Topics

سانس کی لہریں

 

سوال: سانس کے عمل اور روحانی صلاحیتوں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

جواب: زندگی اور زندگی سے متعلق جذبات و احساسات، واردات و کیفیات، تصورات و خیالات اور زندگی سے متعلق تمام دلچسپیاں اس وقت تک قائم ہیں جب تک سانس کی آمد و رفت جاری ہے ۔زندگی کا دارومدار سانس کے اوپر قائم ہے۔ سانس کی طرزوں پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ذی روح میں سانس کا نظام قائم و دائم ہے۔ لیکن ہر نوع میں سانس کے وقفے متعین ہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر آدمی کے اندر سانس کے ذریعے دل کی حرکت متعینہ وقت میں ۷۲ ہے تو بکری میں اس سے مختلف ہو گی اور چیونٹی میں اس سے بالکل مختلف ہو گی۔

کوئی ایسا آلہ ایجاد کر لیا جائے کہ جس سے درخت کی سانس کی پیمائش ہو سکے تو اس کے سانس کی دھڑکن بولنے والی مخلوق سے مختلف ہو گی اور اگر ہم کوئی ایسا آلہ ایجاد کر لیں جس سے پہاڑ کی نبضوں کی حرکت ریکارڈ کریں تو وہ درخت کے اندر کام کرنے والی نبضوں کی حرکت سے مختلف ہو گی۔ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ ایک سانس آتا ہے، ایک سانس جاتا ہے یعنی ایک سانس ہم اندر لیتے ہیں اور ایک سانس باہر نکالتے ہیں۔ یہ بات بھی ہم سب کے سامنے ہے کہ پرسکون حالت میں سانس میں ایک خاص قسم کا توازن ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پریشانی، غم یا اضطراب میں سانس کی کیفیت مختلف ہو جاتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی آدمی ڈر جائے تو اس کے دل کی حرکت تیز اور بہت تیز ہو جاتی ہے۔ اگر غور کریں تو نظر آئے گا کہ دل کی حرکت کے ساتھ سانس کی حرکت بھی تیز ہو جاتی ہے۔

سانس کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ یہ ہے کہ ہم سانس اندر لیتے ہیں یعنی سانس کے ذریعے آکسیجن جذب کرتے ہیں۔ اور دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم سانس باہر نکالتے ہیں یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔

یہاں پھر بہت غور طلب نکتہ یہ ہے کہ جب ہم سانس لیتے ہیں تو کوئی چیز اندر جا کر جلتی ہے۔ یعنی فضا میں جو آکسیجن پھیلی ہوئی ہے وہ سانس کے ذریعے اندر جا کر جلتی ہے جس طرح گاڑی کے اندر پیٹرول جلتا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جلا ہوا فضلہ باہر نکل جاتا ہے۔ یہ سلسلہ پیدائش سے موت تک برقرار رہتا ہے۔ اب ہم اس کو روحانیت کی طرز پر بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ ہم جب اندر سانس لیتے ہیں تو ہمارا رخ باطن (Inner) کی طرف ہوتا ہے۔ ہم جب سانس باہر نکالتے ہیں تو ہماری تمام دلچسپیاں دنیا میں پھیلی ہوئی چیزوں اور اپنے گوشت پوست کے حواس کے ساتھ قائم رہتی ہیں۔ حواس کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ وہ ہے جو ہمیں زمان و مکان (Time and Space) میں قید کرتا ہے۔ دوسرا رخ وہ ہے جو ہمیں زمان و مکان سے آزاد کرتا ہے۔ وہ رخ جو ہمیں زمان و مکان سے آزاد کرتا ہے، نیند کی حالت میں ہمارے اوپر غالب رہتا ہے۔ یعنی جب ہم سو جاتے ہیں تو ہمارے شعوری حواس کی نفی ہو جاتی ہے۔ اور ہمارے اوپر سے (Time and Space) کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے۔ اور جب ہم بیدار ہو جاتے ہیں تو (Time and Space) سے آزاد حواس عارضی طور پر ہم سے الگ ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق خواب اور بیداری زندگی کے دو رخ ہیں۔ یعنی انسان کی زندگی دو رخ یا دو حواس سے مرکب ہے۔ ایک کا نام دن یا بیداری ہے اور دوسرے کا نام خواب یا رات ہے۔ رات کے حواس میں ہر ذی روح مخلوق (Time and Space) سے آزاد ہو جاتی ہے۔ دن کے حواس میں ہر ذی روح مخلوق (Time and Space) کے حواس میں قید ہو جاتی ہے۔

زندگی کا قیام سانس کے اوپر ہے۔ اور سانس کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ یہ ہے کہ سانس ہم اندر لیتے ہیں اور دوسرا رخ یہ ہے کہ سانس ہم باہر نکالتے ہیں۔ سانس کا اندر جانا ہمیں ہماری روح سے قریب کر دیتا ہے اور سانس کا باہر آنا ہمیں ان حواس سے قریب کرتا ہے جو حواس ہمیں روح کی معرفت سے دور کرتے ہیں۔ جب ہم آنکھیں بند کر کے یا کھلی آنکھوں سے کسی طرف پوری یک سوئی کے ساتھ متوجہ ہو جاتے ہیں تو سانس اندر لینے کا وقفہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ یعنی ہماری شعوری توجہ روح کی طرف ہو جاتی ہے۔

سوال: روحانی علم کو مخفی علم یا علم سینہ کہہ کر کیوں عام نہیں کیا گیا؟

جواب: تصوف کے اوپر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں روحانی علوم کا تذکرہ تو کیا گیا لیکن اس علم کو ایک اور ایک دو، دو اور دو چار کی طرح عام نہیں کیا گیا۔ بہت سے رموز و نکات بیان کئے گئے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے رموز و نکات پردے میں اس لئے ہیں کہ ان رموز و نکات کو وہی حضرات سمجھ سکتے ہیں جو منزل رسیدہ ہیں یا جو حضرات راہ سلوک میں سفر کر چکے ہیں۔

ہمارے اسلاف نے یہ بھی فرمایا کہ روحانی علوم چونکہ منتقل ہوتے ہیں اس لئے ان کو محفوظ رہنا چاہئے اور ان کی حفاظت کرنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علوم کا نام علم سینہ رکھ دیا گیا ہے۔ ہمارے اسلاف نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ روحانی علوم حاصل ہونے کے بعد ان کے نتائج (مافوق الفطرت باتوں) کو چھپا لینا چاہئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسانوں کے اندر سوچنے سمجھنے اور علم حاصل کرنے کی صلاحیت اتنی موجود نہیں تھی جتنی صلاحیت آج موجود ہے۔ سائنس کے اس ترقی یافتہ دور سے پہلے دور دراز آوازوں کا پہنچنا کرامت سمجھی جاتی تھی۔ لیکن آج سائنس دانوں نے آواز کا طول موج (Wave Length) دریافت کر لیا ہے۔ خیالات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا بھی کرامت (مافوق الفطرت) بیان کیا جاتا ہے۔

آج کی دنیا میں ہزاروں میل کے فاصلے پر پوری کی پوری تصویر منتقل ہو جاتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں، صرف پچاس سال پہلے لوگوں سے یہ کہا جاتا تھا کہ آدمی روشنیوں کا بنا ہوا ہے تو لوگ مذاق اڑاتے تھے۔ آج سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آدمی لہروں سے مرکب ہے۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے یہ بات بتا دی کہ آدمی لہروں سے مرکب ہے، وہ آدمی کی ایک جگہ سے گزرنے کے بعد بھی تصویر لے لیتے ہیں۔

پہلے زمانے میں دادی اور نانی بچوں کو اڑن کھٹولوں کے قصے سنایا کرتی تھیں کہ ایک اڑن کھٹولا تھا۔ اس پر ایک شہزادی اور شہزادہ بیٹھے اور اڑ گئے۔ نانی اور دادی کے وہی اڑن کھٹولے آج ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ نہ صرف یہ کہ موجود ہیں بلکہ ہم اس میں بیٹھ کر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق سفر بھی کرتے ہیں۔

ان تمام مثالوں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ سائنس کی ترقی سے پہلے نوع انسانی کی صلاحیت اتنی نہیں تھی کہ روحانی رموز و نکات اس کی سمجھ میں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگوں اور اسلاف نے پہلے چند لوگوں کا انتخاب کیا اور پھر ان کو وہ علوم منتقل کر دیئے لیکن آج کے دور میں انسان کی دماغی صلاحیت اور سکت فہم اور تفکر اتنا زیادہ طاقتور ہے کہ جو چیزیں پہلے کشف و کرامات کے دائرے میں آتی تھیں آج وہی چیزیں انسان کی عام زندگی میں داخل ہیں۔ جیسے جیسے علوم سے انسان کی سکت بڑھتی گئی اور شعور طاقتور ہو گیا، ذہانت میں اضافہ ہوا، گہری باتوں کو سمجھنے اور جاننے کی سکت بڑھی۔ سائنس کی ترقی سے یہ بہت بڑا فائدہ ہوا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے شعور کی طاقت بڑھی اسی مناسبت سے آدمی کے اندر یقین کی طاقت کمزور ہوتی چلی گئی۔

یقین کی طاقت کمزور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ سے دور ہوتا چلا گیا۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سائنس کی ترقی کا مطمح نظر زیادہ تر دنیاوی آسائش و آرام کا حصول ہے۔ چونکہ دنیا خود بے یقینی کا سمبل(Symbol) اور فکشن (Fiction) ہے اور مفروضہ حواس کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس لئے یہ ترقی بھی ہمارے لئے عذاب بن گئی۔ اگر اس ترقی کی بنیاد ظاہر اسباب کے ساتھ ماورائی صلاحیت کی تلاش ہوتی تو یقین کمزور ہونے کے بجائے طاقتور ہوتا۔ لیکن اس کے باوجو دسائنسی علوم کے پھیلاؤ سے بہرحال اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ہمارے اندر ایسے علوم حاصل کرنے کی صلاحیت کا ذوق پیدا ہوا جو ہمیں روحانیت سے قریب کرتے ہیں۔

اب سے پچاس سال پہلے یا سو سال پہلے جو چیز پچاس پچاس، سو سو سال کی ریاضت کے بعد حاصل ہوتی تھی۔ اب وہی چیز ارادے کے اندر یقین مستحکم ہونے سے چند مہینوں اور چند سالوں میں حاصل ہو جاتی ہے۔

سوال: اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنے اور توکل کرنے کے کیا معانی ہیں؟

جواب: روحانی زندگی میں داخل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی کھانا نہ کھائے، پانی نہ پئے، کپڑے نہ پہنے، اس کے دوست احباب نہ ہوں۔ یہ سب اس لئے ہونا ضروری ہے کہ دنیا کو وجود بخشنے والا اس دنیا میں رونق دیکھنا چاہتا ہے۔ اس دنیا کو قائم رکھنا چاہتا ہے وہ اس دنیا کو خوبصورت دیکھنا چاہتا ہے۔ اسباب و وسائل جب تک دنیا میں موجود ہیں، دنیا موجود ہے، دنیا قائم ہے۔۔۔۔۔۔دنیا میں جو وسائل پیدا کئے گئے ہیں ان کا فائدہ بہرحال انسانوں کو پہنچتا ہے اور پہنچتا رہے گا۔

روحانیت ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ دُنیا میں رہتے ہوئے بندہ سب کام کرے ، اچھا کھائے ، بہترین لباس پہنے، چٹنی کے ساتھ مرغ بھی کھائے۔ لیکن ہر کام اور ہر عمل کا رُخ اس ذات کی طرف موڑ دے جس نے یہ دُنیا بنائی ہے۔ کھانا اس لئے کھائے کہ اللہ چاہتا ہے کہ بندہ کھانا کھائے۔ بندے کھانا نہیں کھائیں گے تو دُنیا ویران ہو جائے گی۔ پانی اس لئے پیئے تاکہ اللہ کا لگایا ہوا باغ دنیا سرسبزو شاداب رہے۔ آپ بیوی بچوں سے محبت کریں لیکن یہ محبت اس لئے کریں کہ بچوں کی تربیت آپ کے ذمے ہے۔ اور اللہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کریں کہ انسانی اقدار پھلیں پھولیں اور بھیڑ بکریوں سے ممتاز ایک معاشرہ قائم ہو۔ بچوں کی تربیت اس طرز پر کی جائے کہ ان کی زندگی پر اللہ کی ذات محیط ہو جائے اور جب وہ سن بلوغت کو پہنچیں تو ان میں یہ طرز مستحکم ہو جائے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر عمل کا رُخ اختیاری اور غیر اختیاری طور پر اللہ کی طرف موڑ دیں۔ذرا سوچئے تو سہی کہ ہم اپنی اولاد سے اس لئے پیار کرتے ہیں کہ اللہ ہم سے خوش ہو جائے اور ہم اپنی اولاد سے اس لئے پیار کرتے ہیں کہ یہ ہماری اولاد ہے۔ اور اس سے ہماری نسل چلے گی۔ اولاد سے پیار کے سلسلے میں جب آپ اپنے عمل کا رُخ اپنی ذات کی طرف موڑ دیتے ہیں تو اولاد کی محبت میں آپ ایسے راستے اختیار کرتے ہیں کہ جن راستوں پر چل کر آپ کی اولاد کے اندر قادر مطلق اللہ سے تعلق قائم نہیں ہوتا۔ اگر آپ اللہ کے لئے اولاد سے محبت کریں گے تو یہ آپ کے لئے بھی فلاح ہے اور اولاد کے لئے بھی فلاح ہے ۔ لیکن دونوں صورتوں میں خواہ آپ ذاتی طور پر اولاد کو پیار کریں اور اولاد کی تربیت کریں یا اللہ کے لئے اولاد کو پیار کریں اور تربیت کریں۔ آپ کو ہی فائدہ ہے۔

روزمرہ زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ روزی اور رزق کا حاصل کرنا ہے اس لئے کہ رزق حاصل کئے بغیر زندگی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ زندگی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ہمارے سامنے یہ بات موجود ہے کہ ہماری زندگی مختلف مراحل اور مختلف زمانوں سے مزین ہے۔ زندگی کے قیام کا پہلا زمانہ یا مرحلہ ایسی بند کوٹھری ہے جس میں بظاہر نہ ہوا کا گزر ہے اور نہ ہی اس کوٹھری میں انسان کے اپنے ارادے اور اختیار سے کھانے پینے کی چیزیں مہیاہوتی ہیں نہ ہی اس کوٹھری میں رہتے ہوئے وہ پانی روزی حاصل کرنے کے لئے کوئی محنت اور مشقت کرتا ہے۔ لیکن اسے روزی ملتی ہے اور روزی اس کی نشوونما بھی کرتی ہے۔ اس نشوونما کا دور نو مہینے کی زندگی پر مشتمل ہے۔ ماں کے پیٹ میں بچہ بتدریج اور ایک توازن کے ساتھ بڑھتا رہتا ہے اور اس کی ساری غذائی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں 9 مہینے کے بعد مکمل آدمی کی شکل و صورت اختیار کر کے بچہ اس کوٹھری سے باہر آ جاتا ہے اب بھی و ہ اس قابل نہیں ہے کہ اپنی ضروریات خود پوری کر سکے۔ اس کی زندگی کو نشوونما دینے کے لئے اللہ تعالیٰ ماں کے دل میں محبت ڈال دیتا ہے اور ساتھ ہی ماں کے سینے کو اس بچے کے لئے دودھ کا چشمہ بنا دیتا ہے۔ بچہ بغیر کسی جدوجہد کے غذا حاصل کرتا رہتا ہے اور اس کی پرورش ہوتی رہتی ہے۔ بچپن سے گزر کر لڑکپن کے زمانے میں بھی اس کو اپنی روزی حاصل کرنے کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی۔ اس کی تمام ضروریات کا کفیل اللہ تعالیٰ نے اس بچے کے ماں باپ کو بنا دیا ہے۔ اب بچہ لڑکپن سے نکل کر شعور کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔ شعور کی دنیا میں یہ انقلاب برپا ہوتا ہے کہ وہ سوچتا ہے کہ مجھے روزی حاصل کرنے کے لئے کچھ کرنا ہو گا۔ وہ اس تگ و دو میں اپنی پچھلی ساری زندگی کو فراموش کر دیتا ہے۔ اس کے ذہن سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ بغیر کسی جدوجہد کے بھی اللہ تعالیٰ مجھے رزق دیتے رہے ہیں۔ جوانی کے دور سے گزر کر وہ بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں بھی اس کے اعضاء اسی طرح ہو جاتے ہیں جس طرح بچپن میں تھے اور وہ اپنی معاش حاصل کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ لیکن جب تک اس کی زندگی ہے، اللہ تعالیٰ اسے روزی فراہم کرتے رہتے ہیں۔

ہمارا جوانی کے دور میں یہ سوچنا کہ ہمیں رزق ہماری محنت سے ملتا ہے۔ صحیح طرز فکر کے خلاف ہے، اس لئے کہ ہماری زندگی کا تین چوتھائی بغیر محنت اور مزدوری کر کے گزرتا ہے۔ محنت، مزدوری اور کوشش اس لئے کی جانی چاہئے کہ اللہ کا نظام یہ ہے کہ اللہ اس کائنات کو ہر لمحہ اور ہر آن متحرک دیکھنا چاہتا ہے۔ جس طرح کہ اللہ نے ماں کے دل میں محبت پیدا کر دی اور ماں کو رزق پہنچانے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس بات کا پابند کر دیا ہے کہ وہ نوع انسان اور زمین کے اوپر آباد تمام مخلوق کو روزی فراہم کرے۔ آپ زمین میں بیج ڈالتے ہیں۔ اگر زمین بیج کی نشوونما کرنے سے انکار کر دے تو دنیا ویران ہو جائے گی جب کوئی چیز پیدا ہی نہیں ہو گی تو تمام حرکت اور تمام گردشیں رک جائیں گی۔

جس طرح اللہ تعالیٰ نے ماں کے دل میں محبت ڈال دی اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زمین کے دل میں بھی اپنی مخلوق کی محبت ڈال دی اور اسے پابند کر دیا کہ وہ زمین پر آباد مخلوق کی خدمت کرے۔ اسی طرح چاند اور سورج کو بھی اللہ تعالیٰ نے خدمت گزاری کے لئے مسخر اور پابند کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ زمین اگر اپنا ارادہ اور اختیار استعمال کر کے گہیوں نہ اُگائے، سورج اپنی روشنی یا دھوپ سے گندم کو نہ پکائے تو آپ روٹی کیسے کھائیں گے؟ اور روٹی پر ہی کیا دارومدار ہے ہر چیز کی یہی صورت ہے۔ جب زمین پر کوئی چیز پیدا نہیں ہو گی تو ہم زندہ کیسے رہیں گے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آدمی کو رزق اس کی ذاتی محنت کی وجہ سے نہیں ملتا، رزق پہلے سے موجود ہے۔ اسے رزق حاصل کرنے کے لئے صرف حرکت کرنی پڑتی ہے۔

طرز فکر کا ایک رخ یہ ہے کہ میں اگر محنت نہیں کرونگا تو بھوکا مر جاؤنگا ،طرز فکر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ مجھے اس لئے حرکت کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ حرکت پسند فرماتے ہیں، اس لئے کہ ساری کائنات بجائے خود ایک حرکت ہے۔ کائنات کا وجود اسی وقت زیر بحث آیا جب اللہ تعالیٰ کے ذہن نے حرکت کی یعنی اللہ تعالیٰ نے ’’کُن‘‘ فرمایا۔ ’’کُن‘‘ اللہ تعالیٰ کے ذہن کی ایک حرکت ہے اور یہ حرکت جاری و ساری ہے۔ انسان کے اندر جب یقین راسخ ہو جاتا ہے تو اس کی طرز فکر یہ ہوتی ہے کہ میری ہر حرکت، میرا ہر عمل اللہ کے رحم و کرم پر قائم ہے۔ وہی روزی دیتا ہے۔ وہی حفاظت کرتا ہے، وہی زندہ رکھتا ہے، وہی آفات اور بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے، وہی خوشی دیتا ہے۔ جب آدمی کا یقین ٹوٹ جاتا ہے تو اس کی طرز فکر ناقص ہو جاتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے سہارے تلاش کرتا ہے۔ سیٹھ ناراض ہو جائے گا تو نوکری چلی جائے گی اور سیٹھ خوش ہو جائے گا تو ترقی مل جائے گی۔ نعوذ باللہ! سیٹھ کوئی بندہ نہیں، خدا بن گیا۔ جب کسی قوم کی طرز فکر بہت زیادہ گمراہ ہو جاتی ہے یعنی اللہ کے علاوہ دوسروں کا سہارا سمجھنے لگتی ہے تو ایسی قومیں زمین پر بوجھ بن جاتی ہیں اور زمین انہیں رد کر دیتی ہے۔ وہ مفلوک الحال ہو جاتی ہیں اور ان کے اوپر احساس کمتری کا عذاب مسلط ہو جاتا ہے۔ انبیاءؑ کی طرز زندگی کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ہمارے سامنے صرف ایک ہی بات آتی ہے  کہ انبیاء کی طرز زندگی اور طرز فکر یہ ہے کہ وہ ہر بات، ہر عمل اور زندگی کی ہر حرکت کو اللہ کی طرف سے سمجھتے ہیں اور اللہ ہی کی طرف موڑ دیتے ہیں۔

سوال: رحمانی طرز فکر کو اپنے اندر راسخ کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

جواب: کسی طرز فکر کو اپنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ پہلے اس مخصوص طرز فکر کو قبول کیا جائے۔ پھر طرز فکر والی مخصوص ہستی سے ایسا تعلق قائم کر لیا جائے جو فریقین کو ایک دوسرے سے قریب تر کر دے۔ یہ تعلق اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب طرز فکر حاصل کرنے والا اس شخص کے عادات و اطوار کو اپنی عادت و اطوار بنائے اور جس شخص کی طرز فکر حاصل کرنا مقصود ہے وہ بھی دوسرے آدمی کو اپنا قرب عطا کرے۔ اور اس کو اپنی جان کا ایک حصہ سمجھے۔ تصوف میں طرز فکر حاصل کرنے کا اصطلاحی نام نسبت ہے۔ نسبت میں سب سے پہلی نسبت روحانی استاد ہے۔ یعنی روحانی استاد کے اندر کام کرنے والی طرز فکر اس کا مزاج، اس کی طبیعت اور اس کے اندر کام کرنے والی روشنیاں روحانی شاگرد کے اندر منتقل ہو جائیں۔ جب یہ روشنیاں پوری طرح منتقل ہو جاتی ہیں تو اس نسبت کی تکمیل ہو جاتی ہے۔

سوال: واہمہ، خیال تصور اور احساس میں کیا فرق ہے؟

جواب: آدمی کا ہر عمل اور زندگی کا ہر تقاضہ واہمہ، خیال، تصور اور احساس کے دائرے میں مقید ہے۔ مثلاً ہم جب کھانا کھاتے ہیں تو پہلے بھوک کا ایک ہلکا خاکہ ہمارے دماغ پر وارد ہوتا ہے۔ اس خاکے میں(Dimensions) یا نقش و نگار نہیں ہوتے۔ اس کو اصطلاحی زبان میں واہمہ کہتے ہیں۔ یہ بہت ہلکا خاکہ جب کچھ زیادہ گہرا ہوتا ہے تو دماغ کے اوپر یہ اطلاع وارد ہوتی ہے کہ جسم اپنی انرجی اور طاقت بحال رکھنے کے لئے کس چیز کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس صورت کو خیال کا نام دیا گیا ہے۔ خیال میں جب گہرائی واقع ہوتی ہے تو ہمیں اطلاع ملتی ہے کہ جسم کو خورد و نوش کی ضرورت ہے۔ اس نقطے پر ان تمام چیزوں کے نقوش بن جاتے ہیں جو کھانے میں کام آتی ہیں اور جس سے جسمانی نشوونما بحال ہوتی ہے۔ اب کھانے پینے کی چیزوں کے اندر کام کرنے والی لہریں انسان کو اپنے اند رکھینچنے لگتی ہیں۔ بات ذرا لطیف ہے اور تفکر کی ضرورت ہے۔

ہم کہتے یہ ہیں کہ ہم روٹی کھاتے ہیں۔ فی الواقع بات یہ ہے کہ گندم کے اندر روشنی یا زندگی یا انرجی یا حرارت یا کشش ثقل ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے اور جب ہم اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جاتے ہیں تو ہمارے اندر کی بھوک گندم کے اندر جذب ہو جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم گندم نہیں کھاتے، گندم ہمیں کھا جاتا ہے۔ اس کو دوسری طرح بیان کیا جائے تو اس کو اس طرح کہا جائے گا کہ گندم کے اندر کشش ثقل موجود ہے۔ کشش ثقل یا (Gravity) ہمیں کھینچ لیتی ہے۔ ہم کشش ثقل یا(Gravity) کو نہیں کھینچتے۔ جب ہمارے اندر یہ تقاضا پوری گہرائیوں کے ساتھ سرگرم عمل ہو جاتا ہے تو ہمیں بھوک کا احساس ہوتا ہے۔ احساس سے مراد یہ ہے کہ اب ہم بغیر کھانا کھائے نہیں رہ سکتے۔ اس نقطے پر کھانا مظہر بن جاتا ہے۔ اس کو آپ کوئی بھی نام دیں، کسی بھی طرح تیار کریں بہرحال وہ کھانا ہے۔

سوال: ہمارا ماحول ہمیں کس حد تک متاثر کرتا ہے؟

جواب: طبیعات یعنی روزمرہ کی زندگی، رہن سہن اور معاشرے میں رائج اخلاقی قوانین و ضوابط سے ہر شخص اپنے علم کی حدود میں واقفیت رکھتا ہے۔ طبیعات کے بعد دوسرا علم جو عام ذہن سے اوپر کے درجے کا ہے، اہل دانش نے اس کا نام نفسیات رکھا ہے۔ نفسیات میں وہ باتیں زیر بحث آتی ہیں جن پر طبیعیات یا شعور کی بنیادیں قائم ہیں۔ یہ مختصر تمہید بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس ضمن میں ایک دو مثالیں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ نفسیات کی دنیا میں ایک بہت بڑا مشہور واقعہ وہ یہ کہ ایک انگریز ماں کے بطن سے ایک ایسا بچہ تولد ہوا جس کے سارے نقش و نگار اور رنگ حبشی نژاد بچوں کی طرح تھا۔ ناک نقشہ موٹا، بال گھونگریالے اور رنگ سیاہ، ویسے ہی چوڑا چکلا سینہ اور مضبوط اعصاب۔ بچہ کی پیدائش کے بعد باپ نے اس حقیقت کو کہ بچہ اس کا اپنا ہے قبول نہیں کیا۔ جب معاملہ بہت زیادہ الجھ گیا اور تحقیق و تفتیش اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو راز یہ کھلا کہ ماں حمل کے زمانے میں جس کمرے میں رہتی تھی وہاں دیوار پر ایک حبشی بچے کا فوٹو آویزاں تھا۔ بڑے بڑے نفسیات داں، دانشوروں اور ڈاکٹروں کا بورڈ بیٹھا اور باہمی صلاح مشورے اور افہام و تفہیم سے یہ بات طے پائی کہ چونکہ اس کمرے میں ایک حبشی بچے کا فوٹو لگا ہوا ہے اور عورت حمل کے زمانے میں بچے سے فطری اور طبعی طور پر قریب رہی ہے اور بار بار حبشی بچے کو دیکھتی رہی، دیکھنے میں اتنی گہرائی پیدا ہو گئی کہ اس کی سوچ(Feeling) پیٹ میں موجود بچے کو منتقل ہو گئی۔ دوسرا تجربہ یہ کیا گیا کہ آئندہ وہ جب امید سے ہوئی تو وہاں ایک بہت خوبصورت بچے کا فوٹو لگایا گیا اور تجرباتی بنیاد پر ماں کو ہدایت کی گئی کہ اس فوٹو کو زیادہ سے زیادہ دیکھا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمدہوا کہ پیدا ہونے والے بچے کے نقوش تقریباً وہی تھے جو دیوار میں لگے ہوئے فوٹو کے تھے۔

دوسری مثال اللہ تعالیٰ کے قانون کے تحت ہمارے سامنے یہ ہے کہ ہر نوع میں بچے اپنی مخصوص نوع کے نقش و نگار پر پیدا ہوتے ہیں۔ ایک بلی آدمیوں سے کتنی ہی مانوس ہو لیکن اس کی نسل بلی ہی ہوتی ہے۔ کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ بکری سے گائے پیدا ہوئی ہو یا گائے سے کبوتر پیدا ہو گیا ہو۔

کہنا یہ ہے کہ شکم مادر میں ایک طرف نوعی تصورات بچے کو منتقل ہوتے ہیں اور دوسری طرف ماں کے یا باپ کے تصورات بچے کو منتقل ہوتے ہیں۔ ان تصورات میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق مقداریں معین ہیں۔ تیسویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’پاک اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس نے تخلیق کیا اور مقداروں کے ساتھ ہدایت بخشی۔‘‘
یہ مقداریں ہی کسی نوع کو الگ کرتی ہیں۔ تخلیقی فارمولوں میں جب یہ معین مقداریں بکری کے رنگ و روپ میں بدلتی ہیں تو بکری بن جاتی ہے اور جب آدم کے نقش و نگار میں تبدیل ہوتی ہیں تو آدمی بن جاتا ہے۔

تیسری مثال سیدنا حضورﷺ کی ذات اقدس کی ہے۔ حضورﷺ کی بعثت کے بارے میں جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر ہمارے سامنے آ جاتی ہے کہ سیدنا حضورﷺ حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہیں۔ حاصل کائنات ﷺ کو حضرت ابراہیمؑ سے حضرت عیسیٰؑ تک تمام انبیائے کرام کی معین مقداریں منتقل ہوئیں۔ انبیاء کا وہ ذہن جس میں اللہ بستا ہے۔ حضورﷺ کو بطور ورثہ کے منتقل ہوا۔ اس بات کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذہن مبارک بعثت سے پہلے ہی تمام انبیائے کرامؑ کی منازل طے کر چکا تھا۔ یہ بہت زیادہ غور طلب ہے کہ قرآن پاک میں جتنے انبیاءؑ کا تذکرہ ہوا ہے۔ تقریباً وہ سب حضرت ابراہیمؑ کی اولاد ہیں۔ یعنی ایک نسل میں طرز فکر برابر منتقل ہوتی رہی۔ اس قانون سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ روحانیت دراصل ایک مخصوص طرز فکر کا نام ہے۔

نبوت ختم ہو چکی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا قانون جاری و ساری ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت میں تعطل واقع ہوتا ہے، نہ تبدیلی ہوتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کو جاری رکھنے کا پروگرام حضورﷺ نے اپنے ورثاء کو منتقل کیا۔ جو اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور جن کو عرف عام اولیاء اللہ اور روحانی استا دکہا جاتا ہے۔ 

 


Sans Ki Lahrein (BKLET)

Khwaja Shamsuddin Azeemi


طرز فکر کا ایک رخ یہ ہے کہ میں اگر محنت نہیں کرونگا تو بھوکا مر جاؤنگا ،طرز فکر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ مجھے اس لئے حرکت کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ حرکت پسند فرماتے ہیں، اس لئے کہ ساری کائنات بجائے خود ایک حرکت ہے۔ کائنات کا وجود اسی وقت زیر بحث آیا جب اللہ تعالیٰ کے ذہن نے حرکت کی یعنی اللہ تعالیٰ نے ’’کُن‘‘ فرمایا۔ ’’کُن‘‘ اللہ تعالیٰ کے ذہن کی ایک حرکت ہے اور یہ حرکت جاری و ساری ہے۔ انسان کے اندر جب یقین راسخ ہو جاتا ہے تو اس کی طرز فکر یہ ہوتی ہے کہ میری ہر حرکت، میرا ہر عمل اللہ کے رحم و کرم پر قائم ہے۔ وہی روزی دیتا ہے۔ وہی حفاظت کرتا ہے، وہی زندہ رکھتا ہے، وہی آفات اور بلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے، وہی خوشی دیتا ہے۔