمی تحقیقات اور نئی نئی ایجادات کی طرف رغبت پیغمبر
اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ قرآن پاک
کے نازل ہونے کے بعد سرزمین عرب جب علم کی روشنی سے منور ہوئی اس وقت مغربی ممالک
میں تہذیب و تمدن کا کوئی نشان نہ تھا۔ روس کے لوگ انسانی کھوپڑیوں میں پانی پیتے
تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمان صحرا
نشینوں کی زندگی بدل دی قرآن کے علم اور قرآن کے بتائے ہوئے روشن راستے پر چل کر
پچاس سال کی مختصر مدت میں مسلمانوں نے آدھے سے زیادہ دنیا فتح کر لی۔ قیصر و
کسریٰ کی سلطنتیں مسلمانوں کے قدموں پر جھک گئیں۔ قرآنی آیات کے انوار سے روشن دل
مسلمانوں نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور دنیا کو ایک نئی تہذیب و تمدن سے
آراستہ کر دیا۔
قرآنی نظریہ کے مطابق مسلم اسلاف کی لکھی ہوئی
کتابوں کے تراجم ہوئے تو ان تحریروں کو یورپ میں اتنی زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی کہ
وہاں یونیورسٹیاں قائم ہو گئیں۔ مختلف علوم سائنس و فلکیات اور ریاضی پر لکھی ہوئی
کتابیں چار سو سال تک وہاں کی یونیورسٹیوں کے نصاب میں داخل رہیں۔ یورپ کے مورخ اس
بات پر متفق ہیں کہ مسلمان نہ ہوتے تو یورپ علم کی روشنی سے محروم رہ جاتا۔
پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے بعد مسلمانوں کا
علمی زوال شروع ہوا۔ امت مسلمہ قرآنی تحقیق و تفکر (تصوف) سے دور ہو گئی جس کے
نتیجہ میں مسلمانوں نے قرآن کے انوار و حکمت سے خود ساختہ دوری قبول کر لی۔
مسلمانوں نے تفکر کرنا چھوڑ دیا پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ قرآنی علوم کے
ذریعہ معاشی، معاشرتی اور روحانی زندگی کی جو شمع روشن ہوئی تھی قوم نے اس کی طرف
سے آنکھیں بند کر لیں تسخیر کائنات جو قرآن کا پورا اور مکمل تیسرا علم ہے اس کی
طرف سے توجہ ہٹ گئی اور عالم اسلام اس شعور سے محروم ہو گیا جو چودہ سو سال پہلے
قرآن نے عطا کیا تھا اور جب کوئی قوم تفکر، تحقیق و تلاش، بصیرت و حکمت اور نور
علیٰ نور فہم و فراست سے محروم ہو جاتی ہے تو گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہو جاتی
ہے ۔
اس
گروہ بندی اور فرقوں میں تقسیم مسلمان قوم کی حالت زار دیکھ کر حضرت عبدالقادر
جیلانیؒ نے امت مسلمہ کی شیرازہ بندی کے لئے پروگرام ترغیب دیا۔ انہوں نے یہ بات
باطنی اور ظاہری طور پر محسوس کر لی تھی کہ مسلم امہ کا زوال دراصل قرآنی تعلیمات
سے انحراف اور روحانی قدروں سے دوری ہے۔ جسمانی تقاضے، جسمانی احساسات کسی بھی قسم
کا علم ادراک اسی وقت ممکن ہے جب جسم کو متحرک کرنے والی جسم کو زندگی عطا کرنے
والی جسمانی شعور کو فیڈ کرنے والی روح موجود ہو۔
قرآن
نے اس حقیقت کو معاد کے نام سے بیان کیا ہے۔
حضرت پیران پیر دستگیر نے ٹوٹے اور بکھرے ہوئے
مسلم معاشرہ کی درجہ بندی کے لئے مجلسیں منعقد کیں، وعظ اور نصیحت کی محفلیں
سجائیں اور ان کی کاوشوں سے سلسلہ قادریہ کی بنیاد پڑی اور یہ سلسلہ ان کے
جانشینوں نے، ان کی اولادوں نے اور رسول اللہﷺ کی امت کے علمائے باطن نے جاری
رکھا۔
روحانی سلسلوں میں بھی سازشی لوگوں نے اپنا عمل
دخل جاری رکھا اور لوگوں کی توجہ کشف و کرامات کی طرف مبذول کر دی۔ اس طرز فکر کو
کچھ اس طرح آگے بڑھایا گیا کہ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ روحانیت کا مطلب کشف و
کرامات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس طرح پیران پیر دستگیر کی کاوش اور جدوجہد پر ایک
نیا پردہ آ گیا۔ دوسری بات جو حقیقت کے برخلاف بیان کی گئی وہ یہ تھی کہ تسخیر
کائنات یا روحانی علوم حاصل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان دنیا بیزار ہو کر جنگل
میں جا بیٹھے۔ اس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلمان قوم ریسرچ سے محروم ہو گئی اور
غیر مسلم اقوام نے علم کائنات میں ترقی کر لی۔ جب حالات بہت زیادہ دگرگوں ہو گئے،
تحقیق و تلاش پر غیر مسلم اقوام نے پہرے بٹھا دیئے تو قدرت نے اس جمود کو ختم کرنے
کے لئے حسن اخریٰ، سید محمد عظیم برخیا المعروف قلندر بابا اولیاءؒ کی ذات کو ظاہر
کیا۔ آج کے دور میں ہر آدمی یہ بات جانتا ہے کہ سو سال پہلے جو باتیں کرامات کے
زمرے میں بیان کی جاتی تھیں وہ سائنسی نظام کے تحت عام ہو گئی ہیں۔ اب یہ کہنا کہ
فلاں بزرگ کو پانچ جگہ یا سات جگہ دیکھا گیا تھا ایک بہت کم وزن بات ہے۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ حسب ذیل گیارہ سلاسل سے
فیض یافتہ ہیں:
۱۔ قلندریہ: امام سلسلہ حضرت ذوالنون مصریؒ
۲۔ نوریہ : امام
سلسلہ حضرت موسیٰ کاظم رضاؒ
۳۔ چشتیہ: امام
سلسلہ حضرت ممشاد دینوریؒ
۴۔ نقشبندیہ:
امام سلسلہ حضرت شیخ بہاء الحق نقشبند خواجہ باقی باللہؒ
۵۔ سہروردیہ:
امام سلسلہ حضرت ابو القاہرؒ
۶۔ قادریہ: امام
سلسلہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ
۷۔ طیفوریہ:
امام سلسلہ حضرت بایزید بسطامیؒ
۸۔ جنیدیہ: امام
سلسلہ حضرت ابو القاسم جنید بغدادیؒ
۹۔ ملامتیہ:
امام سلسلہ حضرت ذوالنون مصریؒ
۱۰۔ فردوسیہ:
امام سلسلہ حضرت نجم الدین کبریؒ
۱۱۔ تاجیہ: امام
سلسلہ حضرت صغریٰ تاج الدینؒ
حضورقلندر
بابا اولیاءرحمۃ اللہ علیہ نے نوع انسانی کی باطنی اور
جسمانی ترقی کیلئے نظریہ توحید و رسالت کے تحت پروگرام ترتیب دیا۔ اس پروگرام کو
سائنسی بنیاد پر اس لئے استوار کیا گیا کہ اس دور میں کوئی بات اس وقت قابل یقین
سمجھی جاتی ہے۔ جب اس کے پیچھے سائنسی بنیاد پر دلیل موجود ہو۔ اس Methodکو
متعارف کرانے کے لئے سلسلہ عظیمیہ نام تجویز ہوا سلسلہ عظیمیہ دراصل مادی سائنسی ترقی کی چکا چوند میں ایک
مینارۂ نور ہے جس کی روشنی اب ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ملکوں میں پہنچ چکی ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔
" روحانی تعلیمات ہمیں بتاتی
ہے کہ روحانی انسان ہر لمحہ مرتا ہے اور لمحہ کی موت انسان کے اگلے لمحے کی زندگی
کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔"
قلندر
بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔
"تھوڑے سے تفکر
سے پتہ چلتا ہے کہ زندگی کی جتنی بھی کاوشیں ہیں، چاہے وہ اعمال ہوں علم ہو فہم
ہو، اخلاقیات ہوں، یہ سب قبر تک معمولات ہیں اگر زندگی اور حیات کی ہم آہنگی کا
ادراک انسان کر لے تو حیات ابدی کا مزہ اسی زندگی کے لیل و نہار میں حاصل کر لیتا
ہے۔"
قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔
"ہم واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ آج کا
انسان مادی ماحول میں اس قدر کھو چکا ہے کہ مذہب کو بھی جس کا کام ہی انسان پر
باطنی دنیا روشن کرنا
ہے، مادی لذتوں کا وسیلہ بنانے پر بضد ہے۔ مذہب کا نام استعمال کرنے والے تو بہت
ہیں مگر ایمان،
یقین اور مشاہدے کی
طلب اس دور میں ناپید ہو چکی ہے۔ جب صاحب ایمان ہی ناپید ہو جائیں تو ایمان کی طلب
کون
کرے گا۔"
قلندر
بابا اولیاءؒ نے فرماتے ہیں ۔
آج کا سائنس دان موجودہ سائنسی ترقی کو نوع
انسانی کا انتہائی شعور سمجھتا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک گمراہ کن سوچ ہے، اسی لئے
ہمیں قرآن بتاتا ہے۔
"انسان کی ترقی حضرت سلیمان علیہ السلام
کے دور میں اتنی تھی کہ ایک شخص نے جو پیغمبر نہیں تھا، پلک جھپکتے کے وقفے میں ڈیڑھ ہزار میل کے
طویل فاصلے سے مادی شکل میں تخت منتقل کر دیا تھا۔"
یہ بات سائنسدانوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ وہ اتنی
ترقی ہوتے ہوئے بھی کسی معمولی سی چیز کو بغیر مادی وسیلہ کے حرکت نہیں دے سکتے۔
قلندر بابا اولیاءؒ نے فرماتے ہیں:
"دانشوروں کا کردار گزشتہ صدیوں سے آج تک
انہتائی مایوس کن رہا ہے۔ انہوں نے کبھی انسانی تفکر کو اس طرف مائل نہیں کیا اور
انہوں نے کبھی نہیں بتایا کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم بغیر کسی وسیلے کے
جسمانی طور پر کون سی سائنس کے ذریعے معراج کے شرف سے مشرف ہوئے۔"
قلندر بابا اولیاءؒ نے اپنی کتاب لوح و قلم میں
اس طرف واضح اشارے کئےہیں کہ انسان روشنی سے بنا ہوا ہے اس کے سارے محسوسات
الیکٹران کے اوپر قائم ہیں۔ اگر انسان اپنے اندر دور کرنے والی الیکٹرک سٹی سے
واقفیت حاصل کر لے تو وہ مادی وسائل کے بغیر کسی بھی مادی شئے کو جہاں چاہے منتقل
کر سکتا ہے۔
قلندر بابا اولیاءؒ نے انسانی
شعور کو روحانی سائنس کی بنیاد پر چار شعوروں میں تقسیم کیا ہے اور ان چاروں
شعوروں کے اصطلاحی نام تجویز کر کے ان کی اکویشن بنائی ہے۔ اپنی کتاب لوح و قلم
میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے نوع انسانی کو موجودہ بے سکون زندگی اور پر مصائب
حالات سے آزاد ہونے کا نہایت مختصر مگر جامع حل بتایا ہے۔
"قیاس کا پیش کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے
نظریہ کا چند قدم ساتھ ضرور دیتا ہے مگر پھر ناکام ہو جاتا ہے۔"
لوگوں
نے بذات خود جتنے طریقے وضع کئے ہیں سب کے سب کسی نہ کسی مرحلہ میں غلط ثابت ہوئے
ہیں۔ توحید کے علاوہ اب تک جتنے نظام ہائے حکمت بنائے گئے ہیں وہ تمام اپنے ماننے
والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔
کتاب لوح و قلم میں تحریر ہے کہ آج کی نسلیں
گذشتہ نسلوں سے زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہونگی۔ نتیجہ
میں نوع انسانی کو کسی نہ کسی وقت نقطہ توحید کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ موجودہ دور کے
مفکر اور سائنٹسٹ کو چاہئے کہ وہ وحی کی طرز فکر کو سمجھے اور نوع انسانی کی غلط
رہنمائی سے دست کش ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ مختلف ممالک اور مختلف قوموں کے وظیفے
جداگانہ ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام نوع انسان کا جسمانی وظیفہ ایک ہو سکے اب
صرف روحانی وظائف باقی رہتے ہیں جن کا مقصد صرف توحید اور صرف توحید ہے اگر دنیا
کے مفکرین جدوجہد کر کے ان وظائف کی غلط تعبیروں کو درست کر سکیں تو وہ اقوام عالم
کو وظیفہ روحانی کے تحت ایک ہی دائرہ میں اکٹھا کر سکے۔ سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے
امام قلندر بابا اولیاءؒ ایک ایسے عظیم سائنس دان ہیں جن کے پیش نظر نوع انسانی کو
بحیثیت مخلوق کے توحید کے پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے۔
قلندر بابااولیا کی تعلیمات اور ارشادات کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ نوع انسانی کو پرسکون دیکھنا چاہتے ہیں خوف و غم کی زندگی سے انہیں نجات دلانا چاہتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا ارشاد اور اولیا ء اللہ کا قول بھی ہے ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پا یا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے ۔ سپیس کا علم علم کی تجلی کو دیکھتا ہے ۔ جب سپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جا ئے ، کا نوں سے سنا ئی دے تو تجلی نظر آتی ہے ۔قر آن کر یم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کسی کو طا قت نہیں کہ اللہ سے کلام کر ے مگر تین طر یقوں سے (۱)وحی کے ذریعہ (۲)رسول کے ذریعے یا (۳)حجاب سے ۔یہ تینوں سپیس میں حجاب بھی سپیس ہے وحی اسے کہتے ہیں جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جا ئے اور پر دے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آجا ئے اور ایک آواز آتی ہے ۔ فر شتے کے ذریعے یا رسول اللہ ﷺ کے ذریعے کہ معنی یہ ہیں کہ فر شتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طر ف سے بات کر تا ہے اور حجاب کے معنی یہ ہیں کہ کو ئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طر ح بات کر تی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے حا لانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے بلکہ حجاب ہے ۔