Topics
قرآن
اللہ کی آخری کتاب ہے اور محمدﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ حضورﷺ کی آمد اور نزول
قرآن کے بعد پہلے رسولوں پر نازل کی گئی کتابوں کی پوزیشن اب کیا ہے؟ نعمان نے
بہت اہم سوال کیا۔
حضرت
آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمدﷺ تک اللہ کے بھیجے ہوئے تمام رسولوں پر اللہ
کا نازل کردہ تمام کلام برحق ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی رسالت پر ایمان لانے والوں یعنی
مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے تمام انبیائے کرام اور اللہ کی
نازل کردہ تمام کتابوں پر بھی اپنے ایمان کا اقرار کریں۔
اگر
کوئی شخص حضرت محمدﷺ کو اللہ کا رسول تسلیم کرتا ہو لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام،
حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام یا حضرت
آدم علیہ السلام کو اللہ کا رسول نہ مانے تو کیا وہ مسلمان کہلائے گا؟ نعمان ہی
نے پوچھا۔
ایک
مسلمان کے لئے لازمی ہے کہ وہ مندرجہ ذیل پانچ باتوں پر اپنے ایمان کا اقرار کرے۔
۱۔ اللہ پر ایمان
۲۔ اللہ کے فرشتوں پر ایمان
۳۔ اللہ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان
۴۔ اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں پر ایمان
۵۔ یوم آخرت پر ایمان
اللہ
وحدہ لا شریک پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اللہ کے فرشتوں، اللہ کی نازل کردہ تمام
کتابوں اور حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک اللہ کے تمام رسولوں اور یوم قیامت
پر ایمان کا اقرار ضروری ہے۔ ایمان مفصل میں اسی جانب اشارہ ہے۔
آپ
چاروں میں سے ایمان مفصل کس کس کو یاد ہے؟
مجھے
یاد ہے۔
اور
مجھے بھی۔
نعمان
اور سندس نے ہاتھ بلند کئے۔
اچھا
سناؤ؟
سندس
نے سر پر دوپٹہ اوڑھ کر سنایا۔
اٰمنت
باللّٰہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ و الیوم الاخر والقدر خیرہ و شرہ من اللّٰہ تعالیٰ
و البعث بعد الموتo
ترجمہ:
ایمان لایا میں اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کی نازل کی گئی تمام کتابوں پر اس کے
بھیجے ہوئے رسولوں پر اور یوم قیامت پر۔
اچھا
مجھے یہ بتاؤ۔ اویس نے نعمان سے پوچھا۔ اللہ کے رسولوں اور انبیاءکا مشن کیا تھا؟
حضرت
محمد مصطفیٰﷺ اور آپﷺ سے پہلے آنے والے اللہ کے رسولوں اور انبیاءکا مشن لوگوں
کو توحید کی طرف بلانا اور یہ بتانا تھا کہ اس دنیا میں زندگی اللہ کے حکم کے
مطابق بسر کی جائے۔ اللہ کے بھیجے ہوئے تمام رسولوں نے خالق و مالک کائنات اللہ
وحدہ لا شریک پر ایمان کی دعوت دی۔
تم
نے ٹھیک سمجھا ہے۔ اویس نے نعمان کی طرف شفقت و محبت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
تو
پھر ایمان کے معاملے میں صرف یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان
لاؤ۔ اسی موقع پر اللہ کے علاوہ دیگر ہستیوں یعنی فرشتوں اور رسولوں پر ایمان اور
کتابوں اور یوم قیامت پر ایمان کا ذکر کرنے میں کیا مصلحت ہے؟ نعمان نے پوچھا۔
بیٹے!
تم نے بہت اچھا سوال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ توفیق عطا فرمائیں کہ ہم اس
کے راستے میں جدوجہد کریں۔ قرآنی علوم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن کے روشن اور
بابرکت الفاظ میں جو معانی و مفہوم اور جو حکمت و فارمولے پوشیدہ ہیں، ان کو سمجھ
سکیں۔
آمین۔
نعمان نے کہا۔
ثم
آمین۔ سب بچوں نے کہا۔
ایمان
مفصل کی حکمت پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایمان مفصل دراصل اللہ تعالیٰ
کی وحدانیت کا مکرر اقرار ہے۔ نعمان بیٹے! ذرا ایک مرتبہ پھر دہرانا ایمان مفصل کیا
ہے۔
اٰمنت
باللّٰہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ و الیوم الاخر والقدر خیرہ و شرہ من اللّٰہ تعالیٰ
و البعث بعد الموتo
ترجمہ:
ایمان لایا میں اللہ پر اس کے فرشتوں پر اس کی نازل کی گئی تمام کتابوں پر اس کے
بھیجے ہوئے رسولوں پر اور یوم قیامت پر۔
اب
میں تمہیں ذرا تفصیل سے بتاتا ہوں۔
اللہ
پر ایمان کے بعد اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے کہ فرشتے اللہ نے تخلیق کئے ہیں۔
قدیم
دور میں لوگوں کا ایک گروہ یہ کہا کرتا تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں
جبکہ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ اکیلا ہے، وہ کسی کی اولاد نہیں اور نہ ہی اس
کی کوئی اولاد ہے۔ فرشتے بھی دوسری تخلیقات کی طرح اللہ کی مخلوق ہیں۔ فرشتے اللہ
کے حکم کے تابع ہیں اور جس فرشتے کی اللہ نے جو ڈیوٹی لگائی ہے وہ فرشتہ اس ڈیوٹی
کو اللہ کے حکم کے مطابق ادا کر رہا ہے۔ فرشتے ساری کائنات کے مالک اللہ کے تابع ہیں۔
وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتے۔ اللہ نے ان میں جو پروگرام جس طرح فیڈ کر دیا ہے
اس پر عمل کرتے ہیں۔
اللہ
کے رسولوں پر ایمان یعنی اس بات پر ایمان کہ رسولوں اور انبیاءکو اللہ تعالیٰ نے
بھیجا۔
کوئی
رسول یا نبی اللہ کا بیٹا نہیں ہے۔ دوسرے تمام انسانوں کی طرح انبیاءبھی اللہ تعالیٰ
کی مخلوق میں شامل ہیں۔ انبیاءاللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں۔ کوئی نبی یا رسول
خواہ اس کا درجہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو خود خدا نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح کوئی نبی یا
رسول نہ خدا کا بیٹا ہے نہ کوئی نبی یا رسول خدا کے برابر ہے۔
اللہ
کی کتابوں پر ایمان سے کیا مراد ہے؟
اللہ
کی کتابوں پر ایمان یعنی اس بات پر ایمان کہ رسولوں اور انبیاءپر جو کچھ اللہ کا
کلام نازل ہوا وہ اللہ کی طرف سے تھا۔ کسی نبی نے اللہ کا پیغام انسانوں کو دیتے
وقت اس میں اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی نہیں کی۔ اللہ کے بھیجے ہوئے ہر نبی نے اللہ
کا کلام بغیر کسی آمیزش کے بلا کم وکاست لوگوں تک پہنچایا۔
اس
دنیا میں ایک مقررہ وقت تک زندگی گزار کر ہر شخص کو ایک دن اللہ کے دربار میں حاضر
ہونا ہے۔ وہ دن فیصلہ کا دن ہو گا۔ اس دن اس دنیا میں گزاری ہوئی زندگی کا ایک ایک
لمحہ ہر شخص کو دکھا دیا جائے گا۔ اسے بتا دیا جائے گا کہ اس دنیا میں زندگی
گزارتے ہوئے اس نے اپنے اختیار کو کہاں کہاں اللہ کی مرضی و منشاءکے مطابق استعمال
کیا اور کہاں کہاں اپنے اختیار کو اللہ کی مرضی و منشاءکے خلاف استعمال کیا۔ اس دن
اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کرنے والوں کو ان کے نیک اعمال کا پورا پورا اجر
عطا کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہو گا۔ اس روز نافرمان اور راہ سے بھٹکے
ہوئے انسانوں کے پاس کوئی راہ فرار نہیں ہو گی۔ وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے سوا دوسرے
معبود بنا لئے یا شرک کیا، ان کے بنائے ہوئے وہ معبود ان کے کچھ کام نہ آئیں گے۔
اس
مختصر سی تفصیل کے بعد اب ذرا پھر غور کرو۔ ایمان مفصل میں اللہ پر ایمان کے حکم
کے بعد دیگر پر ایمان دراصل اللہ کی وحدانیت پر ایمان کو پختہ تر کرنے کا سبب بنتے
ہیں۔ اللہ کے رسولوں، اللہ کے فرشتوں، اللہ کی کتابوں پر صحیح معنوں میں ایمان
رکھنے والا شخص کبھی وحدانیت کی راہ سے نہیں ہٹ سکتا اور یوم آخر پر ایمان رکھنے
والا فرد اور معاشرہ کبھی کفر اور شرک کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ ایسے افراد اور
معاشرے کبھی عدم توازن کا شکار نہیں ہوتے اور ایسے پاکیزہ معاشروں میں ظلم و زیادتی
کا دور ختم ہو جاتا ہے۔
لیکن
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایمان کی تکمیل کس طرح ہوتی ہے؟
اس
کے دو مراحل ہیں۔ ایک زبان سے اقرار کر لینا یعنی اقرار باللسان دوسرے دل سے تسلیم
کر لینا یعنی تصدیق بالقلب۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ زبان سے کہا گیا ہے اسے حقیقی
طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ زبان سے اقرار کر لینے والا مسلمان کہلانے کا حقدار
تو بن جاتا ہے لیکن اس کا ایمان درجہ کمال کو اس وقت پہنچتا ہے جب وہ زبان سے ادا
کئے ہوئے الفاظ کی حقیقت و معنویت کو دل کی گہرائیوں سے محسوس اور تسلیم کرے۔
اقرار
باللسان اور تصدیق بالقلب کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اللہ کی عبادت کس طرح کی جائے؟
نعمان نے سوال کیا۔
اللہ
کے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے قیامت تک، انسانوں کے لئے اللہ کی عبادت کا طریقہ
بہت اچھی طرح بتا دیا ہے۔ ہر بندے کے اوپر دو طرح کے حق ہیں۔ یعنی ہر بندہ کا یہ
فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی میں دو طرح کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرے۔
۱۔ اللہ کے حقوق
۲۔ بندوں کے حقوق یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد
حقوق
اللہ میں سب سے پہلا حق یہ ہے کہ انسان اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرے۔ اللہ کے
ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔ صرف اللہ کی عبادت کی جائے، اللہ کے سوا کسی کی
عبادت نہ کی جائے۔
تم
کو سورہ اخلاص یاد ہے؟ اویس نے سندس سے پوچھا۔
جی
مجھے یاد ہے۔
سورہ
اخلاص یعنی قل ھو اللہ شریف؟ امل نے اس کی تصدیق چاہی۔
سورہ
اخلاص کو بعض لوگ قل ھو اللہ شریف کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ سندس بیٹی تم سب کو
سورہ اخلاص سناؤ۔
بسم
اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
قل
ھو اللّٰہ احدoاللّٰہ
الصمدoلم
یلد و لم یولدoو
لم یکن لہ کفواً احدo
اس
کا مطلب کیا ہے؟ فیضان نے پوچھا۔
سورۃ
اخلاص کا ترجمہ مجھے یاد ہے۔ امل نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
سناؤ!
ترجمہ:
کہو اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔
اور اس کا کوئی ہمسر، نہ اس کا کوئی خاندان ہے۔
سورہ
اخلاص میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمدﷺ کے ذریعے انسانوں کو اپنی ذات کے بارے میں
کچھ بتایا ہے۔ نعمان نے پوچھا۔
کچھ
نہیں بھائی بہت کچھ بتایا ہے۔ کیا اس مختصر سی سورہ میں عقیدہ توحید جامع طور پر بیان
نہیں کر دیا گیا؟ سندس نے بھائی کو اپنی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔
واقعی
اس میں کوئی شک نہیں کہ سورہ اخلاص مختصر ہونے کے باوجود اپنے اندر معانی کا ایک
جہاں سمیٹے ہوئے ہے۔ اویس نے کہا۔
میں
یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ہم سورہ اخلاص میں پنہاں معانی کو کس طرح بہتر طور پر
سمجھ سکتے ہیں۔ نعمان نے پوچھا۔
اویس
نے اس کی بات سمجھ کر بتایا۔
اگر
سورہ اخلاص کے معنی و مفہوم پر اچھی طرح غور کیا جائے تو انسان کو علم و دانش کی
وہ روشنی حاصل ہوتی ہے جس سے قرآن کے معنی و حکمت کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
سورہ اخلاص میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
1۔ قل
ھو اللّٰہ احد۔ (اے پیغمبر سب لوگوں کو) بتا دیجئے کہ اللہ ایک ہے۔
یہاں
ایک سے مراد صرف عددی طور پر ایک ہونا نہیں ہے بلکہ ایسا ایک جو منفرد اور یکتا ہے
اس جیسا دوسرا کوئی نہیں نہ عدد میں نہ صفات میں۔ ایسا منفرد اوریکتا جسے کسی بھی
طرح الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خالق اور مخلوق کے درمیان بتایا گیا پہلا
فرق ہے یعنی خالق احد ہے مخلوق کثرت ہوتی ہے۔
2۔ اللّٰہ
الصمد۔ اللہ بے نیاز ہے۔
یعنی
اللہ کی ذات ہر قسم کی ضروریات سے اور ہر قسم کی احتیاج سے بے نیاز ہے۔ نہ اسے
اپنے لئے غذا کی ضرورت ہے، نہ پانی کی، نہ اسے نیند کی ضرورت ہے اور نہ ہی آرام
کرنے یا سستانے کی۔ اللہ کو کسی چیز کے حصول کے لئے کوشش اور جدوجہد نہیں کرنا پڑتی۔
اللہ کو کسی چیز کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہاں خالق و مخلوق کے درمیان دوسرا فرق بتایا
جا رہا ہے یعنی اللہ تو ہر قسم کی ضروریات سے بے نیاز ہے جبکہ مخلوق اپنی پیدائش
سے لے کر موت بلکہ پیدائش سے قبل اور موت کے بعد بھی قدم قدم پر اپنی کئی ضروریات
رکھتی ہے۔ مخلوق اپنی ضروریات اور اپنی احتیاج سے بے نیاز ہو ہی نہیں سکتی۔ مخلوق
کی مجبوری ہے کہ وہ کھانا کھائے، پانی پیئے۔ اسے نیند آئے، وہ آرام کرے۔
3۔ لم
یلد۔ اس کی کوئی اولاد نہیں۔
اللہ
تعالیٰ ایک ہے، یکتا ہے۔ اللہ ہر قسم کی ضروریات سے بے نیاز ہے اور اللہ کی کوئی
اولاد نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات میں موجود ہر شئے کا خالق ہے، اللہ تعالیٰ
نے ہر شئے کو اپنی مرضی سے ایک فارمولا مرتب کر کے تخلیق کیا ہے لیکن جنم نہیں دیا۔
اللہ تخلیق کرتا ہے جنم نہیں دیتا۔ مخلوق جنم دیتی ہے۔
4۔ و
لم یو لد۔ نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔
جس
طرح اللہ تعالیٰ چیزوں کو جنم نہیں دیتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کسی سے جنم بھی
نہیں لیا۔ مخلوق جنم لیتی ہے۔
5۔ و
لم یکن لہ کفواً احد ۔ اللہ کا کوئی خاندان نہیں۔
مخلوق
خواہ انسان ہو یا کوئی اور مخلوق سب اپنی ذاتی شناخت کے علاوہ اپنی ایک اجتماعی
شناخت بھی رکھتے ہیں۔ خاندان برادری، ذات قبیلہ، قوم مخلوق کی شناخت کے لئے یہ
ضروری ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ان سب باتوں سے مبرا ہے۔
سورۃ
اخلاص میں غور و فکر کرنے سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور صفت خالقیت کا واضح طور
پر احساس ہوتا ہے اور یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اللہ اکیلا اس ساری کائنات کا
خالق و مالک ہے۔ اللہ کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب اللہ کا تخلیق کیا ہوا ہے۔
ڈاکٹر وقاریوسف عظیمیؔ
وقار یوسف عظیمی، میرے بیٹے، میرے لخت جگر ہیں۔ حضور قلندر بابا اولیائؒ کی گود میں کھیلے ہوئے ہیں۔ اپنا بچپن قلندر باباؒ کی انگلی پکڑ کر گزارا ہے۔ جوانی میں ان کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ان کے قلم کو قدرت نے یہ وصف بخشا ہے کہ ’’معلم‘‘ جیسی کتاب منظر عام پر آ گئی ہے……اظہار بیان، سادہ اور دلنشین ہے۔
کسی کتاب کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ قاری کو اکتاہٹ نہ ہو اور کتاب کا پس منظر کتاب پڑھتے وقت آپ کے سامنے فلم بن جائے۔ تحریر کے الفاظ اگر کردار بن جائیں اور ان کرداروں میں جان پڑ جائے تو اس بات کی علامت ہے کہ مولف یا مصنف دل گداز اور صاحب طرز قلمکار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیائؒ کی تربیت کا کمال ہے کہ حکیم وقار یوسف عظیمیؔ نے اتنی اچھی کتاب تحریر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ آمین
خواجہ شمس الدین عظیمیؔ
مرکزی
مراقبہ ہال
سرجانی
ٹاؤن۔ کراچی