Topics

آدم اور ابلیس


                بڑی بوڑھیاں اکثر کہا کرتی ہیں کہ بیٹا اصل سے سود پیارا ہوتا ہے۔ پہلے تو مجھے اس محاورے کا مطلب ہی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ جب شعور کو پہنچی تو ایک دن ہمارے پڑوس کی ایک بزرگ خاتون چھوٹے سے بچے کو گود میں اٹھائے ہمارے گھر آئیں۔ بچہ یہی کوئی تقریباً دو سال کا تھا۔ آتے ہی انہوں نے فوراً اسے گود سے اتارنا چاہا۔ ان بچاری کا سانس پھولا ہوا تھا۔ بچہ تھا کہ گود سے اترنے کا نام نہ لیتا تھا۔ اس پر میں نے زبردستی بچے کو ان کی گود سے چھڑانے کی کوشش کی کہ خالہ بیٹھ جائو۔ بچہ چلانے لگا۔ اب انہوں نے بجائے مجھے دینے کے خود اپنی پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ ہی بچے کو اور زور سے اپنے سینے سے چمٹا لیا اور کہنے لگیں۔ بیٹا اصل سے سود پیارا ہوتا ہے۔ یہ میرا پوتا ہے۔ چلو رہنے دو ابھی مانوس ہو جائے گا۔ بچہ انہیں بیٹھنے بھی نہیں دے رہا تھا۔ مگر وہ کہنے لگیں۔ بیٹا ناسمجھ ہے۔ ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔ میں نے خالہ سے پوچھا۔ خالہ اصل سے سود پیارا ہے کے کیا معنی ہیں؟ بولیں۔ اے بیٹا۔ اصل تو میرا بیٹا ہے جو میرے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ یہ بچہ تو میرے بیٹے کا بیٹا ہے۔ مگر اس بچے کے اندر میری دو محبتیں شامل ہو گئی ہیں۔ ایک تو میری محبت اپنے بیٹے کے لئے اور دوسری محبت میرے بیٹے کے بیٹے کے لئے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ زیادہ پیارا ہے۔ میری سمجھ میں آ گیا۔ مگر میں اب یہ سوچنے لگی کہ ی معصوم بچہ ایسی محبت حاصل ہونے کے باوجود بھی اپنی دادی سے ضد کیوں کر رہا ہے۔ کہنا کیوں نہیں مان رہا۔ بچے کا شعور تو بالکل صاف ہوتا ہے۔ اس میں ضد اور نافرمانی کا خیال کیسے پیدا ہو گیا۔ نافرمانی تو ابلیس کی صفت ہے۔ ان دنوں میری امی کا سختی سے حکم تھا کہ رات کو عشاء کی نماز ذرا جلدی پڑھ لیا کرو اور سونے سے پہلے باترجمہ ایک رکوع قرآن مجید کا ضرور پڑھا کرو۔ یہ میری روٹین بن گیا تھا۔ رات کو عشاء کے بعد قرآن مجید لے کر بیٹھی تو سورہ بقرہ کی آیتیں سامنے آ گئیں۔ جن میں ملائکہ کے آدم کو سجدہ کرنے کا ذکر ہے۔ یہ آیتیں پڑھی تو میں نے پہلے بھی تھیں۔ مگر اس وقت ان کے پڑھنے کا کچھ اور ہی لطف آ رہا تھا۔ میں نے دوبارہ یہ آیتیں پڑھیں۔ سورہ بقرہ آیت نمبر31سے آیت نمبر37ـ

                ترجمہ:‘‘اور جب تیرے رب نے ملائکہ سے کہا۔ کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ کیا تو ان میں ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اس میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے اور ہم تو تیری حمد کے ساتھ ساتھ تیری تسبیح بھی کرتے ہیں اور تجھ میں سب بڑائیوں کے پائے جانے کا اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا۔ یقیناً وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور اللہ نے آدم کو تمام نام سکھائے۔ پھر اس کو ملائکہ کے سامنے پیش کر کے فرمایا۔ کہ اگر تم درست بات کہہ رہے ہو۔ تو تم مجھے ان کے نام بتائو۔ انہوں نے کہا۔ تو بے عیب ہے جو تو نے ہمیں سکھایا۔ اس کے سوا ہمیں کسی قسم کا علم نہیں ہے۔ یقیناً تو ہی کامل علم والا حکمت والا ہے۔ اللہ نے فرمایا۔ اے آدم! ان فرشتوں کو ان کے نام بتا۔ پھر جب اس نے ان کو ان کے نام بتائے۔ تو فرمایا۔ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں یقیناً آسمانوں اور زمین کی چھپی باتیں جانتا ہوں اور میں اسے بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ اس پر انہوں نے تو سجدہ کیا۔ مگر ابلیس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے تھا اور ہم نے آدم سے کہا کہ اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور اس میں سے جہاں سے چاہو بافراغت کھائو۔ مگر اس درخت کے قریب نہ جانا۔ ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جائو گے اور شیطان نے اس کے ذریعے سے ان دونوں کو ان کے مقام سے ہٹا دیا اور اس نے انہیں اس حالت سے جس میں وہ تھے نکال دیا اور ہم نے کہا کہ یہاں سے نکل جائو۔ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہیں۔ تمہارے لئے ایک مقررہ وقت اسی زمین میں جائے رہائش اور سامان معیشت ہے۔’’

                دوبارہ یہ ذکر پڑھنے کے بعد اچانک میرے ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ فرشتے تو اللہ پاک کی انتہائی فرمانبردار مخلوق ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے کہنے پر اور زمین میں آدم کو خلیفہ بنا کر بھیجنے پر فرشتوں نے اعتراض کیوں ظاہر کیا۔ خواہ یہ اعتراض درست ہی کیوں نہ ہو۔ مگر ادب کا تقاضہ تو یہ ہے کہ مالک کی ہر بات کو بے چون و چرا مان لے۔ میرے نزدیک مالک کی بات پر کسی بھی قسم کا منفی سوال ذہن میں پیدا ہونا ہی نافرمانی کی علامت ہے۔ میں پھر سوچ میں پڑ گئی کہ میرے ذہن میں یہ کیسے خیالات آ رہے ہیں۔ بھلا کہاں فرشتے اور کہاں منفی خیالات۔ یہ تو کوئی جوڑ ہی نہیں ملتا۔ فرشتے تو نوری مخلوق ہیں۔ پھر میں نے بار بار یہ آیتیں پڑھیں۔ ایک ایک آیت میں غور سے پڑھتی اور پھر اس کا ترجمہ بڑی توجہ کے ساتھ پڑھتی گئی۔ میرا ذہن بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ فرشتوں کو تو اللہ نے صرف اپنے ایک امر کی اطلاع دی تھی۔ ان سے رائے تھوڑا ہی مانگی تھی کہ آدم کو زمین پر خلیفہ بنائوں یا نہیں بنائوں۔ پھر جب فرشتوں کے سامنے اللہ نے اپنے ارادے کا اظہار کر دیا۔ تو فرشتوں کو اپنے مالک اور اپنے خالق کے ارادے کو روکنے کا کیا حق پہنچتا ہے اور اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ فرشتے کسی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے اس ارادے سے متفق نہ تھے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ فرشتے میں بھی جی حضوری والا ذہن تو نہ ہوا۔ عقل کی اس فکر پر میں خود چونک اٹھی۔ گھبرا کے میں نے قرآن واپس رکھ دیا کہ کہیں بار گاہ الٰہی میں کسی قسم کی گستاخی نہ ہو جائے۔ مگر رات گئے تک میرا ذہن اس قیل و قال میں مشغول رہا۔ یہاں تک کہ کمرے میں اندھیرا کر کے بستر پر لیٹ گئی۔ مگر جب دماغ فل اسپیڈ پر خیالات کی لہروں کو تخلیق کر رہا ہو۔ تو بھلا ایسے میں نیند کی یکسوئی حاصل ہو سکتی ہے۔ میں آنکھیں بند کر کے بستر پر لیٹ گئی اور اپنے آپ کو خیالات کے حوالے کر دیا۔ خیالات اپنی پوری رفتار سے آ رہے تھے اور مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے میری نظر آسمان پر ہے اور آسمان پر دھندلے بادل کے غول نہایت تیزی سے گزرتے جا رہے ہیں۔ میری نظر بادلوں کے ان ٹکڑوں کو بس گزرتا دیکھ رہی ہے۔ اتنے میں یوں لگا جیسے آسمان ایک دم سے صاف ہو گیا اور آسمان سے روح بڑی شان کے ساتھ اترتی دکھائی دی۔ اسے دیکھتے ہی مجھے ایک سکون سا محسوس ہوا۔ جب وہ قریب آئی تو میں نے اسے سلام کیا۔ سلام کا جواب دیتے ہوئے وہ بولی۔ اتنی دیر سے مجھے تمہارے اشارے مل رہے تھے۔ مگر تمہیں کیا یہ پتہ کہ میرے اپنے بھی کچھ کام ہوتے ہیں۔ اب بتائو۔ کون سا مسئلہ درپیش ہے۔ میں مسکرا دی اور اپنے لہجے میں عاجزانہ مٹھاس شامل کرتے ہوئے بولی۔ پیاری روح ایک تم ہی تو ہو۔ جو میرے ہر سوال کا جواب دے سکتی ہو۔ پھر میں کس سے پوچھوں۔ وہ دوستانہ محبت سے لبریز نظروں کے ساتھ دیکھتے ہوئے بولی۔ اسی لئے تو جب تم پکارتی ہو، میں آ جاتی ہوں پیاری۔ پوچھو۔ کیا پوچھنا ہے۔ میں نے کہا۔ تم ان آیتوں کو جانتی ہو۔ میرا ذہن ان میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ آخر فرشتوں نے آدم کو خلیفہ بنا کر دنیا میں بھیجے جانے کی اطلاع پر اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں نقص کیوں نکالے۔ کیا اللہ نہیں جانتا تھا کہ آدم کمزور نفس ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کو اس کے ارادے میں نظر ثانی کرنے کا مشورہ فرشتوں نے کیوں دیا۔ فرشتے تو جی حضور والا دماغ رکھتے ہیں۔ وہ بولی۔ اے بنت رسولﷺ! اللہ پاک کی ذات علیم و حکیم ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا آیات میں فرشتوں نے اس کے انہیں دو اسموں کا ذکر فرمایا ہے کہ تو کامل علم والا اور حکمت والا ہے۔

                اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے پیچھے اس کی حکمت کام کر رہی ہے۔ حکمت ذات کا وہ ارادہ ہے جو علم کو مظاہر میں تبدیل ہونے پر آمادہ کرتا ہے۔ ان آیات میں بہت سی باتیں قابل غور ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آدم کو زمین کی خلافت سونپنے کا فیصلہ کرنے کے بعد فرشتوں سے اس کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ دراصل اللہ تعالیٰ اس لمحے آدم کے متعلق فرشتوں سے اظہار رائے چاہتے تھے کہ فرشتے آدم کے منصب خلافت پر کیا رائے رکھتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات فرشتوں کے ذہن کے خیال سے ناواقف تھی۔ بلکہ فرشتوں کا اظہار رائے خود ان کے لئے وقوف شعور بنا اور فرشتوں نے خود اپنی دانست میں یہ جان لیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے امور کی حکمتوں سے ناواقف ہیں اور حکمتوں کی ناواقفیت کی بناء پر ان کے ذہن میں آدم کا زمین پر خون خرابہ کرنے کا خیال پیدا ہوا اور یہ بات جاننے کا تجسس ابھرا کہ باوجود آدم کی اس ظالمانہ فطرت کو پہنچانتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسے زمین کا خلیفہ کیوں منتخب کیا ہے۔

                اے بنت رسولﷺ! فرشتوں کا یہ سوال نافرمانی کی وجہ سے نہ تھا۔ بلکہ وہ اس بات سے حیران تھے کہ باوجود اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے اور اس کی کامل بندگی و فرمانبرداری کے اللہ تعالیٰ کو ایسی مخلوق بنانے کی کیا ضرورت درپیش آ گئی۔ جو مخلوق پر اپنی حاکمیت کو منوانے کے لئے ظلم و بربریت سے بھی دریغ نہ کرے۔ فرشتوں کا یہ سوال ان کے اندر چھپے ہوئے تجسس کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے آدم کو پیش کیا۔ تا کہ وہ اپنے علوم کا ڈسپلے فرشتوں کے آگے کرے اور فرشتوں کا تجسس ختم ہو کر طمانیت قلب حاصل ہو۔ میں نے روح سے پوچھا۔ مگر فرشتوں نے یہ کس طرح جان لیا کہ آدم زمین میں خون خرابہ کرے گا۔ روح بولی۔ ملائکہ کا تعلق لوح محفوظ سے ہے۔ ملائکہ اپنی اپنی حدود میں لوح محفوظ کے احکامات لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں جب ذات باری تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کا فرمان لوح محفوظ کی تمثال بن گیا اور لوح محفوظ پر آدم اللہ تعالیٰ کے خلیفہ کی حیثیت سے موجود ہو گئے۔ چونکہ تمام فرشتوں کا تعلق لوح محفوظ سے ہے یہی وجہ ہے کہ لوح محفوظ کی تمثال میں آدم کو دیکھ کر فرشتوں نے یہ بات جان لی کہ آدم کے اندر فطری طور پر ایسا عنصر موجود ہے کہ اگر آدم زمین پر پہنچ گیا اور زمین پر بحیثیت حکمران بسا دیا گیا۔ تو زمین پر فساد و خون برپا ہو جائے گا۔ لوح محفوظ کی تمثال میں روح اپنی ذات کی روشنیوں کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرشتوں کی نظر آدم کے نفس کی کمزوری کی جانب چلی گئی اور انہوں نے اس بات سے تعجب کیا کہ نفس کی اس کمزوری کے ساتھ آدم زمین پر اگر حکمران بنا دیا گیا تو مخلوق کا تحفظ خطرے میں پڑ جائے گا۔ اسی جذبے کے تحت فرشتوں نے اللہ پاک سے آدم کو زمین کا خلیفہ بنانے کے متعلق سوال کیا۔ یہاں سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ فرشتے آدم کا تحفظ چاہتے تھے اور یہ اس بات کا بذات خود ایک ثبوت ہے کہ فرشتے آدم کے دوست ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے آدم کو حکم دیا کہ وہ لوح محفوظ کے عالم میں اللہ تعالیٰ کے سنبھالے ہوئے علم الاسماء کا مظاہرہ کرے۔ جب لوح محفوظ کے عالم میں آدم نے اللہ تعالیٰ کے سکھائے ہوئے علم الاسماء کا مظاہرہ کیا تو لوح محفوظ پر کائنات کی تمثالیں وجود میں آ گئیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ تمہیں آدم سے عالمین میں اگر تخریب کاری کا اندیشہ ہے۔ تو تم ہی آدم سے بہتر تمثالیں پیش کر دو۔ تمام فرشتے جان گئے کہ وہ اسمائے الٰہیہ کے علوم سے واقف نہیں ہیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے آگے اس بات کا اعتراف کر لیا کہ تو نے جو کچھ ہمیں سکھایا ہے آدم کے علوم ان سے علیحدہ ہیں اور یہ ایسے علوم ہیں جن کی حکمتوں اور علم سے تو ہی واقف ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے آدم کو ان تمثالوں کے علوم کو ظاہر کرنے کا حکم دیا۔ تو لوح محفوظ کے عالمین میں آدم کی تعمیری کارکردگی کا اجمالاً مظاہرہ ہو گیا۔ مگر یہ تمام مظاہرہ تمثالی صورت میں تھا۔ یعنی یہ تمام تمثالیں لوح محفوظ کے نوری تمثلات کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ گویا فرشتوں پر آدم کی اعلیٰ صفات و صلاحیتوں کا انکشاف ہو گیا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر آدم کو حاکم تسلیم کر لیا۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدم کا دوست بنا دیا۔

                میں یوں انہماک کے ساتھ روح کی باتیں سن رہی تھی۔ مجھے یوں لگتا تھا۔ جیسے میں روح کی روشنی میں لوح محفوظ کی یہ فلم دیکھ رہی ہوں۔ مگر مجھے خیال آیا کہ اب تک شیطان یا ابلیس کا کہیں تذکرہ نہیں آیا ہے۔ میں سوچنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے بھی ان آیات میں یہی فرمایا ہے کہ آدم کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ فرشتوں اور ابلیس کے سامنے آدم کو علم الاسماء کے مظاہرے کا حکم دیا گیا۔ مگر جب سجدہ کرنے یعنی حاکمیت کو قبول کرنے کا حکم دیا تو فرماتے ہیں کہ فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ تو فرشتوں نے حکم کی تعمیل میں آدم کو سجدہ کیا۔ مگر ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور تکبر کیا اور وہ پہلے ہی کافروں میں سے تھا۔ میری سمجھ میں نہ آیا کہ ابلیس اب تک کہاں تھا۔ میں روح کی روشنی میں لوح محفوظ پر نظر جمائے بیٹھی تھی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ آدم کے سینے کے دائیں جانب ایک مقام پر ایک سفید سا دھبہ یا نقطہ ہے۔ جو نوری تمثل میں نمایاں طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نقطے سے روشنی کی ایک شعاع نکلی جو نور سے الگ تھی اور اس شعاع نے جو بادل کی طرح کی کثیف روشن تھی۔ نمودار ہو کر لوح محفوظ پر ایک صورت بنا لی۔ اسے دیکھ کر میرے ذہن میں سخت ناگواری کا احساس ہوا۔ جیسے ہنسوں کی ٹولی میں کوا شامل ہو جائے۔ جنت کی جانفزا ہوائوں میں جہنم کی لو کا جھونکا آ جائے۔ روشن اجالے میں اندھیرے کا سایہ آ جائے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس سایے نے ایک صورت اختیار کر لی۔ خیال آیا یہ تکبر ہے، یہ ابلیس ہے۔ جانے کیوں اسے دیکھ کر میرے سینے میں درد کی ایک لہر اٹھی۔ جو اپنی درد ناک آواز میں سسکتی ہوئی بولی۔ کاش میرا وجود ہی نہ ہوتا۔ کاش لوح محفوظ پر آدم اپنے تکبر کی تمثال نہ بناتا۔ روح میرے حال سے واقف ہو گئی۔ میرے درد بھرے سینے پر اپنا نوری ہاتھ پھیرتے ہوئے نہایت ہی پیار سے بولی۔ اے بنت رسولﷺ! اللہ کے حکم سے کسی کو دستگاری نہیں ہے۔ آدم نے اللہ کے حکم پر اس کے سکھائے ہوئے علم الاسماء کا مظاہرہ کیا تھا تا کہ آدم اپنے اندر کی روشنیوں سے واقف ہو جائے۔ اسمائے الٰہیہ کی روشنیاں و انوار آدم کی روحانی صفات ہیں۔ آدم کا لوح محفوظ پر علم الاسماء کا مظاہرہ کرنے میں یہ حکمت پیش نظر ہے کہ آدم بھی اپنی روحانی صلاحیتوں سے واقف ہو جائے اور ان صلاحیتوں کو ان کی فطرت کے مطابق بروئے کار لا کر زمین پر اللہ تعالیٰ کی نیابت و خلافت کے امور کی انجام دہی فرمائے۔ اسم تکبر کا نور اللہ تعالیٰ کی شان جلالی کا نور ہے۔ اللہ پاک کی ہستی میں یہ شان اس کی بزرگی و عظمت اور قدوسیت کی علم بردار ہے۔ مگر جب آدم کے ذریعے اس کا مظاہرہ ہوا۔ تو اللہ کے تقدس کے آگے آدم کے نفس کی پاکی نور کے سمندر کی ایک لہر بن کر نمودار ہو گئی اور چونکہ فطری طور پر اس لہر میں بزرگی، بڑائی اور اپنی عظمت کا تصور تھا۔ مگر آدم کا نفس اللہ پاک کی قدوسیت کا سمندر نہیں بلکہ سمندر کا ایک قطرہ ہے۔ پس آدم کے نفس نے یعنی قطرے نے جب اپنی بڑائی کا مظاہرہ کیا تو اس کی روشنی اللہ کے نور کے سامنے ظلمت بن کر نمودار ہو گئی اور اللہ کی پاکی کے تصور نے اسے قبول نہ کیا۔ نور کے سمندر نے اپنی سطح پر آئے ہوئے خس و خاشاک کو نفس آدم کی موج پر سوا کر کے اپنی ذات سے دور کر دیا اور ذلت کے ساحل پر لا پھینکا۔ ابلیس نے ذلت کے ساحل پر کھڑے ہو کر نفس آدم کے دریا میں اسمائے الٰہیہ کی نورانی موجوں کی جھلک دیکھ لی۔ مگر اس کا تاریک نفس نورانیت کی تاب نہ لا سکا اور ذلت نفس کی تاریکی اس کے وجود پر طاری ہو گئی۔ اس کی آنکھوں کے چراغ نور کے جھونکے سے بجھ گئے۔ وہ اپنی تاریکی کے خول میں بند ہو کر نور کے مشاہدے سے معذور ہو گیا۔ یہی معذوری اس کا کفر اور انکار ہے۔

                روح کی باتیں میرے نفس کے دریا کی تہہ تک پہنچ گئیں۔ اس کی آواز دریا کی لہر بن کر اس کنارے سے اس کنارے تک پھیل گئی۔ میرے نفس کے دریا میں ہلچل مچ گئی۔ موج پر موج اٹھنے لگی، ہر موج اپنے کندھے سے خس و خاشاک کو لب ساحل پر چھوڑنے کے لئے مستعد ہو گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے نفس کے دریا کی ہر موج اپنے مرکز سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ میرا ہر لمحہ مرتا جا رہا ہے۔ میری ہر سکت ختم ہوتی جا رہی ہے، دریا سوکھتا جا رہا ہے۔ آہ! دریا سوکھتا جا رہا ہے۔ میری نگاہ کے سامنے نفس کا دریا ایک حقیر بوند رہ گیا۔ اس بوند سے ایک ناتواں آواز نکلی جیسے سرگوشی کہ صرف برابر والا ہی سن سکتا ہے۔

                اے روح! اے عظیم ماں! مجھے اپنے اندر سمو لے۔ میرا کمزور نفس تیرے سمندر کی ایک بوند ہے۔ سمندر سے الگ رہ کر قطرہ اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ مجھے میری موت سے بچا۔ مجھے اپنی آغوش رحمت میں زندگی عطا فرما۔ روح نے میری جانب دیکھا۔ عشق کی مقناطیسی قوت سمندر کی لہروں کی طرح اس کے نور سے نکلنے لگیں۔ اس نے بھرپور م حبت کے ساتھ مجھے گلے لگا لیا۔ سمندر کی موج نے بڑھ کر قطرے کو اپنے اندر جذب کر لیا۔

ہم تم ملے تو بحر میں طوفان آ گیا

اٹھ اٹھ کے ہر اک موج گلے ہم سے مل گئی

 

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94