Topics

حضرت ابراہیم علیہ السلام

 

ابوالانبیاء حضرت ابراہیم ؑ کی ولادت طوفانِ نوح کے درمیان ایک ہزار سال سے کچھ زیادہ کا زمانی فاصلہ شمار کیا جاتا ہے۔ توریت میں حضرت براہیمؑ کا نسب نامہ اس ترتیب سے بیان ہوا ہے۔براہیم ؑبن تارح بن نحور بن سروج بن رعوبن فلج بن ارفکسد بن سام بن نوحؑ۔

مفسرین کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ’’تارح‘‘ کا انتقال حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بچپن میں ہو گیا تھا جو کہ مومن و موحد انسان تھے۔ حضرت ابراہیمؑ کی پرورش ان کے چچا نے جو کہ بت تراش تھے اور آذر انہی کا نام تھا۔ چونکہ عربی میں باپ اور چچا کےلئے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے اس لئے قرآن میں آذر کے لئے "ابیہ" (اس کا بات) لفظ استعمال ہوا ہے۔

لفظ ابراہیم ’’اب‘‘ اور ’’راحم‘‘ سے مرکب ہے جس کے معنی ہیں ’’مہربان باپ‘‘۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت کسدیوں کے قدیم شہر ’’اور‘‘ (UR) میں ہوئی جو جنوبی عراق میں فرات کے کنارے بابل اور نینوا سے پہلے آباد تھا۔اس  محل وقوع کے اعتبار سے یہ مقام آج کل ’’تل ابیب‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔اس وقت بابل ، شام اور مصر میں قبائل سامیہ آباد تھے۔ ان قدیم سامی اقوام کو عاد اور ثمود بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ ان ہی اقوام میں ہدایت اور توحید کے پرچار کےلئے مبعوث کئے گئے تھے۔

بابل مین آباد قوم صابی یعنی ستارہ پرست تھی اور بت پرستی بھی ان کا شیوہ تھا۔سامی قوم کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر ستارہ میں ایک روح آباد ہے اور یہ روحیں نیک یا بد ہوتی ہیں ۔ارواحِ خبیثہ سے متعلق ان کا گمان یہ تھا کہ نذر نیاز، چڑھاوے اور قربانی سے یہ خوش ہوتی ہیں اور کوئینقصان نہیں پہنچاتیں۔ نیک روحوں کو خوش کرکے ان سے مستفیض ہونےکے لئے گانا بجانا اور ارواح کی مدح سرائی کرنا ان اقوام کا معمول تھا۔ انہی باطل عقائد کی بناء پر قوم نے بیسیوں معبود گھڑ لئے تھے اور نظام ِ کائنات کے تحت انجام پذیر ہونے والے اعمال کو ان معبودوں سے منسوب کر رکھا تھا۔ روزی دینے، مینہ برسانے، اولاد دینے، تندرستی عطا کرنے اورمختلف حاجات کےلئے انہوں نے الگ الگک بت تراش رکھے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو نورِ فراست سے نوازا تھا۔ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ بت نہ سن سکتے ہیں، نہ دیکھ سکتے ہیں ، نہ کسی کی پکار کا جواب دے سکتے ہیں، اور نہ نفع نقصان کا ان سے کوئی واسطہ ہے۔ لکڑی کےکھلونوں ، پتھر سے بنی ہوئی دوسری چیزوں اور ان بتوں کے درمیان کوئی فرق ہے نہ کوئی اور بات ان میں امتیاز پیداکرسکتی ہے۔وہ صبح شام دیکھتے تھے کہ ان بے جان مورتیوں کو میرا باپ اپنے ہاتھوں سے بناتا ہے اور جس طرح اس کا جی چاہتا ہے ناک، کان، آنکھیں اور دیگر اعضاء تراش لیتا ہے۔ پھر یہی بت عبادت گاہوں میں سجا دیئے جاتے ہیں جہاں بادشاہ اور دیگر اربابِ اقتدار ان کے سامنے اپنا ماتھا ٹیکتے ہیں اور اپنی حاجتیں ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

حضرت ابراہیم کا حق ومعرفت سے آگاہ ذہن اس بات کی تلاش میں تھا کہ معلوم کریں کہ لوگ ان بے جان پتھر کے بتوں اور لکڑی کے بے حس و حرکت مجسموں کی پرستش کیوں کرتے ہیں۔ایک روز انہوں نے اپنے باپ سے سوال کیا:

’’اے میرے باپ! کیوں پوجتا ہے جو چیز نہ سنے، نہ دیکھے نہ کام آوے تیرے کچھ۔‘‘ 

(سورہ مریم۔ ۴۲)

’’بت تراش آذر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سوال سن کر سراسیمہ گیا جواب کیا دیتا حیرت اور استعجاب سے انہیں دیکھتا رہ گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوبارہ استفسار پر آذر نے  صرف یہ کہا کہ یہ میرے آباؤ اجداد کا راستہ ہے۔ اس جواب سے حضرت ابراہیم ؑ کی تشفی نہیں ہوئی ۔ یہی سوال انہوں نے اور لوگوں سے بھی کیا مگر کوئی فرد واحد بھی اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔

حضرت ابراہیمؑ نے جب بار بار لوگوں سے پوچھا کہ بتاؤ جن کو تم اپنا معبود سمجھتے ہو اور جن کی پرستش کرتے ہو کیا یہ تمہیں کسی بھی قسم کا نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟۔۔تو وہ کہنےلگے کہ ان باتوں میں ہم پڑنا نہیں چاہتے۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا یہی کرتے چلے آئے ہیں لہذا ہم بھی وہی کررہے ہیں۔

 حضرت ابراہیم کے اندر تفکر کا پیٹرن متحرک تھا ۔ انہوں نے سوچا کہ جو شے اپنی مرضی سے حرکت نہیں کر سکتی ، ہل جل  نہیں سکتی اس سے یہ امید وابستہ کرنا کہ یہ مجھے فائدہ پہنچائے گی یا کسی قسم کا نقصان پہنچا نے کا باعث بنے گی، سوائے وقت کے ضیاع کے اور کچھ بھی نہیں۔ حضرت ابراہیم کا حق شناس ذہن اس بات کو قبول کرنے پر تیار نہ تھا کہ یہ بے جان مورتیاں نظام  کائنات میں کوئی عمل دخل رکھتی ہیں۔ جہاں وہ بتوں  کو پرستش کے لائق نہیں سمجھتے تھے وہیں اس بات میں تفکر بھی کرتے تھے کہ اتنی بڑی کائنات کا نظام کیسے چل رہا ہے ؟ہر شےایک قاعدے اور ضابطے کے تحت خود بخود کیسے متحرک ہے ؟کون ہے جو وقت مقررہ پر دن طلوع کر دیتا ہے کون ہے وہ ذات جو دن کے اجالے کو رات کی تاریکی سے بدل دیتی ہے ؟وہ ہستی کون ہے جو درختوں پر پھل پھول کر دیتی ہے؟ بارش برسا دیتی ہے، زمین سے کھیتیاں اگا دیتی ہے۔ ایسی قادر و محیط ذات کون ہو سکتی ہے کہ کائنات کا ہر فرد کائنات کا ہر جزواپنے اپنے افعال اس ترتیب سے انجام دے رہا ہے کہ آپس میں کہیں بھی کوئی ٹکراؤ اور اختلاف واقع نہیں ہوتا ۔حضرت ابراہیم کا تفکر اس بنیاد کو تلاش کر رہا تھا جس پر نظام کائنات متحرک ہے ۔انہیں اس بات کا یقین حاصل ہو گیا کہ ان لکڑی  اور پتھر کے بتوں کے سوا کوئی ذات ایسی ہے جو ان سارے اعمال و افعال کو سنبھالنے کی ذمہ دار ہے۔

 حضرت ابراہیم نے ان بتوں کو خدا ماننے سے انکار کر دیا اور اعلان کیا:

"میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔"(انعام )

بادشاہ اور ارباب اقتدار کے لئے بت تراشنے والے آذر کو جب یہ معلوم ہوا کہ ان بتوں کی تکذیب کرنے والے کا تعلق اس کے گھر سے ہے تو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلایا اور بلا کر پوچھا۔

"حضر ت ابراہیم ؑ  ! کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے؟"

حضرت ابراہیم نے جواب میں کہا:

’’اے میرے باپ! مجھے ایسی بات کا علم حاصل  ہو گیا ہے جس سے متعلق آپ کچھ نہیں جانتے۔ ہدایت و بھلائی کی طرف آیئے اور شیطان کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ دیجئے۔ یہ صریح گمراہی ہے۔

 آذر نے یہ سنا تو غیض و غضب کے عالم میں مخاطب ہوا:

’’ابراہیم میرے معبودوں کا انکار نہ کر یا درکھ! اگر تو ان باتوں سے باز نہیں آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ "

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وحدہ لاشریک کی جانب توجہ دلائی۔

’’میں آپ کے تراشیدہ پتھروں کو اپنا معبود نہیں مان سکتا۔ یہ مجھے فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ میں ان سے کسی قسم کا خوف اور خطرہ محسوس کرتا ہوں۔ اگریہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں تو اپنی حسرت نکال لیں۔البتہ  میں صرف اس ہستی کو معبود مانتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا اور سیدھی راہ دکھائی۔ جو مجھ کو کھلاتا، پلاتا اور رزق دیتا ہے اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے اور جو میری زیست اور موت دونوں کا مالک ہے اور اپنی خطاکاری کے سبب جس سے میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ مجھے بخش دے گا اور میں اس کے حضور میں یہ دعا کرتا رہتا ہوں کہ اے میرے  پروردگار! تو مجھ کوصحیح فیصلے کی قوت عطا کر اور مجھے نیکو کاروں کی صف میں داخل کر۔"

نصیحت و موعظت کے اس موثر اندازِ خطابت کو جو حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے والد اور قوم کے سامنے پیش کیا، سورۃ الشعراء میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ۔

آزذرحضرت ابراہیم علیہ السلام کی جرأت  سے  شدید دھچکا لگا تھا اوروہ غصہ پر کنٹرول حاصل کرنے پر بری طرح ناکام ہوگیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہنے لگا کہ تیری خیر اسی میں ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے مجھ سے دور ہو جا۔یہ سن کرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا:"’’میں اپنے پروردگار سے آپ کی بخشش کی دعا کروں گا وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے، میں آپ کو اور ان بتوں کو جنہیں آپ اللہ کے سواپکارتے ہیں میں چھوڑ تا ہوں  وہ مجھے محروم نہیں رکھے گا۔‘‘ حضرت ابراہیم ؑ نے فرمانبردار بیٹے کی طرح باپ کی بات کا احترام کیا اور قطع تعلق پر آمادہ ہوگئے۔

یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم بت پرستی کےعلاوہ ستارہ پرست بھی تھی اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ انسانوں کی زندگی اور موت، رزق ،نفع و نقصان، خشک سالی، اور قحط سالی، فتح و شکست غرض تمام کارخانہ عالم کا نظم و نسق ستاروں اوران کی تاثیر پر چل رہا ہے اور یہ تاثیر ان کے ذاتی اوصاف میں سے ہے اس لیے ان کی خوشنودی ضروری ہے جو ان کی پرستش کے بغیر ممکن نہیں۔

 تفکر کی  جن راہوں پر چلتے ہوئے حضرت ابراہیمؑ نے خالق کائنات کی وحدانیت کا سراغ لگایا تھا، مظاہر پرست قوم کو خدائے واحد کی طرف متوجہ کرنے کے لئے حضرت ابراہیم نے وہی طریقہ اختیار کیا۔

تاروں بھری ایک رات ، حضرت ابراہیمؑ نے ایک روشن ستارہ  کودیکھ کرفرمایا  " میرا رب ہے"اس لئے کہ ستارے اگر معبود ہو سکتے ہیں تو یہ ستارہ ان سب میں ممتاز اور روشن ہے لیکن جب وہ اپنے وقت مقررہ پر نظروں سے اوجھل ہو گیا اور اس کی مجال یہ نہ ہوئی کہ اپنے پرستاروں کےلئے مزید ایک لمحہ بھی آسمان پر موجود رہ سکتا یا کائناتی سسٹم سے منحرف ہو کر پوجنے والوں کے لئے زیارت کا ہدف بنا رہتا، تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :

"میں چھپ جانے والے کو پسند نہیں کرتا۔" یعنی جو شئے وقت کے زیر اثر تغیر کےاثرات کو قبول کرلیتی ہے وہ معبود نہیں ہو سکتی ۔پھر دیکھا کہ چاند آب و تاب کے ساتھ سامنے موجود ہے۔ اس کو دیکھ کر فرمایا:

"یہ میرا رب ہے اس لئے کہ یہ خوب روشن ہے اور اپنی روشنی سے سارا عالم کو منور کیے ہوئے ہیں پس کواکب کو اگررب بنانا ہے تو چاند کو ہی کیوں نہ بنایا جائے کیونکہ یہی اس رتبہ کا اہل نظر آتا ہے جیسے جیسے طلوع آفتاب کا وقت قریب آیا چاند لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہونے لگا ۔یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم نے چاند کے رب ہونے کی نفی اس انداز میں کی کہ غیر محسوس طریقے پر قوم کی توجہ واحد و یکتا ہستی کی جانب مبذول کروادی۔

 فرمایا ،"میرا حقیقی پروردگار اگر میری رہنمائی نہ کرتا تو میں ضرور گمراہ قوم ہیں میں سے ایک ہوتا۔"

 تاروں بھری رات ختم ہوئی چمکتے تارے اور چاند ، سب نظر سے اوجھل ہو گئے۔ اس لئے کہ اب تو سورج کا روشن چہرہ سامنے آ رہا تھا۔ دن نکل آیا اور پوری آب و تاب کے ساتھ زمین پر دھوپ چھاگئی۔

 حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا" یہ ہے میرا رب کیونکہ یہ کواکب میں سب سے بڑا ہے اور نظام فلکی میں اس سے بڑا ستارہ ہمارے سامنے کوئی اور نہیں ہے لیکن دل بھر کے چمکنے ہوں اور تمام عالم کو روشن کرنے کے بعد وقت مقرر پر اس نے عراق کی سرزمین سے پہلوں بجانا شروع کر دیا اور شب کی تاریکی آہستہ آہستہ سامنے آنے لگیں اور سورج غروب ھو گیا ابراہیم نے قوم سے مخاطب ہو کر پوچھا:

’’تمہارے عقیدے کے مطابق کواکب کو اگر ربوبیت اور معبودیت کی قدرت حاصل ہے تو ان میں تغیرات کیوں نمایاں ہیں؟ یہ جس طرح چمکتے نظر آتے ہیں اسی طرح چمکتے کیوں نہیں رہتے؟ ستاروں کی روشنی کو مہتاب نے کیوں ماند کر دیا ہے؟ اور مہتاب کے رخ روشن کو آفتاب کے نور نے کس لئے بے نور بنادیا؟پس اے قوم! میں ان مشرکانہ عقائد سے عاجز ہوں اور شرک کی زندگی سے بیزار ہوں، بلاشبہ میں نے اپنا رخ صرف اسی ایک اللہ کی جانب کر لیا ہے۔ جو آسمانوں اور زمین کاخالق ہے۔‘‘ 

بت پرست و ستارہ پرست قوم انگشتِ بدنداں  تھی کہ اس روشن دلیل کا کیا جواب دیا جائے؟ باطل خداؤں پر یقین صدیوں پر محیط زمانے سے ضرب در ضرب جمع ہوکر  اس قدر پختہ ہوچکا تھا کہ حقیقت کی روشنی ان کے اندر داخل نہ ہو سکی بجائے اس کے کہ وہ صدائے حق کو قبول کرلیتے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جھگڑنے لگےاور ان فرضی معبودوں کے قہر وغضب اور انتقام سے انہیں ڈرانے لگے جو معبود نظام قدرت کےتابع تھے۔

 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی عقل و شعور پر پڑے ہوئے پردوں کو دیکھ کر فرمایاکہ تمہارے پاس گمراہی کے سوا کوئی روشنی موجود نہیں ہے مجھے تمہارے معبودوں کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے۔ میرا رب جو چاہے گا وہی ظہور میں آئے گا ۔یہ لکڑی اور پتھر سے تراشے ہوئے بت خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تو  کسی دوسرے کو حفظ و امان کی ضمانت کیوں کر دے سکتے ہیں۔نفع ونقصان اور اپنی حاجات ان بے جان پتھروں سے وابستہ کرنا سعی لا حاصل ہے۔

اسی دوران شہر کے باہر ایک مذہبی تہوار منعقد ہوا۔تمام لوگ اس میں شریک ہوئے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے طبیعت کی ناسازی کا عذر پیش کرکے اس مین شرکت سے معذوری ظاہر کی۔جس وقت  ساری قوم تہوار کی خوشی منارہی تھی اس وقت حضرت ابراہیم ؑ سب سےبڑے دیوتا کے ہیکل میں چلے گئے۔یہ دیوتا قوم  کے لئےبہت مقدس  تھا اور تمام باطل خداؤں کا سردار مانا جاتا تھا۔

 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ وہاں موجود  لکڑی اورپتھر سے بنائے گئے دیوتاؤں کے سامنے پھل اور میووں اور مٹھائیوں کے خوان رکھے ہوئے ہیں جو لوگوں نے اپنے عقیدت کے مطابق چڑھاوے کے طور پر ان کو نذر کئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان مورتیوں کو مخاطب کر کے کہا، ’’یہ سب تمہارے لئے رکھا ہے تم ان کو کھاتے کیوں نہیں؟‘‘ ماحول پر گہرا سکوت طاری تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے دوبارہ فرمایا"میں تم سے مخاطب ہوں ، کیا بات ہے تم میری بات کیوں نہیں سنتے؟ میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟"۔۔باطل  معبود اسی طرح بے حس و حرکت تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہتھوڑے سے ان کو توڑ پھوڑ ڈالا اور سب سے بڑے بت کے کندھے پر ہتھوڑا رکھ کر واپس آ گئے۔

 لوگ جب تہوار سے واپس آئے تو دیکھا کہ ان  کےمعبود منہ کے بل زمین پر اوندھے پڑے ہیں۔ کسی خدا کا سر غائب ہے تو کسی کی ٹانگ نہیں ہے۔کوئی دونوں ہاتھوں سے معذور ہے تو کسی کا بازو کندھے سے اترا ہوا ہے۔ اپنے مقدس  معبودوں کی یہ؎گت دیکھ کر کاہن اور سردار بدحواس ہو گئے اورہذیانی انداز میں  چیخ و پکار کرنے لگے کہ یہ بے ادبی کس نے کی ہے۔ان مین سے بعض لوگ کہنے لگے کہ ہم نے ایک جوان کی زبان سے ان بتوں کی برائی سنی ہے۔اس کانام ؎ابراہیم  ہے ۔ ہو نہ ہو یہ  اسی کا کام ہے۔

بات بادشاہ وقت نمرود تک پہنچ گئی۔وہ مملکت کا بادشاہ ہونے کے ساتھ خود کورعایا کا رب اور مالک بھی سمجھتا تھا۔دوسرے معبودوں اور دیوتاؤں کی طرح رعایا نمرود کو بھی اپنا خدا مانتی تھی اور اس کی پرستش کرتی تھی ۔ دربار شاہی میں سجدہ کرنے کا رواج عام تھا۔

 کاہنوں اور ارباب اقتدار کی موجودگی میں حضرت ابراہیم کو دربار شاہی میں طلب کیا گیا۔ لوگوں کا جم غفیر جمع ہو گیا۔ حضرت ابراہیمؑ پیغمبر انہ وقار اور تمکنت سے دربار شاہی میں داخل ہوئے اور شاہی رسم و رواج کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نمرود کے سامنے جا کر کھڑے ہوئے ۔

حضرت ابراہیمؑ کا یہ عمل جہاں صاحب اقتدار لوگوں اور خود نمرود پر بجلی بن کر گرا وہیں اس عمل سے عوام الناس کے دلوں میں حضرت ابراہیم ؑ کی جرات وحوصلہ کی دھاک بیٹھ گئی۔

مذہبی پیشواؤں نے رعب دار آواز میں پوچھا "کیوں ابرہیم کیا تو نے ہمارے دیوتاؤں کے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہے؟"

 حضرت ابراہیمؑ نے جواب میں فرمایا یہ کارنامہ ان بتوں میں سے سب سے بڑے بت کا ہے۔ہتھوڑا سی کے کندھے پر رکھا ہے سو اس  سےپوچھ لو۔ حضرت ابراہیمؑ کی دلیل کا جواب پجاریوں اور کاہنوں کے پاس نہ تھا وہ ندامت اور شرمندگی سے سر جھکا کے بولے ابراہیم تو خوب جانتا ہے کہ یہ پتھر کی بے جان مورتیاں ہیں ان میں  بولنے میں سکت نہیں ہے۔"

 باطل عقائد کی تکذیب اور ان عقائد کا پرچار کرنے والے مذہبی پیشواؤں کو ارباب  اقتدار اور عوام الناس کی موجودگی میں دعوت حق  پہنچانے کا وقت آگیا تھا۔  حضرت ابراہیم نے اس موقع پر انہیں دعوت فکر دیتے ہوئے فرمایا کہ جب یہ بولنے اور حرکت کرنے سے معذور ہیں تو پھر تم ان سے اپنا نفع نقصان کی سے وابستہ کر سکتے ہو۔ افسوس ہے کہ تم واحد و یکتا ذات اللہ کو جو کہ تمام کائنات اور نظام کائنات کا تنہا مالک اور مختار کل ہے چھوڑ کر باطل معبودوں کی پوجتے ہو کیا تم عقل و شعور کا استعمال نہیں کرتے۔

 صدیوں سے پوجے جانے والے بتوں کے لیے اس قسم کی زبان کا استعمال بلاشبہ لوگوں کے شعور پر شدید ضرورت تھی ۔حضرت ابراہیمؑ کے بات کا جواب مذہبی رہنماؤں کے پاس نہ تھا اگرچہ وہ اس بات پر تلملا کر رہ گئے مگر کوئی ٹھوس دلیل کے جواب میں پیش نہ کر سکے ۔

قدیم عقائد پر یہ اتنی کاری ضرب تھی کہ نمرود نے اس کے پس منظر میں اپنی خودساختہ خدائی اور ملوکیت کو زمین بوس ہوتے دیکھ لیا ۔وہ چالاک آدمی تھا۔  اس نے حضرت ابراہیم ؑسے سوال کیا،" تو باپ دادا کے دین کی مخالفت کس لیے کرتا ہے، مقدس بتوں  کو معبود ماننے سے اور مجھے رب کی حیثیت سے تسلیم کرنے سے انکار کیوں ہے؟

 حضرت ابراہیم نے جواب میں فرمایا کہ میں اللہ کریم کی وحدانیت پریقین رکھتا ہوں وہ ساری کائنات کا تنہا مالک ہے ہم سب بھی اس کی مخلوق ہیں۔ یہ گونگے بہرے بت خدا کیسے ہو سکتے ہیں جو اپنی سلامتی اور حفاظت کے لئے دوسروں کے محتاج ہیں۔۔۔ پرستش کے لائق ہستی کی تعریف یہ ہے کہ وہ کسی قسم کی احتیاط نہیں رکھتی تمام مخلوق اس کی محتاج ہوتی ہے۔

 رب کی تعریف سن کر نمرود نے دریافت کیا "اگر میرے علاوہ تیرا کوئی رب ہے تو اس  کا ایسا وصف بیان کر جس قدرت مجھ میں  نہ ہو۔

 حضرت ابراہیم نے فرمایا:" میرا رب موت و حیات پر قادر ہے ۔

نمرود نے جواب میں کہا کہ زندگی اور موت تو میرے قبضہ قدرت میں بھی ہے ۔ثبوت کے طور پر ایک  قیدی  جس کو موت کی سزا کا حکم ہو چکا تھا نمرود اس کی جاں بخشی کر دی  اور دربار میں موجود ایک شخص کی گردن مار دینے کا حکم صادر کردیا۔

انبیاء علیہم السلام نور فراست سے معمور ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم نے دیکھ لیا کہ نمرود حق کی معرفت سے محروم ہے۔ دو جمع دو چار کی سمجھ بوجھ رکھنے والا در حقیقت تک پہنچنے کی راہ میں مزاحم ہے تو انہوں نے ایک خوبصورت مثال دیتے ہوئے نمرود سے کہا:

" میرے رب کے تابع فرمان کائنات کا ہر ذرہ ہے۔ سورج کے حکم سے ہر روز مشرق سے نکلتا ہے اور مغرب میں ڈوب جاتا ہے تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا دے ۔"

نمرود اس معاملے میں لاچار تھا۔عوام الناس ،کا ہن  اور مذہبی پیشواؤں کے بعد بادشاہ وقت بھی اللہ کے فرستادہ  بندے حضرت ابراہیمؑ کو باطل عقائد کی اندھی تقلید کے لیے رضامند کرنے میں ناکام ہوگیا۔ مذہبی پیشواؤں اور ارباب اقتدار کی بالادستی انہی  عقائد کے مرہون منت تھی۔ان عقائد کی تکذیب ایوان اقتدار میں دراڑیں ڈالنے کے مترادف تھا ۔انہوں نے  شوروغوغابلند کیا کہ یہ ہمارے دیوتاؤں کی توہین کا مرتکب ہوا ہے اور باپ دادا کے مذہب کو جھٹلاتا ہے۔اس کو سزا کے طور پر پھینک دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ایک جگہ منتخب کرکے بہت بڑاالاؤ روشن کیا گیا ۔کئی روز تک آگ کو دہکایا گیا یہاں تک کہ آگ نے  اردگرد موجود اشیاء کو جلا ڈالا ۔تب حضرت ابراہیمؑ کو ایک منجنیق کے ذریعےدہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا گیا۔

منفی طرز فکر کے حامل اہل باطل نے اللہ کی تخلیق آگ کو شر اور تخریب میں استعمال کیا اور حضرت ابراہیمؑ کو دہکتی  آگ میں ڈال دیالیکن خالق نے اپنی تخلیق کو  حکم دیا۔

’’اے آگ! ٹھندی ہو جا اور آرام بن ابراہیم پر‘‘  (الانبیاء۔)

تابع فرمان  آگ  نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ذرہ برابر نقصان نہیں پہونچایا اور حضرت ابراہیمؑ دشمنوں کے شر سےمحفوظ رہے۔

اس واقعہ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہجرت کا حکم ہو ااور وہ شام کی طرف ہجرت کر گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام ہجرت کے وقت آپ کے ہمراہ تھے۔روایت کے مطابق حضرت ابراہیم کی شادی شام کے بادشاہ کی لڑکی سے ہوئی۔ جن کا نام سارا تھا۔ حسن و جمال میں آپ کا ثانی نہ تھا ۔کنعان (شام )میں جب قحط پڑا تو حضرت ابراہیم حضرت سارا حضرت لوط کے ہمراہ مصر کی جانب روانہ ہوگئے۔ مصر کا بادشاہ حسن و جمال کا دلدادہ تھا ۔مگر اللہ تعالی نے حضرت سارہ کی مدد و حفاظت فرمائی اور  بادشاہ  اپنے باپاک  ارادہ کی تکیمل میں ناکام رہا۔ حضرت سارہ  کی بزرگی سے متاثر ہوکر بادشاہ نے اپنی  اپنی بیٹی  ان کی خدمت میں پیش کی۔ مصر کی یہی شہزادی حضرت ہاجرہ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ حضرت سارہ کے اولاد نہ تھی، انہوں نے حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیمؑ کی زوجیت میں دےدیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے رب العزت کی بارگاہ میں نیک اور صالح اولاد کے لئے درخواست کی ان کی یہ درخواست بارگاہ خداوندی میں قبول ہوئی اور حضرت ہاجرہ سے حضرت اسماعیل  تولد ہوئے۔بشری  کمزوری حضرت سارا کے آڑے آئی  اور بی بی ہاجرہ کے ہاں اولاد ہونے سے انہیں رنج  ہوا ۔حضرت سارہ نے حضرت ابراہیم ؑ سے اصرار کیا کہ دونوں ماں بیٹے کو دور کر دیا جائے۔ حکم خداوندی ک کے تحت  حضرت ابراہیمؑ بی بی ہاجرہ اور اپنے اکلوتے فرزند حضرت اسماعیل کو عرب کے بیابان میں کعبۃ اللہ کے قریب چھوڑ آئے ۔

اللہ کریم کے فرمان کی تکمیل میں حضرت ہاجرہ نے حضرت ابراہیم ؑکا پورا پورا ساتھ دیا اور عرب کے ریگستان میں شیر خوار بچے کے ہمراہ رک  گئیں۔ اللہ کریم کے حکم کی تعمیل اور توکل الی اللہ کی یہ ادا اللہ کریم کو اس قدر پسند آئی کہ بی بی ہاجرہ نے صفا و مروہ کے  درمیان پانی کی تلاش میں جو چکرکاٹے تھے ان کا دہرانابیت اللہ کی زیارت کے لیے آنے والے ہر فرد پر لازم قرار دے دیا ہے ۔اللہ پر توکل اور بھروسہ خالق کائنات کے حضور مقبول ہوا اور بے آب و گیاہ زمین  سے میٹھے اور شفاءبخش پانی کا چشمہ جاری ہوگیا۔

 ایک اور مقام پر حضرت ابراہیم کو آزمایا گیا جب حضرت ابراہیم کے اکلوتے فرزند حضرت اسماعیل کے بھا گنے  دوڑنے کے سن کو  پہنچے تو حکم ہوا کہ ان کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیا جائے ۔حالت بیداری  ہو یا نیند کی کیفیت  ہواللہ کے فرستادہ بندوں کے قلوب ذات باری تعالی کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم کو قربانی کا یہ حکم عالم خواب میں ملا ۔انہوں نے  اپنے لخت جگر سے خواب کا تذکرہ  کیا۔ نور نبوت سے سرفراز حضرت اسماعیل نے حکم خداوندی کی تعمیل میں سر جھکا دیا ۔تاریخ شاہد ہے کہ تسلیم و رضا، تابعداری اور فرمانبرداری کا عملی نمونہ امت کے لئے یادگار بنا دیا گیا ہے۔

 حضرت ابراہیم اگرچہ فلسطین میں مقیم تھے لیکن بی بی ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کی ملاقات کے لیے وقتا فوقتا  مکہ آتےتھے ۔حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کا جب حکم ملا اس وقت ان کی اور کوئی اولاد نہیں تھی ۔حکم کی  تعمیل میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل ؑکا عملی اقدام بارگاہ رب  العزت میں قبول ہو گیا۔

"اور ہم نے اس کو پکارا یوں کہ اے ابراہیم! تو نے سچ کر دکھایا خواب ہم یوں دیتے ہیں بدلہ نیکی کرنے والوں کو بے شک یہی ہے صریح جانچنا اور اس کا بدلہ دیا ہم نے ایک بڑ اجانور ذبح  کو بڑا اور باقی رکھا ہے ہم نے اس پر پچھلی خلق میں سلام ہے ابرہیم پر ۔ ہم یوں دیتے ہیں بدلہ نیکی کرنے والوں کو۔ وہ  ہے ایماندار بندوں میں اور خوش خبری دی ہم نے اس کو اسحاق کی  جو نبی ہوگا نیک بختوں میں ۔‘‘ (الصٰفٰت)

آیت مقدسہ میں تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حضرت ابراہیم آزمائش میں جب پورے اترے تو اللہ نے انعام و اکرام سے نوازا۔ قربانی کا عمل نہ صرف یہ کہ  رہتی دنیا تک بطور سنت جاری کر دیا گیا بلکہ اکلوتے بیٹے کو اللہ کے لئے قربان کردینے کا جذبہ اس قدر پسند آیا کہ دوسرے بیٹے کی ولادت اور منصب  نبوت پر ان کی سرفرازی کی  خوشخبری دی گئی۔

 حضرت ابراہیم ؑکو جب بیت اللہ کی تعمیر کا حکم ملا تو  انہوں نے حضرت اسماعیل ؑ کی مدد سے تعمیر کا آغاز کر دیا۔ دیواریں  جب اس حد تک اونچی ہو گئیں کہ مزیدتعمیر کے لیے پارھ کی ضرورت محسوس ہوئی تو ایک پتھر کو پاڑھ  بنا کر تعمیر کا کام مکمل کیا گیا ۔یہی پتھر" مقام ابراہیم" کے نام سے آج بھی کعبہ شریف میں موجود ہے۔تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیمؑ حضرت اسماعیلؑ کی دعاؤں اور مناجات کا تذکرہ قرآن میں ملتا ہے۔ سیدنا حضور علیہ الصلٰوۃوالسلام کی بعثت اور اپنی آل میں آپؐ کی ولادت کی دعا اسی موقع پرکی گئی تھی۔ جسے اللہ تعالیٰ نے منظور فرمایا اور حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سیدنا حضو علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ظہور ہوا۔

حضرت ابراہیم نے تین شادیاں کیں۔ پہلی بیوی حضرت سارہسے حضرت اسحٰق کی ولادت ہوئی۔

حضرت اسحاق ؑبنی اسرائیل کے جدا اعلیٰ ہیں ۔ انبیاء بنی اسرائیل کا سلسلہ انہی کی نسل میں قائم ہوا۔ دوسری بیوی حضرت ہاجرہ تھیں ان کے بطن سے حضرت اسماعیل ہیں ۔خاتم النبیین حضرت محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ نسب حضرت اسماعیلؑ سے ملتا ہے ۔حضرت سارا نے کنعان میں127 برس کی عمر میں وفات پائی۔ ان کی وفات کے بعد حضرت قطورہ حضرت ابراہیمؑ کی زوجیت میں داخل ہوئیں۔ حضرت قطورہ  سے آپ ؑ کی نسل کا جو سلسلہ قائم ہواحضرت شعیب ؑ اسی سلسلہ نسب سےتعلق رکھتے تھے۔

حضرت ابراہیم کی طبعی عمر 175 سال بیان کی جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم کے انتقال کے بعد دنیا میں جتنے پیغمبر مبعوث ہوئے وہ سب انہی کی اولاد میں سے تھے۔ اسی بنا پر آپ کا لقب" ابو الانبیاء "ہے ۔

 اجزاۓ کائنات اور مظاہرِ قدرت میں تفکر حضرت ابراہیم کا شعار تھا۔ قرآن میں جہاں سورہ انعام میں تلاش حق کے سلسلے میں سورج، چاند اور ستارے میں حضرت ابراہیمؑ کے تفکر کا تذکرہ ہے،  وہیں سورہ بقرہ میں مظاہر کے پس پردہ کام کرنے والی حقیقت کا پتہ چلانے کے لیے اور حرکت کی  کنہ  تک پہنچنے کے لئے تفکر اور مشاہدے کا ذکر بھی ہے۔ جب حضرت ابراہیم نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ نے مشاہدہ کرایا جائے کہ مردہ اجسام دوبارہ کیسے زندہ کئے جائیں گے ۔تب حضرت ابراہیم کو حکم ہوا کہ چار پرندے پالیں اور پھر انہیں ذبح کرکے ان کے ٹکڑے پہاڑوں پر ڈال دیں اور جب ان پرندوں کے اجزاء مختلف مقامات پر ڈال چکیں توپھر ان پرندوں کو پکاریں ۔ حضرت ابراہیم نے ہدایت کے مطابق عمل کیا اور حکمت خداوندی ان پر آشکار ہوگئی ۔چاروں پرندے صحیح سالم حالت میں ان کے پاس پہونچ گئے۔

حضرت ابراہیم ؑ ایسے جلیل القدر پیغمبر ہیں کہ جن  کی ذات سے ان  کی طرزفکر کے حامل ان کے متعلقین سے  سے صادر ہونے والے اعمال کو بطور سنت اللہ تعالی نے اللہ تعالی نے آنے والے لوگوں پر جاری کر دیاہے۔ اس کی واضح مثال عید الضحیٰ کے موقع پر قربانی کرنا ہے، حج کے موقع پر "رمی " یعنی شیطان کو کنکریاں مارنا ہے اور زیارت  کعبہ اور عمرہ کی ادائیگی کے وقت صفا و مروہ کے درمیان "سعی " کرنا ہے۔

 الہامی کتابوں میں مذکور حضرت ابراہیمؑ کا واقعہ اور واقعہ کی جزئیات ہیں اس بات کی دعوت دی گئی ہے کہ ہم اجزائے کائنات میں تفکر کو اپنا شعار بنائیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کے قصہ میں  یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اللہ کے فرستادہ بندے کس طرز فکر کے حامل ہوتے ہیں اور اس  طرز فکر کے تحت ان سے کس قسم کے اعمال صادر ہوتے ہیں۔اور یہ کہ پیغمبرانہ طرز فکر کے تحت کیے گئے عمل سے اللہ تعالی کی خوشنودی اور رضا ان کے شامل حال ہو جاتی ہے ۔ حکم کی بجاآوری ان کا نصب العین ہوتا ہےہر  حال میں شکر ادا کرنا ان کا طریق  ہے۔ تفکر ان کا شعار بن جاتا ہے اور قربت الٰہی کا تصور ان کے اندر حق الیقین کا درجہ اس طرح حاصل کر لیتا ہے کہ وہ ہر لمحہ اللہ کو خود پر محیط دیکھتے ہیں۔ قرآن میں بیان کردہ حضرت ابراہیم ؑکا قصہ اور دیگرحکمتوں میں  تفکر کرنے سے یہ بات سامنے آجاتی  ہے کہ تمام تجربات ، مشاہدات اور محسوسات  کا ماخذ ذہن ہے۔ جتنی ایجادات انسان سے صادر ہوتی ہیں ان کو بھی ذہن کی کارفرمائی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ جب انسان غور و فکر کرتا ہے تو ذہن میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور کسی کلیہ  یا کسی نئے علم کا انکشاف ہو جاتا ہے ۔

نفس دو دماغ  متعلق روزافزوں انکشاف سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ انسان کا وجود حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ  اس کی خارجی دنیا اور دوسرا حصہ اس میں داخل میں واقع ہونے والی تحریکات ہیں۔ انسانی نفس  کے یہ دنوں حصے ایک دوسرے سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں۔ ہر دور میں یہ بات کسی نہ کسی صورت میں سامنے آتی رہی ہے کہ انسان صرف جسمانی حرکات اور خارجی کیفیات کا نام نہیں ہے۔ انسان کے اندر ایک دارئہ مادی تحریکات سے آزاد ہے اور اسی دائرے سے تمام خیالات و افکار مادی دائرہ کو ملتے ہیں۔  یہ درئرہ اصل انسان ہے اور اسے عرف عام  میں " روح"  کہا گیا ہے۔ اہل روحانیت نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر آدمی اپنے قلب، من کے اندرسفر کرے تواس کے اوپر روح کی قوتوں کا انکشاف ہو جاتا ہے ۔

تمام آسمانی صحائف نے انسان کی  غیر معمولی صفات کا تذکرہ کیا ہے۔ کتب سماوی کے مطابق انسان بظاہر گوشت  پوست سےمرکب ہے لیکن اس کے اندر ایساجو ہر کام کر رہا ہے جو خالق کی صفات کا عکس ہے۔ اس جوہر کو روح کا  نام دیا گیا ہے۔ اور اسی روح کے ذریعہ انسان کو کائناتی علوم حاصل ہیں۔

 انسانی صلاحیتوں کا اصل رخ اس وقت  اس وقت حرکت میں آتا ہے جب روحانی حواس متحرک ہوجاتے ہیں ۔یہ حواس ادراک و مشاہدات کے دروازے کھولتے ہیں جو عام طور سے بندر رہتے ہیں ۔انہیں حو اس سے انسان آسمانوں اور کہکشانی نظام داخل ہوتا ہے۔غیبی مخلوقات اور فرشتوں سے اس کی ملاقات ہوتی ہے اور مظاہر کے پس پردہ حقائق ان پر آشکار ہو جاتے ہیں۔ یہ سب اس وقت عمل میں آتا ہے جب بندہ انبیاء علیہ السلام اور ان کے وارث  اولیاء اللہ کی بتائی  تعلیمات پر ان کی طرزفکر کے مطابق عمل پیرا ہو جاتا ہے۔

 


Hazrat Ibrahim Aleh Salam (BKLET)

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ابوالانبیاء حضرت ابراہیم ؑ کی ولادت طوفانِ نوح کے درمیان ایک ہزار سال سے کچھ زیادہ کا زمانی فاصلہ شمار کیا جاتا ہے۔ توریت میں حضرت براہیمؑ کا نسب نامہ اس ترتیب سے بیان ہوا ہے۔براہیم ؑبن تارح بن نحور بن سروج بن رعوبن فلج بن ارفکسد بن سام بن نوحؑ۔