Topics

حضرت آدم علیہ السلام

 

جب کچھ نہ تھا تو اللہ تعالیٰ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میری ربوبیت، خالقیت اور قدرت کا مظاہرہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ارادے میں جب یہ بات آئی کہ  میری عظمت ظاہر ہو تو یہ بات واضح ہو گئی کہ عظمت خالق کو پہچاننے اور اللہ تعالیٰ کو جاننے کے لئے کوئی مخلوق موجود ہو۔

جیسے ہی اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ میں پہچانا جاؤں خالق کے ارادے میں جو کچھ تھا قاعدوں، ضابطوں، فارمولوں اور شکل و صورت کے ساتھ عالم وجود میں آ گیا۔ عالم وجود کا نام کائنات ہے۔ کائنات ایک ایسے خاندان کا نام ہے جس میں بے شمار نوعیں ایک کنبے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ان نوعوں میں فرشتے، جنات، انسان، جمادات اور نباتات، حیوانات، زمین، سماوات اور بے شمار کہکشانی نظام ہیں۔ خالق کائنات نے ان نوعوں کو سننے، دیکھنے، سمجھنے، خود کو پہچاننے اور دوسروں کو جاننے کی صلاحیت عطا کی۔ ان صلاحیتوں سے نوعوں نے یہ بات سمجھ لی کہ جس عظیم اور بابرکت ہستی نے انہیں تخلیق کیا ہے وہ قادر مطلق ذات اللہ تعالیٰ ہے۔

عظمت و ربوبیت اور خالقیت کے اظہار کے لئے ضروری تھا کہ ایسی مخلوق موجود ہو جو حکمت کائنات کے رموز سے واقف ہو۔ واقفیت کے لئے لازم تھا کہ مخلوق ان صفات کی حامل ہو جو کائنات کی تخلیق میں کام کر رہی ہیں۔ اس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی صفات پر تخلیق کیا اور اسے ان صفات کا علم عطا کر کے خلافت و نیابت سے سرفراز کیا۔

قرآن حکیم میں جہاں انسان کی تخلیق کا تذکرہ ہوا ہے وہاں یہ بات وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ انسان کا خمیر مٹی سے گوندھا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مٹی کو بجنی اور کھنکھناتی فرمایا ہے یعنی خلاء مٹی کے ہر ذرے کی فطرت (Nature) ہے۔

’’انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔‘‘

روح پھونکنے سے مراد یہ ہے کہ خلاء میں حواس پیدا کردیئے گئے۔

سوال : انسان کیا ہے؟

جواب : عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ انسان محض گوشت پوست اور ہڈیوں سے مرکب جسم ہے۔ اس کی تمام دلچسپیاں اور توجہ مادی جسم پر مرکوز رہتی ہیں اور وہ اپنی توانائی اس جسم کو پروان چڑھانے اور آسائش بہم پہنچانے میں استعمال کرتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اصل انسان گوشت پوست کا جسم نہیں بلکہ اصل انسان وہ ہے جو اس جسم کو متحرک رکھتا ہے۔ یہ اصل انسان جو مادی جسم کو سہارا دیتا ہے ’’روح‘‘ ہے۔عظیم روحانی سائنسدان حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے کتاب ’’لوح و قلم‘‘ میں اس بات کو اس طرح بیان فرمایا ہے:

’’ہم اپنے مادی جسم کی حفاظت کے لئے لباس بناتے ہیں۔ لباس خواہ اونی ہو، سوتی ہو، نائیلون کے تاروں سے بنا ہو یا ریشم سے بنا ہوا ہو جب تک گوشت پوست کے جسم پر موجود ہے اس میں حرکت رہتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی آدمی ہاتھ ہلائے اور قمیض کی آستین نہ ہلے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ قمیض کو چارپائی پر ڈال دیا جائے یا کھونٹی پر لٹکا دیا جائے تو اس کے اندر حرکت اسی طرح پیدا ہوگئی ہو جس طرح حرکت کے ساتھ ساتھ لباس میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔اصل بات یہ کہ لباس کی حرکت جسم کے تابع ہے۔ سوتی یا اونی یا کھال سے بنائے ہوئے لباس میں ذاتی حرکت  واقع نہیں ہوتی۔‘‘

اسی طرح جب روح آدمی سے بے تعلق ہو جاتی ہے اور آدمی مر جاتا ہے تو کپڑے سے بنے ہوئے لباس کی طرح گوشت پوست اور رگ پٹھوں سے مرکب مادی جسم کے اندر بھی کوئی  ذاتی حرکت یا قوت مدافعت باقی نہیں رہتی۔ جب تک روح اس لباس کو پہنے ہوئے تھی اس لباس میں حرکت اور قوت مدافعت موجود تھی۔  پس ثابت ہوا کہ ہم گوشت پوست کے جس انسان کو اصل انسان کہتے ہیں وہ اصل انسان نہیں ہے بلکہ اصل انسان کا لباس ہے۔"

سوال: روح کیا ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے سیدنا حضورﷺ سے فرمایا:

’’یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپﷺ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے۔"(سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت ۸۵)

امر کی تعریف سورہ یٰسین میں اس طرح کی گئی ہے:

’’اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’’ہو‘‘ اور وہ ’’ہو‘‘ جاتی ہے۔‘‘

(سورۃ یٰسین۔ آیت ۸۲)

ان آیات میں تفکر سے یہ حکمت سامنے آتی ہے کہ آدمی جسمانی اعتبار سے ناقابل تذکرہ شئے ہے۔ اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی پھونکی ہوئی روح اصل انسان ہے اور وہی اصل انسان صفات الٰہیہ کا علم رکھتا ہے۔

سورۃ البقرہ میں یہ واقعہ باتفصیل  مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم ؑکی تخلیق کا تذکرہ فرشتوں سے کیا اور انہیں بتایا کہ میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے عرض کیا کہ اگر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ (حضرت) آدم رات دن تیری عبادت کرے گا اور تیری عظمت اور بزرگی بیان کرے گا تو ہم اس کام کے لئے موجود ہیں۔  ہم ہر لمحہ تیری حمد و ثناء بیان کرتے ہیں اور بغیر کسی حیل و حجت کے تیرا حکم بجا لاتے ہیں۔ اس مٹی کے پتلے سے فتنہ و فساد کی بو آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی بات کو رد نہیں کیا اور ارشاد فرمایا کہ’’جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کائنات کے رموز اور فارمولوں کا علم عطا کر کے فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرشتوں سے کہا:’’اگر تم حکمت کائنات سے واقف ہو تو بیان کرو۔‘‘

فرشتوں نے عرض کیا کہ’’ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے اور حقیقت میں علیم و حکیم تو آپ کی ذات ہے۔‘‘جب حضرت آدم علیہ السلام نے فرشتوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کا مظاہرہ کیا تو  اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"میں نے نہ کہا تھا تم کو، مجھ کو معلوم ہیں پردے آسمان زمین کے ، اور معلوم ہےجو تم ظاہر کرتے ہو اورجو چھپاتے ہو"۔(البقرۃ)

شرف انسان پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کر کے ان کی حاکمیت تسلیم کریں۔

’’جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو میں بناؤں گا ایک بشر کھنکھناتے سڑےگارے سے۔ پھر جب ٹھیک کروں اس کو اور پھونک دوں اس میں اپنی جان تو تم گر پڑو اس کے آگے سجدے میں۔ پھر سجدہ کیا فرشتوں نے سارے اکٹھے۔ مگر ابلیس نے غرور کیا اور تھا وہ منکروں میں۔ فرمایا اے ابلیس! تجھ کو کیا اٹکاؤ ہوا کہ سجدہ کرے اس چیز کو جو میں نے بنائی اپنے دونوں ہاتھوں سے، یہ تو نے غرور کیا یا تو بڑا تھا درجہ میں۔ بولا میں بہتر ہوں اس سے، مجھ کو بنایا تو نے آگ سے اور اس کو بنایا مٹی سے۔ فرمایا تو تُونکل یہاں سے کہ تو مردود ہوا اور تجھ پر میری پھٹکار ہے اس جزا کے دن تک۔‘‘

ابلیس اپنے غرور اور تکبر میں بھول گیا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور جنات دونوں خدا کی مخلوق ہیں۔ مخلوق کی حقیقت خالق سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ شیطان غرور و تکبر میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ مرتبہ کی بلندی اور پستی اس مادہ کی بناء پر نہیں ہے جس سے انسان کا خمیر تیار کیا گیا ہے بلکہ ان صفات پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ودیعت کی ہیں۔

ابلیس نے جب یہ دیکھا کہ حکم کی خلاف ورزی نے اسے رب العالمین کی آغوش رحمت سے دور کر دیا ہے تو اس نے توبہ اور ندامت کے بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور اپنی گمراہی کا ذمہ دار اللہ  ٰ کو قرار دیا۔ اور کہا کہ تونے مٹی کے پتلے کے اندر پوشیدہ حقیقت مجھ پر آشکارا نہیں کی جس سے میں گمراہ ہوااگر مجھے قیامت کے دن تک   مہلت دے تو میں آدم زاد پر خود اس کی اپنی حقیقت آشکار نہ ہونے دوں اور انسان کو اسی طرح گمراہ کردوں جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو اپنے حربے استعمال کر کے دیکھ لے میرے بندے تیرے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ ابلیس اپنی گستاخی کی بناء پر راندۂ درگاہ قرار پایا۔

اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو جو مقام عطا ہوا وہ اسماء کا علم ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے خود کو جنت میں دیکھا۔ جنت ایسی فضا ہے جس میں کثافت نہیں ہے۔ جہاں زندگی کا وہ رخ سامنے رہتا ہے جس رخ میں سکون ہے، راحت و آسائش ہے۔ حاکمیت اور تسخیر کائنات کا احساس ہے۔

جنت میں اللہ کریم کی قدرت کاملہ کا مظاہرہ ہوا اور حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت بی بی حوا کے وجود کی تخلیق عمل میں آئی۔ جنت کا وسیع و عریض رقبہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کے لئے مسخر کر کے انہیں اختیار دے دیا کہ جہاں سے دل چاہے خوش ہو کرکھاؤ  پیو لیکن ایک مخصوص درخت کے قریب جانے سے منع کر دیا گیا۔ ابلیس نے موقع پا کر حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت بی بی حوا ؑ کو باور کرایا کہ جس درخت کے پاس جانے سے انہیں منع کیا گیا ہے وہ شجر ’’شجرِخُلد‘‘ ہے اس کا پھل کھانا جنت میں سرمدی آرام و سکون کا ضامن ہے اور انہیں باور کرایا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں دشمن نہیں ہوں۔ حضرت آدم علیہ السلام اس کے بہکاوے میں آکر یہ فراموش کر بیٹھے کہ ابلیس ان کا ازلی دشمن ہے۔ ازلی دشمن خیرخواہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اس کا تو کام ہی نقصان پہچانا ہےپھر یہ کہ جنت میں قیام اور قرب الٰہی کسی درخت کا پھل کھانے کا مرہون منت نہیں ہےبلکہ یہ تو اللہ کا خصوصی انعام اور فضل ہے ۔ وہ  درخت کے قریب تو چلے گئے ۔

حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ درخت کے قریب چلے تو گئے لیکن غلطی ہوجانے کے احساس نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالنے کے لئے شیطان کو راہ مل گئی۔ غلطی، حکم عدولی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خیال ان کے دل میں جاگزیں ہو گیا اور وہ غم زدہ ہو گئے۔ جنت کی دائمی خوشی اور آرام و سکون، بے سکونی میں بدل گیا۔ جنت کے آزاد حواس پس پردہ چلے گئے اور پابند حواس حضرت آدم ؑ اور حضرت حواؑ پر مسلط ہو گئے۔ انہیں برہنگی کا احساس ہوا ستر پوشی کے خیال کے تحت وہ پتوں سے تن ڈھانپنے لگے۔۔۔۔۔۔گویا انسانی تمدن کا یہ آغاز تھا کہ تن ڈھانپنے کے لئے سب سے پہلے آدم نے پتوں کا استعمال کیا۔

حضرت آدم ؑ سے بازپرس ہوئی کہ ممانعت کے باوجود حکم عدولی کیوں ہوئی؟ آدم بارگاہ الٰہی میں مقبول تھے اس لئے شیطان کی طرح مظاہرہ نہیں کیا اور اپنی بھول کو تاویلات کے پردے میں چھپانے سے باز رہے۔ ندامت اور شرمساری کے ساتھ اقرار کیا کہ بھول ہوئی مگر اس کا سبب سرکشی نہیں بلکہ نسیان اور بھول ہے تاہم غلطی ہو گئی ہے توبہ استغفار کے ساتھ عفو و درگزر کا خواستگار ہوں۔

اللہ نے آدم کے عذر کو قبول فرما لیا اور معاف کر دیا اور یہ فیصلہ سنایا کہ تم کو اور تمہاری اولاد کو ایک معین وقت تک زمین پر قیام کرنا ہو گا اور تمہارا دشمن ابلیس بھی اپنے تمام سامان عداوت کے ساتھ وہاں موجود رہے گا۔

 

تم کو خیر و شر دو متضاد طاقتوں کے درمیان زندگی بسر کرنا ہو گی اگر تم اور تمہاری اولاد مخلص اور سچے بندے ثابت ہوئے تو تمہارا اصلی وطن ’’جنت‘‘ تمہیں لوٹا دیا جائے گا۔

قرآن کریم نے تاریخی واقعات کو صرف اس لئے بیان نہیں کیا کہ یہ وہ واقعات ہیں جن کا تاریخ میں درج ہونا ضروری ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان واقعات میں مخفی حکمتوں کو تلاش کیا جائے اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج سے سبق حاصل کر کے عمل کی راہیں متعین کی جائیں۔

حضرت آدم علیہ السلام کے قصہ میں بے شمار حکمتیں مخفی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

* حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کا شرف اس علم ان صفات کی بناء پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے مٹی کے پتلے میں اپنی روح پھونکنے کے بعد اسے عطا کر دی ہیں۔

* انسان اگر اپنی حقیقت (روح) سے واقف ہے اور ان قاعدوں، ضابطوں اور فارمولوں سے واقف ہے جو کائنات کے پس پردہ کام کر رہے ہیں تو وہ مخلوق میں افضل ہے بصورت دیگر اس کی حیثیت مٹی کے پتلے کی ہے جس کے اندر اپنی ذاتی کوئی حرکت نہیں ہے۔

* غلطی ہونے کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام نے عاجزی کا مظاہرہ کیا جسے اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو عجز و انکساری پسند ہے۔

عجز و انکساری کا نتیجہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے۔

* عجز کے مقابلے میں گستاخی یا بغاوت بڑی سے بڑی نیکی اور بھلائی کو کھا جاتی ہے ۔ ہمارے سامنے ہے کہ ابلیس کو کبر و نخوت اور گستاخی نے راندۂ درگاہ کر دیا۔

تکبر عزازیل را خوار کرد

بزندانِ لعنت گرفتار کرد

(تکبر نے عزازیل کو ذلیل خوار کر دیا اور لعنت کے قید خانے میں گرفتار (قید) کر دیا)

* اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہیں جسے چاہیں عزت دیں جسے چاہیں ذلت دیں۔ عزت و شرف اور لعنت و رسوائی اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔

* تخلیق آدم قدرت کا منفرد کرشمہ ہے۔ مٹی کے پتلے کو گوشت پوست کی صورت دے دی۔ مٹی کو گوشت پوست، ہڈی، خون، دل، پھیپھڑے، دماغ میں تبدیل کر دینا اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ اگر انسان اپنی مادی تخلیق ۔پر غور کرے تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ یہ سارا جسمانی نظام بغیر کسی مادی کنکشن(Connection) کے متحرک ہے اور کسی لمحہ بھی یہ حرکت ساقط نہیں ہوتی اور اگر کسی وجہ سے اس نظام میں خلل واقع ہو جائے تو جدید ترین آلات کا استعمال بھی جسم کے کل پرزوں کو اس طرح متحرک نہیں رکھ سکتا جس طرح قدرت حرکت میں  رکھتی ہے مثلاً دل ہمارے سارے بدن میں خون پہنچانے کے لئے ایک آلہ ہے جو ایک منٹ میں ستر بہتر بار سکڑتا اور پھیلتا ہے اور دل کی یہ خدمت ساری عمر جاری رہتی ہے۔ کارکردگی میں اگر فرق آ جائے تو علاج پر لاکھوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔

* گردن سے رانوں کے اوپر تک ہمارا جسم ایک صندوق کی طرح ہے۔ اس صندوق کی دیواروں کے درمیان (پسلیوں کے نیچے) پھیپھڑے ہیں۔ سانس اندر جانے اور باہر نکلنے کا دارومدار پھیپھڑوں کے سکڑنے اور پھیلنے پر ہے۔ آدمی ایک منٹ میں سولہ (۱۶) یا سترہ (۱۷) بار سانس لیتا اور نکالتا ہے۔ انسان سانس اسی وقت لے سکتا ہے جب ہوا اور آکسیجن موجود ہو۔

* انسان کی بنیادی ضرورت میں پانی کو بڑا دخل ہے پانی نہ ہو تو زندگی بنجر ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی طرف سے ہر چیز مفت عطا کی ہے نہ کوئی فیس ہے اور نہ کوئی بل آتا ہے۔

* اللہ تعالیٰ کی حکمتیں اور راز بے شمار ہیں ان رازوں سے وہ لوگ واقف ہو جاتے ہیں جو عارف باللہ اور سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت کے حامل ہیں۔

حضرت حوا کی تخلیق:

محققین کی رائے ہے کہ قرآن کریم میں صرف ’’حوا‘‘ کی تخلیق کا ذکر نہیں ہے بلکہ عورت کی تخلیق کے متعلق اس حقیقت کا اظہار ہے کہ وہ بھی مرد کا حصہ ہے۔ اس حقیقت کو اس طرح سمجھا جائے حضرت آدم علیہ السلام کے اندر عورت کا وجود تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جب چاہا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں رخوں کا مظاہرہ ہو تو عورت کے وجود کو حضرت آدم علیہ السلام سے الگ کر دیا۔

علماء باطن کہتے ہیں یہاں ہر شئے دو رخوں سے مرکب ہے۔ مرد کا وجود بھی دو رخوں پر قائم ہے اور عورت کا وجود بھی دو رخوں پر قائم ہے۔ عورت کے اندر مرد چھپا ہوا ہے اور مرد کے اندر عورت چھپی ہوئی ہے۔ اگر آدم کے اندر حوا نہ ہوتی تو حوا کی پیدائش ممکن نہیں تھی۔ دوسری مثال عورت کے اندر سے آدم کی پیدائش ہے جس کو آسمانی کتابوں نے ’’عیسیٰ علیہ السلام‘‘ کا نام دیا ہے۔

ہر فرد دو پرت سے مرکب ہے۔ ایک پرت ظاہر ہے اور غالب رہتا ہے اور دوسرا پرت مغلوب اور چھپا ہوا رہتا ہے۔ مرد ہو یا عورت دونوں دو رخوں سے مرکب ہیں۔ ایک ظاہر رخ اور ایک باطن رخ۔

عورت میں ظاہر رخ عورت کے خدوخال میں جلوہ نما ہو کر ہمیں نظر آتا ہے اور باطن رخ وہ ہے جو نظر نہیں آتا۔ اسی طرح مرد کا ظاہر رخ مرد کے خدوخال بن کر ہمارے سامنے آتا ہے اور باطن رخ وہ ہے جو مخفی رہتا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ مرد بحثیت مرد جو نظر آتا ہے وہ اس کا ظاہر رخ ہے اور عورت بحیثیت عورت جو نظر آتی ہے وہ اس کا ظاہر رخ ہے۔ مرد کے ظاہر رخ کا متضاد باطن رخ ’’عورت‘‘ کے ساتھ لپٹا ہوا ہے اور عورت کے ظاہر رخ کے ساتھ اس کا متضاد باطن رخ ’’مرد‘‘ لپٹا ہوا ہے۔

افزائش نسل اور جنسی کشش کا قانون بھی ان ہی دو رخوں پر قائم ہے۔ عورت کے اندر باطن رخ مرد چونکہ مغلوب ہے اور غالب خدوخال میں نمودار وہ رخ جو مظہر نہیں بنا غالب اور مکمل رخ کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کے اندر جذب ہونے کے لئے بے قرار رہتا ہے۔ اسی طرح مرد کے اندر چھپا ہوا پرت ’’عورت‘‘ چونکہ مغلوب ہے اس لئے وہ بھی عورت کے ظاہری رخ سے ہم آغوش ہو کر اپنی تکمیل کرنا چاہتا ہے۔

علماء باطن فرماتے ہیں کہ قانون قدرت کے مطابق اگر ذہنی مرکزیت کسی ایک رخ پر قائم ہو جائے تو مغلوب پرت متشکل ہو جاتا ہے۔

ہابیل و قابیل

ہابیل اور قابیل حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ قرآن میں حضرت آدم علیہ السلام کے ان دونوں بیٹوں کے ناموں کا ذکر نہیں ہے صرف ’’ابن آدم‘‘ (آدم ؑ کے دو بیٹے) کہا گیا ہے۔ البتہ تورات میں ان کے یہی نام بیان کئے گئے ہیں۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت اس طرح ہے!انسانی دنیا میں اضافہ کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں یہ دستور تھا کہ حضرت حوا ؑ سے توام (جڑواں) پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کا نکاح دوسری بار پیدا ہونے والے توام بچوں کے ساتھ کر دیا کرتے تھے۔اس دستور کے مطابق قابیل اور ہابیل کی شادی کا معاملہ درپیش ہوا۔ قابیل عمر میں بڑا تھا اور اس کی بہن اقلیمہ ہابیل کی بہن غازہ سے زیادہ حسین و خوب رو تھی۔قابیل کو یہ انتہائی ناگوار تھا کہ دستور کے مطابق اس کی بہن کی شادی ہابیل کے ساتھ کی جائے۔ فساد ختم کرنے کے لئے حضرت آدم علیہ السلام نے یہ فیصلہ کیا کہ دونوں اپنی اپنی قربانی اللہ تعالیٰ کے لئے پیش کریں۔ جس کی قربانی قبول ہو جائے گی وہ اپنے ارادے کو پورا کرنے کا مستحق ہو گا۔

توریت کے مطابق اس زمانے میں قربانی کا یہ الہامی دستور تھا کہ نذر کی چیز کسی بلند جگہ پر رکھ دی جاتی تھی اور آسمان سے آگ نمودار ہو کر اس کو جلا دیتی تھی۔ اس قانون کے مطابق ہابیل نے اپنے ریوڑ سے ایک بہترین دنبہ خدا کی نذر کیا اور قابیل نے اپنی کھیتی کے غلے میں سے کرم خوردہ (کیڑا لگا ہوا) غلہ قربانی کے لئے پیش کیا۔ روایت کے مطابق ہابیل کی قربانی قبول ہوئی۔ قابیل اس توہین کو برداشت نہیں کر سکا اور اس نے غیظ و غضب میں ہابیل سے کہا کہ ’’میں تجھ کو قتل کئے بغیر نہ چھوڑوں گا تا کہ تو اپنی مراد کو نہ پہنچ سکے۔‘‘ہابیل نے جواب دیا۔’’میں تجھ پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا۔ باقی تیری جو مرضی ہے وہ کر۔ راہ خدا میں نیک نیت کی نذر قبول ہوتی ہے۔ وہاں بری نیت کی دھمکی کام آتی ہے اور نہ بے وجہ کا غم و غصہ کام آتا ہے۔‘‘قابیل پر اس نصیحت کا الٹا اثر ہوا اور اس نے مشتعل ہو کر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔

قتل کے بعد قابیل حیران تھا کہ نعش کا کیا کرے۔ ابھی تک نسل آدم موت سے دوچار نہیں ہوئی تھی۔قابیل نے دیکھا کہ کوے نے زمین کو کرید کرید کر گڑھا کھودا۔ قابیل نے فیصلہ کیا کہ مجھے بھی اپنے بھائی کے لئے اسی طرح گڑھا کھودنا چاہئے اور بعض روایات میں ہے کہ کوے نے دوسرے مردہ کوے کو اس گڑھے میں چھپا دیا۔ قابیل نے دیکھا تو بے حد افسوس کیا اور کہا:’’میں اس حیوان سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اپنے جرم کو چھپانے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا، ندامت اور پچھتاوے کے احساس کے ساتھ اپنے بھائی کی نعش کو سپرد خاک کر دیا۔‘‘

اس واقعہ سے دو قسم کی طرز فکر کا پتہ چلتا ہے۔ ایک شیطانی طرز فکر اور دوسری رحمانی طرز فکر۔ قابیل کی طرز فکر شیطانی جبکہ ہابیل کی طرز فکر رحمانی تھی۔ غصہ شیطانی طرز فکر کا مظاہرہ ہے۔ اس کے برعکس حلم و بردباری رحمانی طرز فکر کا پرتو ہے۔ شیطانی طرز فکر کے زیر اثر ہر عمل گھاٹے کا سودا ہے اور رحمانی طرز فکر کے تحت انجام پانے والے اعمال سراپا خیر ہیں۔

 


Hazrat Adam Aleh Salam (BKLET)

Khwaja Shamsuddin Azeemi


اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو جو مقام عطا ہوا وہ اسماء کا علم ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے خود کو جنت میں دیکھا۔ جنت ایسی فضا ہے جس میں کثافت نہیں ہے۔ جہاں زندگی کا وہ رخ سامنے رہتا ہے جس رخ میں سکون ہے، راحت و آسائش ہے۔ حاکمیت اور تسخیر کائنات کا احساس ہے۔