Topics
کل
سارا دن ذہن میں ایک ہی خیال بار بار گردش کرتا رہا۔ رات ہوتے ہوتے یہی خیال دل کی
خواہش بن گیا اور دل کی خواہش پر ذہن کی قوت تجسس بن بلائے مہمان کی طرح روح کے
درون خانے میں براجمان ہو گئی۔ ایسے میں بھلا نیند کا کیا کام۔ نیند تو اس وقت آتی
ہے جب ذہن خواہش و خیال سے خالی ہو اور دس پندرہ منٹ تک بستر پر کروٹیں بدل بدل کر
بالآخر میں اٹھ ہی بیٹھی۔ گرم گرم پانی سے وضو کیا۔ وضو سے طبیعت میں تازگی آ گئی۔
پھر مصلے پر بیٹھ گئی۔ درود شریف پڑھتے ہی حضور پاکﷺ کی جانب دھیان لگ گیا۔ یوں
لگا جیسے میں حضور پاکﷺ کے حضور میں ہوں۔ آپﷺ کی نظریں مجھ پر ہیں، میں آپ کے
سامنے دو زانو بیٹھی ہوں۔ میں نے نہایت ادب کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر سر کو
بارگاہ حضورﷺ میں عاجزی کے ساتھ جھکاتے ہوئے عرض کی۔
سرکار!
میری جان آپ پر قربان، میرے ماں باپ آپ پر قربان، میرے دل میں کائنات کے تکوینی
کنٹرولنگ سسٹم کو دیکھنے کی خواہش ہے۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کائنات کا تکوینی
نظام کس طرح کام کرتا ہے؟ میں نے دیکھا۔ یہ سوال کرتے کرتے روح انکسارانہ جذبے کے
تحت کچھ اور زیادہ جھک گئی۔ اس کے اوپر رسالت کے رعب کا دبائو تھا۔ جس نے اسے
بارگاہ نبویﷺ میں انتہائی ادب و احترام سے جھکا دیا تھا۔ اس نے نہایت ہی عاجزانہ
انداز میں ہاتھ جوڑ کر عرض کیا۔
یا
رحمت اللعالمینﷺ! مجھے آپ کی رحمتوں کا آسرا ہے۔ اس کی نظریں نیچی تھیں۔ وہ تقدس
کا نوری مجمسہ دکھائی دی۔ حضور پاکﷺ کی نظروں سے نور برسنے لگا۔ اس نور میں رحمت
کی تجلیاں تھیں۔ جو روح کے انوار میں جذب ہونے لگیں۔ حضور پاکﷺ نے بڑی محبت سے
فرمایا۔ اے بنت رسولﷺ! تم ہماری آنکھوں کا نور ہو، دل کی ٹھنڈک ہو۔ کیا تم جانتی
ہو کہ ہمیں تمہارے سوال سے کتنی خوشی ہے۔ یہ سن کر روح کا چہرہ پھول کی طرح کھل
اٹھا۔ اس کے مکھڑے کی چاندنی میں شفق کی لالی گھل گئی۔ اس نے بچوں کی طرح بے ساختہ
مسکراتے ہوئے کہا۔ نانا! کیا سچ مچ آپﷺ مجھ سے بہت خوش ہیں۔ آپﷺ میرے سوال پر مجھ
سے بالکل ناراض نہیں ہیں۔ یہ کہتے کہتے روح حضور پاکﷺ کے کچھ اور قریب آ گئی۔ حضور
پاکﷺ روح کی اس معصومانہ حرکت پر ہنس پڑے۔ آپ کے دندان مبارک سے سچی موتیوں جیسی
روشنی چمکی۔ آپﷺ نے نہایت ہی پیار سے روح کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمایا۔ بیٹی!
اللہ کے نزدیک کائنات کی سب سے قیمتی شئے علم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم کا مظاہرہ
کائنات ہے۔ علم سے ہی انسان کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ تم کبھی علم کے حصول میں
کوتاہی نہ کرنا۔ نہ ہی کبھی اس بات کا خیال بھی دل میں لانا کہ علم کے راستے میں
کسی قسم کا سوال کرنے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبران ناراض ہوں گے۔ بیٹی! تم
جانتی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آدم کو علوم سکھانے کا پورا پورا بندوبست
کیا۔ اس نے اپنے پیغمبر اور آسمانی کتابیں اسی غرض سے نازل کیں تا کہ انسان علوم
حاصل کرے۔ اللہ کی خوشی اسی بات میں ہے کہ انسان اس کے علوم سیکھ کر کائنات کے
امور میں اس کا معاون و مددگار بن جائے۔ جس کام میں اللہ کی خوشی و رضا شامل ہے اس
میں اللہ کی ناراضگی کا کیا سوال۔ اب حضور پاکﷺ کے لہجے میں رعب تھا۔ آپﷺ نے
تنبیہہ کے طور پر فرمایا۔ نادان لڑکی! علم کے حصول میں آئندہ کسی بھی قسم کے سوال
کرنے سے دریغ نہ کرنا۔ حضور پاکﷺ کے ناصحانہ حکم پر روح نے ادب سے ہاتھ باندھ کر
سر کو جھکا دیا اور فرمانبردارانہ اقرار کرتے ہوئے کہا۔ یا رسول اللہﷺ! مجھے آپ کی
نظر کرم کی ضرورت ہے۔ حضور پاکﷺ کی نظروں میں اب پھر رعب کی جگہ رحمتوں کی روشنیاں
نکلنے لگیں۔ آپ کائنات کا تکوینی سسٹم دیکھنا چاہتی ہو۔ تو لو دیکھ لو۔ روح نے
اپنے اوپر ایک دبائو سا محسوس کیا۔ وہ عشق محمدیﷺ کے سرور میں ڈوبتی چلی گئی۔
روح
نے دیکھا۔ ایک عجیب عالم ہے، جہاں تیز چاندنی جیسا نور ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ وہ
نور کی اس سرزمین پر کھڑی ہے۔ پہلے تو اس نے چاروں طرف گردن گھما گھما کر دیکھا کہ
یہ روشنی کہاں سے آ رہی ہے۔ اوپر آسمان پر کوئی چاند نہیں تھا۔ اب اس کی نظر زمین
کی جانب گئی۔ ساری زمین چاندنی جیسے نور کی تھی اور اس زمین سے ہی نور نکل کر
چاندنی کی طرح ہر طرف پھیل رہا تھا۔ پہلے تو ذہن میں خیال آیا۔ نور تو ایک انتہائی
لطیف شئے ہے۔ پھر میں اس لطیف زمین پر کس طرح کھڑی ہوں، اس لطیف سطح پر میرے پائوں
کس طرح قائم ہیں۔ اس نے پائوں زور سے زمین پر مارا۔ تو پائوں زمین میں دھنسے نہیں
بلکہ اس بات کا مشاہدہ ہوا کہ زمین کی سطح پر نور ٹھوس حالت میں موجود ہے اور وہ
خود اس سطح سے زیادہ لطیف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کی سطح اس کے جسم کو اپنے اوپر
اٹھائے ہوئے ہے۔ اس کے سامنے ایک راستہ تھا بالکل سیدھا۔ جس کے اطراف میں دو رویہ
پھولوں سے لدے لمبے لمبے درخت تھے۔ روح اس راستے پر چلنے لگی۔ کچھ دور چلنے پر
سامنے ایک گول عمارت آ گئی۔ یہ عمارت بے حد بڑی تھی اور اڑن طشتری کی طرح زمین پر
عجیب انداز میں رکھی تھی۔ ایک نظر دیکھنے سے عمارت کی بجائے اڑن طشتری کا تصور
ابھرتا تھا۔ جیسے ہی وہ اس عمارت کے دروازے پر پہنچی دروازہ کھل گیا، ساتھ ہی آواز
آئی۔ خوش آمدید اے بنت رسولﷺ! روح باوقارانہ انداز میں عمارت کے اندر داخل ہو گئی۔
ایک شخص مسکراتے ہوئے سامنے آیا۔ سلام کیا اور روح کی آم پر حیرت کا اظہار کیا۔
روح کے چہرے سے اجنبیت کا تاثر دور ہوا اور اس کی جگہ مسکراہٹ نے لے لی۔ وہ شخص
اسے لے کر ایک راہداری سے ہوتا ہوا ایک بہت ہی عظیم الشان گول کمرے میں لے آیا۔
جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی۔ کورس کی صورت میں بہت سی آوازیں بیک وقت سنائی دیں
اور سلام اور خوش آمدید کی صدائوں سے کمرہ گونج اٹھا۔ یہ ایک آفس تھا۔ یہاں بے
شمار لوگ تھے جو کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ ان کے آگے ایک مشین سی تھی۔ مگر یہ مشین بہت
ہی جدید اور اعلیٰ قسم کی تھی اور دیوار کی طرح بہت بڑی سی تھی۔ اب وہ شخص جو
دروازے سے روح کے ساتھ تھا۔ وہ رخصت لے کر واپس ہوا اور کمرے سے ایک شخص روح کے
قریب آئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا۔ میرا نام لال شہباز قلندرؒ ہے۔ یہ اہل تکوین کا
دفتر ہے۔ یہاں کائناتی امور کنٹرول کئے جاتے ہیں۔ آیئے! ہم آپ کو یہاں کے کنٹرولنگ
سسٹم کے متعلق بتائیں۔ اس کے لئے اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال آئے تو پوچھنے سے نہ
ہچکچائیں۔ روح نے فوراً کہا کہ حضور اس دفتر کو دیکھ کر میرے ذہن میں سب سے پہلے
تو یہ سوال ابھر رہا ہے کہ دنیا میں بھی یہاں کی تمثیلات موجود ہیں۔ یہ کیسے ممکن
ہے؟ جبکہ دنیا والوں نے غیب کے ان مقامات کو دیکھا بھی نہیں۔ حضرت لال شہباز
قلندرؒ نے فرمایا۔ اے بنت رسولﷺ! کائنات کا وجود ایک زبردست نظام پر قائم ہے۔ یہ
نظام اسمائے الٰہیہ کی تجلیوں کے نظام ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کن کہنے سے اس نظام میں
حرکت پیدا ہو گئی۔ اس حرکت نے اللہ تعالیٰ کے ارادے کے ہر نقش کو تخلیقی صورت بخش
دی۔ اس تخلیق کو قائم رکھنے کے لئے کائنات کا تکوینی نظام قائم ہوا اور اس نظام کو
چلانے کے لئے تمام مخلوق میں سے آدم کو اللہ کے نائب کی حیثیت سے چنا گیا اور
اسمائے الٰہیہ کے علوم عطا کئے گئے۔ حضرت شہباز قلندرؒ ایک مشین کے پاس روح کو لے
گئے۔ فرمایا اس مشین کی انرجی اسمائے الٰہیہ کی تجلیات ہیں۔ عالم تکوین میں اسمائے
الٰہیہ کے دریا موجود ہیں۔ ہر اسم الٰہی کی اپنی ایک مخصوص قوت ہے۔ اس قوت کو جب
کسی نظام میں فیڈ کیا جاتا ہے تو نظام اس کی قوت سے مخصوص حرکت کرتا ہے، یہ نور
نظام میں خاص پائپ کے ذریعے لایا جاتا ہے۔ پھر آپؒ نے یہ تمام سسٹم دکھایا۔ جیسے
ہی ایک نظام میں یا یوں کہہ لیجئے کہ ایک کمپیوٹر میں اسمائے الٰہیہ کا نور داخل
ہوا اسکرین پر ایک خاکہ بن گیا۔ فرمایا یہ نقش عالم لاہوت کی تخلیق ہے۔ میں نے کہا
یہ تو ہم کمپیوٹر اسکرین پر دیکھ رہے ہیں۔ کہنے لگے۔ یہ کمپیوٹر اللہ تعالیٰ کے
ارادے کے خاکے کو تخلیقی صورت میں تبدیل کرتا ہے جو اس کمپیوٹر میں ڈالا گیا ہے۔
وہ نور اسم اللہ کی تجلی ہے۔ اس تجلی کے ذریعے عالم لاہوت کے نقوش اسکرین پر دیکھے
جاتے ہیں۔ یہ نقوش تجلی میں ہمیشہ سے موجود تھے۔ وہ ‘‘لا’’ کی تجلیاں کہلاتی ہیں۔
جب یہ تجلیاں اس کمپیوٹر میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ تو اسکرین پر یہ خاکے اور نقوش
ڈسپلے ہو جاتے ہیں۔ بغیر اس اسکرین کے ‘‘لا’’ کی تجلیوں کے یہ نقوش نہیں دیکھے جا
سکتے۔ یہ تمام نقوش عالم لاہوت ہے جو ذات کی تجلیوں کا عالم ہے۔ فرمایا اے بنت
رسولﷺ! انسان جس کو تخیل، تصور اور خیال جانتا ہے وہ سب کا سب عالم غیب کی تخلیق
کے مختلف مدارج ہیں۔ جن کو ‘‘کن’’ کے بعد مظاہرا ہوا ہے۔ اسے روح کی آنکھ اور
انسان کی قوت القاء مشاہدہ کر سکتی ہے۔ قوت القاء ذہن میں وہ قوت ہے جس کے ذریعے
مشیت ایزدی کے اسرار و رموز مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں۔ قوت القاء تجلی ذات کا شعور
ہے۔ ‘‘لا’’ کی تجلیوں میں اللہ تالیٰ کے اسرار اس کے ذاتی علوم کی حیثیت سے موجود
ہیں۔ ذات باری تعالیٰ کے ارادے سے یہ علوم بصورت تجلی اس اسکرین پر نقش اول کی
حیثیت سے نازل ہوتے ہیں۔ یہی نقوش تقدیر مبرم کہلاتے ہیں۔ یہ نقوش عالم لاہوت کے
نقوش ہیں۔ ان کی حرکات اللہ تعالیٰ کے ارادے سے ہے۔ جب یہ نقوش حرکت میں آ جاتے
ہیں تو یہ ہی نقوش ارواح کہلاتی ہیں۔ اہل تکوین اس کمپیوٹر کے ذریعے ان حرکات کو
کنٹرول کرتے ہیں اور…………ان کا ریکارڈ قائم کرتے ہیں۔ یہی ریکارڈ انسان (مخلوق) کی
زندگیاں کہلاتی ہیں۔ یہ ارواح اللہ تعالیٰ کے حکم و امر پر ایک عالم سے دوسرے عالم
میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اس کمپیوٹر کے ذریعے ان سے رابطہ رکھا جاتا ہے۔ یعنی
کمپیوٹر کے ذریعے روحوں کے حواس کا ریکارڈ و اندراج رکھا جاتا ہے اور انہیں حواس
کے درجات کے مطابق انہیں مختلف عالمین میں بھیجا جاتا ہے۔ میں نے پوچھا۔ حواس بنتے
کیسے ہیں؟ فرمایا۔ کمپیوٹر کے ذریعے اسمائے الٰہیہ کا نور روحوں میں فیڈ کیا جاتا
ہے۔ جس سے روح کے حواس اور احساس کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ حواس کا ہر درجہ ایک عالم ہے۔
جیسے عالم ناسوت مادی حواس کا زون ہے۔ جب روح کے حواس اس درجہ میں پہنچ جاتے ہیں
تو وہ روح دنیا میں کسی نہ کسی مخلوق کی صورت میں پیدا ہو جاتی ہے۔ روح کائنات کے
کسی بھی زون میں پہنچ جائے مگر ہر صورت میں اس کا رابطہ اس کمپیوٹر کے ساتھ قائم
رہتا ہے۔ یہ کمپیوٹر روم ہی عالم امر کا اسٹیشن ہے جہاں سے کائنات کی تمام حرکات
کو کنٹرول کیا جاتا ہے اور اس کمپیوٹر کو انسان اللہ تعالیٰ کے نائب اور خلیفہ کی
حیثیت سے استعمال کرتے ہیں۔ میں نے کہا۔ حضرت یہ تو بالکل دنیا والی بات ہے کہ
وہاں بھی انسان ایجادات کر رہا ہے اور ان ایجادات کو استعمال کر رہا ہے۔ یہ
کمپیوٹر انسان کی ایجاد ہے۔ جو عالم امر کا نشریاتی اسٹیشن ہے۔ پھر اصل عالم امر
کیا ہے؟ میرے سوال پر حضرت شہباز قلندرؒ نے مجھے گہری نظر سے دیکھا پھر میرا ہاتھ
پکڑا۔ سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی کو سامنے کیا۔ آپ نے اپنا ہاتھ پورے کا پورا میرے ہاتھ
پر پھیلا دیا۔ آپ کے ہاتھ سے کرنٹ نکل کر میرے ہاتھ میں جذب ہو گیا۔ جب آپ نے اپنا
ہاتھ ہٹایا تو میری ہتھیلی پر تجلی کے خوشنما نقوش تھے۔ جیسے ہاتھ کی لکیریں
ہتھیلی پر ہوتی ہیں۔ پھر سرگوشی نما آواز میں فرمایا۔
اے
بنت رسولﷺ! اصل عالم امر یہ ہے۔ میں نے ہتھیلی کے ان نقوش میں اپنی نظریں گاڑھ
دیں۔ نظر کے سامنے سے حجابات اٹھتے گئے اور ازل کی وہ پہلی تجلی ایک فلیش کی طرح
سامنے آ گئی۔ روح کی زبان سے بیساختہ نکلا۔ بلا شبہ آپ ہی ہمارے رب ہیں اور روح
سجدہ شکر میں گر پڑی۔ کچھ دیر بعد اٹھی تو حضرت کا بصد ادب و احترام شکریہ ادا
کیا۔ حضرت نے فرمایا۔ اصل عالم امر اللہ تعالیٰ کے حکم کن کی تجلیات ہیں۔ حکم کن
کی تجلیات کا ہر یونٹ امر ربی یا روح ہے۔ حکم کن کی تمام تجلیات کا مرکز عالم
لاہوت ہے۔ جس کا ایک رخ اللہ تعالیٰ کی تجلیات ہیں۔ دوسرا رخ اللہ تعالیٰ کی
تجلیات کی حرکت یعنی اس کا امر ہے۔ امر متشکل ہے مگر تجلیات غیر متشکل ہے۔ غیر
متشکل تجلیات اسمائے الٰہیہ ہیں۔ متشکل نقوش ارواح ہیں۔ عالم لاہوت کے نقوش اللہ
تعالیٰ کے اسرار و مشیت کا احاطہ کرتے ہیں۔ اہل تکوین مشیت ایزدی کے اسرار کے علوم
جان کر اللہ تعالیٰ کے ارادے و رضا کے مطابق کائناتی نظام کو کنٹرول کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسمائے الٰہیہ کے علوم عطا فرمائے ہیں۔ یعنی کائنات کے
فارمولوں کے علوم۔ عالم لاہوت کا ہر نقش یا روح کائنات کے فارمولے ہیں۔ جو اسمائے
الٰہیہ کی تجلیات کا ڈسپلے ہیں۔ مشیت ایزدی کے رموز سے واقف انسان اللہ کے نائب کی
حیثیت سے ان فارمولوں کے ذریعے کائناتی امور پر کام کرتا ہے۔ میں نے کہا کہ پھر اس
کا مطلب یہ ہوا کہ یہ کمپیوٹر جو اس روم میں ہیں۔ یہ تمام کمپیوٹر اللہ کے نائب
آدم کی ایجاد ہیں۔ پھر آدم کیا ہے؟ فرمایا۔ اس اسکرین پر دیکھئے۔ میں نے اسکرین پر
نظریں گاڑھ دیں۔ اسکرین بالکل صاف تھی کچھ نہ تھا مگر یہ اسکرین خود ہی روشن تھی۔
پھر اس اسکرین پر ایک روشن نقطہ ظاہر ہوا اور اس روشن نقطے نے دیکھتے ہی دیکھتے
بڑا ہونا شروع کیا اور پھر اس روشنی نے آدم کی تصویر اختیار کر لی۔ حضرت نے پوچھا۔
آدم کیا ہے؟ میں نے کہا کہ آدم روشنی کا ایک نقطہ ہے۔ فرمایا۔ روشنی کیا ہے؟ میں
نے کہا۔ روشنی تو پہلے سے موجود تھی۔ یہ اسکرین اسی طرح روشن تھا۔ اس نقطے نے یہ
روشنی جذب کر لی اور آدم کی صورت اختیار کر لی۔ فرمایا اب اس اسکرین پر دیکھئے۔
آدم کیا ہے؟ میں نے آدم کے خاکے پر نگاہیں جما دیں۔ اس پورے خاکے کے اندر ساری
کائنات دکھائی دی۔ اس کائنات کا قیام اسکرین پر موجود روشنی کے اوپر تھا۔ آدم کا
خاکہ ایسا لگا جیسے کسی ملک کی حدود ہوتی ہے مگر یہ خاکہ پوری کائنات کا خاکہ لگا۔
فرمایا۔
اے بنت رسولﷺ! اسکرین پر پھیلی روشنی اللہ کی ذات کی تجلی ہے۔ جو ہمیشہ سے اسی طرح
تھی اور ہے اور اس تجلی کا ایک علم کائنات ہے جو لامحدودیت کا ایک نقطہ ہے۔ جیسا
کہ آپ نے دیکھ لیا۔ لامحدودیت کا یہ نقطہ ہی پوری کائنات ہے۔ اس نقطے کا شعور آدم
ہے۔ پس جان لیجئے کہ آدم کے شعور کو لامحدودیت سے فیڈنگ ہو رہی ہے۔ اسی فیڈنگ کے
نتیجے میں آدم کی ذات یعنی کائنات قائم ہے۔ اللہ کی تجلیات پر کائنات کے وجود کا
انحصار ہے۔ جیسے بجلی یا الیکٹریسٹی نہ ہو تو الیکٹرک سے چلنے والی ہر شئے ساکت و
بیکار ہو کر رہ جائے۔ آدم کو اللہ نے تخلیقی فارمولوں کے علوم عطا کئے ہیں۔ اسمائے
الٰہیہ کے نور آدم کی صلاحیت ہے۔ ان صلاحیتوں کے استعمال سے آدم نے ایسی مشینیں
ایجاد کی ہیں۔ جن کے ذریعے سے وہ کائناتی نظام میں اللہ تعالیٰ کے نائب کی حیثیت
سے کام کر رہا ہے۔ دنیا کی کوئی شئے ایسی نہیں ہے جس کا وجود تجلی کے اس اسکرین پر
نہ ہو۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ آدم زاد کے دماغ میں فیڈ کئے جانے والے ایسے
فارمولوں کی روشنیاں اسی اسکرین سے یا عالم سے گزر کر فیڈ ہوتی ہیں۔ آپ نے دکھایا
کہ اسکرین پر دنیا کا زون آ گیا اور اس زون سے ایک آدم کی تصویر کو اسکرین پر
انلارج کیا گیا اور پھر اس کے اندر روشنیاں فیڈ کی گئیں۔ میں نے کہا یہ تمام چیزیں
اور افعال و حرکات سب ایک ہی جیسی ہیں۔ پھر غلطی کہاں ہوتی ہے؟ فرمایا۔ اصل ذات سے
غفلت آدم کو بقا کی بجائے فنا کے راستے پر لے جاتی ہے میں نے دیکھا۔ روح اللہ اکبر
کہہ کر سجدے میں گر پڑی۔
سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی
‘‘زندگی
جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’
یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔ میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔
میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔ روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔
دعا گو:
سیدہ
سعیدہ خاتون عظیمی
تاریخ:
01-09-94