Topics
ناصر نے حقارت سے ایس پی کی طرف دیکھا اور باہر نکل آیا۔۔۔
ناصر نے پہلے اِدھر اُدھر دیکھا اور ایک طرف چل پڑا۔ یکا یک اسے نستور کا خیال آیا
اور ساتھ ہی اس کے کانوں میں گھنگھروؤں کی آواز آئی۔
”چھن چھن ۔۔۔۔ چھنا چھن۔۔۔۔ چھن۔۔۔“
ناصر نے نظر دوڑائی لیکن اسے کوئی دکھائی نہ دیا۔ ناصر کے
ذہن میں عامر کے ہیولے نے سوچا۔
” ہو نہ ہو یہ نستور ہو گا۔ لیکن ہیولے کے سامنے ایک دبیز
پردے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
ناصر نے آگے بڑھنے کے لئے قدم اُٹھایا ہی تھا کہ اسے اپنے
عقب میں نقرئی ہنسی کی آواز آئی۔
” ہی ہی ہی۔۔۔۔ہی ہی۔۔۔ چھن۔۔۔ چھن۔۔“
ناصر پلٹ کر غرایا۔۔۔”کون ہے؟“
اس کے قریب ہی ایک بانکی سجیلی، البیلی حسینہ سولہ سنگھار
کئے گھنگھرو چھنکا رہی تھی۔ ایک لمحہ کے لئے ناصر مبہوت ہو گیا۔ حسن کی چکا چوند
نے اس کے دل ودماغ پر ایک عجیب کیفیت طاری کر دی تھی وہ تھوڑی دیر کے لئے یہ بھی
بھول گیا کہ وہ ناصر ہے یا عامر کا ہیولا۔ وارفتگی کے عالم میں وہ اس کا فرادا
حسینہ کی طرف بڑھا لیکن جوں ہی اس کے قریب پہنچا وہ پھول کی ٹہنی کی طرح لہرائی
اور خوشبو کی طرح ہوا میں تحلیل ہو گئی۔
” یہ ہوئی نا بات!“ ناصر بڑبڑایا۔
” جی نہیں! اسے کہتے ہیں سیر کو سوا سیر!۔“
اس بار یہ آواز ناصر کو بالکل اپنے قریب سے
سنائی دی اور وہ سچ مچ بوکھلا کر رہ گیا۔
” کون ہو تم؟“
”بڑے پہلوان ہو، پہچانو تو
جانیں؟“ نقرئی آواز نے کہا۔
” سامنے آکر بات کرو۔۔“ ناصر
جھنجھلا گیا۔
”تم بھی تو ہمیشہ سامنے نہیں
آتے۔“ اس مرتبہ آواز دور سے آتی ہوئی معلوم ہوئی۔ ناصر نے آواز کی سمت نظر دوڑائی
تو کافی فاصلے پر وہی حسینہ کھڑی ہوئی اسے اشارے سے اپنی طرف بلا رہی تھی۔ ناصر
پلک جھپکتے ہی اس مقام پر کھڑا تھا جہاں ایک لمحہ پیشتر حسینہ کھڑی غمزے دکھا رہی
تھی۔ مگر یہاں تو کوئی بھی نہیں تھا۔ ناصر چکرا کر رہ گیا۔ یہ کون سی مخلوق ہے جو
مجھے بھی نظر نہیں آتی۔ ناصر نے سوچا۔
کچھ دیر اسی مقام پر ناصر تذبذب
کے عالم میں کھڑا رہا۔ گھنگھروؤں کی آواز پھر سنائی دی اور اچانک ہیولے نے ناصر کا
جسم چھوڑ دیا۔
ناصر اپنا سر پکڑ کر وہیں بیٹھ
گیا۔ تھوڑی دیر وہ خالی خالی نظروں سے خلا میں گھورتا رہا پھر۔۔۔ پریشان ہو کر
بولا۔
” خدایا! یہ سب کیا ہے۔ یہ میرے
ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ میں بازار میں کیا کر رہا ہوں۔ میں تو گھر میں ماں کے پاس
تھا۔ ماں ناراض ہو رہی تھی۔ پھر اس کی نگاہ سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئی سائیں بابا پر پڑی اور غیر اختیاری طور پر اس
کے قدم سائیں بابا کی طرف اُٹھ گئے۔ ناصر چپ
جا کر سائیں بابا کے قریب مؤدب بیٹھ گیا۔ سائیں بابا جھوم رہے تھے اور ان
کے منہ سے بار بار ۔۔۔ ہُوہُو۔۔۔ہُو ہُو۔۔۔۔کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ تھوڑی دیر کے
بعد سائیں بابا اُٹھے اور ناصر کی طرف
دیکھتے ہوئے بولے۔
” چلا گیا۔۔۔ بھاگ گیا۔۔۔تُو بھی
بھاگ جا۔۔۔ ہُوہُو۔۔۔۔ اور سائیں بابا خود بھی اُٹھ کر ایک طرف تیزی سے روانہ
ہوگئے۔ ناصر کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا اور وہ مژمردہ سا گھر کی طرف چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عامر کا ہیولا دوسری مرتبہ سائیں
بابا سے ڈر کر بھاگا تھا۔ سائیں بابا کو دیکھ کر اس کے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بج
اُٹھتی تھی اور سوائے فرار کے اس کے لئے کوئی چارہ کار نہ رہ جاتا تھا۔ اس وقت بھی
اسے اس عجیب و غریب ہستی کے تعاقب میں جانے کی بجائے اپنی جان بچانے کے لئے بھاگنا
پڑا تھا۔ عامر کا ہیولا فضا میں بھٹک رہا تھا کہ قریب ہی اس موہنی صورت کے بدن کی
چاندنی چٹکی۔ ہیولا اس کی طرف لپکا۔ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔ صبر کا دامن ہیولے کے
ہاتھ سے چھوٹتا جا رہا تھا۔ وہ اس پر چھا جانا چاہتا تھا۔ لیکن حسینہ بھی کسی
چھلاوے سے کم نہیں تھی۔ کبھی سامنے آتی۔ کبھی غائب ہو جاتی۔ کافی دیر تک دونوں کے
درمیان اسی طرح آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ آخر زچ ہو کر عامر نے پکارا۔
” سنو تو سہی!“
” تھک گئے اتنی جلدی؟“ اسے جواب
ملا۔
” یہ بات نہیں۔ تم آخر ہو کیا
بلا؟“
” میں۔۔۔۔۔۔! تمہاری آرزو ہوں۔
تمہاری خواہش ہوں!“
” پھر مجھ سے دور کیوں بھاگ رہی
ہو؟“
” بھاگ نہیں رہی۔ اپنے لئے جسم
تلاش کر رہی ہوں۔“
”اوہ! سمجھا۔۔۔ تو یہ بات ہے!“
” تم اپنا جسم کہاں چھوڑ آئے ہو۔
میرا اشارہ تمہارے معمول کی طرف ہے“
” اسے تو میں جب چاہوں حاصل کر
سکتا ہوں۔“
” اچھا تو ٹھہرو یہیں۔۔۔“ وہ
قتالہ بولی
” ایک خوبصورت کاران کے قریب آ کر
رکی جس میں ایک حسین و جمیل عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ ہیولے نے دیکھا کہ جس شعلہ جوالہ
کا تعاقب کرتا ہوا وہ یہاں تک پہنچا تھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے اس عورت کے جسم میں
حلول کر گئی اور پھر بصد ناز ادا وہ کار کا دروازہ کھول کر نیچے اُتر آئی۔ اس نے
عامر کے ہیولے کو اشارہ کیا۔
” آجاؤ اب! خوب گزرے گی جو مل
بیٹھیں گے دیوانے دو۔“
” میں ابھی تک الجھن کا شکار ہوں
۔ تم نے اپنے بارے میں وضاحت نہیں کی۔“
” ہو جائے گی وضاحت بھی۔ وہ دیکھو
تمہارا معمول ناصر جا رہا ہے۔ چلو جسم حاصل کرو پہلے ۔ پھر باتیں ہوں گی۔“
” ابھی آیا۔۔۔“ ہیولے نے کہا اور
ناصر کے جسم میں حلول کر گیا۔
” ناصر کے دماغ کو جھٹکا لگا اور
پھر وہ پلٹ کر اس حسینہ کی طرف دیکھنے لگا۔
” اب آ بھی جاؤ۔۔“ وہ بولی۔
ناصر نے اپنے جسم کی طرف دیکھا
اور مطمئن ہو کر کار کی طرف بڑھا،حسینہ اتنی دیر میں اسٹیئرنگ وہیل سنبھال چکی تھی
جیسے ہی ناصر اس کے برابر بیٹھا حسینہ نے کار اسٹارٹ کر کے گیئر لگایا اور گاڑی
آہستہ آہستہ رینگنے لگی۔
” اب بتاؤ کون ہو تم؟“ ناصر نے
پوچھا
” اس وقت تو میں شکیلہ ہوں سیٹھ
ادریس کی اکلوتی صاحبزادی۔ روشن خیال ، پڑھی لکھی۔۔۔ الٹرا ماڈرن۔۔۔ اور تم میرے
بہت سے بوائے فرینڈز میں سے ایک ہو۔۔۔ فی الحال میں اپنی سہیلی سلمیٰ کے یہاں ایک
تقریب میں شرکت کے لئے جا رہی ہوں“
” یہ میرے سوال کا جواب تو نہیں
ہوا۔ یہ سب تو میں بھی جانتا ہوں۔ معلوم وہ کرنا چاہتا ہوں جو نہیں جانتا۔“ ناصر
نے کہا۔
” وہ بھی معلوم ہو جائے گا، جلدی
کیا ہے۔۔ کیا یہ کافی نہیں ہے۔۔ کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔“ شکیلہ نے زیرِ لب
مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
” نہیں۔۔۔ اگر تمہاری اور میری
جنس ایک ہوتی تو میں ضرور تمہارے بارے میں خود جان لیتا جیسے شکیلہ کے بارے میں
جان گیا ہوں۔“ ناصر نے جواز پیش کیا۔
” تمہارا اندازہ ٹھیک ہے میں اس
وقت تفریح کے موڈ میں ہوں۔ وہ دیکھو سلمیٰ کی کوٹھی آگئی ہے، تمہیں بتانے کی ضرورت
نہیں۔ حالات کو خود ہی ہینڈل کر سکتے ہو۔۔ بور مت کرنا۔۔۔“ شکیلہ نے بتایا۔
کوٹھی کے باہر کافی تعداد میں
کاریں پہلے ہی سے موجود تھیں شکیلہ نے بھی ان کے برابر اپنی کار کھڑی کر کے انجن
بند کر دیا۔ اگنیشن سے چابی نکال کر اس نے ایک ناقدانہ نظر ناصر پر ڈالی۔ شکیلہ نے
ناصر کے کپڑے دیکھ کر منہ بنایا اور اپنی نگاہیں ناصر پر مرکوز کر دیں چند لمحے
اسے دیکھتی رہی اسی دوران میں ناصر کے بدن
پر بہترین تراش کا سوٹ نمو دار ہو گیا ۔ شکیلہ مسکرائی۔
ناصر نے اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا
اور بولا۔” اس بات پر تو میں خود بھی قادر ہوں۔ یہ دیکھو۔۔“ دوسرے لمحے ناصر کا
سوٹ تبدیل ہو چکا تھا۔
”میں جانتی ہوں۔ اسی لئے تو
تمہارا انتخاب کیا ہے ہاں تم ایک پڑھے
لکھے نوجوان ہو۔ یہاں زیادہ اپنی شعبدہ بازی نہ دکھانا۔ یہ ماحول پہلے ہی کافی
ماڈرن ہے۔ انسانوں نے اخلاقی میدان میں کافی لمبی چھلانگیں لگا لی ہیں۔“
دونوں کار سے اُترے اور کوٹھی میں
داخل ہو گئے۔ ایک بڑے ہال میں مہمان چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں کھڑے خوش گپیوں میں
مصروف تھے باوردی بیرے مشروبات کی ٹرے لئے گھوم رہے تھے ۔ کچھ لوگ صوفوں پر بیٹھے
ہوئے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ معدود سے چند ادھ اُدھر ٹہل رہے
تھے۔ سلمیٰ نے والہانہ انداز میں بڑھ کر شکیلہ کا استقبال کیا۔
” ہیلو! سویٹ شکیلہ اتنی دیر کر
دی تم نے۔۔“ شکیلہ نے شکایت کی۔
” بھئی ناصر نے دیر کرادی۔ شکیلہ
نے جواب دیا۔
”تعارف تو کراؤ۔۔ یہ کیا بدذوقی
ہے۔۔۔“ سلمیٰ کن اکھیوں سے ناصر کی طرف دیکھ کر بولی۔
” ہینڈ سم ہیں، امیر ہیں اور میرے
دوست ہیں۔ بس یا اور کراؤں تعارف۔۔۔ شکیلہ اٹھلائی۔
” ہیر!ہیر!۔۔۔“ قریب ہی کھڑے ہوئے دو نوجوانوں نے تالی بجا کر کہا۔۔” کیا
خوب تعارف کرایا ہے۔ جواب نہیں شکیلہ ڈارلنگ تمہارا بھی ۔“
” شکریہ! آپ دونوں تو اپنی چونچ
بند ہی رکھیں۔۔“
” ہاں بھئی اب ہماری دال کہاں گلے
گی۔ چلو ساجد کوئی اور گھر دیکھیں۔ شاید کوئی گھاس ڈال دے۔“ عمران نے کہا۔
شکیلہ نے ناصر کا ہاتھ تھاما اور
لڑکے لڑکیوں کے ایک جھرمٹ کی طرف چل دی۔
” ان دونوں کی مرمت نہ کردوں
تھوڑی سی۔“ ناصر بولا
” پاگل ہو گئے ہو۔ یہاں یہ سب
چلتا ہے۔ انجوائے کرو جیلسی نہیں چلے گی۔۔“ شکیلہ نے سمجھایا۔۔
” تمہاری مرضی۔۔ ورنہ میرا خیال
تھا انھیں سبق ابھی مل جانا چاہیئے۔“ ناصر نے پُر خیال انداز میں کہا۔
” پھر انھیں لڑکیوں کے ایک گروپ
نے گھیر لیا اسی وقت رقص کے لئے آرکسٹرا نے دھن بدلی اور ہال کی روشنیاں مدھم کر
دی گئیں۔
ناصر نے بھی شکیلہ کا ہاتھ تھام
کر مد ھم موسیقی کی تال پر رقص کرنا شروع کیا۔ شکیلہ نے بھی ایک ماہر فن رقاصہ
کیطرح اسٹیپ لینے شروع کر دئیے۔
” کتنا خواب ناک ماحول ہے ناصر!“
شکیلہ نے رقص کے دوران لہراتے ہوئے کہا۔
” ہوں۔۔۔۔ ہے تو!“ ناصر بولا۔
” جی چاہتا ہے کہ وقت تھم جائے۔!“
شکیلہ نے پلکیں اُٹھا کر مخمور نظروں سے ناصر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
” تم کہو تو روک دوں وقت کو یہیں،
اسی طرح“ ناصر نے پیش کش کی۔
” جناب عالی آپ ہیں کہاں جب تک یہ
مادی جسم ہمارے تصرف میں ہیں وقت کو روکا نہیں جا سکتا۔۔“ شکیلہ نے جتایا۔
” ہاں! یہ بھی ٹھیک کہا تم نے !“
” وہ رات گئے تک تقریب کے ہنگاموں
میں کھوئے رہے۔ فقرے بازیاں اور آوازیں کسے جاتے رہے۔ ناؤ نوش کا سلسلہ جاری رہا
اور آدھی رات کے بعد سب لوگ آہستہ آہستہ رخصت ہو نے لگے۔ شکیلہ اور ناصر بھی سلمیٰ
سے اجازت لے کر اپنی کار میں آ بیٹھے دوسرے مہمانوں کی طرح ان کے چہرے تھکن اور بے
زاری سے مبرا تھے دونوں ہی تازہ دم معلوم ہو رہے تھے۔ جبکہ باقی تمام مہمانوں کی
حالت بالکل برعکس تھی۔
” سڑک پر آتے ہی شکیلہ نے گیئر
بدل کر ایکیلیٹر پر دباؤ ڈالا اور کار فراٹے بھرنے لگی۔
” اب کیا ارادہ ہے؟“ ناصر نے
پوچھا۔
” ساحل سمندر کی طرف چلیں گے۔
موسم بڑا خوشگوار ہے۔۔۔۔!“
” تمہارے چہیتے ، عمران اور ساجد
، تعاقب کر رہے ہیں۔۔“
” کرنے دو۔ تفریح رہے گی۔۔!“
شکیلہ نے جواب دیا۔
” میں نے اسی لئے کہا تھا کہ وہیں
سبق دے دیا جائے لیکن تم نے منع کر دیا۔“ ناصر نے لا پرواہی سے کہا۔
” روز روز جسم بدلنا ٹھیک نہیں
ہوتا۔ تم تو پاگل ہو۔ اگر ناصر کا جسم حاصل کرنے کے بعد صبر سے کام لیتے تو یہ
دشواریاں پیش نہ آتیں۔“
”کیسی دشواریاں؟ میری صحت پر ان
کا کیا اثر پڑے گا!“
” اثر تو ضرور پڑے گا۔ دیکھ
لینا۔“
ان کی کار آبادی کو کافی پیچھے چھوڑ آئی تھی اب
دور دور تک کسی متنفس کا سامنا ہونے کا خدشہ نہیں تھا۔ ساحل کیطرف جانے والی سیدھی
سڑک پر ایک دوسری کا کی بتیاں نظر آرہی تھیں۔ دونوں کاروں کا فاصلہ بتدریج کم ہو
رہا تھا اور ساحل نزدیک آتا جا رہا تھا۔ ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔
” گاڑی یہیں روک لو۔۔“ ناصر نے
کہا
” اَ یز یُو لائیک!“ شکیلہ نے
جواب دے کر رفتار کم کرنی شروع کر دی اتنی دیر میں پیچھے آنے والی کار سر پر
آپہنچی۔ اور اس میں بیٹھے ہوئے افراد نے ہارن دینا شروع کر دیا۔
شکیلہ نے سڑک کے ایک طرف کار روک
لی۔ پیچھے آنے والی گاڑی نے ان کو اوور ٹیک کر کے ان کے قریب ہی بریک لگائے۔
” ہیلو شکیلہ ڈارلنگ! کہاں کا
ارادہ ہے!“ عمران نے ہانک لگائی اور گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اُتر آیا۔ دوسری
طرف کے دروازے سے ساجد نے بھی اترنے میں دیر نہیں لگائی۔ دونوں شکیلہ کی گاڑی کی
طرف بڑھے۔
شکیلہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
البتہ ناصر دروازہ کھول کر نیچے اُتر آیا اور کار کے کھلے دروازے سے ٹیک لگا کر
دونوں کا انتظار کرنے لگا۔ دونوں ایک لمحہ کے لئے رُکے ۔ پھر ساجد بولا۔
” اے مسٹر! کیا ارادے ہیں۔ خاموشی
سے چلتے پھرتے نظر آؤ ورنہ۔۔۔۔۔۔“
” بولو۔۔۔ بولو۔۔۔ ورنہ کیا؟“
ناصر کے لہجہ میں کوئی ایسی بات تھی جس نے دونوں کو چونکا دیا۔
' شکیلہ ! اپنے اس نئے دوست کو
بتا دو ہم کیسے آدمی ہیں؟“ عمران نے شکیلہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
” تم خود ہی بتا دو نا۔۔۔ ہاتھ
کنگن کو آر سی کیا گھوڑا بھی موجود ہے اور میدان بھی مناسب ہے۔“
” پھر گلہ نہ کرنا کہ نیا دوست
خرچ ہو گیا۔۔“ یہ کہہ کر عمران نے جیب سے چاقو نکال لیا اور ڈرامائی انداز میں
چاقو کھول کر حملے کے لئ تیار ہو گیا۔ ساجد الگ کھڑا ہو کر تماشا دیکھنے لگا۔
” شاباش ! یہ ہوئی نا مردانگی۔
اسے راستے سے ہٹا کر مجھ تک پہنچ جاؤ ڈارلنگ، پھر میں تمہاری ہوں۔۔“ شکیلہ نے شوخ
لہجے میں کہا۔
” ابھی لو۔۔۔“ عمران نے محتاط
انداز میں ایک قدم آگے بڑھایا۔
” ناصر انتہائی پُرسکون انداز میں
اسی طرح گاڑی کے دروازے سے ٹیک لگائے کھڑا رہا۔ اس نے اپنی جگہ سے جنبش تک نہیں
کی۔ عمران نے دو ایک مرتبہ چاقو دائیں سے بائیں ہاتھ میں لیا اور پھر تھوڑا سا جھک
کر چیتے کی سی تیزی سے ناصر پر چھلانگ لگا
دی۔
چاہیئے تو یہ تھا کہ عمرا سیدھا
ناصر پر آپڑتا۔ لیکن ایک دفعہ اچھلنے کے بعد وہ سر کے بل زمین پر آیا اور چاقو
سینے تک عمران کی اپنی پنڈلی میں پیوست ہو گیا۔ اس کے منہ سے ایسی آواز نکلی جیسے
کسی نے اسے ذبح کر دیا ہو۔ اس کی آنکھوں کے اگے تارے ناچنے لگے اور وہ درد کی شدت
سے بے ہوش ہو گیا۔ اس کی پنڈلی سے خون کا فوارہ ابلنے لگا۔
ناصر تو اپنی جگہ سے ٹس سے مس تک
نہ ہوا تھا ساجد پھٹی پھٹی نگاہوں سے کبھی عمرا اور کبھی ناصر کی طرف دیکھ رہا
تھا۔
” چلو اب تم کوشش کرو۔“ ناصر کی
آواز میں درندگی تھی۔
ساجد تھوڑی دیر سکتے کے عالم میں
کھڑا رہا پھر جیسے پلٹ کر بھاگنے لگا“ ناصر نے ایک ہی جست میں اسے جا لیا اور اس
کی گردن دبوچ کر بولا۔
” اپنے دوست کو کہاں چھوڑے جا رہے
ہو اسے بھی ساتھ لیتے جاؤ۔“
ساجد کے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا
اور وہ بید مجنوں کی طرح کانپنے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں ارہا تھا کہ کیا کرے۔ نہ
جائے رفتن نہ پائے ماندن“
ساجد کو عمران کے پاس چھوڑ کر ناصر کار کی طرف
آیا اور اندر بیٹھ کر دروازہ بند کر لیا۔
” کیا کہنے ہیں۔“ شکیلہ اترائی
” چلو بس اتنا ہی کافی ہے۔“ ناصر
نے پُر سکون لہجے میں کہا اور شکیلہ نے گاڑی آگے بڑھا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر کی ماں محلے کے ایک ایک گھر
میں فریاد لے کر گئی کہ لوگو! میرے بچے کو پولیس والے پکڑ کر لے گئے ہیں کوئی مجھ
دکھیا ری کی مدد کرو۔ لیکن کسی نے بھی اس کی آہ وزاری پر کان نہ دھرا، ہر طرف سے
اسی قسم کا جواب ملا کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
تھک ہار کر خود ہی پوچھتی پچھاتی
تھانے پہنچ گئی ڈیوٹی پر موجود سپہیوں نے دریافت حال کے بعد اسے انچارج کے پاس
پہنچا دیا۔ انچارج کو جب معلوم ہوا کہ ناصر کی ماں آئی تو وہ اس سے انتہائی احترام
سے پیش ایا۔ پوچھنے پر انچارج تھانہ نے تمام واقعات ناصر کی ماں کے گوش گزار کر
دئیے۔ اور یہ بھی بتایا کہ ناصر اب اشتہاری مجرم کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور اس
جو سب بڑا جرم سر زد ہوا ہے وہ یہ ہے کہ
اس نے ڈیوٹی پر موجود ایک سرکاری افسر پر حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا ہے۔ ناصر کی
ماں نے جب یہ حالات سُنے تو وہ اس صدمے کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو گئی، انچارج نے
اسے ہسپتال بھجوادیا اور اس خیال سے وہاں پہرہ بھی لگو دیا کہ ناصر بہر صورت ماں
کو دیکھنے ضرور آئے گا۔ یہ کیس اب باقاعدہ طور پر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا
تھا اور یہ تمام کاروائی انچارج نے اسی محکمہ کے سربراہ کی ایما پر کی تھی۔
شکیلہ اور ناصر کے چلے جانے کے
بعد ساجد نے ہمت کر کے عمران کی پنڈلی میں سے چاقو بمشکل تمام نکالا اور اپنا مفلر اس کی پنڈلی پر خون بند کرنے کے لئے باندھ
دیا۔ اس کا دماغ ماؤف تھا ۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ عمران کو چھوڑ کر نو دو گیارہ
ہو جائے لیکن پھر دوستی اور پُرانی رفاقت آڑے آئی۔ اس نے کسی نہ کسی طعح عمران کو
گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالا اور سیدھا شہر کی طرف روانہ ہو گیا۔
رات کافی گزر چکی تھی لیکن پھر
بھی عمران کے لے کر ہسپتال پہنچ گیا۔ اس وقفے میں اس نے سارا لائحہ عمل سوچ لیا
تھا۔ اس طرح اس کے دوست کی جان بھی بچ جاتی اور اس حرافہ شکیلہ اور اس کے نئے
بوائے فرینڈ کو قرار واقعی سزا بھی مل جاتی۔ اس نے ایمر جنسی کاؤنٹر پر جا کر
عمران کا معائنہ کرایا اور ڈیوٹی پر موجود پولیس آفیسر کو رپورٹ بھی درج کرا دی کہ
سیٹھ ادریس کی لڑکی اور اس کے دوست نے عمران کو زخمی کیا اور ساجد کو زودکوب کر کے
ویرانے میں چھوڑ گئے۔
ڈیوٹی پر موجود افسر نے کافی جرح
کی ساجد اور عمران اتنے گئے گزرے تھے جو ایک لڑکی اور ایک نوجون سے مار کھا گئے۔
اس کے جواب میں ساجد نے بتایا کہ وہ دونوں مسلح
تھے اور ہم لوگ نہتے ۔ ورنہ یہ نوبت نہ آتی۔
بہر صورت عمران کو ابتدائی طبی
امداد بہم پہنچا کر اور رپورٹ درج کرانے کے بعد ساجد اپنے گھر کی طرف روانہ ہو
گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف شکیلہ اور ناصر ساحل
سمندر پر کافی دیر تک موسم سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اور مستقبل کے پرو گرام بناتے
رہے۔ جب ان دونوں کا سیر و تفریح سے دل
بھر گیا تو کار میں بیٹھ کر واپس ہو گئے۔
کوئی ڈھائی بجے کا عمل ہوگا جب دونوں سیٹھ ادریس
کی کوٹھی میں داخل ہوئے ، گاڑی کو گیراج میں بند کر کے شکیلہ ناصر کا ہاتھ تھامے
اپنے کمرے میں پہنچی۔ سوئچ آن کرتے ہی دونوں چونک کر اچھل پڑے۔
سامنے آرام کرسی پر نستور بیٹھا
انھیں سپاٹ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔