Topics

ہمارے بچے 1

نانی ہوتے ہیں ان کے اوپر بھی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ بچوں کی تربیت میں ماں باپ کی رہنمائی کرتے ہیں، ان کی مدد کرتے ہیں۔

میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ درپیش ہوا۔ میری والدہ صاحبہ تھیں، میرے والد صاحب تھے اور میری دادی اماں تھیں۔ گھر میں بہن بھائیوں کے ساتھ تین بڑے تھے۔ ایک آپا جی، ایک ابا جی اور ایک میری دادی اماں۔ ان تینوں کی توجہ اور تربیت سے آہستہ آہستہ میرا شعور بڑا ہوا۔ مجھے علم حاصل ہوا، مجھے عقل آئی۔ میری تربیت میں میری دادی اماں کا بہت زیادہ حصہ ہے۔ دادی اماں مجھے کہانیاں بہت سناتی تھیں۔ ان کہانیوں میں وہ ایسی باتیں سناتی تھیں جن سے مجھے اچھائی اور برائی کا شعور حاصل ہوا۔ میری دادی اماں ایک تو مجھے کہانیاں بہت سناتی تھیں اور دوسرے انہیں طرح طرح کے حلوے پکانے کا بہت شوق تھا۔ وہ طرح طرح کے حلوے پکا کر کھلاتیں۔ اس وقت میری عمر کوئی چھ سات سال تھی۔ چھ سات سال کی عمر کی باتیں سب ہی بچوں کو یاد رہتی ہیں۔ مجھے بھی یاد ہیں۔ دادی اماں جب کہانی سناتیں تو ایک بات کہانی سے پہلے ضرور کہا کرتیں:

’’ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، خدا کا بنایا رسولﷺ بادشاہ۔‘‘

ان کے ایسا کہنے سے پہلے بات تو ذہن میں یہی آتی تھی کہ ہمارا اصل بادشاہ ہمارا اصل مالک اللہ ہے۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔ خدا کا بنایا رسولﷺ بادشاہ یعنی اللہ کے بعد اگر کوئی بڑی ہستی ہے تو وہ رسول اللہﷺ کی ہستی ہے۔ ہر بچے کا پہلا اسکول اس کا گھر ہوتا ہے۔ اگر والدین بچوں کی تعلیم و تربیت میں دلچسپی نہ لیں اور زیادہ سنجیدگی سے اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں تو بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت نہیں ہوتی۔ اس ہی وجہ سے بچوں کی اصل شناخت ان کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ ماں باپ اپنے بچوں کو جیسی بھی تعلیم و تربیت دیتے ہیں بچہ اسی کے مطابق بن جاتا ہے۔ جس طرح اسکول میں استاد، کالج میں پروفیسر صاحبان ہمیں دنیاوی علوم سے آراستہ کرتے ہیں۔ اس طرح ہمارے بزرگ اولیاء اللہ بھی ہمیں روحانی علوم سکھاتے ہیں۔ میرے بھی روحانی استاد ہیں۔ روحانی علوم سکھانے والے استاد کو مرشد کہتے ہیں۔

میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے ایک دفعہ یہ واقعہ سنایا تھا کہ:

’’ہندوستان میں ایک ڈاکو تھا۔ اس کا نام سلطانہ ڈاکو تھا۔ سلطانہ ڈاکو کا نام اتنا مشہور ہوا کہ اس پر فلمیں بنیں، کتابیں اور کہانیاں لکھی گئیں۔ جب وہ پکڑا گیا تو اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی۔ قانون یہ ہے کہ جب کسی کو سزائے موت سنا دی جاتی ہے تو اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی جاتی ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس کو پورا کرے۔ تو جب سلطانہ ڈاکو سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ اس وقت جب مجھے تختہ دار پر کھڑا کر دیا جائے میں اپنی اماں کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ جب اسے تختہ دار پر کھڑا کر دیا گیا اور اس کی ماں سامنے لائی گئی تو ماں رونے لگی۔ جب سلطانہ ڈاکو نے ماں کو زور زور سے روتے دیکھا تو اس نے کہا۔ ماں میں نے آپ کو اس ہی لئے بلایا تھا کہ آپ میرا آخری انجام دیکھ لیں اور میں آپ سے یہ بھی کہنا چاہتا تھا کہ میرے اس برے انجام کی ذمہ دار آپ ہیں کیونکہ جب میں چھوٹا سا تھا تو پڑوس سے میں ایک انڈا چرا کر لایا تھا اور آپ نے وہ انڈہ پکا کر مجھے کھلا دیا تھا۔ اگر آپ اس روز مجھے وہ انڈا پکا کر نہ کھلاتیں اور انڈا واپس کروا دیتیں تو نہ میں سلطانہ ڈاکو بنتا اور نہ آج آپ کو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹے کو پھانسی لگتے دیکھنا پڑتا۔

اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ جس طرح ماں باپ یہ چاہتے ہیں کہ اولاد ان کا ادب اور احترام کرے اسی طرح ماں باپ کا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ وہ اولاد کو کوئی ایسی بات نہ سکھائیں جو آگے چل کر اولاد کے لئے پریشانی اور مصیبت کا سبب بن جائے۔ کوئی بچہ اس وقت تک بڑا نہیں ہو سکتا، جب تک والدین اس کی دیکھ بھال نہ کریں، اس سے محبت نہ کریں اور اس کی ضروریات کی کفالت نہ کریں۔ جس طرح انسانوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی نگہداشت کریں، اس کی تربیت کریں، اسی طرح اولاد کے لئے بھی ضروری ہے کہ جب انہیں ادب اور احترام کرنا سکھا دیا جائے تو اپنے والدین اور بزرگوں کا پورا پورا ادب کریں۔

میرے ایک دوست حبیب بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ میرا ان کے یہاں آنا جانا تھا۔ ایک روز میں ان کی والدہ صاحبہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بہت خوبصورت خاتون تھیں۔ پھول جیسا معصوم چہرہ تھا۔ ان کی آنکھیں شفقت کی قندیل تھیں، ہاتھوں میں رعشہ تھا یعنی ان کے ہاتھ کانپتے رہتے تھے۔ انہوں نے پیکڈالنے کے لئے اگالدان اٹھایا تو وہ ان کے ہاتھ سے گر گیا۔ اس وقت میرے دوست سامنے بیٹھے تھے، کرسی پر جھولے لے رہے تھے۔ وہاں ان کی بیگم صاحبہ بھی موجود تھیں، بہنیں بھی تھیں، نوکر چاکر بھی تھے۔ میں نے دیکھا کہ میرے دوست تیزی سے آئے اور انہوں نے اپنے ہاتھوں میں سارا تھوک وغیرہ اٹھایا، اگالدان میں ڈالا پھر جلدی سے باتھ روم میں گئے وہاں سے ٹشو پیپر، اسفنج اور پانی لے کر آئے، پہلے اپنی اماں کا ٹشو پیپر سے منہ صاف کیا، پھر پانی سے منہ دھلوایا تولیے سے خشک کیا اور اس کے بعد قالین صاف کیا۔ میں بڑا حیران ہوا کہ یہاں اتنے نوکر ہیں، ان کی بیٹیاں اور بہنیں بھی بیٹھی ہیں اور دوسرے لوگ بھی ہیں۔ میرے دوست اتنے بڑے افسر تھے۔ حبیب بینک کی کئی سو برانچوں کی نگرانی اور دیکھ بھال کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ پھر بھی یہ سارا کام انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے کیا۔ میں نے ان کی بہن سے پوچھا:

’’کیا اماں کے سارے کام آپ کے بھائی کرتے ہیں؟‘‘

ان کی بہن نے بتایا کہ:

’’اماں کے سارے کام وہ خود کرتے ہیں۔‘‘

میں نے جب ان کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ تعلیمی لحاظ سے وہ صرف بی کام تھے۔ بینک میں ملازم ہوئے، ایک بینک سے دوسرے بینک گئے اور ترقی کرتے کرتے اللہ نے انہیں اتنی عزت بخشی کہ حبیب بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر بن گئے۔

میرے تجربے میں ایسے بے شمار واقعات ہیں جس کسی نے بھی اپنے ماں باپ کی خدمت کی ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں ضرور عزت بخشی ہے۔ آج تک ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ بچوں نے اپنے ماں باپ کی خدمت کی ہو، اپنے والدین کی عزت کی ہو اور ان کا احترام کیا ہو اور وہ دینی اور دنیاوی اعتبار سے پیچھے رہ گئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ضرور ہی ایسے وسائل فراہم کر دیتا ہے کہ وہ دنیا میں عزت دار بھی ہوئے اور بڑے بھی بنے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہر اعتبار سے نوازتا ہے۔ مالی اعتبار سے بھی، علمی طور پر بھی اور عزت و وقار کے حوالے سے بھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے والدین کا احترام کریں۔ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتے ہیں:

’’اپنے والدین کا احترام کرو۔ جب تم کسی قابل نہیں تھے تو تمہارے سارے کام تمہاری ماں کرتی تھی۔ ماں بچے کو دودھ پلا کر اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ بیٹھ سکے، اٹھ سکے، بھاگ دوڑ سکے، جب تم چھوٹے سے تھے، خود سے کروٹ بھی لے نہیں سکتے تھے اور پیشاب سے گیلے ہو جاتے تھے تو تمہاری ماں تمہیں سوکھے پر سلاتی تھی اور خود گیلے بستر پر سو جاتی تھی۔‘‘

ایک بار میری والدہ صاحبہ جن کو ہم بہن بھائی آپا جی کہتے تھے، مجھے ایک واقعہ سنایا۔ وہ واقعہ میں آپ کو سناتا ہوں:

’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تشریف لے جایا کرتے تھے وہاں پر وہ اللہ سے باتیں کیا کرتے تھے، جب ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر گئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ نے کہا:

’’اے موسیٰ! اب سنبھل کے آنا۔‘‘

حضرت موسیٰ علیہ السلام گھبرا گئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کیوں کہا کہ سنبل کے آنا۔ اس پر اللہ میاں نے فرمایا:

’’جب تم کوہ طور پر ہم سے باتیں کرنے کے لئے آتے تھے تو تمہاری ماں سجدے میں گر جاتی تھی اور ہم سے دعا کرتی تھی کہ اے اللہ! میرا بیٹا بڑا کمزور ہے اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے یا کوئی بھول چوک ہو جائے تو اسے معاف کر دینا اور ہم تمہاری ماں کی دعاؤں کی وجہ سے تمہاری کمزوری اور بھول چوک کو نظر انداز کر دیا کرتے تھے، لیکن اب وہ دنیا سے رخصت ہو گئی ہیں، اب تم کو خود سنبھل کر آنا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب تمہارے ماں باپ بوڑھے ہو جائیں، ضعیف ہو جائیں تو تم ان کے سامنے اونچی آواز سے بات نہ کرو، انہیں اُف تک بھی نہ کہو کیونکہ انہوں نے تمہیں کھلایا ہے، اچھا لباس پہنایا ہے۔ تمہاری تعلیم و تربیت کی ہے۔ تمہیں دنیا میں رہنے کے قابل بنانے کی کوشش کرتے رہے، بچے اپنے ابا کے کاندوں پر بیٹھ کر جوان ہوتے ہیں۔ ہمارے مذہب اسلام میں حکم ہے کہ اگر آپ نماز پڑھ رہے ہوں اور آپ کی بوڑھی والدہ کسی ضرورت سے آپ کو آواز دے تو آپ نماز توڑ کر ان کے پاس جائیں، ان کا کام کریں اور واپس آ کر نماز پڑھیں۔ نماز ایک ایسا عمل ہے جس میں بندے کا اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ حکم دے رہے ہیں کہ بوڑھی ماں کی بات پہلے سنو اور اس کی خدمت کرو۔ اپنی ماں کا حکم ماننے والے بچوں کو اللہ تعالیٰ پیار کرتے ہیں اور فرشتے اور دنیا والے ان کی عزت کرتے ہیں۔

آپ نے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا نام ضرور سنا ہو گا۔ آپ بہت بڑے روحانی بزرگ ہیں۔ لوگ انہیں غوث پاکؒ کے نام سے جانتے ہیں۔ انہیں گیارہویں والے پیرصاحب بھی کہا جاتا ہے۔ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار میں وزیر حضوری ہیں۔ اگر کسی نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملنا ہوتا ہے تو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ہی کے ذریعے درخواست پیش ہوتی ہے۔ ان کے بچپن کے دو واقعات ایسے ہیں جو ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں۔

جب آپ چھوٹے تھے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ ایک بار آپ کی والدہ محترمہ نے رات کو انہیں آواز دی اور پانی مانگا۔ آپ اٹھے، جا کر دیکھا تو گھڑا خالی تھا۔ اس زمانے میں گھر گھر نل اور پائپ تو ہوتے نہیں تھے۔ پانی کنوؤں سے نکال کر استعمال کیا جاتا تھا۔ کنویں بھی ہر گھر میں نہیں تھے۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے گھڑا اٹھایا اور پانی لینے کنویں پر چلے گئے۔ وہاں سے پانی لے کر آئے۔ کٹورے میں پانی بھر کر والدہ صاحبہ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ والدہ صاحبہ سو گئی ہیں۔ ان کے دل میں اپنی والدہ کا اتنا ادب اور احترام تھا کہ انہوں نے ان کی نیند خراب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ پانی کا کٹورا لئے وہیں والدہ صاحبہ کے سرہانے کھڑے رہے اور انتظار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ جب ان کی والدہ صاحبہ کی آنکھ کھلی اور انہوں نے اپنے بیٹے کو اپنے سرہانے کھڑا دیکھا تو بہت حیران ہوئیں۔ جب یاد آیا کہ رات سونے سے پہلے انہوں نے پانی مانگا تھا اور بیٹا ساری رات پانی کا کٹورا لئے سرہانے کھڑا رہا تو انہیں اپنے بیٹے پر بہت پیار آیا۔ انہیں سینے سے لگا کر خوب پیار کیا اور دعائیں دیں کہ اے اللہ تو اس نیک اور سعادت مند بیٹے کو بہت بڑا آدمی بنا دے۔ ماں کے دل سے نکلی ہوئی دعا نے بڑے پیر صاحبؒ کو ان لوگوں میں شامل کر دیا جن کے نام صدیوں بعد بھی عزت اور احترام سے لئے جاتے ہیں۔ یوں تو ہر ماں ہی اپنے بچوں کے لئے دعا کرتی ہے۔ ہر ماں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد بڑا آدمی بنے، لیکن جب اولاد اپنے ماں باپ کا ادب کرتی ہے، ان سے احترام سے پیش آتی ہے تو اس دعا میں گہرائی پیدا ہو جاتی ہے اور جو دعا دل سے نکلتی ہے اللہ تعالیٰ اس کو ضرور قبول فرما لیتے ہیں۔

 

 

 

 

 

 

پیارے بچو!

یاد رکھو کہ جو بچے اپنے ماں باپ کی خدمت کرتے ہیں، اپنے ماں باپ کا کہنا مانتے ہیں، اپنے ماں باپ کا ادب کرتے ہیں۔ وہ اس دنیا میں بھی خوشحال رہتے ہیں اور جب دوسری دنیا میں چلے جائیں گے تو ماں کی خدمت کے صلے میں انہیں وہاں بھی آسانیاں اور آسائشیں نصیب ہونگی۔

ادب کرنا، احترام سے پیش آنا ایسا عمل ہے جس کا فائدہ اسی کو ملتا ہے جو ادب کرتا ہے۔ جس کا ادب کیا جاتا ہے اس کا بھلا کیا فائدہ ہوتا ہے۔ دیکھیں! بڑے پیر صاحبؒ اپنی والدہ کا ادب کرتے تھے تو اس کا فائدہ انہیں کو ہوا۔ ان کی والدہ نے ان کی تربیت فرمائی، انہیں جو کچھ کرنے کو کہا انہوں نے اپنی والدہ کے احترام میں ویسا ہی کیا تو اس کا فائدہ بھی ان ہی کو پہنچا۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ جب اتنے بڑے ہو گئے کہ علم حاصل کرنے کے لئے دوسرے شہر جا سکیں تو انہوں نے ماں سے بغداد جانے کی اجازت چاہی۔ ان کی والدہ نے ان کو کچھ اشرفیاں دیں کیونکہ پردیس میں اخراجات کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔ اس زمانے میں سفر کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ کاریں، ریل، ہوائی جہاز نہیں تھے، لوگ پیدل یا گھوڑوں پر سوار ہو کر سفر کیا کرتے تھے۔ اور پھر راستے میں ڈاکو بھی لوٹ لیا کرتے تھے۔ اس لئے ان کی والدہ نے وہ اشرفیاں ان کی قمیض کے اندر چھپا کر سی دیں۔ جب وہ رخصت ہو رہے تھے تو ان کی والدہ نے انہیں نصیحت کی کہ بیٹے کبھی جھوٹ نہیں بولنا، ہمیشہ سچ بولنا۔ آپ نے اس نصیحت کو پلے باندھ لیا اور ایک قافلے میں شامل ہو کر سفر پر روانہ ہو گئے۔ راستے میں قافلے پر ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا، سب مسافروں کو لوٹ لیا۔ جس کے پاس جو کچھ تھا وہ چھین لیا۔ ایک ڈاکو نے عبدالقادرؒ سے پوچھا:

’’اے لڑکے! تیرے پاس کچھ ہے؟‘‘

آپؒ نے جواب دیا کہ:

’’ہاں! میرے پاس چالیس اشرفیاں ہیں۔‘‘

ڈاکو بہت حیران ہوا۔ اس نے پوچھا:

’’تیرے پاس یہ اشرفیاں کہاں ہیں؟‘‘

انہوں نے بتایا کہ:

’’میری قمیض میں چھپائی ہوئی ہیں۔‘‘

ڈاکو انہیں سردار کے پاس لے گیا اور کہنے لگا کہ:

’’سردار! یہ لڑکا کہتا ہے کہ اس کے پاس چالیس اشرفیاں ہیں جو اس کی قمیض میں ہیں۔‘‘

سردار نے قمیض اتروا کر سلائی اُدھیڑ کر دیکھا تو اشرفیاں موجود تھیں۔ اس نے کہا:

’’تم بھی عجیب بیوقوف لڑکے ہو۔ اگر تم نہ بتاتے کہ تمہارے پاس اشرفیاں ہیں تو یہ اشرفیاں بچ جاتیں۔‘‘

اس پر آپؒ نے کہا:

اگراشرفیاں بچ بھی جاتیں تو میں نہ بچتا۔‘‘

ڈاکوؤں کے سردار نے حیران ہو کر دریافت کیا:

’’کیا مطلب ہے؟‘‘

آپ نے کہا:

’’میری اماں نے مجھے نصیحت کی تھی کہ بیٹا کبھی جھوٹ نہ بولنا۔ جب تمہارے ساتھی نے مجھ سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ مال ہے تو میں نے سچ سچ بتا دیا۔‘‘

ڈاکوؤں کے سردار کے دل پر اس بات کا بہت اثر ہوا۔ اس کو خیال آیا کہ یہ چھوٹا سا لڑکا اپنی ماں کی کہی ہوئی بات پر عمل کرنے میں اتنا پکا ہے کہ بات ماننے میں جو نقصان ہو رہا ہے اسے اس کی بھی پرواہ نہیں۔ حالانکہ یہاں اس وقت اس کی ماں موجود بھی نہیں اور ایک میں ہوں کہ اتنا نافرمان ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جس کام سے منع کیا ہے میں وہی کیئے جا رہا ہوں۔ اس نے حکم دیا کہ:

’’اس قافلے کے سب مسافروں کا سارا سامان واپس کر دو۔‘‘

اس نے آئندہ کے لئے توبہ کر لی اور ڈاکے مارنا چھوڑ دیئے۔ یہ بہت مشہور واقعہ ہے۔ آپ نے پہلے بھی پڑھا ہو گا، اس پر غور کریں کہ کونسی ماں ہے جو اپنے بچہ کو یہ کہتی ہے کہ جھوٹ بولنا اچھی بات ہے۔ سب ہی مائیں اپنے بچوں سے کہتی ہیں کہ جھوٹ بولنا بری بات ہے۔

 

پیارے بچو!

ہمیں ہمیشہ سچ بولنا چاہئے۔ لیکن اس نصیحت کا فائدہ سب نہیں اٹھاتے۔ صرف وہی اٹھاتے ہیں جو اپنی ماں کی بات مانتے ہیں۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی والدہ نے ان کی تربیت کی، انہوں نے اس تربیت کو قبول کیا۔ اپنی والدہ کی کہی ہوئی بات پر عمل کیا تو وہ اتنے بڑے بزرگ بن گئے کہ ان کے ہاتھ پر ڈاکو نیک آدمی بن گئے۔

 

پیارے بچو!

بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان کی حیثیت کوئلے جیسی ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ استاد کا ادب کرتے ہیں، ان سے علم سیکھتے ہیں تو استاد انہیں کوئلے سے ہیرا بنا دیتا ہے۔ اس بات کو یوں سمجھیں کہ دو دوست ہیں، ایک دوست کو استاد نہیں ملا اور دوسرے دوست کو استاد مل گیا۔ جس کو استاد مل گیا اس نے استاد سے علم حاصل کیا، اسکول، کالج یا یونیورسٹی جا کر پڑھنا لکھنا سیکھا۔ میٹرک کیا، ایف اے، بی اے اور ایم اے کیا۔ اساتذہ نے بھی محنت کی، شاگرد نے ان کا ادب اور احترام کیا۔ انہوں نے جو کچھ اسے سکھایا اس نے دل لگا کر سیکھا۔ اب آپ یہ بتائیں کہ ان دونوں بچوں میں سے عزت کس کو ملے گی؟ ادب اور احترام کا مطلب یہ نہیں کہ استاد کے سامنے صرف ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں۔ یہ ظاہری طور پر ادب تو ہے لیکن اصل ادب و احترام یہ ہے کہ استاد جو بتائے اس کو یاد رکھیں۔ اس پر عمل کریں۔ جس بات سے استاد منع کر دے اس سے منع ہو جائیں۔ اسے نہ کریں۔ جس بچے کو استاد نہیں ملا یا وہ اسکول اور کالج نہیں گیا۔ وہ بے شک محنت اور مزدوری کر کے پیٹ بھر لے گا۔ اس کی شادی بھی ہو جائے گی، اس کے بچے بھی ہو جائیں گے لیکن جو عزت اور توقیر اس بچے کو ملے گی جو استاد کے پاس بیٹھ گیا، جس نے استاد کا ادب و احترام کیا وہ جاہل بچے کو نصیب نہیں ہو گی۔

ہم اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں تو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ ہم روٹی کھائیں، کپڑا پہنیں، گھر بنائیں، جوان ہوں، شادی کر لیں، ہمارے بچے ہوں تو ان کو کھانا کھلائیں، پانی پلائیں، پال پوس کر ان کو جوان کریں، خود بوڑھے ہو جائیں اور مر جائیں لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ زندگی ہمیں حیوانات میں بھی ملتی ہے مثلاً ایک بکری ہے یا ایک گائے ہے۔ کھانا تو وہ بھی کھاتی ہے، اس کے بچے بھی ہوتے ہیں۔ جس طرح ایک آدمی زندہ رہتا ہے گائے بھی زندہ رہتی ہے۔ کبوتر کو دیکھو وہ اُڑ سکتا ہے لیکن جو فضیلت اللہ پاک نے انسان کو دی ہے وہ اس کبوتر کو حاصل نہیں ہے۔ چڑیا بھی گھر بناتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ چڑیا چھوٹے چھوٹے تنکے جمع کرتی ہے، ان تنکوں سے اپنا گھر بناتی ہے، انسان بھی گھر بناتا ہے، لیکن انسان کو صرف یہی کچھ کرنے کے لئے دنیا میں نہیں بھیجا گیا۔ انسان کو دنیا میں اس لئے بھیجا گیا ہے کہ وہ کتے، بلی اور دوسرے جانوروں سے ممتاز ہو کر عزت و آبرو سے زندگی بسر کریں۔

آپ سوال کریں گے کہ انسان ایسا کس طرح کر سکتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ علم حاصل کر کے انسان افضل ہو جاتا ہے۔ علم حاصل کرنے کی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کو ہی عطا کی ہے۔ جب ہم اپنی پیدائش کے سلسلے کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہم اماں ابا کی بات کرتے ہیں۔ پھر دادا و دادی، نانا و نانی کا تذکرہ آتا ہے۔ پھر ان کے اماں ابا اور یوں یہ سلسلہ چلتے چلتے بات آدم تک پہنچ جاتی ہے۔

جب اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو پیدا کیا تو ان کو علم سکھا دیا، ایسا علم جو فرشتوں کو بھی نہیں آتا۔ یعنی آدمؑ کو جو علم اللہ تعالیٰ نے عطا کر دیا اس کے باعث وہ سب مخلوق میں سے ممتاز ہو گیا۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے علم سکھانے کے لئے آدم کا انتخاب کر لیا تو انسان کی بنیاد علم ہو گئی۔ اگر انسان علم حاصل نہیں کرتا تو وہ جانوروں سے بہتر اور ممتاز نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں اس دنیا میں اس لئے بھیجا ہے کہ ہم نئے نئے علوم سیکھیں۔ آج دنیا میں جتنے لوگ دوسروں سے ممتاز اور عزت والے ہیں انہوں نے نئے نئے علوم سیکھے ہیں اور علم سیکھنے کے بعد نئی نئی ایجادات کی ہیں۔ مثلاً ٹیلی فون، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر وغیرہ۔

دنیا میں جتنے بھی پیغمبر آئے وہ سب آپ بچوں ہی کی طرح آئے۔ سب ایک ہی طرح پیدا ہوئے۔ بچپن میں بچوں کی طرح معصوم اور پیاری پیاری حرکتیں کیں، اپنے ہمجولی بچوں کے ساتھ رہے۔ لیکن ان سب کو اللہ تعالیٰ نے یہی فضیلت عطا کی کہ انہوں نے بہت سا علم سیکھا حضور نبی کریمﷺ نے بھی بچپن کا دور گزارا۔ وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے، کشتی بھی لڑتے تھے، کبڈی بھی کھیلتے تھے اور ساتھ ساتھ علم بھی سیکھتے حضورﷺ نے ہم مسلمانوں کو قرآن پاک جیسی عظیم کتاب دی۔ اس قرآن کو ہم علم کے سوا اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے انﷺ کو علم سکھایا اور انہوں نے وہ علم ہمارے واسطے اس لئے چھوڑا کہ حضورﷺ یہ چاہتے ہیں کہ تمام نوع انسانی اور ان پر ایمان لانے والے بچے یہ علم سیکھیں۔

اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو جو علوم سکھائے ہیں ان میں پہلی بات یہ بتائی ہے کہ تم مخلوق ہو اور تمہارا پیدا کرنے والا، تمہیں بڑا کرنے اور پالنے والا صرف میں ہوں اور تمہیں میرے دیئے ہوئے اختیارات کو استعمال کر کے وہ کام کرنا ہونگے جن کا میں تمہیں حکم دوں گا۔ جب آدم کو پیدا کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے جنات اور فرشتوں کو ایک جگہ جمع کر کے کہا:

’’میں دنیا میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘

نائب کا مطلب ہے کہ دنیا میں ایسا بندہ بنانے والا ہوں جو دنیا میں میرے اختیار استعمال کرے جیسے میں خالق ہوں اور تخلیق کرتا ہوں، اسی طرح آدم بھی میرے بنائے ہوئے وسائل سے نئی نئی چیزیں بنائے۔ قرآن حکیم کی سورہ بقرہ میں ہے کہ یہ بات سن کر فرشتوں نے اللہ میاں سے کہا آپ جو آدم کو اپنا نائب بنا رہے ہیں تو یہ زمین میں خون ریزی کرے گا، فساد برپا کرے گا اور اس سے دنیا میں بڑی پریشانی پھیل جائے گی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جنات اور فرشتوں سے کہا جو علم ہم نے آدم کو سکھا دیا ہے تم اس علم کو نہیں جانتے اور فرشتوں اور جنات کو اطمینان دلانے کے لئے آدم سے کہا:

’’اے آدم! جو کچھ میں نے تم کو سکھایا ہے وہ ان کے سامنے بیان کرو۔‘‘

آدم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جب جنات اور فرشتوں کے سامنے بیان کیا تو فرشتوں نے کہا:

’’بے شک آپ سچے ہیں۔ یہ علم جو آپ نے آدم کو سکھایا ہے ہمیں نہیں آتا اور انہوں نے آدم کی اطاعت اور فرمانبرداری کا اظہار کرنے کے لئے آدم کو سجدہ کیا لیکن جنات میں سے ایک گروہ کو یہ بات بہت بری لگی اور وہ حسد کا شکار ہو گئے کہ انہیں یہ علم کیوں نہیں آتا۔ وہ حسد میں اندھے ہو گئے اور اکڑ کر کہنے لگے، ہم آدم کی حاکمیت کو قبول نہیں کرتے۔ ان کی اس بات کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند کیا اور انہیں دھتکار دیا۔ جنات کا یہ گروہ عزازیل کہلاتا ہے۔ جب انہوں نے اکڑ دکھائی، خدا کی نافرمانی کی اور شیطانی کام کرنے لگے تو ان کا نام شیطان پڑ گیا۔

یہ بالکل ایسی بات ہے کہ ایک بچے کو استاد ضرب تقسیم سکھا دے۔ بچہ ضرب تقسیم سیکھ جائے اور استاد جماعت کے باقی بچوں کے سامنے کہے کہ یہ بچہ کلاس کا مانیٹر ہو گا۔ اس پر بچے کہیں کہ یہ بہت شرارتی اور نٹ کھٹ بچہ ہے۔ یہ کلاس کا مانیٹر نہیں بن سکتا۔ اس پر استاد کہے کہ دیکھو بچو! بات یہ ہے کہ اس بچے کو پہاڑے یاد ہیں، یہ ضرب تقسیم کر سکتا ہے۔ اس لئے میں نے اسے مانیٹر بنا دیا ہے۔ اس کے بعد کلاس کے باقی بچوں کی تسلی کے لئے استاد اس بچے سے کہے کہ تم ضرب تقسیم کر کے بتاؤ تا کہ انہیں معلوم ہو جائے کہ تم ریاضی کے سوال حل کر سکتے ہو۔ بچہ اپنے ساتھی ہم جماعت بچوں کے سامنے تختہ سیاہ(بلیک بورڈ) پر چند ایک سوال حل کر کے دکھا دے اور کلاس کے سب بچے اس کا مانیٹر مان لیں لیکن ایک دو بچے جو خود مانیٹر بننا چاہتے ہوں ان کو یہ بات بری لگے اور وہ اپنے استاد کے سامنے گستاخی سے کہ دیں کہ آپ نے اس کو مانیٹر بنایا ہے۔ یہ تو ہمارا حق تھا۔ آپ نے ہمیں کیوں مانیٹر نہیں بنایا، ہم اس کی قابلیت یا حاکمیت تسلیم نہیں کرتے تو ظاہر ہے استاد کو ان کی یہ گستاخی بری لگے گی اور وہ انہیں سزا دینے کے لئے کلاس سے باہر نکال دیں گے۔ اگر تو وہ اچھے بچوں ہوں گے تو معافی مانگ لیں گے ورنہ کلاس سے باہر جا کر شرارتیں کرنے اور کھیل کود میں لگ جائیں گے۔

آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے علم سکھا دیا اور سمجھا دیا کہ آدم اور آدم کی ساری اولاد مخلوق ہے اور اس کو پیدا کرنے والا خالق اللہ ہے۔ اس وقت دنیا میں چھ ارب انسان آباد ہیں۔ ان چھ ارب انسانوں نے دو سو کے لگ بھگ حکومتیں بنا رکھی ہیں۔ ان دو سو کے قریب حکومتوں اور اسمبلیوں سے وابستہ چھ ارب انسانوں میں ایک بھی ایسا آدمی نہیں ہے جو یہ کہتا ہو کہ میں مخلوق نہیں۔ ہر آدمی یہ ہی کہتا ہے کہ میں مخلوق ہوں۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدم کے علم سے چھ ارب انسان واقف ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ لوگوں نے اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کیلئے اپنی بڑائی قائم کرنے کے لئے فرعون، نمرود، شداد بننے کے لئے خود کو تکبر اور بڑائی کے جال میں گرفتار کر لیا۔ جو بھی ایسا انسان ہے وہ دنیا میں فساد برپا کرنے والا ہے۔ فساد برپا کرنے والا آدمی اللہ کی مخلوق کے حقوق پورے نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔

 

پیارے نونہالوں!

آپ نے شداد کا نام ضرور سنا ہو گا۔ وہی شداد جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور اپنے ماننے والوں کے لئے جنت بنائی۔ ایک روز وہ گھر سے نکلا، معمولی سے کپڑے پہنے اور پہاڑوں میں ایک غار میں جا کر بیٹھ گیا۔ وہاں اس نے اللہ سے دعا کی۔ یعنی شداد کو خدائی کا دعویٰ کرنے کے باوجود اس بات کا علم تھا کہ وہ مخلوق ہے اور اس دنیا کا خالق اور اصل مالک اللہ ہی ہے۔ لیکن اپنی نمائش اور غرور میں وہ خدا بن بیٹھا تھا۔ اس نے اللہ سے دعا کی کہ اللہ میاں میں چاہتا ہوں کہ میری موت اس طرح آئے جس طرح میں چاہتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے کہا۔ ٹھیک ہے تم کس طرح مرنا چاہتے ہو۔

اس نے کہا نہ میں لیٹا ہوا ہوں، نہ میں بیٹھا ہوا ہوں، نہ میں کھڑا ہوں، نہ میں چل رہا ہوں، نہ میں کھانا کھاتا ہوں، نہ میں پانی پیتا ہوں، نہ میں گھر کے اندر ہوں، نہ میں گھر کے باہر ہوں، نہ میں چھت کے نیچے ہوں، نہ میں آسمان کے نیچے ہوں، نہ میں سواری پر ہوں، نہ میں پیدل ہوں۔

مقصدیہ کہ اس نے زندگی کی جتنی بھی حرکات و سکنات تھیں وہ گنوا دیں اور کہا کہ اس طرح سے میری موت آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بات مان لی اور کہا ٹھیک ہے۔جس طرح سے تم چاہتے ہو اسی طرح سے تمہیں موت آ جائے گی۔ وہ خوش ہو گیا کہ اب مجھے مرنا تو ہے نہیں کیونکہ اللہ نے میری دعا قبول کر لی ہے اور جب مجھے مرنا ہی نہیں تو کیوں نہ میں خدا بن جاؤں۔ لہٰذا اس نے خدائی کا دعویٰ کر دیا اور اعلان کیا کہ وہ ایک جنت بنائے گا جہاں وہ ان لوگوں کو رکھے گا جو اس کو خدا مانیں گے۔

مختصر یہ کہ جب جنت تیار ہو گئی تو اس کے انجینئروں نے کہا کہ جناب آپ کی جنت ہم نے تیار کر دی ہے، آپ آ کر ملاحظہ فرما لیں۔ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر جنت دیکھنے پہنچا۔ جب گھوڑے کے اگلے دو پیر جنت کے دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ تو گھوڑا اڑیل ٹٹو بن گیا۔ اب صورت حال یہ تھی کہ شداد نہ دروازے کے اندر تھا نہ باہر۔ دروازے کی چوکھٹ اس کے سر کے عین اوپر تھی، نہ چھت تھی نہ آسمان۔ اس نے بہت زور لگایا لیکن گھوڑا ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس نے گھوڑے کو بہت مارا پیٹا اس کی دم مروڑی، کان کھینچے سب ہی کچھ کیا لیکن گھوڑا اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ جب اس کی لگام پکڑ کر اس کو کھینچا جانے لگا تو وہ اگلی ٹانگیں اٹھا کر پچھلی دو ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا۔ اب شداد گھبرایا کہ کہیں وہ نیچے نہ گر جائے۔ اگر وہ نیچے گر گیا تو دیکھنے والے کیا کہیں گے کہ ان کا خدا گھوڑے سے گر گیا ہے۔ اس نے اسی حالت میں گھوڑے سے اترنے کی کوشش کی اس کے غلام نے اس کو اترنے میں مدد دینے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ اب شداد کا ایک پاؤں غلام کے ہاتھ پر تھا اور دوسرا رکاب میں تھا۔ عین اس ہی لمحے اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو حکم دیا کہ اس کی جان نکال لے۔

 

میری آنکھوں کی روشنی میرے بچو!

آپ یہ دیکھیں کہ شداد نے بڑی چالاکی کی تھی، اللہ تعالیٰ سے اپنی باتیں منوا کر وہ سمجھ رہا تھا کہ اب ملک الموت اسے نہیں پکڑ سکے گا لیکن اللہ تعالیٰ اتنے بڑے ہیں کہ ان سے کوئی چالاکی کر کے بچ نہیں سکتا۔ انہوں نے اسے ایسی جگہ پکڑا جب وہ نہ لیٹا ہوا تھا نہ بیٹھا ہوا تھا نہ چل رہا تھا نہ سوار تھا نہ اندر تھا نہ باہر تھا۔نہ اس کے سر پر چھت تھی نہ آسمان، نہ وہ کھا رہا تھا، نہ پی رہا تھا۔ وہ اپنی بنائی ہوئی جنت دیکھنے کا ارمان دل میں لئے ہوئے نامراد مر گیا۔ ملک الموت جب شداد کو اس کے مقررہ وقت پر ٹھکانے لگا چکے تو ان کے دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اتنا نوازا اس کی اتنی باتیں مانیں اگر وہ جنت دیکھ لیتا تو اتنا مایوس نہ مرتا۔۔۔۔۔۔

حضرت عزرائیلؑ بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کیا، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور ان کے جناب میں عرض کیا کہ:

’’اے اللہ! آپ اتنے بڑے ہیں کہ آپ کی بڑائی بیان بھی نہیں کی جا سکتی۔ اگر یہ شداد جنت دیکھ کر مر جاتا تو آپ کا کوئی حرج تو ہونا نہیں تھا۔ اپنی مٹی گارے سے بنی ہوئی جنت دیکھ لیتا تو آپ کی خدائی میں رائی کے برابر بھی فرق نہ پڑتا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’اے عزرائیل! تم جانتے ہو یہ شخص کون ہے؟‘‘

حضرت عزرائیل نے عرض کیا:

’’یا اللہ ہمیں تو اتنا ہی پتہ ہے جتنا آپ ہمیں بتا دیتے ہیں۔ ہم اس سے زیادہ نہیں جانتے تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اچھا تو اب تم زمین کی طرف دیکھو، حضرت عزرائیل نے عرش سے زمین کی طرف دیکھا تو برسوں پرانا واقعہ ان کے سامنے آ گیا۔

انہوں نے دیکھا کہ ایک سمندر ہے، سمندر کے بیچوں بیچ ایک جہاز سمندری قزاقوں کے نرغے میں آیا ہوا ہے۔ ڈاکو جہاز کو لوٹنے کے لئے اس پر حملہ کر رہے ہیں، مارکٹائی ہو رہی ہے۔ بچے، عورتیں، بوڑھے قتل ہو رہے ہیں۔ جہاز میں ہنگامہ، آہ و فغاں اور شور شرابہ مچا ہوا ہے۔ اس دوران جہاز میں سوراخ ہو گیا۔ اس میں پانی بھر گیا۔ جہاز ڈوب گیا۔ اس میں موجود تمام لوگ غرق ہو گئے۔ اس جہاز میں ایک تین چار ماہ کا نوزائیدہ بچہ بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت سے کہا کہ اس بچے کو نہ مارنا۔ اس وقت بھی حضرت عزرائیل بہت حیران ہوئے تھے کہ چہار سو پانی ہے، سمندر کی اونچی اونچی لہریں ہیں، طوفان ہیں، بڑی بڑی آدم خور مچھلیاں ہیں اور دوسرے جانور ہیں، نہ کھانے کا کوئی انتظام ہے، نہ پینے کا پانی ہے۔ یہ تین چار مہینے کا نازک سا بچہ کس طرح زندہ رہے گا؟ بہرحال حضرت عزرائیل نے اللہ کے حکم کے تحت اس بچے کو لکڑی کے ایک تختے پر ڈال دیا پھر اس کا کیا بنا، اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت عزرائیل سے دریافت کیا کہ کیا تم جانتے ہو یہ بچہ کون ہے؟ اس پر عزرائیل نے عرض کی کہ آپ ہی ارشاد فرمائیں گے تو مجھے معلوم ہو گا۔ میں اسے نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا یہ بچہ ہی وہ شداد تھا جس نے جنت بنائی۔ یہ وہی بچہ تھا جس کو تم نے لکڑی کے تختے پر بے یار و مددگار چھوڑا تھا۔ اب تم اندازہ کرو کہ ہم نے کس طرح اس کی حفاظت کی، اس کی پرورش کی، اس کو وسائل فراہم کئے۔ اس کو زمین میں بادشاہت عطا کی اس نے کیسی چالاکی سے دعا مانگی کہ جس طرح میں چاہوں اس طرح میری موت آئے اور پھر ہم سے ہی بغاوت کر کے خدا بن بیٹھا۔ ہم نے اسے دکھا دیا۔۔۔۔۔۔مخلوق مخلوق ہی رہتی ہے، خالق نہیں بن سکتی، خدا نہیں بن سکتی۔

اسی طرح آپ نے نمرود کا نام بھی سنا ہو گا۔ اس نے بھی خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کے دور میں بارش بند ہو گئی، زمین پر قحط پڑ گیا، تو اس کی ر


Hamarey Bachey (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

پیارے بچو!

اس سے پہلے میں نے جو کچھ بھی لکھا، لکھتے ہوئے میرے سامنے عموماً بڑے ہوا کرتے تھے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ میں نے جو کچھ لکھا اسے بچے نہیں پڑھ سکتے۔ اس کو بلاشبہ بچے بڑے سب ہی پڑھتے ہیں لیکن بچوں کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے اور آج میں آپ کی دنیا کا مہمان بن کر آپ سے مخاطب ہوں۔