Topics

خواب گاہ کی طلسمی فضا

                وہ دونوں نستور کو دیکھ سکتے تھے ۔لیکن اگر کوئی اور شخص ہوتا تو وہ نستور کی موجودگی سے بے خبر ہی رہتا۔ ناصر اور شکیلہ رقص کے بعد سمندر کے کنارے تفریح سے فارغ ہو کر اب اپنے ذہنوں میں رنگین خیالوں کی دنیا آباد کئے واپس آئے تھے۔ یہ ایک رات جو اب شکیلہ کی شاندار اور خواب آلود  خواب گاہ میں نہایت تیز رفتاری کے ساتھ صبح کے دھندلکوں میں بدلنے جارہی تھی اور انہی چند لمحوں کو ان دونوں نے لازوال بنانا تھا۔

                مگر خواب گاہ کی طلسمی فضا  میں نستور کی موجودگی نے ایک ناخوشگوار صورتِ حال پیدا کر دی تھی بالکل یوں جیسے آپ صحن ِ چمن میں گلگشت کے بعد کسی بدرو کی طرف جا نکلیں اور ذہنی انبساط کی ساری کیفیت غارت ہو جائے۔

                ناصر کے ذہن نے گھنٹیوں کی وہی مانوس آواز سُنی۔ نستور کی دنیا کی آواز۔۔ اس دنیا سے بالکل الگ اور اُسے عالمِ خواب میں لے جانے والی۔ مگر وہ اس وقت اپنے ہیولے کا معمول بنا ہوا تھا اور ادھر کسی آسیبی رُوح نے شکیلہ کو بھی اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا تھا۔ ناصر نے ان گھنٹیوں کی آواز پر اپنے کان وا کر دیئے۔ اس کے بدن میں ایک جھرجھری سی پیدا ہوئی جیسے وہ کسی طویل اور تکلیف دہ خواب سے چونکا ہو۔ وہ شکیلہ کے مرمریں بدن کے گرد حمائل بانہوں کو ہٹا کر کھڑکی کے ساتھ بچھی ہوئی آرام کرسی کی جانب بڑھا جہاں نستور بیٹھا ہوا اسے بلا رہا تھا۔

                ناصر نیم روشن کمرے میں نستور کے قریب پہنچ جانا چاہتا تھا کہ شکیلہ نے جو اس وقت مسہری پر نیم دراز ہو چکی تھی اسے پوری قوت سے آواز دی” مہربان دوست واپس لوٹ آؤ۔ ہم تم دونوں ایک ہی آگ میں جل رہے ہیں۔ تمہاری توجہ کی مستحق میری ذات ہے۔“

                ناصر کو اس آواز میں زیادہ کشش نظر آئی۔ نستور کی جانب بڑھتے ہوئے اس کے قدم رُک گئے۔ اس نے پلٹ کر دیکھا جس کا دعوتِ نظارہ دیتا ہوا جوان بدن ریشم کے ڈھیر کی مانند مسہری پر پڑا ہوا تھا۔ مسہری کے ساتھ چھوٹی سی تپائی پر بائیں جانب مر مر سے تراشیدہ کیوپڈ اور سائیکی کا مجسمہ  تھا جو محبت و عشق کی لازوال علامت سمجھا جاتا ہے۔ شکیلہ نے مسہری کی پٹی کے ساتھ لگے ہوئے بٹن کو دبایا اور جنون انگیز موسیقی کی دھنیں کمرے میں گونجنے لگیں۔

                ناصر کو اس کی آواز کے سحر نے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ وہ پتھر کا ہو گیا تھا اور اپنے دوست نستور سے اس نے اپنا رُخ موڑا اور آکر مسہری پر بے دم ہو کر گر پڑا۔ گھنٹیاں اب بھی اس کے کانوں سے ٹکرارہی تھیں۔ موسیقی کی دھنوں کے درمیان وہ انھیں سُن سکتا تھا۔ لیکن ان گھنٹیوں کا مقصد کیا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ وہ ان آوازوں کو بھول چکا ہے۔

                نستور جن اس وقت خود کو بے بس پا رہا تھا۔ اس کی کئی بار کی کوششیں ناکام ہو چکی تھیں۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ آج ناصر ہیولے کی زد سے نہیں بچ سکے گا۔ کوشش بے سود تھی۔  نستور کے لئے اب اس خلوت گاہ میں مزید بیٹھنا ممکن نہ رہا تھا۔ وہ ناصر کی معصومیت پر افسوس کرتا ہوا وہاں سے جانے کے لئے اُٹھا۔ اس کے اٹھتے ہی شکیلہ نے ایک فاتحانہ قہقہ لگایا۔” آخر تم ہار مان گئے۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ آئندہ کبھی ہماری راہ میں مزاحم ہونے کی کوشش مت کرنا۔

                نستور جانتا تھا کہ اس وقت وہ مجبور ہے۔ اس نے ایک قہر آلود نگاہ ان پر ڈالی اور وہاں سے نکل گیا۔ نستور کے جاتے ہی یوں لگنے لگا گویا پورے کمرے کو ابلیسی منظر نے اپنے گرفت میں لے لیا ہے۔

                گلی میں دھندلکا تھا۔ جب ناصر نے سارا دن اور ساری رات غائب رہنے کے بعد جا کر دستک دی ماں نے آکر دروازہ کھولا۔ غم و اندوہ ناصر کی ماں کی آنکھوں سے ظاہر تھا۔ آنکھوں میں رات بھر جاگنے اور رونے کے اثرات نمایاں تھے۔ وہ ابھی ابھی مصلے سے اُٹھی تھی۔ ایک طمانیت تو اس کے چہرے پر ناصر کو دیکھتے ہی آگئی کہ  اس کا بیٹا زندہ سلامت ہے اور گھر واپس آ گیا، رہی بات سارا دن اور ساری رات غائب رہنے کی تو اب اس کے لئے ناصر سے دریافت کرنا بے سود تھا۔ کیونکہ اسے پولیس والوں اور اہلِ محلہ کی زبانی سب کچھ معلوم ہو گیا تھا۔

                ناصر خود بھی شرمندہ سا کھڑا ہوا تھا۔ دونوں جانب  کچھ دیرخاموشی رہی۔ اس کے بعد ناصر کی ماں نے رندھے ہوئے گلے کے ساتھ کہا،” ناصر بیٹے! بہت افسوس کی بات ہے۔ ہم غریب ضرور تھے لیکن آج تک ہمارے خاندان کی شرافت پر داغ نہیں لگا تھا ۔ یہ دن بھی مجھ بدنصیب کے مقدر میں دیکھنا لکھا تھا کہ تیرا نام پولیس کے اشتہاری مجرموں میں شامل ہو گیا ہے اور گلی محلے کے لوگ تیرے سائے سے بچتے پھر رہے ہیں اور تو اب راتوں کو بھی غائب رہنے لگا ہے۔“

                ناصر نے سر جھکائے ہوئے کہا۔” اماں مجھے معاف کر دو۔ تمہیں  معلوم نہیں کہ تمہارے بیٹے پر کیا بیت رہی ہے۔ میں تو خود پریشان ہوں ۔ مگر افسوس کہ میرا دکھ کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتا اور تو ماں ہو کر بھی میرا دکھ نہیں سمجھ سکتی اور نہ ہی شاید۔۔۔“

                اس نے ٹھہر ٹھہر کر الفاظ ادا کرتے ہوئے کہا۔” میں اس کیفیت کے بارے میں کچھ بتا نہیں سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ قوت میرا گلا دبا دے گی۔ اس کے آگے میرا کچھ بس نہیں چلتا۔ ماں! اسوقت میں تیرا بیٹا ناصر نہیں ہوتا۔ میں تو کچھ اور ہی ہوتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

                ناصر کی ماں بھی بیٹے کے یہ الفاظ سُن کر رونے لگی۔ ماں کے سینے سے الگ ہو کر ناصر نے کمرے کا جائزہ لیا۔ ماں کے لئے لائی ہوئی دوائیوں کی شیشیاں ابھی تک اسی طرح  سر بمہر پڑی ہوئی تھیں۔ جو پھل وہ کل ماں کے لئے لے کر آیا تھا وہ بھی باسی ہو گئے تھے اور ماں نے ان میں سے ذرا سا بھی چکھا نہ تھا۔ وہ کمبل جسے ناصر دوکان میں سب سے قیمتی کمبل سمجھ کر لایا تھا وہ بھی اسی طرح تھیلے میں بند تھا۔” ان چیزوں کے لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔“ اس نے سوچا ” مجھ پر جو  کیفیت  گزر رہی ہے ماں اس سے واقف نہیں ہو سکتی۔ مگر ان چیزوں کے استعمال پر وہ راضی نہیں ہوئی آخر کیوں؟ یہی سبب ہو سکتا ہے کہ ماں سمجھتی ہے کہ ان اشیا ء کا حصول اس کے غریب بیٹے کے بس سے باہر ہے۔“ یہ سوچ کر اس نے ماں کو جھنجھلائے ہوئے لہجے میں آواز دی اور کہا۔” ماں! تو نے یہ چیزیں ابھی تک نہیں کھائیں، یہ شاندار کمبل ابھی تک تو نے نہیں اوڑھا۔ میں جانتا ہوں کہ تو جنتی بی بی ہے۔ تجھے شک ہو گیا ہے کہ تیرا غریب بیٹا ایسی قیمتی چیزیں نہیں لا سکتا تیرا یہ خیال درست ہے ماں۔ اگر ساری  عمر دن رات بھی تیرا بیٹا ناصر خون پسینہ ایک کرتا تو یہ دنیا والے اس کو دو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کھانے کو نہ دیتے یہ بات سچ ہے مگر اس بات میں بھی جھوٹ نہیں ہے کہ یہ ساری چیزیں میں کہیں سے چرا کر نہیں لایا ہوں انہیں اپنی دکانوں سے خریدا ہے جن کے شوروموں کے باہر سے میں ہمیشہ حسرت و یاس سے تکتا ہوا خالی ہاتھ لوٹ آتا تھا۔ مگر یہ سب چیزیں میں نے پیسے دے کر خریدی ہیں اور اب تیرا بیٹا اس قابل ہے کہ تو جس چیز کی فرمائش کرے، چاہے وہ کتنی ہی قیمتی ہو، وہ لا کر تیرے قدموں میں ڈھیر کر سکتا ہے۔ یہ روپیہ بھی جس سے میں نے یہ سب چیزیں خریدی ہیں وہ بھی میں نے کسی سیٹھ کی تجوری سے نہیں چرایا تھا۔“

                پھر ناصر نے گڑ گڑاتے ہوئے کہا۔” ماں مجھے نفرت و حقارت سے نہ دیکھ۔ تو بھی کیا دنیا  والوں کی طرح ہو گئی ہے جو مجھ پر شک کرتے ہیں؟“ اور روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی۔

                ناصر تمام دن گھر پر ہی رہا۔ وہ مزدوری کرنے بھی نہیں گیا۔ ابھی اس کے پاس نستور کی دی ہوئی خاصی رقم موجود تھی۔ وہ از خود تھانے نہیں جانا چاہتا تھا اور اس انتظار میں گھر میں ہی رہا کہ اگر پولیس اب بھی اسے ملزم سمجھتی ہے تو وہ آکر اسے گرفتار کرے۔ اس نے یہ رقم ماں کو دے دی تھی تاکہ اگر پولیس اسے گرفتار کر کے لے بھی جائے تو اس کی والدہ کو خرچ کی تنگی نہ ہو اور اسے محلے والوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ مگر پولیس  تو شاید  اس کے گھر کا راستہ ہی بھول گئی تھی۔ ناصر سارے دن پلنگ پر لیٹا ہوا اپنے خیالات میں غلطاں  و پیچاں رہا۔ ناصراور اس کی ماں کے درمیان بھی بہت کم کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہوئی۔

                شکیلہ اپنی خواب گاہ میں محوِ استراحت تھی۔ خادمہ دو بار چائے لے کر آئی مگر شکیلہ کو سوتا ہوا دیکھ کر واپس چلی گئی۔ کوٹھی کے چوکیدار نے اسے بتایا تھا کہ رات بیگم صاحبہ کے ساتھ کوئی آدمی بھی آیا تھا جو صبح سویرے ہی واپس چلا گیا۔ خادمہ شکیلہ کی ہم راز تھی وہ جانتی تھی کہ شکیلہ کے کون کون دوست ہیں۔ اس کا کہاں کہاں آنا جانا ہے۔ پارٹیوں اور ڈانس سے رات گئے واپسی بھی شکیلہ کا معمول تھا۔ لیکن اس سے پہلے وہ اپنے کسی بوائے فرینڈ کو اپنے گھر پر نہیں لائی تھی۔اس نے چوکیدار سے کہا بھی کہ شاید یہ اس کا وہم ہو مگر چوکیدار نے قسم کھا کر کہا کہ واقعی  ایک آدمی بیگم صاحبہ کی گاڑی میں ان کے ہمراہ آیا تھا۔

                دن کافی چڑھ آیا تھا۔ ابھی نہ جانے کب تک شکیلہ محوِ خواب رہتی کہ ٹیلیفون کی گھنٹی نے اس کو بیدار کیا۔ فون اُٹھایا تو دوسری جانب اس کی سہیلی بول رہی تھی جس کے گھر رات وہ پارٹی میں مدعو تھی۔ سہیلی کی آواز میں گھبراہٹ تھی۔ اس نے شکیلہ سے اس کی خیریت   دریافت کی تو شکیلہ نے بڑے رومانی انداز میں جواب دیا” ڈارلنگ! تم نے تو جگا دیا۔ میں تو ابھی تک رات کی پارٹی میں موجود تھی۔ بہت مزہ رہا رات!“

                ” ہاں، مگر میں نے تمہاری خیریت دریافت کرنے کے لئے فون کیا تھا۔“

                ” اس کرم فرمائی کا بہت بہت شکریہ بھئی! مگر یہ صبح  ہی صبح خیریت دریافت کرنے کا خیال کیوں آیا؟

                 ارے بھئی! میں کوئی بچی تو نہیں ہوں جو کہیں کھو جاتی ، پھر ڈرائیونگ میں بھی ماہر ہوں۔“

                ” بہت خوب! تم تو  یوں بن رہی ہو جیسے تمہیں کچھ پتہ ہی نہیں !“

                ” مذاق مت کرو ڈارلنگ ! کہہ تو رہی ہوں کہ بس سیدھی پارٹی سے گھر آ کر سو گئی اور اب تک سورہی تھی۔“ شکیلہ نے جواب دیا۔

                دوسری طرف چند ثانیوں تک خاموشی رہی۔ پھر سہیلی بولی۔” ڈیر شکیلہ ! اس کا مطلب یہ ہے کہ تم مجھ سے چھپا رہی ہو“

                ” کیا چھپا رہی ہوں بھئی؟“

                ” جی ہا ں ! مجھے سب کچھ معلوم ہے۔ تم اپنے جس بوائے فرینڈ کے ساتھ رات پارٹی میں آئی تھیں، اس کے ساتھ پھر ساحل سمندر پر گئی تھیں اور تمہارے اس بوائے فرینڈ نے ساجد کو چاقو سے زخمی کر دیا اور اب اس بے چارے کو کئی ٹانکے آئے ہیں۔“

                ” کیا بک رہی ہو؟“ کون بوائے فرینڈ؟ میں تو کسی کے ساتھ ساحلِ سمندر پر نہیں گئی، نہ ہی ساجد اور عمران سے میرا کوئی جھگڑا ہوا ہے۔“

                شکیلہ نے ٹیلیفون بند کیا۔ ہاتھ منہ دھو یا اور شب خوابی کا لباس اتار کر دوسرا لباس پہنا۔ اتنے میں اس کی خادمہ ناشتہ لے کر آگئی۔ وہ پریشان بھی تھی۔ مگر بار بار اس کے ذہن میں یہ خیال بھی آتا تھا کہ ممکن ہے اس کی سہیلی اس سے مذاق کر رہی ہو۔ بہرحال وہ اس کے پاس جا کر اس تردد کو دور کرنا چاہتی تھی۔

                سہیلی کے گھر پہنچ کر اس کی حیرت میں اور اضافہ ہوگیا ۔ اس نے ساجد اور عمران کو بھی بلا لیا تھا اور ساجد کی پنڈلی پر پٹیاں بندھی ہو ئی تھیں۔ ان دونوں کے چہروں سے شکیلہ کے خلاف نفرت اور غصہ نمایاں تھا۔ شکیلہ کی سہیلی ان دونوں کو سمجھا رہی تھی ” بھئی اس میں ہم عورتوں کا کیا قصور ہے۔ شکیلہ بے چاری تو بالکل بے قصور ہے۔ تم مرد لوگ ہی رقابت اور حسد میں آپے سے باہر ہو جاتے ہو۔ آخر تم لوگوں نے شکیلہ اور اس کے بوائے فرینڈ کا تعاقب ہی کیوں کیا تھا؟“

                ساجد کہہ رہا تھا” محترم خواتین! سب سے زیادہ تعجب انگیز بات تو یہ ہے کہ میں حملہ آور ہو رہا تھا تو وہ نہایت اطمینان و آرام کے ساتھ گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا رہا۔ گو اس وقت کافی اندھیرا تھا لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس نے چاقو کا وار بچانے کے لئے کوئی مزاحمت نہ کی۔ پھر میں حیران ہو ں کہ آخر میرے اپنے ہاتھ سے میری پنڈلی میں چاقو کس طرح گھستا چلا گیا۔اگر وہ آدمی دوبارہ شکیلہ کے ساتھ ملے تو میں اس کی شاگردی قبول کر لوں۔ ایسے اچھوتے وار تو جوڈو کراٹے کے ماہرین بھی نہ جانتے ہوں گے۔“

                ” چلو چھوڑو ان باتوں کو۔“ شکیلہ کی سہیلی بولی۔

                ” اگر وہ تمہیں کسی پارٹی میں ملے تو تم اپنا حساب چکا سکتے ہو۔“

                شکیلہ جواب تک ان باتوں کو سن رہی تھی آخر غصے میں پھٹ پڑی۔” تم لوگوں نے یقیناً میرے خلاف کوئی سازش کر لی ہے۔ میں کہہ رہی ہوں کہ میرے ساتھ کوئی آدمی نہیں تھا اور نہ ہی میں اس کے ساتھ ساحلِ سمندر پر گئی تھی۔ میں تو اپنے ساتھ کوئی بوائے فرینڈ لے کر پارٹی میں آئی بھی نہیں تھی۔“

                مِس شکیلہ! ہم آپ کی شوخی اور حسِ مزاح کے تو ہمیشہ سے قائل تھے مگر یہ معلوم نہ تھا کہ آپ سفید جھوٹ بولنے اور پھر اس کو سچ ثابت کرنے میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔“ ساجد بولا۔

                شکیلہ غصے میں اُٹھ کر اپنی سہیلی کے گھر سے چلی آئی اور واپس اپنے گھر میں آکر بستر پر دراز ہو گئی وہ باربار اپنے ذہن پر زور ڈال رہی تھی مگر اس کی آنکھوں کے سامنے اس آدمی کی شبہیہ نہیں ابھر رہی تھی جس کے بارے میں اسے بتایا جا رہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ رقص کر رہی تھی اور اس کے ساتھ پارٹی کے اختتام کے بعد گھر آگئی تھی۔

                شکیلہ کو متفکر اور پریشان دیکھ کر خادمہ نے اس کی پریشانی کا سبب دریافت کیا۔ تو شکیلہ نے اس سے سارا واقعہ بیان کر دیا۔ خادمہ یہ سب سُن کر حیرت میں ڈوب گئی۔ اس کا جواب بھی شکیلہ کے لئے چکرا دینے والا تھا۔ خادمہ نے کہا کہ چوکیدار نے خود دیکھا تھا کہ آپ اپنی کار میں ایک شخص کے ساتھ رات گئے کوٹھی میں داخل ہوئی تھیں اور یہ کہ صبح دم وہ آدمی کوٹھی سے چلا گیا تھا اور شکیلہ خود اسے دروازے تک چھوڑنے آئی تھی۔

                خادمہ کی یہ بات اور حیران کن تھی۔ شکیلہ نے سوچا کیا میری ہمراز خادمہ بھی اس سازش میں شریک ہو گئی ہے۔ آخر یہ سب کیا ہے؟ وہ بار بار اس چہرے کے نقوش کو اپنے حافظے میں روشن کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ مگر اس میں اسے کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ البتہ ایک دھندلا سا خاکہ ذہن پر نمودار ہوتا تھا اور غائب ہو جاتا تھا۔ جیسے اس نے کوئی خواب دیکھا ہو۔ ایسا خواب جس کا اثر تو موجود تھا مگر خواب میں دیکھے ہوئے واقعات اور کئے ہوئے اعمال بھول کے خانے میں جا پڑے تھے۔

                رات کے کئی پہر گزر چکے تھے ۔ ایس پی اپنی خواب گاہ میں ایک کرسی پر متفکر و پریشان حال بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ناصر کے معاملے کو کس طرح سلجھائے۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ ناصر کوئی شورہ پشت اور خراب آدمی نہیں تھا اور جب سے آگ کے بدن نے اس کی خواب گاہ آکر اسے دھمکی تھی تو اسے یقین ہو گیا تھا کہ ناصر کا معاملہ دوسرے مجرموں کے برعکس ہے۔ اسے اپنے ماتحتوں کی اس بات پر اب یقین آنے لگا تھا کہ ناصر یا تو خود عامل ہے یا پھر یہ کسی آسیبی روح کا معمول ہے۔ وہ ان توہمات پر یقین نہیں رکھتا تھا اور شروع شروع میں اس نے ایسی باتوں پر اپنے ماتحتوں کو ڈانٹا ڈپٹا بھی تھا مگر اب وہ ہیولے کی دھمکی سے مرعوب اور خوف زدہ ہو گیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ناصر کوئی پُراسرار آدمی ہے اور اپنے موکلوں کی مدد سے لوگوں کو خوف زدہ کرتا ہے۔

                جب جیل میں سنگین پہرے کے باوجود ناصر کے فرار کی اسے اطلاع ملی تھی تو اس نے سخت کاروائی کرنے کا ارادہ کر لیا تھا مگر ہیولا کی دھمکی نے اسے فوری طور پر کوئی سخت قدم اُٹھانے سے روک دیا تھا۔ بڑے غور و فکر کر کے اس نے  ناصر کو اشتہاری ملزم قرار دینے کا ارادہ کیا۔ اس سلسلے میں ضروری کاغذات طلب کر لئے اور جب وہ حکمنامے پر دستخط کرنے بیٹھا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے ارد گرد فضا میں دھواں بھر گیا ہے اور اسے سانس لینا دشوار ہو رہا ہے۔ اس نے دستخط کر نے کے لئے میز پر قلم اُٹھانا چاہا تو اس کے ہاتھ نے حرکت کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے گھبرا کر اپنی بیوی کو آواز دی۔ بیوی بھی اپنے شوہر کی  یہ حالت دیکھ کر گھبرا گئی۔

                اس نے اپنے شوہر کو ناصر کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے روکا۔ ایس پی عجیب کش مکش کے عالم میں تھا۔ ایک طرف پُراسرار غیبی قوت اس کی راہ میں مزاحم تھی اور اس کے فرض کی بجاآوری میں رکاوٹ پیدا کر رہی تھی۔ وہ غیر معمولی  اعصاب اور دماغی و جسمانی قوت کا آدمی تھا اس کی ایمان داری ، بے خوفی اور انداز ِ تفتیش پورے محکمے میں مشہور تھا۔ مگر اس وقت وہ بالکل  مجبور ہو گیا تھا۔ بیوی کے سمجھانے بجھانے اور خوف زدہ ہونے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا اور نرم لہجے میں بولا۔“ جانِ من! تم تو خوامخواہ فکر مند ہو گئی ہو۔ میرے خیال میں شاید میرے اوپر فالج کا حملہ ہوا ہے۔ میں کاغذ پر دستخط کر لوں تو پھر ابھی جا کر ڈاکٹر سے مشورہ کرتا  ہوں  ۔ تم بالکل فکر نہ کرو اور میر قلم اُٹھا دو۔“

                بیگم نے قلم اُٹھا کر جیسے ہی ایس پی کے ہاتھ میں دیا اس کے پورے جسم میں ایک تیز گرم لہر دوڑ گئی اور اس کی چیخ نکل گئی۔” اُف میرے خدا! یہ قلم تو آگ کی طرح گرم ہے۔“ ایس پی بولا۔

                یہ سُن کر بیوی بھی متوحش ہو گئی اور ایس پی کو کرسی سے گھسیٹتی ہوئی کمرے سے باہر لے آئی۔ کمرے سے باہر آکر جب دونوں کے اوسان بحال ہوئے تو بیگم نے کہا۔” حیرت ہے۔ میں نے آپ کو جب قلم اُٹھا کر دیا تھا تو وہ بالکل ٹھنڈا تھا۔ آپ نے اسے پکڑتے ہی یوں چھوڑ دیا جیسے قلم نہیں آگ میں تپا ہوا کوئی لوہے کا ٹکڑا ہو۔ میرے خیال میں ضرور کوئی آسیبی چکر ہے تم خوامخواہ اس چکر میں نہ پڑو اور ناصر کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔“

                ” مگر بیگم! ناصر نے قانون کی خلاف ورزی کی  ہے۔ اس کو کس طرح آزادی سے گھومتے پھرتے چھوڑا جا سکتا ہے۔ میں اس معاملے کو سلجھائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھوں گا چاہے اس میں میری زندگی کو کتنا ہی خطرہ کیوں نہ درپیش ہو۔“ ایس پی بولا۔

                ”سِر دست تم ان کاغذات پر دستخط مت کرو۔ ایک دو دن اور سوچ بچار کر لو۔ شاید ناصر خود ہی تھانے پہنچ جائے۔“ بیگم نے کہا۔

                ایس پی نے بیگم کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔” میں ایک بات سوچ رہا ہوں۔ ممکن ہے یہ سب میرا واہمہ ہو جو پہلے ہیولے کی شکل میں  اور اب ایک اور صورت سے مجھ پر اثر انداز ہوا ہو۔اصل میں میرے ماتحت ناصر سے بہت خوفزدہ تھے اور انہوں نے شروع ہی سے اسے غیر معمولی قوتوں کا حامل سمجھ لیا تھا اور مجھ سے بھی اپنی بات کی صداقت کے لئے اصرار کرتے رہے۔ شاید لاشعوری طور پر میں نے ان باتوں کے زیادہ گہرے اثرات قبول کرلئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم تجربہ کئے لیتے ہیں۔ آؤ پھر کمرے میں چلتے ہیں۔ تم اس قلم کو دوبارہ چھونا اور میں بھی۔“

                واپس کمرے میں جا کر پہلے بیگم نے زمین پر پڑا ہو قلم اپنے ہاتھ میں اُٹھا لیا اور اسے کوئی غیر معمولی بات محسوس نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ایس پی نے جیسے ہی قلم ہاتھ میں لینا چاہا تو اسے ایک دم اپنی نگاہوں کے سامنے سُرخ آگ کی مانند روشن وہ ہیولا کھڑا ہوا نظر آیا۔ وہ آتشیں نگاہوں سے ایس پی کو گھور رہا تھا۔ بیگم سے قلم لینے کے لئے ایس پی کا بڑھا ہوا ہاتھ جہاں تھا وہیں رُک گیا اور وہ ساکت و صامت ہیولے کی جانب دیکھنے لگا ۔ ایس پی کو اس وقت اپنے تن بدن کا ہوش  نہ تھا۔ اس کے ذہن کے کسی دور دراز گوشے سے کوئی آواز کہہ رہی تھی کہ جان بچا کر بھاگ جاؤ مگر آتشیں ہیولے کی موجودگی نے جیسے اسے ہیپنٹا ئزڈ کر دیا تھا۔ ایس پی کو یوں کھڑا ہوا دیکھ کر بیگم نے شانہ جھنجھوڑا اور قلم اس کے ہاتھ میں تھمانا چاہا مگر ایس پی کی مُٹھیاں بند تھیں اور وہ پتھر کے بت کی  مانند کسی طرف توجہ نہیں دے رہا تھا۔ ایک عجیب تیز روشن لکیر اس آتشیں ہیولے سے نکل کر ایس پی کی پیشانی سے ٹکڑا رہی تھی۔ اس ٹکڑانے سے یوں لگ رہا تھا جیسے ہیولا اس سے گفتگو کر رہا ہو۔ گفتگو  کا خاص انداز تھا اور آس پاس کھڑا ہو ا  کوئی دوسرا شخص نہ تو اس ہیولے کو دیکھ سکتا تھا اور نہ ہی یہ گفتگو کوئی شخص سن سکتا تھا۔

                ” ہم نے  تمہیں پہلے بھی حکم دیا تھا مگر تم نے حکم عدولی کی ہے۔ آج پھر کان کھول کر سن لو۔ ناصر کا پیچھا چھوڑ دو۔ اس کے خلاف ہر قسم کی کاروائی بند کر دو۔ اس کی گرفتاری کا مقصد ہماری سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے۔“

                پُراسرار ہیولا یہ حکم دے کر رخصت ہو گیا۔ تھوڑی دیر میں ایس پی کی حالت  درست ہوئی۔ وہ خوف زدہ تھا۔ اس نے اپنے دل میں ناصر کے خلاف کاروائی کو سرِ دست ملتوی کر دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ پھیکی سی مسکراہٹ سے اس نے بیگم کے ہاتھ سے قلم لے لیا اور اسے میز پر رکھ دیا۔ بیگم نے جو اب تک اس کے اس رویئے پر حیرت زدہ تھی، سوال کیا۔” یہ آپ کو یکایک پھر کیا ہو گیا تھا؟“

                ” مجھے خود کچھ نہیں معلوم بیگم۔۔ لیکن سرِدست میں نے کسی قسم کی کاروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔“


 

                ناصر سوچ رہا تھا کہ میں کس طرح  اپنی ماں کے دکھ کا جو میری ذات سے پہنچ رہا ہے مداوا کر سکتا ہوں۔ ماں اس کے وجود سے بے نیاز ہو کر مصّلے پر بیٹھی تھی اور اس کے ہاتھ تیزی سے تسبیح کے دانوں کو گن رہے تھے اور ناصر عالمِ محویت میں یکسوئی سے اپنی ماں کے آہستہ آہستہ ہلتے ہوئے لب اور اس کی انگلیوں کی تیز حرکت کو دیکھ رہا تھا۔ بے چاری ماں۔ میں نے زندگی میں کوئی سکھ نہیں دیا۔ میں اسے زندگی میں کوئی سکھ دے سکتا۔ بھلا اس کا مزدور بیٹا اس کی زندگی میں کیا کام آسکتا ہے۔ اب میں کسی قابل ہوا ہوں اور غیبی  طاقت میری مدد کر رہیے ہے مگر ماں کو شک ہو گیا ہے کہ میری کمائی ناجائز ہے اور وہ اسی لئے میری لائی ہوئی ہر چیز کو شک و شبہ کی نظروں سے دیکھتی ہے۔ اس کے ذہن میں خیالات  کی بھر مار تھی اور پردہ فلم کی طرح ماضی کی زندگی  کا ایک ایک واقعہ اس کی نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا۔ ایک طویل عرصے تک ڈاکٹروں کے لکھے  ہوئے نسخے اس کی جیب میں پڑے پڑے ہی بوسیدہ ہو جاتے تھے مگر ماں اس وقت مجھ سے جتنا خوش تھی آج نہیں ہے۔ آج میں اس کے لئے قیمتی دوا بھی خریدکر لا سکتا ہوں مگر اسے تو وہی غربت کی زندگی پسند ہے اور وہ لوگ پسند ہیں جو دیانت  داری کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ اسے معلوم نہیں ہے کہ دیانت دار لوگوں کو زندگی میں طرح طرح کی تکالیف اور پریشانیاں اُٹھانی پڑتی ہیں۔ میری ماں بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ایک ہے مگر عبادت  وریاضت ، نیک نفسی اور دیانت داری کا صلہ سے اس زندگی میں کیا دیا؟ پہلے اس کا مزدور  خاوند ٹی بی کا شکار ہو کر مرا۔ اب اس کا بیٹا اپنی جان شدید محنت و مزدوری میں گھلتا رہا مگر اس کے گھر میں دو وقت کبھی پابندی سے چولھا نہیں جلا۔ ان ہی خیالات میں بھٹکتے بھٹکتے بالآخر وہ سو گیا۔

                وہ تھوڑی دیر ہی سویا ہوگا کہ ماں نے جگا دیا۔ وہ اس کے  ناشتے کے لئے چائے اور روٹی لے آئی تھی۔ ناصر نے ناشتہ کیا۔ دن نکل آیا تھا۔صبح کی سنہری دھوپ چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ اس وقت وہ مزدوری کرنے کے لئے ہمیشہ چلا جایا کرتا تھا۔    

                وہ ناشتے سے فارغ ہوا تو ماں نے جس کے لہجے میں ابھی    تک کھچاؤ تھا ناصر سے سوال کیا۔” ناصر بیٹے مجھے سچ سچ بتا دے ک آخر تو کن چکروں میں پڑ گیا ہے؟ پولیس تیرے پیچھے ہے، محلے والے تھج سے نالاں اور خوف زدہ ہیں اور گزشتہ رات بھی تو نے باہر گزار دی ۔ آخر تجھے کیا ہو گیا ہے؟“

                ” ماں! ۔۔۔۔“ ناصر نے روہانسا ہو کر جواب دیا۔” ماں ، تم میری مجبوری کیوں نہیں سمجھتی، میں تیری محبت کی قسم  کھا کر کہتا ہوں کہ میں بالکل بے قصور ہوں۔ میں نے نہ کسی کو قتل کیا ہے، نہ بے جا تنگ کیا ہے، نہ ہی کسی قسم کی بُری عادت  میں گرفتا ہوں۔ بس میں سارا دن اچھا بھلا رہتا ہوں اور پھر یکا یک مجھے اپنے اندر تبدیلی رونما نظر  آتی ہے ۔ میں ناصر نہیں رہتا۔ اور تھوڑی دیر کے لئے کچھ اور ہو جاتا ہوں ، اس کے لئے کسی وقت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ چند لمحے چند گھنٹے ، کبھی کبھی پورا دن یا پوری رات میں کسی آسیب کی گرفت میں آجات ہوں۔ کوئی نادیدہ قوت مجھے اپنے حصا ر میں لے لیتی ہے۔“

                ماں خاموشی سے ناصر کی باتیں سنتی رہی پھر بولی ” جن لوگوں کو آسیبی قوت پکڑ لیتی ہے وہ تو کسی کام کے لیے نہیں رہتے۔ لوگوں کو ان کی ظاہری حالت سے اس کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ مگر اس لحاظ سے تو تو بالکل بھلا چنگا نظر  آتا ہے۔ میں تو حیران ہوں کہ مزدوری تو کرتا نہیں اور نوٹوں کی اتنی موٹی گڈی تو نے کیسے لا کر مجھے دے دی تھی۔

                ناصر نے نہایت ملتجیانہ  انداز میں کہا۔” ماں ، یقین رکھو کہ تمہارا بیٹا نوٹوں کی یہ گڈیاں نہ تو کہیں سے چرا کر لایا ہے اور نہ ہی جوئے یا سٹے میں حاصل کی ہیں۔ یہ رقم تو مجھے میرے دوست نے دی ہے۔ میرا وہ دوست اس دنیا کی مخلوق نہیں ہے، وہ عام انسانوں کی طرح بھی نہیں ۔“

                ” پھر پولیس کیوں تیرے پیچھے پڑی ہوئی ہے؟ کل ہی پولیس والے نے مجھے آکر بتایا  تھا کہ تجھے اشتہاری مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔“ ماں بولی۔

                ” ماں! پولیس والوں کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔ انہیں مجھے اشتہاری ملزم قرار دینے میں کسی قسم کی جلدی نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ میں تو خود ان کے طلب کرنے پر کئی بار تھانے جا چکا ہوں۔ میرے خلاف بس ایک معمولی سا مقدمہ ہے، محلے کے بدمعاش کی پٹائی کرنے کا۔ یقین جانو کہ اگر وہ نادیدہ قوت میرے ساتھ نہ ہوتی تو میں نہ تو محلے کے مدمعاش کو مار سکتا تھا اور نہ ہی بار بار جیل کی آہنی سلاخوں نکل کر آسکتا  تھا۔ بلکہ اگر تم بھی اپنی ممتا کے جوش سے بے قابو ہو کر تھانے پہنچتی تو تمہاری منت و زاری بھی مجھے رہا نہیں کر سکتی تھی۔ اور شاید میں بھی سزا پا جاتا اور  نہ جانے کتنے دن جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پر مجبور کر دیا جاتا۔ جب میرے دل میں یہ خیال جاگتا ہے کہ مجھے اب جیل کی کوٹھری سے نکل جانا چاہیے تو وہی قوت میری مدد کو آتی ہے۔ آہنی سلاخوں کو اس دم یوں موڑ ڈالنے کی طاقت مجھ میں پیدا ہو جاتی ہے کہ جس طرح معمولی مکا ہاتھ کی جنبش سے توڑا جا سکتا ہے اور مضبوط تالا میری آنکھ کے ایک اشارے سے ہی کھل جاتا ہے۔“

                 ماں نے اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کی خوموشی میں حیرانی کا عنصر بھی اب ناصر کی باتیں سُن کر شامل ہو گیا تھا۔ ممکن ہے وہ کسی عجیب وغریب قوت کا شکار ہو گیا ہو۔ مجھے اس کی باتوں سے سچائی کی پو آرہی ہے ۔ ماں نے سوچا۔ وہ اسی سوچ میں کھڑی تھی کہ ناصر اتنے میں کمرے  کے اندر گیا۔ وہاں اس نے اپنے لائے ہوئے پھل اسی طرح ایک ٹوکری میں رکھے دیکھے۔ پھل تین دن کے باسی ہو گئے تھے۔ ناصر کو بڑا غصہ ایا۔ آخر ماں نے کیوں اب تک ان میں کسی پھل کو چکھا تک نہ تھا وہ جھنجھلایا ہوا واپس ماں کے پاس آیا اور بولا ” اماں! تم نے ابھی تک ان پھلوں میں سے کچھ نہیں کھایا؟”

                ” بیٹے ! یہ تیری جائز کمائی سے خریدے ہوئے نہیں ہیں۔ میں ان کو نہیں کھا سکتی۔ کیوں اس عمر میں اپنی آخرت برباد کروں؟”

                ناصر اس کی بات سُن کر کچھ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر بولا ، آخر میں تمہیں کس طرح سمجھاؤں ماں! اچھا خیر ! جیسی تیری مرضی۔“

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

                ایس پی عجیب ذہنی کش مکش اور خوف کا شکار تھا۔ اس کے ساتھ جو چند غیر معمولی واقعات پیش آ چکے تھے ان کے پیشِ نظر اب اسے یقین ہو گیا تھا کہ ناصر کے معاملے میں مسئلہ صرف جرم کا ہی نہیں ہے۔ اس بات کی بھی کوئی حیثیت نہیں کہ جرم کی نوعیت معمولی ہے یا بڑی۔ حقیقتاً   پولیس والوں کے لئے یہ بات معمولات میں شامل ہے کہ دو مخالف فریق برِ سر عام یا گھریلو تنازعہ میں مار پیٹ کی شکایت لے کر آئیں تو ان دونوں کو یا تو گرفتار کر لیا جائے یا پھر باہمی رضا مندی سے صلح کرا دی جائے مگر ناصر کا معاملہ بالکل برعکس تھا۔ اس سخت پہروں میں نکل جانا، پولیس کے جن جن اہلِ کاروں کا اس سے سابقہ پڑا تھا ان کا ناصر سے خود زدہ ہونا حیران کن تھا۔ خود دو بار اسے تنبیہ کی جا چکی تھی۔

                ناصر کا مسئلہ ایسا تھا کہ جس نے ایس پی کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت کر دیا تھا۔ کسی لمحے کو بھی اس کے ذہن سے ناصر کا نام محو نہیں ہو پا رہا تھا۔ مختلف کاموں کی انجام دہی کے دوران فائلوں پر ناصر کا چہرہ اسے اپنی طرف چیلنج کرتا ہوا محسوس ہوتا۔ گھریلو معاملات میں بھی اس کی دل چسپی ان  چند دنوں میں حیرت انگیز حد تک کم ہو گئی تھی۔ جس کو اس کی چہیتی بیوی اور گھر  دوسرے افراد نے بھی محسوس کیا تھا۔ وہ کچھ کھویا کھویا سا رہنے لگا تھا ۔ بات کرتے کرتے یکدم خاموش ہو جاتا اور دور خلاؤں میں تکنے لگتا۔

                رات کو پلنگ پر لیٹتے ہی اسے پھر ناصر کے بارے میں خیالات کے ہجوم نے آگھیرا۔ وہ مختلف قیاس آرائیاں کرتا رہا اور اس  کا ذہن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہونے کے سبب جھنجھلاہٹ اور مایوسی کی وجہ سے شدید کرب میں مبتلا ہو گیا۔ جب سے وہ ناصر کے کیس میں الجھا تھا اس وقت سے وہ شدید اعصابی کھچاؤ اور تھکن کا شکار ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی پوری رات جاگتے ہی گزر جاتی اور اگر لاکھ کوششوں پر کبھی نیند ی دیوی اس پر مہربان ہو بھی جاتی تو یہ لمحے عارضی ہی ثابت ہوتے۔

                فائلوں سے نظر اُٹھا کر ایس پی نے ہاتھ پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھی تو رات کے ڈھائی بج چکے تھے۔ ذہنی یکسوئی کے لئے وا رات کے اولین حصے سے ہی سرکاری کاغذات دیکھنے میں منہک رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس نے اتنی ذہنی محنت کر لی ہے کہ تھکان کے سبب فوری طور پر اسے نیند آجائے گی۔ یہ سوچتے ہوئے اس نے ٹیبل لیمپ بھجایا اور نیلے رنگ کا زیرہ کا بلب روشن کر دیا۔ نیلگوں مدہم روشنی نے کمرے کو خوابناک کیفیت میں تبدیل کر دیا۔ اور وہ جلد ہی سو گیا۔ نہ جانے وہ کتنی دیر سوتا رہا کہ فجر کی اذان کی آواز سُن کر اس کی نیند ٹوٹی اور اسے سونے کے دوران خواب دیکھنے کا احساس ہوا۔ اس قدر کم نیند سونے کے بعد آج اس کی آنکھ جل کھلی مگر اسے روزانہ کی مانند کوئی ناخوشگوار کیفیت  محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ بلکہ اس کے بجائے وہ خود کو ترو تازہ اور ہشاش بشاش محسوس کر رہا تھا جیسے طویل مدت تک سوتا رہا ہو اور بدن کی تھکن گہری اور طویل نیند نے اُتار ڈالی ہو۔

                تب اس نے بکھرے ہوئے خواب کو اپنی زہن میں یکجا رنا شروع کیا۔ خواب میں ایک شخص نے اسے حکم دیا تھا کہ اسے ناصر کی مدد کرنی چاہیئے۔ وہ غیر معمولی حالات کا شکار ہے۔ ایس پی نے خواب میں ہی حکم دینے والے شخص سے جواباً کہا تھا کہ آخڑ وہ خود کیوں ناصر کی مدد نہیں کرتا؟ ایک واقعہ ایسا ہو گیا ہے کہ جس کی بنا پر میں ناصر کے قریب نہیں جا سکتا۔ خواب میں دیکھی ہوئی جو جو باتیں اس کے ذہن میں روشن ہوتی جا رہی تھیں اس کے مطابق خواب میں آنے والے نے یہ حکم دیا تھا کہ وہ جا کر ناصر کو غسل پاکی کا بھی مشورہ دے کیوں کہ ناصر ایک رات خلوت میں رہ چکا ہے۔ ایس پی کو محسوس ہوا کہ حکم دینے والا کوئی غیر مرئی شخص ہے اور اسے اس کے احکامات کو تسلیم کر لینا چاہیئے اور اب یہ بات بھی اس کی سمجھ میں آگئی تھی کہ یہ غیر مرئی شخص خود ناصر کو جا کر یہ سب کچھ کیوں نہیں کہہ سکتا۔ ناصر جس پراسرار ہیولے کا معمول بنا ہوا  تھا وہ اپنی جنسی خواہشات کی آسودگی        اس کے جسم کے ذریعے حاصل کر رہا تھا۔ لیکن ایسی صورت میں خود معمول کو کسی کیفیت کا پتہ نہیں چلتا۔ خواب کے آخری لمحوں میں اس غیر مرئی شخصیت نے اسے ہر ممکن تعاون کا یقین  دلایا تھا اور یہ کہا تھا کہ وہ اکثر و بیشتر اس کے پاس آتا رہے گا۔ ایسے لمحوں میں وہ اپنی امد کا اعلان ایک مخصوص قسم کی گھنٹیوں کی آواز سے کرے گا جس کو خلوت و جلوت میں صرف وہ خود ہی سن سکے گا اور دوسرے اس کی آواز کی شناخت یا محسوس نہیں کر سکیں گے ایسی صورت میں ایس پی کا فرض ہوگا کہ وہ گھنٹیوں کی آواز سنتے ہی بہت جلد بازی سے کام لیتے ہوئے خود کو کسی  تنہا گوشے میں لے جائے گا تاکہ اس غیر مرئی مخلوق سے اس کی ملاقات ہو سکے۔ گھنٹیوں کی یہ آوازیں جب اس نے جاتے ہوئے سنائی تو وہ انتہائی مدھم اور سماعت کو خوشگوار لگنے والی تھیں۔ ان ہی گھنٹیوں کی  آواز کے  معدوم ہوتے ہی اس کی نیند ٹوٹ گئی تھی۔ جاتے ہوئے وہ شخصیت یہ بھی بتا گئی تھی کہ اس کا تعلق جنوں سے ہے اور اس کا نام نستور ہے۔

                ایس پی نے اسی وقت اُٹھ کر ناصر کے گھر جانے کی تیاری شروع کر دی ۔ اس نے اپنے ماتحت ایس ایچ او کو فون پر فوراً طلب کیا اور اس کی آمد تک شیو کر کے ناشتہ کیا اور جانے کے لئے بالکل تیار ہو گیا۔ تھوڑی دیر میں ایس ایچ او پہنچ گیا۔

                ” میں اس وقت ناصر کے گھر جانا چاہتا ہوں۔ تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ ناصر کے گھر تک میری رہنمائی کرو۔“ ایس پی نے کہا۔

                ایس ایچ او نے جواب دیا۔” بہت بہتر سر ! میں حاضر ہوں۔“

                چند ثانیوں تک دونوں کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ پھر ایس  ایچ او نے ایس پی سے کہا۔

                ” سر ! میں ایک انتہائی اہم واقعہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔“

                ” اس وقت مجھے جلدی ناصر کے گھر پہنچنا ہے میری واپسی پر دوبارہ آکر بتانا کہ کیا بات ہے۔“

                ” سر! دراصل اس واقعے کا تعلق بھی میرے خیال میں ناصر سے ہے آپ نے خلافِ معمول مجھے بہت سویرے طلب کیا ہے وگرنہ جب میں آپ کی خدمت میں روزانہ کے وقت کے مطابق حاضر ہوتا تو یہ واقعہ بیان کرتا۔“

                ”اچھا ، ایسا ہے تو ابھی بیان کر دو۔“ ایس پی نے متفکرانہ انداز میں جواب دیا۔” کیا تمہیں یقین ہے کہ جو واقعہ تم نے سنانے جا رہے ہو اس کا تعلق ناصر سے ہی ہے؟“

                سر! میں اس سلسلے میں کوئی ٹھوس ثبوت تو پیش نہیں کر سکتا ویسے جو روداد اور اس واقعے میں ملوث شخص نے بیان کی ہے اس سے میرے شبہ کو تقویت پہنچتی ہے اور یہ واقعہ رات ہی مجھے معلوم ہوا ہے۔“

                ای پی ہمہ تن گوش تھا۔ اس کی خاموشی میں واقعہ سننے کی اجازت پوشیدہ تھی۔ ایس ایچ او نے اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔

                ” سر! دراصل رات کوئی دو تین بجے میرے پاس دو نوجوان آئے تھے۔ ان میں سے ایک کو میں ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں۔ اس کا نام رضوان ہے اور سوسائٹی کے دولت مند طبقے سے اس کا تعلق ہے۔ ایسے دولت مند افراد راتوں کو دیر تک گھروں سے غائب رہتے ہیں اور ڈانس پارٹیوں اور کلبوں میں راتوں کا بیشتر وقت گزارتے ہیں۔ جیسا کہ آپ کے علم میں بھی ہے  رات کے وقت رضوان اپنے دوست کے ہمراہ میرے پاس تھانےآیا تھا۔ وہ دونوں سخت خوف زدہ اور سراسیمہ تھے۔ رضوان کے بیان کے مطابق  وہ اپنے کسی دوست کی پارٹی سے واپس آرہا تھا۔ اس رات پارٹی میں شہر کے مشہور سیٹھ رفیق کی بیٹی شکیلہ بھی مدعو تھی۔ اس کے ساتھ ایک اجنبی آدمی ، اعلیٰ درجے کے سوٹ میں ملبوس بھی  پارٹی میں آیا تھا۔ شکیلہ رفیق پارٹی کے اختتام پر اس اجنبی آدمی کے ساتھ ساحل سمندر کی طرف گئی۔ رضوان اور اس کے دوست نے بھی ان کا تعاقب کیا۔ اس کا سبب رضوان سے شکیلہ کی بے اعتنائی تھی کیونکہ اس اجنبی آدمی کے ہوتے ہوئے اس نے اپنے پُرانے آشناؤں کو یکسر فراموش کر دیا تھا۔“

                ” مگر اس تمام واقعے سے ناصر کا کیا تعلق ہے؟“

                ایس پی نے بے چینی سے پوچھا۔” ناصر تو ایک مزدور پیشہ اور پھٹے پرانے کپڑوں میں رہنے والا شخص ہے۔ شہر کے انتہائی دولت مند آدمی کی بیٹی کے ساتھ اس کی راہ ورسم کیسے ہو سکتی ہے۔ دوسرے جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے وہ سوٹ  نہیں پہنتا اور اس بنیادی سبب اس کی معاشی حالت ہے۔“

                ” سر! آپ کا یہ فرمانا بالکل بجا ہے۔“ ایس ایچ او نے نہایت ادب سے کہا۔ اس اجنبی آدمی کی خوش پاشاکی اور اس کا شکیلہ رفیق کی ہمراہی میں ہونا بہ ظاہر اس بات کی سب سے بڑی تردید کرتا ہے کہ وہ ناصر نہیں ہو سکتا۔ مگررضوان کے ساتھ جو عجیب و غریب واقعہ پیش آیا ہے اس میں اور ناصر سے سرزد ہونے والے واقعات میں حیرت انگیز مشاہبت پائی جاتی ہے۔“

                ” سر! رضوان کا بیان ہے کہ جب وہ اور اس کا ساتھی شکیلہ کی کار کے قریب جا کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے شکیلہ سے  خود کو نظر انداز کر دیئے جانے پر احتجاج کیا تو شکیلہ نے جواب میں کہا تھا کہ اگر تم مجھے اس سے چھین سکتے ہو تو چھین لو۔ یہ گویا اس کی طرف سے لڑائی کھلی دعوت تھی۔ رضوان کا بیان ہے کہ اس نے ایک لمبا چاقو نکال لیا اور شکیلہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے اس اجنبی آدمی کو گریبان سے کھینچ کر باہر نکالا مگر اس اجنبی نے کوئی مزاحمت نہ کی اور وہ کار سے باہر نکل کر کار کے سہارے اطمینان سے کھڑا ہو گیا۔  رضوان نے چاقو کا ایک بھر پور وار کیا۔ اس کا بیان ہے کہ یہ  وار اتنا شدید تھا کہ چاقو  کا پھل سینے میں اتر جانا چاہیئے تھا مگر اس کے برعکس چاقو لوٹ کر رضوان کی پنڈلی میں پیوست ہو گیا۔ جب اس اجنبی نے کوئی مزاحمت ہی کی تھی اور نہ ہی الٹ کر چاقو کا وار کیا تھا یہ خو د بہ خود ہوا۔“

                ” یہ حالت دیکھ کر رضوان کا دوست اور رضوان دونوں سر پر پیر رکھ کے بھاگے۔ رضوان میرے پاس اس واقعہ کی رپورٹ درج کرانے آیا تھا مگر اس نے یہ درخواست کی تھی اسواقعے کی اطلاع پریس کو نہ دی جائے اور نہ شکیلہ رفیق کا نام رپورٹ میں آنے پائے۔ اسی بنا پر میرا خیال ہے کہ وہ اجنبی ناصر ہی ہو سکتا ہے جس کے قابو میں کوئی غیر مرئی قوت ہے۔“

                بیان کے آخری حصے  ایس پی کی حیرت میں اضافہ ہوگیا ۔ اب کچھ کچھ اسے بھی یقین آنے لگا تھا کہ ممکن ہے ناصر ہی کسی روپ میں اس واقعے میں ملوث ہو تاہم ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کا ارادہ سادہ لباس میں ناصر کے گھر جانے کا تھا۔

                وہ ناصر کے گھر جانے کے لئے اُٹھا ہی تھا کہ اتنے میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ ٹیلی فون اُٹھا کر اس نے بات کی تو معلوم ہوا ک دوسری جانب سے آئی جی پولیس کا سکریٹری بول رہا تھا۔ ہیڈ آفس میں اسی وقت اسے کسی میٹنگ میں طلب کیا گیا تھا۔ اب وہ عجیب شش و پنج کا شکار تھا۔ وقت اتنا کم تھا کہ  وہ ناصر کے گھر نہیں جا سکتا تھا۔ اس نے ایس ایچ او سے کہا ”انسپکٹر ! ہم اب ناصر کے گھر نہیں جا سکتے۔ مجھے فوری طور پر ہیڈ افس پہنچنا ہے۔ اب تم واپس جاؤ۔“

                انسپکٹر نے جواب دیا۔” جی ، اچھا سر! میں خود بھی حیران ہو رہا تھا ، سر! کہ آپ ایک معمولی آدمی کے گھر تشریف لے جائیں گے۔ ہمیں حکم دیجیئے کہ ہم ناصر کو آپ کے قدموں میں لا کر ڈال دوں۔“

                ایس پی کے چہرے پر خفگی کے آثار نمایاں ہوئے۔ یوں لگا جیسے اُسے انسپکٹر کی خوشمندانہ بات پسند نہ آئی ہو۔ اس نے ذرا سخت لہجے میں کہا۔“ انسپکٹر ! اپنے کام سے کام رکھو۔ جیسا کہا جائے ویسا عمل  کرو۔ تم ہر آدمی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا چاہتے ہو۔“

                انسپکٹر اس غیر متوقع ڈانٹ پر شرمندہ سا ہو گیا اُٹھ کر سیلوٹ کرتے ہوئے جانے کی اجازت طلب کی اور باہر چلا آیا۔

                ایس پی ہیڈ آفس پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ ایک یورپی ملک کی پولیس کے افسران اعلیٰ کا ایک وفد پاکستان کے دورے پر آیا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں اعلیٰ افسران کی ایک میٹنگ تھی اسی میں شرکت کے لئے اسے فی الفور طلب کیا گیا تھا۔ ان گیر ملکی افسران کو موہنجو داڑو اور سندھ کے دوسرے آثار قدیمہ دکھانے جانے والے تھے۔ آئی جی پولیس نے ایس پی کو افسرِ مہمان داری مقرر کیا تھا اور پولیس کے محکمے کی جانب سے اسے اس وفد کی مہمان داری کے فرائض سونپے گئے تھے۔ وفد کو دوپہر کی پرواز سے سفر کرنا تھا۔

                جب وہ ہیڈ آفس سے واپس آیا تو گیارہ بج  چکے تھے۔ اسے سفر کی تیاری بھی کرنا تھی اور پرواز تین بجے روانہ ہونی تھی۔ اس نے سوچا کہ وہ رات کے خواب میں ملاقات ہونے والی غیر مرئی قوت کا حکم مانے اور آج ہی جا کر ناصر سے ملاقات کرے۔ مگر مشکل ایسی آن پڑی تھی کہ جس سے چھٹکارا پانا نہ صرف یہ کہ آسان نہ تھا بلکہ نا ممکن تھا۔ اس تمام عرصے میں وہ بہ مشکل ناصر کے لئے ایک گھنٹہ وقت نکال سکتا تھا۔ مگر اس کا خیال تھا کہ یہ ایک گھنٹہ تو صرف اِدھر اُدھر کی رسمی باتوں میں نکل جائے گا۔ وہ ناصر سے تفصیلی ملاقات کرنا چاہتا تھا خواہ یہ ملاقات تمام دن پر پھیل جائے۔اس کی بیوی اس کا ضروری سامان پیک کر رہی تھی۔ ایک بار کسی کام کے سلسلے میں آئی تو اس نے اپنے شوہر کو آرام کرسی میں دراز بڑبڑاتے ہوئے کچھ سنا۔

” یہ کیا ہو رہا ہے؟ تنہائی میں کس سے باتیں ہو رہی ہیں۔؟“

                بیوی کے یہ فقرے اسے خواب کے عالم سے نکال کر حقیقی دنیا میں لے آئے تھے۔ ” کچھ نہیں، کچھ نہیں، بیگم !“ اس نے یوں گھبراتے ہوئے کہا جیسے کوئی شخص چوری کرتا ہوا پکڑا جائے۔” بس بیگم! اسی ناصر کے بارے میں سوچ رہا تھا۔“

                ” ارے بھاڑ میں ڈالو اس ناصر کے بچے کو۔“ بیوی نے جل کر کہا۔” میں تو کہتی ہوں کہ اول تو آپ اس چکر میں نہ پڑیں اور اگر احساسِ فرض آپ کو اتنا زیادہ ہی مجبور کر رہا ہے تو پھر کسی دوسرے ڈویزن میں اپنا تبادلہ کرا لیں۔ تاکہ نہ آپ نامراد کے حلقے میں رہیں گے اور نہ خوامخوا کی تفتیش میں اپنے آپ کو ہلکان کریں گے۔“

                ” نہیں بیگم! یہ بات نہیں ہے۔ یہ کوئی پُراسرار کیس ہے۔ تم چاہے یقین نہ کرو مگر مجھے اب یقین آ چکا ہے۔ آ ج صبح سویرے میں ناصر کے گھر ہی جانے والا تھا مگر پھر ہیڈ آفس طلب کر لیا گیا۔ میں تمہیں اپنا رات کا خواب بھی نہیں سنا سکا۔ رات مجھے کسی غیر مرئی قوت نے یہ حکم دیا ہے کہ میں ناصر سے مل کر اس کے مسائل کو سمجھنے اور انہیں سلجھانے کی کوشش کروں۔“

                ” مگر میں تو سمجھتی ہوں کہ ناصر کے پاس کوئی سِفلی علم ہے۔ چونکہ آپ بہ طور خاص اس کے معاملے میں دل چسپی لے رہے ہیں لہذا وہ اپنے موکلوں کے ذریعے طرح طرح سے آپ کو پریشان کر رہا ہے۔ آپ فکرمند نہ ہوں۔ میں آج ہی آپ کے لئے آیت کریمہ کا ختم کراتی ہوں۔ خدا آپ کو محفوظ رکھے۔!“

                ” نہیں بیگم! اس قدر خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے خیال میں ناصر سے میرے مل لینے میں کوئی حرج  نہیں ہے۔ ناصر سے آج ہی ملاقات کرنا ضروری تھی۔ مگر ناگہانی طور پر مجھے باہر جانا پڑ رہا ہے خیر ، اب جاؤ اور کھانے کے لئے کچھ لے  آؤ۔ جانے میں تھوڑی دیر رہ گئی ہے۔“

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                صبح سویرے ایس پی نے غیر ملکی پولیس وفد کو ہمراہ لے کر موہنجو داڑو کی سیر کرائی۔ موہنجو داڑو اپنے آنے والوں کے سامنے پانچ ہزار سالہ تہذیب کی تاریخ بنا کھڑا تھا۔ دوپہر کے وقت وہ سرکاری ریسٹ ہاؤس میں واپس آئے۔ لنچ تیار تھا اور مہمانوں کے لئے میز پر سجایا جا چکا تھا کہ اتنے میں ایس پی کے کمرے کی کھڑکی پر کسی نے دستک دی۔ دستک کی آواز کے ساتھ ہی ایس پی نے مُڑ کر دیکھا۔ کھڑکی کے شیشے میں سے کسی نوجوان عورت کا ہاتھ نظر آیا۔ اور پھر غائب ہو گیا۔ دستک کی آواز حقیقی تھی مگر وہ وفد کو سیر کراتے ہوئے اتنا تھک چکا تھا کہ اُٹھ کر کھڑکی کھولنا اور دستک دینے والے سے ملنا اسے ناگوار معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے بہ آواز بلند کہا۔” میں گیٹ کی طرف  سے آؤ۔ کیا کام ہے؟“ تھوڑی  دیر تک خاموشی رہی اور پھر دستک ہوئی۔ اب کے دستک کی آواز زیادہ تیز اور مسلسل تھی۔ گویا بلانے والے کو جلدی ہو۔ ایس پی جھنجھلا کر اُٹھا اور تیز تیز قدم اُٹھا کر کھڑکی کے پاس پہنچا۔ کھڑکی کے دونوں پٹ تیزی سے کھول دیئے۔ یہ عمارت کا عقبی حصہ تھا۔ ذرا پرے ہٹ کر چار دیواری تھی۔ مختصر سے صحن میں گھاس لگی ہوئی تھی۔ اور مختصر روشوں پر پھولوں کے پودے ایستادہ تھے۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ دیوار کے ساتھ لگی ہوئی ایک نوجوان خوبصورت عورت کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں مسحور کن چمک تھی اور گورے گورے سڈول بانہوں میں سنہری چوڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ وہ عورت کی خوبصورتی کو دیکھ متاثر ہوا مگر پھر حیران بھی ہوا کہ آخر ایک اجنبی عورت کو اس سے کیا ضرورت در پیش آ سکتی ہے۔   ممکن ہے کہ ریسٹ ہاؤس کے کسی ملازم کی بیوی ہو یا ممکن ہے ریسٹ ہاؤس کے ملازموں میں سے کسی کی آشنا عورت ہو۔ کئی خیالات اس کے ذہن میں آئے مگر وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ اس عروت کے یاقوت کی طرح تراشیدہ ہونٹ ہلے مگر یہ بات حیران کر دینے والی تھی کہ ان ہونٹوں کے کے باوجود کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ البتہ ان ہونٹوں کے ہلتے ہی ایس پی کے ذہن میں یہ خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپک گیا کہ اس عورت کو کسی نے اس کے لئے کوئی پیغام دے کر بھیجا ہے۔ اس کے ذہن نے یہ بھی کہا کہ اسے موہنجوداڑو کے سب سے اونچے ٹیلے کے عقب میں جانے کو کہا جا رہا  ہے اور اسی وقت طلب کیا جا رہا ہے۔ اس عجیب  کیفیت پر کہ اس کا ذہن  ان ہلتے ہوئے ہونٹوں کا پیغام سمجھ رہا ہے مگر کان  آواز کی سماعت سے محروم تھے۔

                ”میں مہمانوں سے رخصت لے کر آتا ہوں۔“ ایس پی نے اس حسین عورت سے کہا۔ اس کی سماعت نے اس کی آواز کو سنا۔ یہ بات اس کے لئے اور تعجب انگیز اور دہشت زدہ کردینے والی تھی۔

                غیر ملکی مہمان لنچ پر اس کا انتظار کر رہے ہوں گے اور میزبان کی حیثیت سے اس کا کھانے  کے وقت موجود رہنا ضروری ہے۔ کیا وہ جانے سے انکار کر دے اور اپنا فرضِ منصبی پورا کرے۔ یوں میزبان کے غائب ہو جانے سے پاکستان کے قومی وقار کو شدید دھچکا لگے گا۔ یہ غیر ملکی کیا سوچیں گے۔

                کئی سوالات اس کے ذہن میں ائے۔ اس نے واپس لوٹنا چاہا مگر اسے محسوس ہوا جیسے کوئی اجنبی قوت اس کے ارادے کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اس کے قدم زمین پر جم سے گئے اور اس نے دوبارہ اس حسین و دل فریب  چہرے کی طرف دیکھا۔ جواب میں اس چہرے پر آویزاں دو گہری خوابناک آنکھوں نے اس  کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیا۔ نہیں نہیں، مجھے مصلحت سے بالا تر ہو کر اس عورت کے کہے پر چلنا چاہیئے۔ ان آنکھوں سے نکلنے والی لہریں اس کے  جسم کے روئیں روئیں میں اطاعت و فرماں برداری کے  احساس پیدا کر رہی تھیں۔

                 اس نے کھڑکی سے چھلانگ لگائی اور اس عورت کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ اس کی رہنمائی کرتی ہوئی وہ عورت اس طرح سبک خرامی سے چل رہی تھی کہ گویا اس کے پاؤں فضا میں تیرتے جارہے ہوں۔

                مختصر صحن عبور کر ریسٹ ہاؤس کی بلند دیوار تک پہنچنے کے بعد ایس پی رُک گیا۔ اس طرف سے باہر جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس نے چاہا کہ وہ اس عورت کو بتائے کہ جہاں بھی چلنا ہے مین گیٹ کی راہ  سے چلو مگر اس کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ عورت ریسٹ ہاؤس کی بلند دیوار پر نہایت آسانی سے چڑھ گئی اور اسے بھی اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ آخر یہ عورت چاہتی کیا ہے، کون ہے اور یوں  چوروں کی طرح دیوار پھلانگ کر باہر جانے کی کیا تُک ہے! مجھے یہ انداز زیب نہیں دیتا۔ میں ایک ذمہ دار گورئمنٹ افسر ہوں۔ یہ سوچ کر ایک بار پھر اس کے دل میں خیال آیا کہ اسے واپس لوٹ جانا چاہیئے۔ مگر پھر یہ سوچتے ہی اس کی نگاہیں اس عورت کی جانب بے ساختہ اُٹھ گئیں جو دیوار کے اوپر چڑھ جانے کا اشارہ کیا اور ایک ادائے دلبری کے ساتھ بلاند و بالا دیوار سے اپنے ہاتھ اسے اوپر اُٹھانے کے لئے جھکا دیئے۔ ایس پی نے بے ساختہ ان نرم و نازک پھولوں جیسی بانہوں کو پکڑ لیا اور اس عورت نے نہایت آسانی سے اسے اوپر کھینچ لیا۔

                موہنجوداڑو کے آچار ابھی کافی دور تھے۔ نرم ریت پر دونوں خاموشی سے چلتے رہے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد وہ دونوں موہنجوداڑو کی قدیم بستی کے قریب پہنچ گئے تھے۔ موہنجوداڑو کے اندر داخل ہو کر وہ عورت سب سے بڑے ٹیلے کی جانب بڑھی۔ سورج اس وقت آگ برسا رہا تھا اور اس وقت وہاں نہ کوئی گائیڈ تھا اور نہ ہی شدید گرمی کی اس دوپہر میں کوئی گشت سیاح موجود تھا۔

                ابھی سورج اپنے عروج پر تھا اس لئے ٹیلے کے کسی حصے کی جانب بھی اتنا سایہ نہ تھا کہ وہ اس میں کھڑا ہو جاتا۔ اس کا خیال تھا کہ شاید عورت اب اس کو کچھ بتائے گی۔ اس نے رومال سے اپنے چہرے پر بہتا ہوا پسینہ پونچھا اور اس عورت سے یہاں تک لانے کا مقصد پوچھنے کے لئے نظریں اُٹھائی ہی تھیں کہ اسے وہ عورت کہیں نظر نہ آئی۔ اس نے آنکھوں کو زور زور سے ملا اور دوبارہ ارد گرد دیکھا مگر وہ عورت غائب ہو چکی تھی۔ یا خدا یہ کیا ماجرا ہے۔ آخر وہ عورت کہاں چلی گئی۔ دوسرے لمحے وہ اضطراب اور بے چینی کے عالم میں ٹیلے کے چاروں طرف اس عورت کی تلاش میں دیوانہ وار بھاگتے ہوئے چکر لگا رہا تھا۔

                مگر اسے اس عورت کی تلاش میں ناکامیہوئی۔ پھر چکر لگانا بند کر کے اس نے جلدی سے ٹیلے کی بلندی کی جانب دو چار قدم بڑھائے تاکہ ذرا بلند ہو کر زیادہ دور تک عورت کی تلاش میں نظر ڈال سکے۔ مگر یوں لگتا تھا کہ جیسے چشم زدن میں اس عورت کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔

                وہ بہادر اور بے خوف آدمی تھا اور خطرات و مہم جوئی سے پُ پولیس کی زندگی نے اسے اور بھی زیادہ بے خوف اور نڈر بنا دیا تھا۔ اس نے بیسیوں بار جنگلوں میں مجرموں کے تعاقب میں تنہا راتیں گزاری تھیں اور قبرستانوں اور ویرانوں میں بھی پیشہ ورانہ مصروفیات کے سبب اسے تنہا کئی کئی راتیں کاٹنا پڑی تھیں مگر اس قدر شدید خوف کا اسے کبھی سامنا نہ کرنا پڑا تھا۔

                بچپن میں سُنی ہوئی جِنوں اور بھوت پریت کی کہانیاں اسے یاد آگئیں۔ تو کیا یہ عورت انسان نہیں کوئی چڑیل تھی یا کوئی مفوق الفطرت ہستی تھی۔ مگر اس نے تو اس کے جسم کے لمس کو محسوس کیا تھا۔ اس کے بازوؤں میں زندہ انسانوں کے جسم  کا سا لوچ تھا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ کئی پچھل پیریاں انسانوں کے روپ میں آکر اسی طرح آدمیوں کو دھوکے سے ویرانوں میں لے جاتی ہیں اور ان کا کلیجہ چبا جاتی ہیں۔ یا انہیں اپنا معمول بنا لیتی ہیں اب اسے اپنی حماقات کا احساس ہوا۔ آخر وہ کیوں ایک اجنبی عورت کے اشرے پر یہاں چلا آیا تھا۔ممکن ہے میں یہاں سے زندہ نہ جا سکوں۔ کسی کو معلوم بھی نہ ہو سکےے گا کہ میرے ساتھ کیا   واردات  گزری ہے۔ نہ جانے کب کوئی سیاح یا متعلقہ محکمے کے افراد میں سے کوئی آکر میری لاش دیکھے۔ اسے اپنی محبوب بیوی اور پیارے بچوں کا خیال آیا جو گھر پر اس کا انتظار کر رہے ہوں گے۔


Hayola

Sadiqul israr

روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ قسط وار مضمون ھیولا۔۔جن ، انسان اور روح کے درمیان کش مکش پر میں ایک خوب صورت کہانی  کی دستاویز پیش خدمت ہے۔