Topics
‘‘قیامت
قریب آ گئی ہے اور چاند شق ہو گیا۔’’
سورہ
قمر کی یہ آیات پڑھتے ہی ذہن ان آیات کی گہرائی میں جا پہنچا۔ حافظے کے افق پر ایک
چاند نمودار ہوا۔ اس وقت نور نبوت سے جگمگاتا ایک ہاتھ اوپر اٹھا جس کی انگلی کے
اشارے پر چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔ رعب رسالتﷺ نے بدن میں ایک لطیف کرنٹ دوڑا دیا۔ دل
عظمت پیغمبریﷺ سے مرعوب ہو گیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ پر ہزاروں
سلام۔ روح چاند کی کرنوں کے لباس میں خود چودہویں کا چاند بنی سامنے آ گئی۔ اس کے
بدن سے چاندنی کی سی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ چہرے پر بھورے بالوں کی لٹیں، بدلی میں
چاند کا تصور پیش کر رہی تھیں۔ روح کی نظریں خلاء میں دیکھ رہی تھیں اس کی انہماکی
دیکھ کر میری ہمت نہ پڑی کہ اس سے کوئی بات کروں۔ بس چپکے سے میں نے اس کی نظر کی
روشنی میں اپنی نظر کو ملا دیا۔ سب سے پہلے میری نگاہ کے سامنے ایک تکون سا دروازہ
آ گیا۔ مگر درحقیقت یہ دروازہ نہیں تھا بلکہ ایک ٹاور سا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی
خیال آیا میں روح کے تفکر میں داخل ہوں۔ یہ راستہ آ رپار تھا۔ میں اس راستے میں
ٹاور کے باہر فوراً نکل آئی۔ خیال آیا یہ ٹاور روح کے تفکر کا گیٹ ہے جو اس گیٹ سے
پار ہو جاتا ہے وہ روح کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے اور جو اس گیٹ کے پار نہیں ہو
سکتا وہ اس تکون ٹاور میں محبوب ہو جاتا ہے میرے اوپر ایک جھرجھری سی آ گئی۔ اف!
میں اس اندھیرے ٹاور میں ایک لمحے بھی نہیں رہ سکتی۔ اور میں دوڑ کر ایک ہی جست
میں روح کے برابر جا پہنچی۔ وہ اسی طرح محویت کے عالم میں خلاء میں نظریں ٹکائے
بیٹھی تھی۔ میں نے اپنی پلکیں جھپکائیں۔ دیکھوں تو بھلا یہ کہاں گم ہے۔ بار بار
پلکیں جھپکانے پر ہر بار میری نظر کے سامنے سے خلاء کا سکوت دور ہونے لگا۔ آہستہ
آہستہ نظر کے سامنے نقش و نگار ابھرنے لگے۔ میں نے پھر پلکیں اس خیال سے پٹپٹائیں
کہ ذرا صاف نظر آ جائے اور پھر میری نظر روح کی روشنی کے اندر عین سیدھ میں دیکھنے
لگی۔ اس نور میں حد نگاہ پر چاند کھڑا تھا اس چاند کے چاروں طرف روشنیوں کا ہالہ
تھا۔ یوں لگا جیسے چاند نور کی زمین پر کھڑا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک اشارہ ہوا
اور چاند ایک کی بجائے دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک چاند تو خود اس کا جسم تھا۔ میرے ذہن
میں آیا چاند کا یہ ہالہ چاند کا جسم مثالی ہے اور اس جسم مثالی نے جو لوگوں کی
نظر سے چھپا ہوا تھا۔ اپنے آپ کو مادی شکل و صورت میں لوگوں کی نظروں کے سامنے پیش
کر دیا۔ اسی طرح آسمان پر دو چاند طلوع ہو گئے۔ جسم مثالی مادی شئے کا وہ جسم ہے
جو روشنیوں سے بنا ہے۔ اس روشنی کے جسم کا عکس مادی جسم ہے۔ ہماری آنکھیں عکس کو
تو دیکھ لیتی ہیں مگر اصل جسم آنکھ سے مخفی رہتا ہے۔ جسم مثالی تصویر کا نیگیٹیو
ہے۔ نیگیٹیو سے جتنی مرضی فوٹو بنا سکتے ہیں۔ مادی جسم فوٹو ہے۔ نیگیٹیو فوٹو کی
اصل ہے۔ خیال آیا یہ وہ جگہ ہے جہاں نیگیٹیو محفوظ ہیں، خیال آیا میری نظر زمانیت
میں دیکھ رہی ہے۔ زمانیت کا حکم کن کی روشنی ہے اس نور کے اندر کائنات کے تمام جسم
مثالی موجود ہیں۔ روح کی نظر جس شئے پر پڑتی ہے روح کے ارادے کے ساتھ وہ شئے روح
کے شعور میں منتقل ہو جاتی ہے اور انسان کی آنکھ اسے مادی صورت میں دیکھ لیتی ہے۔
ذہن میں تجسس پیدا ہوا۔ روح کیا ہے کیونکہ جس روح کو میری نظر دیکھ رہی تھی وہ روح
اس جسم مثالی سے علیحدہ نظر آتی تھی۔ اس خیال کے ساتھ ہی میری نظر روح کی نگاہ کی
روشنی کے عین مرکز میں ایک اسپاٹ لائٹ کی طرح نہایت روشن ہو گئی۔ یہ نہایت لطیف
روشنی جیسے ایک دم ایک مقام پر مرکوز ہو گئی۔ ذہن میں کلام الٰہی کی یہ آیت ابھری۔
ترجمہ:
‘‘نہ جھٹلایا دل نے جو دیکھا۔ نہ درماندہ ہوئی نگاہ نہ حد سے آگے بڑھی۔’’
(سورہ
النجم)
بہت
دیر تک میری نظر مرکز پر ٹھہری رہی۔ یہ مرکز تجلی کا ایک نقطہ تھا اس لمحے مجھے
یوں محسوس ہوا جیسے مجھے کسی نے ہپناٹائز کر دیا ہے۔ بس نظر اس نقطے پر اپنی پوری
توجہ کے ساتھ مرکوز ہو گئی۔ بہت دیر بعد آہستہ آہستہ نقطے کا پھیلائو ہونے لگا۔
نقطے کے ہر پھیلائو پر ایک ایک فلیش ہوتا گیا مگر میری نظر بالکل ساکت ہو کر سب
کچھ دیکھتی رہی۔ اب یہ نقطہ پھیلتے پھیلتے پورے ازل ابد پر محیط ہو گیا۔ نقطے سے
نکلنے والا ہر فلیش ازل ابد کے دائرے میں تیرنے لگا۔ خیال آیا یہ لمحہ حکم کن کا
آغاز ہے۔ تجلی کا نقطہ روح کی ذات ہے نقطے سے نکلنے والا فلیش اس نقطے کی صفات
ہیں۔ ہر فلیش آہستہ آہستہ اپنی رفتار کم کرتا گیا اور پھر تمام فضا میں جسم مثالی
تیرنے لگے۔ خیال آیا۔ روح کی ذات ایک ہے کیونکہ روح کا تعلق براہ رست ذات باری
تعالیٰ سے ہے، روح کے اندر اللہ تعالیٰ کی وحدت فکر کام کر رہی ہے۔ اسی وحدت فکر
کا مظاہرہ روح کا جسم مثالی ہے، جو روح کی صلاحیتوں کے متحرک ہونے سے وجود میں آتا
ہے۔ اگر روح کی ذات کو ایک ذات تصور کر لیا جائے تو کائنات کے تمام جسم مثالی روح
کے مختلف لباس یا صورتیں ہوئیں جس میں کائنات کی حدود میں روح اپنے آپ کو ظاہر
کرتی ہے اور جسم مثالی اپنے آپ کو ایک مادی جسم کے ساتھ ظاہر کرتا ہے ہر لمحے اور
ہر آن اللہ تعالیٰ کے حکم پر روح کی ذات اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی
ہے۔ جسم مثالی اور مادی جسم کی تمام حرکات روح کے کنٹرول میں ہے۔
اب
پھر ذہن میں وہ سورہ قمر کی آیت ابھری۔ ‘‘قیامت قریب آ گئی ہے اور چاند شق ہو گیا
ہے۔’’ بھلا اچانک چاند کے شق ہونے کا قیامت سے کیا تعلق ہے؟ قیامت کیا ہے؟ ذہن بار
بار یہ الفاظ دہرانے لگا۔ قیامت کیا ہے؟ قیامت کیا ہے؟ کیا دیکھتی ہوں کہ وہی تکون
نما ٹاور ہے، بہت بڑا سا اس کے اندر دیکھتی ہوں اس میں بڑی بھول بھلیاں سی ہیں اور
اندر زیادہ تر اندھیرا ہے۔ کہیں روشنی کہیں اندھیرا۔ لوگ اندر داخل ہیں اندھیرے
میں وہ اندھوں کی طرح ٹٹولتے ہیں۔ اجالے میں ذرا قدم تیز ہو جاتے ہیں۔ یہ ٹاور
ایسا بند سا ہے اور لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے اور زیادہ دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے۔
اندھیرے میں لوگ بار بار بھٹک رہے ہیں اور سخت پریشان ہیں۔ میرے ذہن میں خیال آیا
کہ تعجب ہے کہ یہ لوگ اندھیرے میں اندھے کیوں ہو جاتے ہیں جبکہ روح کی ذات تو خود
روشنی ہے۔ پھر یہ اپنی ذات کی روشنی کیوں استعمال نہیں کرتے۔ اس اندھیرے میں بھٹک
بھٹک کے خود اپنے آپ کو تباہ کئے جا رہے ہیں۔ اس طرح تو یہ ابد تک انہی بھول
بھلیوں میں بھٹکتے رہیں گے اور ان کے جسم مثالی کے حواس ابد تک اس عذاب میں مبتلا
رہیں گے۔ اسی وقت روح کی آواز نہایت ہی کڑک دار لہجے میں سنائی دی:
‘‘اے
نفس! یاد رکھ پیغمبروں کے معجزے اللہ تعالیٰ کی وہ نشانیاں ہیں جس کی کسوٹی پر
ایمان کو پرکھا جاتا ہے۔’’ ہر انسان کا نفس کسی نہ کسی کسوٹی پر ضرور پرکھا جاتا
ہے۔ دنیا کی زندگی اس تکون ٹاور کی بھول بھلیوں سے گزرنا ہے۔ جو نفس ان بھول
بھلیوں میں کھو کر اپنی روح سے رابطہ توڑ دیتا ہے وہ روح کی روشنیوں سے محروم ہو
جاتا ہے۔ روح کی روشنیاں ذات باری تعالیٰ کی صفات کے انوار ہیں، پس روح سے تعلق
ٹوٹنے سے ذات باری تعالیٰ سے بھی ایسے نفس کا رابطہ ٹوٹ جاتا ہے، جس کی وجہ سے جسم
مثالی کی روشنیاں یعنی صلاحیتیں آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتی ہیں اور وہ ناکارہ ہو
کر اس تکون ٹاور (یعنی عالم ناسوت) میں محبوس ہو جاتا ہے۔ اپنی ناکامی کا احساس ہی
قیامت ہے۔ پس اے نفس یاد رکھ کسی بھی لمحے اپنی ذات کو اپنی روح سے جدا نہ کر کہ
روح کا تعلق ہر لمحہ ذات باری تعالیٰ کے ساتھ قائم ہے۔ مگر روح اللہ تعالیٰ کے حکم
پر جب عمل کرتی ہے تو وہ اپنے جسم مثالی اور مادی جسم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے
احکام پورے کرتی ہے۔ جسم مثالی کا شعور انسان کا قلبی شعور ہے۔ قلب جب تک ایمان و
ایقان کے نور سے منور نہ ہو گا انسان کو زندگی کی اندھیری راہوں میں بھٹکنا ہو گا۔
ایمان اور یقین نور ہے جو روح کے ذریعے قلب میں منتقل ہوتا ہے۔ قلب کی صورت جسم
مثالی ہے جس طرح شعور کی صورت مادی جسم ہے۔ جس طرح مادی جسم و شعور کی خوبصورتی
اور تندرستی کا انحصار متوازن خوراک پر ہے اسی طرح مثالی جسم کے حسن کا راز ایمان
اور یقین کے نور میں پوشیدہ ہے۔ مرنے کے بعد جسم مثالی کے ساتھ انسان زندگی گزارے
گا، پس دنیوی زندگی میں انسان اپنے ایمان و یقین کے نور سے جسم مثالی کی نشوونما
کرتا ہے۔ مرنے کے بعد اسی مناسبت سے وہ اپنے آپ کو حسین و تندرست یا نحیف و لاغر
اور بیمار پائے گا۔ مرنے کے بعد کی حالت ہمیشہ برقرار رہنے والی ہے، پس اپنے قلب
کو اندیشہ و شکوک سے پاک رکھ تا کہ ایمان اور یقین اس میں داخل ہو سکے کیونکہ یقین
اور شک دو متضاد چیزیں ہیں۔ جب ایک موجود ہوتا ہے تو دوسرا غائب ہوتا ہے۔ شق القمر
چاند کے جسم مثالی کی بہترین تخلیق کا نمونہ ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر نے
تیرے سامنے مظاہرہ کر کے تجھے دکھلا دیا کہ اے انسان! تو بھی اپنے ایمان اور یقین
کے نور سے اپنے ارادے کے ساتھ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بہترین صورت بخش سکتا ہے کہ
تیرے اندر احسن الخالقین کے بعد تخلیق کرنے والی ایجنسی موجود ہے اور احسن
الخالقین کے بعد تمام ذیلی تخلیقات ذیلی ایجنسیوں کے ذریعے ہی ظہور میں آتی ہیں۔
احسن الخالقین وہ ذات واحد ہے جو بغیر وسائل و اسباب تخلیق کرتا ہے مگر احسن
الخالقین کے بعد کی تمام ذیلی ایجنسیاں احسن الخالقین کے بنائے ہوئے وسائل و
قوانین کے ذریعے تخلیق کرتی ہیں۔ ذات باری تعالیٰ کے سوا باقی تمام ایجنسیاں اپنی
تخلیق کے لئے وسائل کی پابند ہیں۔
اے
نفس! یاد رکھ تو ہر قدم پر اپنے خالق کا محتاج ہے تیری زندگی، تیری بقا، تیری ہر
سانس خالق کی عنایت ہے۔ پس خالق سے رشتہ توڑ کر تو کیوں قبر کی اندھیری کوٹھڑی میں
سسکنا چاہتا ہے۔ یاد رکھ تیری اصل حقیقت روح ہے اور روح کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ
کا نور ہے۔ روح اللہ کی تجلی کا ایک نقطہ ہے۔ روح کی ہر صلاحیت اللہ کی صفات ہیں۔
اللہ کی ذات اور صفات لامحدودیت ہے۔ روح کے اندر اللہ تعالیٰ کا تفکر کام کر رہا
ہے، اس تفکر کے ساتھ روح کی فکر بھی لامحدود ہے۔ روح اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ جسم
مثالی اور مادی جسم کے ساتھ کرتی ہے۔ مادی جسم روح کی صلاحیتوں کو محدودیت میں رہ
کر ظاہر کرتا ہے جبکہ جسم مثالی یعنی روح کا روشنی کا جسم روح کی صلاحیتوں کا
لامحدودیت میں مظاہرہ کرتا ہے۔
اے
نفس! پھر ایک بار غور سے سن۔ لامحدودیت اللہ تعالیٰ کی تجلیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ
عالمین میں داخل ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کو خالق جاننا اور اس کی ربوبیت کا
پہچاننا ضروری ہے، پس وہ لوگ جن کے سامنے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں واضح طور پر آ
جائیں اور اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور ربوبیت میں شک و شبہ کریں۔
ایسے کم ظرف اور بدبخت نفوس خود اپنی انا کے مادی خول میں مقید کر دیئے جاتے ہیں۔
مرنے کے بعد ان کی روح اس تکون نما ٹاور میں قید ہو کر رہ جاتی ہے اور اسے آزاد
فضا میں اڑنا نصیب نہیں ہوتا مگر چونکہ روح کی اصل فطرت لامحدودیت کا شعور ہے۔ روح
کے اندر اپنی فطرت کے مطابق لامحدودیت میں جانے اور ان عالمین میں آزادی کے ساتھ
زندگی بسر کرنے کی خواہشات ابھرتی رہتی ہیں مگر وہ ان خواہشات کو عملی جامہ نہیں
پہنا سکتی جس کی وجہ سے اس کی باطنی صلاحیتیں آہستہ آہستہ دم توڑ دیتی ہیں اور وہ
ناامیدی، بے یقینی اور محرومی کے احساس میں ڈوب جاتی ہے۔ اس کے جسم مثالی میں اتنی
سکت نہیں رہتی کہ وہ اپنی انا کی دیواریں توڑ کر خالق کی انا سے رشتہ وابستہ کر
لے۔ بے یقینی اور شک انسان کے اندر قوت ارادی کو تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ انسان کی
موت کے بعد یہ جان لینا کہ وہ اب ہمیشہ کے لئے محدودیت میں قید ہو کر رہ گیا ہے
اور اس کے اندر اللہ تعالیٰ کے نور کا فقدان ہے۔ یہ احساس محرومی انسان کے لئے
قیامت ہے، پس تو اپنے اندر اللہ کے نور کو ذخیرہ کر تا کہ قیامت کے عذاب سے
چھٹکارا مل جائے۔
میں
روح کی اس پکار پر دم بخود رہ گئی چند لمحوں تک تو یہ حالت تھی جیسے سانپ سونگھ گیا
ہے۔ پھر آہستہ آہستہ حواس بحال ہونے لگے۔ بچہ جب ماں کی جھڑکی کھاتا ہے تو منہ
بسورتا ہوا پھر بالآخر ماں کی آغوش میں ہی گھسنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے ماں
کے سوا کہیں اور آرام نہیں ملتا۔ سو یہی حالت میری تھی، میں نے بھی اسی میں عافیت
جانی کہ روح کے بڑے سے لبادے میں اپنے ننھے منے سے وجود کو گم کر دوں تا کہ اس کے
بدن کی حرارت میرے خوف کو دور کر دے۔ روح میری اس نادان حرکت پر بڑی شان سے مسکرا
دی اور جلدی جلدی اپنے لبادے کو ٹھیک کرنے لگی تا کہ کوئی مجھے دیکھ نہ سکے اور
میری پوری طرح حفاظت ہو سکے۔
سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی
‘‘زندگی
جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’
یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔ میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔
میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔ روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔
دعا گو:
سیدہ
سعیدہ خاتون عظیمی
تاریخ:
01-09-94