Topics

حضرت ادریس علیہ السلام


یونانی زبان میں طر میس، عبرانی میں حنوک اور قرآن کریم میں ادریس ؑ نام ہے۔حضرت ادریسؑ حضرت آدمؑ کی چھٹی پشت میں حضرت نوحؑ کے پردادا ہیں۔ تمدن اور معاشرت کے قوانین آپ ہی نے وضع کئے ہیں۔

حضرت ادریس ؑ کے نام، نسب اور زمانہ کےمتعلقین مورخین میں اختلاف ہے۔ کتاب ِ مقدس (پرانا اور نیا عہد نامہ) میں حضرت ادریسؑ کا نسب نامہ اس ترتیب سے بیان ہوا ہے۔ حنوک (ادریس ) بن یارد بن مہلائل بن قینان بن انوش بن شیث ؑ بن آدمؑ۔

مورخین کی ایک جماعت اس بات کی حامی ہے کہ ادریسؑ اور الیاسؑ ایک ہی ہستی کے دو نام ہیں۔

قرآن کریم  میں حضرت ادریسؑ کی نبوت اور صفات کے حوالے سے صرف دو جگہ تذکرہ کیا گیا ہے۔

’’اور ذکر کر کتاب میں ادریسؑ کا، وہ تھا سچا نبی اور ہم نے اٹھا لیا اس کو ایک اونچے مکان  پر۔‘‘(سورۃ مریم)

اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل یہ سب ہمارے( صبر)والے اور لے لیا ہم نے ان کو اسی رحمت میں ،وہ ہیں نیک بختوں میں ۔"(سورۃ الانبیاء)

حضرت ادریس کو جب اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز کیا اور انہوں نے گمراہ قوم کو ہدایت و تبلیغ شروع کی تو سوائے ایک مختصر سی جماعت کے علاوہ پوری قوم نے آپ ؑ کی مخالف  شروع کردی لیکن آپؑ نے باطل کی تکذیب اور حق کا پرچار جاری رکھا۔

مفسدین اور منکرین کی ریشہ دوانیاں جب حد سے بڑھ گئیں تو آپؑ نے اپنے حامیوں کے ساتھ مصر کی طرف ہجرت کی۔ دریائے نیل کے کنارے ایک سرسبز و شاداب خطہ دیکھ کر حضرت ادریس ؑ نے اپنی جماعت سے فرمایا:’’یہ مقام تمہارے بابل کی طرح سرسبز و شاداب ہے۔‘‘ حضرت ادریسؑ نے اس جگہ کو ’’بابلیون‘‘ کا نام دیا اور ایک بہترین جگہ منتخب کر کے نیل کے کنارے بس گئے۔ حضرت ادریسؑ کے اس جملہ ’’بابلیون‘‘ نے ایسی شہرت پائی کہ عرب کے علاوہ دوسرے قدیم اقوام کے لوگ اس سرزمین کو بابلیون ہی  کہنے لگے،  البتہ عرب مورخین نے اس کا نام مبصر بتایا ہے اور اس کی وجہ تسمیہ یہ بتائی کہ طوفان نوح کے بعد یہ مصر بن حام کی نسل کا مسکن بنا۔

کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں 72 زبانیں بولی جاتی تھیں۔ حضرت ادریس تمام زبانوں پر عبور کھتے تھے اور ہر جماعت کو اسی زبان میں تبلیغ فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ادریس ؑ نے دین الٰہی کے پیغام کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے اور بود و باش کے متمدن طریقوں کی  بھی  تعلیم و  تلقین  کی  اور اس کے لئے انہوں نے مختلف طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو جمع کیا اوران کو تمدن کے اصول و قواعد سکھائے۔جب یہ طلباء کامل و ماہریں ن بن کر اپنے قبائل کی طرف گئے تو انہوں نے  شہر اور بستیاں آباد کیں  جن کو مدنی اصول (Town Planning) پر بسایا، ان شہروں کی تعداد کم و بیش دو سو(200) تھی۔ جن میں سب سے چھوٹا شہر ’’رہا‘‘ تھا۔ حضرت ادریس ؑ نے ان طلباء کو دوسرے علوم کی تعلیم بھی دی۔علم نجوم، علم ریاضی، فن کتابت، ٹیلرنگ، ناپ تول کے اوزان، اسلحہ سازی کی ابتداء  حضرت ادریس ؑ  سے منسوب کی جاتی ہے۔

حضرت ادریس ؑ   نے جو قواعد و ضوابط اور قوانین وضع کئے وہ اس زمانے کے تمام طبقہ ہائے فکر کے لئے قبول تھے۔کرہء ارض پر موجود آبادی کو انتظام و انصرام کے غرض سے چار حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصے کے لئے ایک حاکم مقرر فرمایا اور اس جغرافیائی تقسیم کی بنیاد پر قوانین وضع کئے۔

حضرت ادریس ؑ   نے جو شریعت پیش کی اس کا خلاصہ یہ ہے :

۱۔ پرستش کے لائق ہستی وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔

۲۔ نیک اعمال سکون آشنا زندگی سے ہمکنار کرتے ہیں۔

۳۔ مادی دنیا اور اس سے تعلق رکھنے والی ہر شئے عارضی اور فنا ہونے والی ہے۔

۴۔ عدل و انصاف اور قانون کی پاسداری سے معاشرہ سے منفی طرزیں ختم ہوجاتی ہیں۔

۵۔ شرعی احکام  پر غوروفکر کے ساتھ عملدرآمد سے بہترین نتائج مرتب ہوتے ہیں۔

۶۔ حرام سے دل زنگ آلود ہوجاتے ہیں اس سے اجتناب کرنا چاہیئے۔

۷۔ طہارت و پاکیزگی کا اہتمام ایمان کا حصہ ہے۔

۸۔ ایام بیض (ہر قمری ماہ کی ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ تاریخ) کے روزے رکھنا اور زکوٰۃ دینا باطنی پاکیزگی اور مال و دولت کی محبت سے نجات کے لئے بہترین عمل ہے۔

۹۔حضرت ادریس ؑ نے اپنی امت کے لئے سال میں چند دن عید کیلئے مقرر فرمائے اور مخصوص اوقات میں نذر اور قربانی دینا فرض قرار دیا۔

 شہروں میں سڑکوں کا جال بچھایا، کاروبار کے لئے مارکیٹیں بنوائیں، کھیل کود کے میدان (Play ground) بنوائے، مکانات اور دوسری عمارتوں کو نقشے کے مطابق بنانے کی پلاننگ کی۔

حضرت ادریس ؑ نے اپنی امت کو یہ بھی بتایا کہ میری طرح اس عالم کی دینی اور دنیاوی اصلاح کے لئے بہت سے انبیاء تشریف لائیں گے ان انبیاء کی خصوصیات یہ ہوں گی:

۱۔ وہ ہر ایک برائی سے پاک ہوں گے۔

۲۔ قابل ستائش اورفضائل میں کامل ہوں گے ۔

۳۔ زمین و آسمان کے احوال سے واقف ہوں گے۔

۴۔ امراض کے لئے شفا بخش دواؤں سے واقف ہوں گے۔

۵۔ کوئی سائل ان کے پاس جاکر تشنہ نہیں رہے گا۔

۶۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں قبول فرمائیں گے، ان کی دعوت اصلاح کے لئے ہوگی۔

حضرت ادریس ؑ نے علم و عمل کے اعتبار سے نوع انسانی کو تین طبقات میں تقسیم کیا۔ علما،بادشاہ، رعیت ۔حسب ترتیب ان کے مراتب مقرر فرمائے،علما کو پہلا اور بلند درجہ دیا گیا، اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے نفس کے علاوہ بادشاہ اور رعایا کے معاملات میں بھی جواب دہ ہیں۔ بادشاہ کو دوسرے درجے پر رکھا گیا کہ وہ اپنے نفس اور امور مملکت کا جواب دہ ہے۔ رعایا چونکہ صرف اپنے نفس کے لئے جواب دہ ہے اس لئے وہ تیسرے طبقے میں شامل کی گئی۔ لیکن یہ طبقات نسل و خاندانی امتیازات کے لحاظ سے نہیں تھے۔

حضرت ادریسؑ کےسراپا سے متعلق روایت ہے  گندم گوں  رنگ، مناسب قد، روپ خوشنما خوبصورت  و خوبروم رنگ و روپ اورچہرہ میں ملاحت، مضبوط بازو ،چوڑا اور بھرا ہو اسینہ، سرمگیں چمکدار آنکھیں، گفتگو باوقار، سنجیدہ اور متین شخصیت ، چلتے ہوئے نظر نیچی رکھتے تھے۔تفکر آپ کا شعار تھا۔

حضرت ادریسؑ جب بیاسی(82) سال کے ہوئے تو اللہ نے اس دنیا سے اٹھالیا۔روایت کی جاتی ہے کہ ان کی انگھوٹھی پر یہ عبارت کندہ تھی:

’’اللہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ صبر فتح مندی کی علامت ہے‘‘۔

کمر سے باندھنے والے پٹکے پر تحریر تھا:

’’حقیقی عیدیں اللہ تعالیٰ کے فرائض کی حفاظت میں مخفی ہیں 

اور دین کا کمال شریعت سے وابستہ ہے ۔‘‘

نماز جنازہ کے وقت جو پٹکہ باندھتے تھے اس پرجب حسب ذیل جملے تحریر تھے:

’’سعادت مند و ہ ہے جو اپنے نفس کی نگرانی کرتا ہے اللہ کے سامنے انسان کے شفیع اس کے اپنے  نیک اعمال ہیں‘‘۔

حضرت ادریس ؑ کی بیان کردہ حکمت اور ان کے علوم  کو سامنے رکھ کر  تفکر کیا جائے یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ اللہ کی تفویض کردہ امانت یعنی خلافت و نیابت سے متعلق علوم اور ان علوم کے ذریعے کائنات  میں تصرف کرکے موجودات کو تسخیر کا اختیار صرف انسان کو حاصل ہے۔ اللہ نے بحیثیت خالق اپے بندوں کو ایسا علم عطا کیا ہے کہ ان کے اندر تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہوگئی ہیں۔ آدم زاد ان صلاحیتوں کے استعمال سے اللہ کی مخلوق  کو فائدہ بھی پہنچا سکتا ہےاور اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے مخلوق پر عرصہ ء حیات تنگ بھی کر دیتا ہے۔ صلاحیتوں کے استعمال سے سامنے آنی والی تخلیق طرز فکر کی عکاسی کرتی ہے۔

طرز فکر اگر مثبت ہے اور انبیاء کرام اور ان کے وارث اولیاء اللہ کی طرزفکر سے ہم آہنگ ہے تو اس سے  جو بھی عمل صادر ہوتا ہے، جو بھی نئی تخلیق سامنے آتی ہے وہ نوعِ انسانی اور دیگر مخلوق کے لئے سکون، آرام، راحت اور خوشی کا باعث ہوتی ہےاور طرز فکر اگر محدوددائرے میں قید ہے، ذاتی منفعت اور انفرادی اغراض کے خول میں بند ہے تو تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کسی بھی طرح نوع انسانی کے اجتماعی مفاد میں نہیں ہے کیوں کہ صلاحیتوں کا استعمال صرف اور صرف اس لئے ہے کہ کسی ایک فرد یا مخصوص گروہ کی اجارہ داری قائم کرکے اپنی ہی نوع کے افرادکو محکوم بنادیا جائے۔ اس لئے طرز فکر کے زیر اثر منظر عام پر آنے والی تخلیقات اور نئی نئی ایجادات بجائے سکون و آرام کے نوع انسانی کے لئے ادبار بن جاتی ہے۔

انبیاء کرامؑ چونکہ  طرز فکر  کے حامل ہوتے ہیں جس میں  یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ ہے، کسی چیز کا رشتہ براہ راست ہم سے نہیں بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ  اللہ کی معرفت قائم ہے۔ لہذاٰ  ان  کی سوچ لامحدود وسعت کی حامل  ہوتی ہے اور اللہ کےان  فرستادہ بندوں سے اللہ کے عطا کردہ اختیارات کے تحت جو تخلیقات ظہور میں آتی ہیں ان سے اللہ کی مخلوق کی فلاح کا سامان میسر آتا ہے۔کیوں کہ وہ مظاہر کے پس پردہ کام کرنے والی حقیقت سے باخبر ہوتے ہیں اور حقیقت میں ذہنی  انتشار نہیں ہوتا ۔ حقیقت کے اوپر غم اور خوف کے سائے نہیں منڈلاتے۔حقیقی دنیا سے متعارف بندے ہمیشہ پرسکون رہتے ہیں۔

راسخ فی العلم برگزیدہ  ہستیوں کےدیئے ہوئے سسٹم  اور تعلیمات پر  عمل  پیرا ہونے سے نوع انسانی سکون آشنا زندگی سے ہمکنا ر ہو جاتی ہے۔

اللہ کریم نے قرآن پاک میں سورہ بقرۃ کہ پہلی آیتوں میں فرمایاہے کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو متقی ہیں اور متقی وہ لوگ ہیں جو غیب پر یقین رکھتے ہیں۔غیب پر یقین رکھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ مشاہداتی نظر کے حامل ہوں۔ان کے اندر وہ نظر کام کرتی ہو جو غیب بین ہے۔ جب تک انسان کے اندر مشاہداتی نظر کام نہیں کرے گی اس کے لئے کائنات تسخیر نہیں ہوگی۔

تسخیر یہ بھی ہے کہ زمین ایک قاعدہ اور ضابطہ کے تحت ہمیں رزق فراہم کررہی ہے۔ ہم زمین پر  مکان بناتے ہیں تو زمین مکان بنانے میں حارج نہیں ہوتی۔ زمین اتنی سنگلاخ اور سخت جان نہیں بن جاتی کہ ہم اس میں کھیتیاں نہ اگاسکیں ،اتنی نرم نہیں بن جاتی کہ ہم زمین کے اوپر چلیں تو ہمارے پیر دھنس جائیں۔سورج اور چاند ہماری خدمت گزاری میں مصروف ہیں ایک قاعدے اور ضابطے میں اپنی  ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں جو ان کے اوپر فرض کردی گئی ہے۔ چاند کی چاندنی سے پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے اور سورج کی گرمی سے میو ے پکتے ہیں۔ الغرض کائنات کا ہر جزواپنا اپنا کردار ادا کررہا ہے اور اس عمل سے ہمیں اختیاری اور غیر اختیاری فائدہ پہنچ رہا ہے۔

 ایک  تسخیر یہ ہے کہ  آپ اپنے اختیار کے تحت زمین سے ، سمندر سے، دریاؤں سے ، ، پہاڑوں سے، چاند سے، سورج سے اور دیگر اجزائے کائنات سے  کام لے سکیں ۔۔۔اور اعلیٰ تسخیر یہ ہے کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام انگلی سے اشارہ کردیں  تو چاند دو ٹکڑے ہوجائے۔ حضرت عمرفاروقؓ دریائے نیل کوپیغام بھیج دیں " ’’اگر تو اللہ کے حکم سے چل رہا ہے تو سرکشی سے باز آجا ورنہ عمر کا کوڑا تیرے لئے کافی ہے‘‘۔ دریائے نیل کی روانی میں کبھی تعطل واقع نہ ہو۔

 ایک شخص نے حضرت عمر ؓ سے شکایت کی’’یا امیر المؤمنینؓ! میں زمین پر محنت کرتا ہوں، بیج ڈالتا ہوں اور جو کچھ زمین کی ضروریات ہیں انہیں پورا کرتا ہوں لیکن بیج سوکھ جاتا ہےمیں بہت پریشان ہوں۔‘‘

حضرت عمر ؓ ؓ نے فرمایا جب میرا اس طرف سے گزر ہوتو بتانا۔ حضرت عمر ؓ جب ادھر سے گزرے تو ان صاحب نے زمین کی نشاندہی کی۔حضرت عمر ؓ تشریف لے گئے اور زمین پر کوڑا مار کر فرمایا  کہ تو اللہ کے بندے کی محنت ضائع کرتی ہے جبکہ وہ تیری ساری ضروریات پوری کرتا ہے اوراس کے بعد زمین لہلہاتے کھیت میں تبدیل ہوگئی۔

 ہم یہ جانتے ہیں کہ  یہ ساری کائنات اللہ نے انسان کے لئے تخلیق کی ہے۔ کائنات کے تمام اجزا بشمول انسان اور انسان کے اندر کام کرنے والی تمام صلاحیتیں ایک بنیاد اور ایک  مرکزیت پر قائم ہیں۔

آئیے!انسان کے اندر کام کرنے والی صلاحیتوں کا سراغ لگائیں۔

روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہمارے تصورات اور احساسات گوشت پوست کے ڈھانچے کے تابع نہیں ہیں بلکہ روح کے تابع ہیں۔ اللہ  کے ارشاد کے مطابق روح کا علم قلیل دیا گیا ہے مگر لامحدود کا قلیل جزو بھی لامحدود ہوتا ہے۔ روح لامحدود علم ہے۔قلیل لا محدود علم جاننے  والے حضرات نے اس علم کو سمجھنے کے لئے اس کی درجہ بندی کی ہے اور چند  فارمولے بنائے ہیں اور ان فارمولوں سے اپنے شاگردوں کو روشناس کیا ہے۔

روشناسی سے منکشف ہوتا ہے کہ دو صورتیں ایسی ہیں جس کا تجربہ لازمی طور پر ہر انسان کو حاصل ہے۔ ایک تجربہ جو زندگی کے ہر دوسرے قدم پر اسے حاصل ہے وہ سونے کی حالت یعنی نیند ہے۔ انسانی زندگی دو رخوں میں سفر کرتی ہے ایک بیداری اور دوسرا رخ نیند ہے۔جس طرح انسان سونے پر مجبور ہے اسی طرح بیداری بھی اس کی  بڑی مجبوری ہے۔ وہ ان دونوں حالتوں میں سے کسی ایک حالت پر قائم نہیں رہتا۔ زندگی کا سفر ان ہی دو حالتوں میں جاری ہے۔ بیداری کی حالت میں کوئی آدمی اپنی زندگی کے سارے تقاضے اور ساری حرکات و سکنات، واردات و کیفیات، توہمات، خیالات، تصورات، احساسات کا رشتہ گوشت پوست کے جسم سے قائم کرتا ہے اور ان سب کو گوشت پوست کے جسم کے تابع تصور کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس سونے کی حالت میں اس کا رشتہ گوشت پوست کے جسم سے غیر شعوری رہ جاتا ہے۔گہری نیند میں اس کا ذہنی ربط اور تعلق جسم انسانی سے وہ نہیں رہتا جو بیداری میں ہوتا ہے لیکن وہ زندہ رہتا ہے۔ سانس کی آمد و شد برقرار رہتی ہے۔ دوسرے تجربے میں جو انسان پر وارد ہوتی ہے وہ موت ہے جب تک جسم سے روح کا تعلق رہتا ہے جسمانی حرکات و سکنات قائم رہتی ہیں اور جب یہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے جسمانی حرکات و سکنات ختم ہو جاتی ہیں۔

زندگی کے سارے تقاضے دراصل روح میں موجود ہیں اور روح سے شعور میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ زندگی کے تمام تقاضوں  کی بنیاد روح ہے۔ روح ان تقاضون کے مادی خدوخال میں مظاہرے کیلئے اپنا ایک میڈیم (Medium) بناتی ہے اس میڈیم کی مادی بنیاد اور ابتدائی حالت کو ہم کروموسوم کا نام دے سکتے ہیں۔قرآن پاک میںمذکور ہے کہ:’’ہم نے اس میں اپنی روح ڈال دی۔‘‘  یعنی روح نے اپنے لئے ایک میڈیم بنا لیا اور اس میڈیم کو حواس منتقل کر کے متحرک کر دیا۔ روح مادی جسم کو ایک اور درمیانی ایجنسی کے ذریعے حواس منتقل کرتی ہے۔ اس ایجنسی کو جسم مثالی کہتے ہیں۔ روح جو اطلاعات جسم کو دینا چاہتی ہے وہ اطلاعات اور تقاضے جسم مثالی وصول کرتا ہے اور ان تقاضوں کے اثرات گوشت پوست کے جسم پر مرتب ہوتے ہیں۔جسم مثالی انسان کے مادی جسم کے اوپر روشنیوں سے بنے ہوئے ایک لطیف جسم کی صورت میں ہوتا ہے۔ روشنیوں سے بنا ہوا یہ جسم صرف انسان کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ زمین کے اوپر جتنی بھی مخلوق موجود ہے سب اس ہی طرح روشنیوں سے بنے ہوئے جسم کی ذیلی تخلیق ہے اور روشنیوں سے بنا ہوا یہ جسم روح کا تخلیق کردہ ہے۔

اس بات کو ذرا تفصیل سے بیان کیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ انسانی زندگی میں جتنے تقاضے موجود ہیں یہ تقاضے گوشت پوست اوررگ پٹھوں سے مرکب جسم میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ روح ان کی اطلاع جسم مثالی کو دیتی ہے، وہاں سے منتقل ہو کر یہ اطلاع گوشت پوست کے جسم پر ظاہر ہوتی ہے۔اگر کوئی آدمی روٹی کھاتا ہے تو بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ گوشت پوست کا آدمی روٹی کھا رہا ہے لیکن فی الحقیقت جب تک جسم مثالی کے اندر بھوک کا تقاضہ پیدا نہیں ہو گا اور جسم مثالی گوشت پوست کے جسم کو بھوک کا عکس منتقل نہیں کرے گا آدمی روٹی نہیں کھا سکتا۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو سمجھ میں نہ آئے۔ ذرا سے تفکر سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔ 

محدودیت میں بند لامحدود روحانی آنکھ دیکھتی ہے کہ انسان کے اندر گیارہ ہزار صلاحیتیں کام کرتی ہیں اور ہر صلاحیت ایک علم ہے اور یہ علم شاخ در شاخ لامحدود دائروں میں پھیل جاتا ہے۔

 ان گیارہ ہزار بنیادی صلاحیتوں کے استعمال کے لئے یقین کا ہونا بہت ضروری ہے اور یقین کا مطلب یہ ہے کہ یقین کا شعور حاصل ہو۔روح کا ایک پرت ایسا ہے جو انسان کو شک وسوسوں اور بے یقینی سے دور کرتا ہے اور انسان کے اندر صلاحیتوں کو مستحکم کرتا ہے ۔ اگر کسی انسان کی مرکزیت اعلیٰ حواس کی طرف ہے تو اس پر یقین کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جیسے جیسے یقین مستحکم ہوتا ہے غیب کا انکشاف ہوتا رہتا ہے۔ جب آدمی غیب کی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو اس کے اندر یقین کا وہ پیٹرن (Pattern) کھل جاتا ہے جو جانتا ہے کہ مٹی کے ذرات سے بنے ہوئے گوشت پوست کے جسم کی حیثیت عارضی اور فانی ہے۔اس پر یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ مرنے والے آدمی کے جسم کے اوپر جو روشنیوں کا جسم ہے اس نے عارضی اور فنا ہو جانے والے مادی جسم سے رشتہ منقطع کر لیا ہے یعنی مرنے سے مراد یہ ہے کہ مٹی کے ذرات سے بنے ہوئے گوشت پوست کے آدمی کے اوپر موجود روشنیوں کا وہ جسم جو کہ روح اور مادی جسم کے درمیان رابطے کا کام دیتا ہے اس عالم آب و گل سے رشتہ منقطع کر کے عالم رنگ و نور میں منتقل ہو گیا ہے۔

عالم رنگ و نور اور غیب کے پس پردہ دیگر بے شمار عالمین سے واقف ہونے کے لئے اور اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کا استعمال سیکھنے کے لئے انبیاء کی طرز فکر اور ان کے علوم کے حامل ایسے روحانی استاد کی ضرورت ہے جو قدم قدم چلا کر  ہمیں شاگرد کو عرفان ذات سے ہمکنار کر دے۔ 


Hazrat Idrees Aleh Salam (BKLET)

Khwaja Shamsuddin Azeemi


حضرت ادریس ؑ کے نام، نسب اور زمانہ کےمتعلقین مورخین میں اختلاف ہے۔ کتاب ِ مقدس (پرانا اور نیا عہد نامہ) میں حضرت ادریسؑ کا نسب نامہ اس ترتیب سے بیان ہوا ہے۔ حنوک (ادریس ) بن یارد بن مہلائل بن قینان بن انوش بن شیث ؑ بن آدمؑ۔