Topics

ناصر نے ماں کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے

                ”ماں کیا بتاؤں۔ میں تجھے کیا بتاؤں ماں!۔۔“ ناصر نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔

                ” ماں کو نہیں بتائے گا۔۔“ ماں اسے ساتھ لئے ہوئے کمرے میں آگئی۔

                ”بس آج معاف کر دے آئندہ کبھی دیر نہیں ہوگی۔“ ناصر نے ماں کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔

                ” معاف نہیں کروں گی تو اور کیا کروں گی۔ چل کھانا کھالے۔“

                ” ہاں مجھے بہت بھوک لگی ہوئی ہے۔“ ناصر نے بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا۔

                ماں نے گرم گرم کھانا اس کے آگے رکھ دی اور ناصر کھانے پر اس طرح ٹوٹ پڑا جیسے کئی دن کا بھوکا ہو۔

                کھانا کھاتے ہی ناصر پر خمار چھا گیا اور وہ بستر پر گر کر نیند کی میٹھی آغوش میں چلا گیا۔

                صبح سویرے ماں نے ناصر کو اُٹھایا اور ناشتہ کے بعد کام پر جانے کی تلقین کی۔ ساتھ ہی نصیحتوں کے دفتر بھی کھول دیئے تاکہ سیدھا کام پر جائے وہاں سے سیدھا گھر آئے وغیرہ وغیرہ۔

                ناصر مسکرا مسکرا کر ماں کی بات سنتا رہا اور پھر مزدوری کے لئے روانہ ہوگیا۔

                صبح کے وقت ہر شخص کو آپا دھاپی پڑی ہوتی ہے، ہر کوئی کام پر جانے کے لئے اِدھر سے اُدھر بھاگتا نظر آتا ہے۔ کوئی بس کا انتظار کرتا ہے تو کوئی رکشہ ٹیکسی ڈھونڈتا ہے لیکن ناصر چونکہ قریبی علاقہ میں مزدوری کرتا تھا  اس لئے وہ حسبِ معمول پیدل ہی روانہ ہو گیا۔ راستے میں اس نے محسوس کیا کہ لوگ اس سے کترا کر نکل جانا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی اس کے ساتھ چلنے اور اور اس سے آنکھ ملانے کو ئی تیار نہیں حالانکہ پہلے یہی لوگ اس کے ساتھ گپیں ہانکتے ہوئے کام پر جایا کرتے تھے۔ پہلے تو کوئی خاص خیال نہ کیا لیکن جب کام پر پہنچنے کے بعد تمام مزدور اس سے کافی فاصلے پر جا کر  علیحدہ کھڑے ہو گئے اور خوفزدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگے تو  صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ ہوا اور اسے یہ بھی یاد آیا کہ کل جب وہ کامران کے ساتھ اپنے گھر جا رہا تھا اس وقت بھی لوگ اس سے بچ بچ کر گزر رہے تھے اور خوف زدگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔

                ابھی وہ اس صورت ِ حال کے بارے میں سوچ  ہی رہا تھا کہ سپر وائزر جو کل تک اس کے ساتھ انتہائی اہانت آمیز سلوک کرنے کا عادی تھا ڈرتے ڈرتے اس کے قریب آیا اور فدویانہ انداز میں بولا۔

                ” ناصر بھائی! ایک گزارش ہے۔“

                ” کیا بات ہے استاد!۔“ ناصر نے حیران ہو کر پوچھا۔

                ” یہ سب لوگ آپ سے ڈر رہے ہیں۔ کوئی بھی کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اگر آپ بُرا نہ مانیں تو مجھ سے مزدوری کے پیسے لے لیں اور گھر جا کر  آرام کریں۔“

                ” بغیر کام کئے پیسے لے لوں۔کیوں؟ “ ناصر کو غصہ اگیا۔

                ”ہم خوشی سے دے رہے ہیں۔ بلکہ آپ جتنے پیسے مانگیں ہم دینے کو تیار ہیں۔“ سپروائزر نے کہا۔

                ”بھیک دے رہے ہو مجھے۔“ ناصر نے بگڑتے ہوئے کہا۔

                ”جی نہیں۔۔ جنگو دادا کی جگہ آپ کو بھتہ دینا چاہتے ہیں۔“

                ” مجھے نہیں چاہیئے ایسا حرام کا پیسہ ۔ سمجھے۔“ یہ کہہ کر ناصر پیر پٹکتا ہوا وہاں سے چل دیا اور لوگوں کی جان میں جان آئی۔

                ناصر وہاں سے دوسری سائٹ پر پہنچا ۔ تقریباً تمام ہی لوگ ایک دوسرے سے واقف تھے اور مزدوروں کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا لیکن یہاں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا گیا اور مزدوروں نے ناصر کو دیکھتے ہی کام چھوڑ کر بھاگنا شروع کر دیا۔ کچھ لوگ تو قریب ہی رُک گئے اور کچھ بھاگ نکلے۔ یہاں بھی ٹھیکیدار نے ناصر کو وہی پیش کش کی اور کہا” کہ وہ لوگوں کے پیٹ پر لات نہ مارے اور اسے جو کچھ چاہیئے وہ لوگ اس کا ہر مطالبہ ماننے کے لئے تیار ہیں۔“

                ناصر نے کہا کہ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ اسے کام کرنے دیا جائے۔ بلاوجہ لوگ بھاگ اس سے خوفزدہ ہیں۔ وہ تو ان کا ساتھی اور مزدور بھائی ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ بے ضرر اور سیدھا سادہ انسان ہے۔“

                ناصر کی یقین دہانی لوگوں پر اس لئے اثر انداز نہ ہو سکی ناصر کی قوت و طاقت کا مشاہدہ کیا تھا یا اپنے ساتھیوں سے سنا تھا۔

                تھک ہار کر ناصر قریب کے پارک میں ایک بینچ پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ اس نئی افتاد کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ جنگو دادا کی طرح بھتہ وصول کرنا کسی طرح اس کی سمجھ میں نہیں  آرہا تھا۔ یہ اس کے مزاج اور فطرت کے خلاف تھا۔ اتنے محیر العقول واقعات کے بعد بھی ناصر یہ ماننے کے لئے ہر گز تیار نہ تھا کہ اس نے تشدد کر کے جنگو دادا یا اس کے ساتھیوں پر زیادتی کی ہے لیکن سب لوگ یہی کہہ رہے تھے کہ اس نے جنگو دادا اور اس کے عامی موالیوں کے ہاتھ پیر توڑ ڈالے ہیں۔ پولیس والے بھی یہی الزام لگا رہے تھے۔

                اس نے سوچا اسپتال جا کر خود جنگو دادا سے معلوم کرنا چاہیئے کہ اس نے بلاوجہ اس پر کیوں ایسی الزام تراشی کی ہے اور اصل واقعہ کیا ہے؟۔

                ناصر ہسپتال کی طرف چل پڑا۔ اتفاق سے وہاں پہنچتے پہنچتے ملاقات کا وقت ہو چکا تھا اور جنرل وارڈ میں مریضوں کے اعزا انھیں دیکھنے اور عیادت کرنے کی غرض سے  آ جا رہے تھے۔ ناصر بھی لوگوں میں شامل ہو کر جنرل وارڈ میں پہنچ گیا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد اسے جنگو دادا اور اس کے دونوں ساتھی ایک کونے میں بستروں پر لیٹے ہوئے نظرآگئے۔ ان کے پاس جنگو کے گروہ کے دس بارہ افراد گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔ناصر بھی ان کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ ایک ساتھی جنگو سے پوچھ رہا تھا ۔

                ”استاد ! کیا سچ مچ وہ کاکڑی ناصر کا بچہ اتنا ہی زور آور تھا۔ میں نہیں مانتا۔“

                ” تو نہیں مانتا تو میں کیا کروں۔ دیکھ رہا ہے میری حالت اور اپنے ان ہوتے سوتوں کی گت۔“ جنگو نے جھنجھلا کر کہا۔

                ” لیکن وہ تو حوالات میں بند ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے وہاں جا کر۔“ دوسرا بدمعاش بولا۔

                ” اس میں بھی اس کی کوئی چال ہوگی۔ میں تو کہتا ہوں وہ انسان نہیں کوئی جن بھوت ہے۔ انسان میں اتنی طاقت نہیں ہو سکتی۔“ جنگو نے خلا میں گھورتے ہوئے کہا۔

                ” حوالات سے باہر آنے دو دادا! ہم اسے سمجھ لیں گے۔“ پُرجوش لہجے میں ایک بسمعاش بولا۔

                ” بیٹھا رہ چپ چاپ! بڑا آیا تیس مار خاں۔ تو مجھ سے زیادہ دلاور ہے ، چڑی کے غلام۔“ جنگو نے اسے ڈانٹا۔

                ”یہ بات نہیں ہے دادا۔ بس اپنا خون کَھول رہا ہے۔“

                ” اسے ٹھنڈا رکھ۔۔۔۔۔“

                ابھی جنگو اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ ناصر نے بدمعاشوں کو ہٹاتے ہوئے پیچھے سے سر نکالا۔ سب کی نظر ایک ساتھ ناصر پر پڑی اور پھر وارڈ میں بھگڈر مچ گئی۔ سارے جیالے نو دو گیارہ ہوگئے۔ جنگو اور اس کے ساتھیوں کے منہ خوف اور حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ بالآخر ناصر نے ہی اس سکوت کو توڑا۔

                ” جنگو دادا! سچ سچ بتاؤ۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟“

                ” ناصر بادشاہ!“ جنگو نے خوف پر قابو پاتے ہوئے بمشکل کہا۔۔” یہ تم مجھ سے پوچھ رہے ہو۔“

                ” اور کس سے پوچھوں؟۔ یہ میرا نام کیوں لیا جا رہا ہے اس سلسلے میں۔۔؟“

                ” بادشاہ! اب تو مجھ کو معاف کر دو۔ میں کسی قابل بھی نہیں رہ گیا ہوں۔“

                ' یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ اس کا ذمہ دار کون ہے۔۔؟“

                ” اب میں کیا بتاؤں ناصر دادا! تم جو کچھ بولو۔ ٹھیک ہے“ جنگو نے مایوسانہ انداز میں کہا۔

                ناصر بددل سا ہو کر وہاں سے بھی چلا آیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کیا جائے۔ گھر جاتا ہے تو ماں پوچھے گی کہ کام پر کیوں نہیں گیا۔ یہ بات چھپی نہیں رہے گی کہ مجھے کہیں بھی مزدوری نہیں ملتی۔ وہ یہی کچھ سوچتا ہوا ایک پارک میں جا بیٹھا۔

                بیٹھے بیٹھے اسے نستور کا خیال ایا۔۔۔ ہو سکتا ہے یہ سب کچھ نستور نے کیا ہو۔ پتہ نہیں کون ہے وہ؟ ناصر نے سوچا۔ جب وہ مجھے حوالات سے چھٹکارا دلا سکتا ہے تو جنگو دادا کو زیر کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ وہ انہی خیالات میں گُم تھا کہ نیم وا آنکھوں سے اس نے نستور کو اپنے قریب بیٹھے دیکھا۔ غنودگی کی کیفیت غیر محسوس طور پر اس پر طاری ہو چکی تھی اس نے سُنا۔

                ” ناصر! دوستوں سے بدگمانی اچھی بات نہیں ہے۔“

                ” بدگمانی کی بات نہیں ہے نستور بھائی! میرے دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گی۔“ ناصر نے کہا۔

                ” بھائی کہتے ہو اور معکوس خیالات میں بھی بھٹک رہے ہو۔ میں نے تم سے کہا تھا نا کہ میں تمہارا ہمدرد ہوں۔ تمہیں نقصان کیوں کر پہنچاؤں گا۔“ نستور بولا

                ”دیکھو نا۔ مجھے مزدوری بھی نہیں مل رہی بدنام الگ ہو رہا ہوں۔“

                ” فکر نہ کرو ، سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ نستور نے اسے دلاسہ دیا۔

                ” اچھا یہ بتادو مجھ پر یہ بہتان تراشی کا بازار کیوں گرم ہے؟ لوگ مجھ سے ڈرنے کیوں لگے ہیں؟“ ناصر نے پوچھا

                ” سچے ہیں وہ بھی۔ حالات کی نوعیت سے تم لاعلم ہو۔“

                ” وہ جو کہہ رہے ہیں، سچ ہے؟؛

                ” لوگوں نے جو دیکھا ہے وہ کہتے ہیں۔“ نستور نے بتایا۔

                ” تم بھی انہی کی سی کہہ رہے ہو نستور بھائی۔“

                ” فی الحال تم اپنا دماغ نہ تھکاؤ۔ آہستہ آہستہ سب کچھ سامنے اجائے گا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔“

                ” میری دانست میں تو تم بھی کسی معمہ سے کم نہیں ہو۔“

                ” اچھا یہ بتاؤ۔ جب کام نہیں ملے گا تو میں کھاؤں گا کیا، ماں الگ بیمار ہے۔“ ناصر نےسر پر ڈالتے ہوئے کہا۔

                ”تم کو کام کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کھاؤ پیو اور عیش کرو۔۔“ نستو بولا

                ” اب تم بھی میرا مذاق اُڑا رہے ہو۔“ ناصر نے کہا۔

                ” بات مذاق کی نہیں، میں سنجیدہ ہوں۔“

                ”جب مزدوری نہیں ملے گی تو اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے۔

                ” دیکھو ناصر! ایک بات سنو۔۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ دنوں تک تم کوئی سوال کئے بغیر جیسا کہتا ہوں اس پر عمل کرتے رہو۔“

                ”میں سمجھا نہیں۔“

                ”اچھا یوں سمجھو تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے نا؟“

                ” وہ تو ہے۔“

                رقم تمہاری جیب میں موجود ہے خرچ کرو۔“

                ” میری جیب میں؟” ناصر نے غیر یقینی انداز میں کہا اور نستور کی طرف دیکھنے لگا۔

                ” ہاں تمہاری جیب میں اتنی رقم موجود ہے کہ تمہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی۔ ناصر کے لئے نستور کا یہ پہلا تحفہ ہے۔ آخر دوست ہی تو دوستوں کے کام آتے ہیں۔“ نستور نے وضاحت کی۔

                ناصر جب غنودگی کی کیفیت سے ہوشیا ر ہوا تو غیر اختیاری طور پر سب  سے پہلے اس نے اپنی جیب کو ٹٹولا ۔ جیب میں نوٹوں کی گڈیاں موجود تھیں اسے کچھ دیر پہلے کی ایک ایک بات یاد تھی۔ دہشت کے مارے وہ کانپنے لگا۔ یہ نستور آخر ہے کیا بلا۔۔۔

اس نے جنوں بھوتوں اور جادو گروں کی کہانیاں سُن رکھی تھیں۔ وہ کچھ دیر تک تو انہی خیالات سے نبردآزما رہا۔ پھر غیر محسوس طور پر نستور کی باتوں اور ہمدردانہ یقین دہانی نے اپنا اثر دکھایا اور اس نے  سوچا جو ہو سو ہو۔ مجھے اپنی ماں کے علاج کے لئے رقم کی ضرورت اور وہ مجھے مل گئی۔ ہو سکتا ہے یہ  کوئی غیبی امداد ہو۔ نستور کوئی فرشتہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کو میری مفلسی پر رحم آگیا ہو اور اس نے نستور کے ذریعے میری مدد کی ہو۔

                ناصر نے چوں چرا کے خیالات سے دماغ کو آزاد کیا اور ماں کی دوا لینے کے لئے ڈرگ استوڑ کی طرف چل دیا اس نے وہاں سے دوائیاں خریدیں۔۔۔ ماں کے لئے گرم کپڑے لئے۔۔ کچھ پھل خریدے اور لدا پھندا گھر میں داخل ہوا اور ماں کی صورت دیکھتے ہی ٹھٹھک  کر رہ گیا۔ ماں کے چہرے پر مامتا کے جذبات کی بجائے غصے اور نفرت کے سائے منڈلا رہے تھے اس نے گرجدار آواز میں کہا۔

                ” آگئے تم! کہیں ڈوب  نہیں مرے!“

                ناصر کے ہاتھ سے تمام پیکٹ اس طرح چھوٹ کر گرے جیسے کسی نے پیچھے سے اسے دھکا دے دیا ہو۔ وہ سناٹے میں آگیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس قدر پیار کرنے والی ماں یک بیک ایسا انداز اختیار کرے گی۔ ضرور کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ اس کی ساری خوشی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔۔۔!

                راستے بھر وہ کیا کیا سوچتا ہوا آیا تھا۔ ماں کے لئے گرم کمبل، کپڑے، پھل اور مٹھائی جو کچھ اس کی سمجھ میں آیا خرید لایا تھا اور سب سے زیادہ خوشی تو اسے ماں کی دوا خرید کر ہوئی تھی۔ کل تک جو نسخہ اس کی جیب میں پڑا ہوا اس کی مفلسی کا منہ چڑا رہا تھا وہی نسخہ آج اس نے دکاندار کو دیتے ہوئے کتنے فخر سے کہا تھا یہ سب دوائیں پیک کر دو۔

                دکاندار نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بے یقینی کے انداز میں پوچھا تھا کہ آیا وہ یہ سب دوائیاں خریدنا چاہتا ہے یا پہلے کی طرح صرف قیمت پوچھ رہا ہے اور دکاندار کو اس وقت تک یقین نہیں آیا جب تک ناصر نے جیب سے نوٹوں کی گڈی نکال کر اسے دکھا نہ دی۔

                کپڑوں کی دکان پر بھی اس کی خستہ حالت کی وجہ سے سیل مین نے معمولی قسم کے کپڑے دکھانے پر اکتفا کیا لیکن ناصر جب دکان سے نیچے اترا تو اس کی بغل میں اس دکان میں سجے ہوئے مہنگے ترفین کمبل اور کپڑوں کے بنڈل دبے ہوئے تھے۔ پھر وہ پھل والے کے پاس آیا تھا۔ مٹھائی بھی خریدی تھی اور یہ سب چیزیں اُٹھائے راستے بھر منصوبے بناتا آیا تھا کہ ماں یہ سب  چیزیں دیکھ کتنی خوش ہوگی۔ لیکن گھر میں داخل ہوتے ہی ماں کی ڈانٹ نے اس کے ہوش اُڑا دیئے۔ وہ تمام سامان کو دروازے کے پاس ہی چھوڑ کر ماں کی طرف لپکا۔

                ” کیا بات ہے ماں ۔ تو اتنی برہم کیوں ہے؟“ ناصر نے بے تاب ہو کر پوچھا۔

                ”مجھ سے پوچھ رہا ہے برہمی کا سبب۔۔۔ تجھے پتہ نہیں۔۔“ ماں نے غضب ناک آواز میں پوچھا۔

                ” مجھے کیا پتہ ماں۔ میں تو سیدھا بازار سے آرہا ہوں۔“ ناصر نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔

                ” تُو گھر سے مزدوری کرنے نکلا تھا۔ سچ بتا پھر کام پر کیوں نہیں گیا اور یہ اتنا سامان کہاں سے لایا ہے؟“ یہ کہتے ہی ماں کو کھانسی کا دورہ پڑ گیا اور وہ کھانستے کھانستے بے حال ہو گئی۔ ناصر بھی پریشان ہو گیا۔

                اس نے آگے بڑھ کر ماں کو سنبھالنا چاہا۔ لیکن کھانسی کے دورے کے باوجود ماں نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور بولی۔

                ” خبردار! جو میرے قریب آیا  !“

                ” آخر کچھ بتائے گی بھی۔۔۔ میں کیا کیا ہے میرا قصور کیا ہے؟“

                ” میں نے تجھ سے پوچھا تھا، یہ سب کچھ کہاں سے لایا ہے۔ تو نے جواب نہیں دیا۔“

                ” ماں ! میرا ایک دوست ہے اس نے دیا ہے یہ سب کچھ۔“ ناصر بھاگ کر دروازے کی طرف گیا اور سارے پیکٹ اُٹھا کر ماں کے قدموں میں ڈال دیئے۔

                ” یہ دیکھ ماں! تیرے لئے گرم کمبل لایا ہوں۔ کپڑے اور پھل اور دوائی بھی۔۔۔۔“

                ” اس کا مطلب ہے محلے والیاں سچ کہہ رہی تھیں میں نگوڑی ماری بلا وجہ ان سے لڑتی رہی۔“ ماں نے کہا

                ” کیا سچ کہہ رہی تھیں محلے والیاں؟ کچھ بتا تو سہی۔۔۔“ ناصر نے جز بز ہوتے ہوئے کہا۔ وہ جھنجھلا گیا تھا۔

                ”  سب کے باپ بھائی اور گھر والے ، اپنے گھروں میں آکر چھپ گئے ہیں تیرے ڈر سے۔۔۔ یہ لچھن کب سے ہوئے تیرے۔۔۔۔ سُنا ہے تو نے کچھ لوگوں کے ہاتھ پیر بھی توڑ دیئے ہیں اور پولیس تھانے بھی ہو آیا ہے۔۔۔ کہہ دے جھوٹ بکتے ہیں سب محلے والے۔ تو نے  لوگوں کو نہیں لُوٹا اور تجھے یہ  بڑا خزانہ  مل گیا ہے۔۔۔ ماں نے کہا۔

                ” ہاں ہاں جھوٹ بکتے ہیں سارے کے سارے میں نے کسی کو نہیں مارا۔۔ کسی کو نہیں لوٹا۔۔۔“

                ناصر نے بھنا کر اپنے بال نوچ لئے۔

                ناصر کی جنونی کیفیت دیکھ کر مامتا نے جوش مارا اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ہو سکتا ہے ناصر ہی سچا ہو لیکن پورا محلہ بھی جھوٹا نہیں ہو سکتا پھر اس کا دماغ مزید پریشان ہوگیا اور بے بسی کے عالم میں اس نے رونا شروع کر دیا۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ ناصر نے وہیں سے پوچھا۔

                ” کون ہے؟“

                ”پولیس۔۔۔۔“ آواز آئی۔

                ” ہائے اللہ ! اب کیا ہو گا؟“ ماں نے پریشان ہو کر کہا۔

                ” کچھ نہیں ہوگا ماں۔ تُو بیٹھ آرام سے۔ میں دیکھتا ہوں۔۔۔“ ناصر نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں جواب دیا اور ماں نے محسوس کیا کہ ناصر کے تیور اچانک بدل گئے۔ وہ ایک جھٹکے سے اُٹھا اور دروازہ کی طرف بڑح گیا دروازہ کھولا تو سامنے دو سپاہی کھڑے تھے۔

                ” کیا بات ہے؟“ ناصر نے سرد لہجے میں پوچھا ۔ ناصر کا چہرہ جذبات سے عاری تھا اور وہ ایک مرتبہ پھر ہیولے کا معمول بن چکا تھا۔ سپاہیوں نے اس کی نگاہوں کی تاب نہ لاتےہوئے نظریں جھکالیں۔ پھر کچھ وقفے کے بعد ایک بولا۔

                ” آپ کو ایس پی صاحب نے بلایا ہے!۔“

                ” کیوں بلایا ہے؟“ ناصر کے لہجے میں تحکمانہ گونج تھی۔

                ” ہمیں۔۔۔ن۔۔۔۔نہیں معلوم!“ دونوں سپاہی ایک ساتھ بولے۔

                ” ہوں۔۔۔۔ چلو اسے بھی دیکھ لوں۔۔“ ناصر غرایا۔

                دونوں سپاہی فرض کے آگے مجبور تھے ورنہ ان کے دماغ میں اس قدر اتھل پتھل ہو رہی تھی۔ ان کا بس چلتا تو بگٹٹ بھاگ لیتے۔ دونوں بادل نخواستہ ڈرت ہوئے ناصر کے پیچھے پیچھے چل دیئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی ملز کو نہیں لے جارہے اپنے کسی افسر کے ساتھ معمول ماتحتوں کی طرح چل رہے ہوں۔ دونوں کی زبانیں گنگ اور حلق خشک ہو رہے تھے ۔ محلے کے مختلف گھروں میں سے لوگ اپنے دروازوں میں جھری پیدا کر کے ان کو دیکھ رہے تھے۔ ان  میں عورتیں مرد بورحے بچے سبھی شامل تھے اور ہر گھر میں ناصر ہی کے متعلق چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔ لین ناصر ان تمام باتوں سے بے نیاز ہیولے کا معمول بنا اکڑتا ہوا سپاٹ نظروں سے ہر ایک چیز کو دیکھتا چلا جا رہا تھا۔ وہ لوگ محلے سے نکل کر بازار کے علاقے میں آگئے۔ دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ گہما گہمی اپنے عروج پر تھی انسانوں کا ایک سیلاب نفسا نفسی کے عالم میں رواں رواں تھا۔ یہاں پہنچتے ہی وہ لوگوں کی توجہ سے آزاد ہوگئے اورسپاہیوں کی وہ کیفیت بھی ختم ہو گئی جو عام لوگوں کے تاثر سے ان پر خوف کے علاوہ ایک احساس کمتری اور ندامت کا سبب تھی پھر انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ ناصر چپ چاپ ان کے آگے آگے تھا تھانے کی طرف ہی جا رہا ہے تھا۔ کم از کم ایس پی کے عتاب سے تو وہ بچ ہی جائیں گے۔

                ناصر اس وقت مکمل طور پر ہیولے کے تصرف میں تھا۔ اس کے پورے جسم میں ایک قسم کی برقی رو دوڑ رہی تھی اور اسے اپنی قوت و طاقت کا اندازہ ہو رہا تھا ۔ وہ بیک وقت ناصر اور عامر کے ذہن سے سوچ رہا تھا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ سوچ تو عامر  کے ہیولے کی تھی مگر ناصر کا ذہن فلیمی پردہ کی طرح اسکرین بنا ہوا تھا۔

                عامر کا ہیولا یہ سوچ رہا تھا کہ اگر ناصر نے نستور جن سے رابطہ قائم کر لیا تو میرے لئے مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔ عامر کا ہیولا مکمل طور پر ناصر کے جسم پر اپنا تصرف چاہتا تھا۔ یہ امر بھی اس کے لئے غور طلب تھا کہ صرف ایک بار رابطہ قائم کرنے کے بعد نستور جانے کہاں جا چھپا تھا۔ اس نے اپنے طور پر اسے تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن بے سود۔ ہیولے نے سوچا۔ دیکھا جائے گا۔ ابھی تو ناصر کو اپنے لئے تیار کرنا چاہیئے۔

                 ناصر نے سڑک پار کی اور فٹ پاتھ پر دکانوں کے شوکیسوں پر نظر ڈالتا ہو چلتا رہا۔ ایک عظیم الشان سویٹ میٹ مارٹ کے شوکیس میں مٹھائیاں سجی ہوئی تھیں۔ ناصر نے شیشے کے مضبوط شوکیس کی طرف ہاتھ بڑھایا  اس کا ہاتھ اس طرح شوکیس میں داخل ہو گیا جیسے وہ شیشے کا بنا ہوا نہ ہو، ہوا کا بنا ہوا ہو۔ ناصر نے اس میں سے برفی  کا ایک ٹکڑا اُٹھایا اور منہ میں رکھ لیا۔

                سپاہی جو ناصر کے پیچھے کھڑے ہو گئے تھے یہ یوالعجبی دیکھ کر چیخیں مار کر یوں پلٹ کر بھاگے جیسے دوسری مرتبہ ناصر کا ہاتھ ان کی گردنوں کی طرف بڑھے گا۔

                سپاہیوں کی چیخیں سُن کر راہ گیر متوجہ تو ہوئے لیکن ناصر چپ چاپ آگے بڑھ گیا۔ کسی نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ سب لوگ سپاہیوں کی طرف دیکھتے رہے جو گرتے پڑتے لوگوں سے ٹکراتے ہوئے  تھوڑی دیر میں نظروں سے اوجھل ہوگئے اور ناصر تھانے کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

                تھانے پہنچ کر ناصر سیدھا ایس پی کے کمرے میں داخل ہوا اور اسے دیکھتے ہی ایس پی اور انچارج تھانہ غیر ارادی طور پر کھڑے ہوگئے۔

                ” تم نے مجھے بلایا تھا۔؟“ ناصر نے ایس پی سے پوچھا۔

                ” آیئے ناصر صاحب ! تشریف رکھئے۔۔۔“ ایس پی نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔!

                ” میں یہاں بیٹھنے کے لئے نہیں آیا۔ صرف یہ معلوم کرنے  کے لئے آیا ہوں کہ رات والی تنبیہ کافی نہیں تھی کیا۔۔۔؟

                ” جی ۔۔۔۔جی ۔۔۔۔ کافی تھی۔“ ایس پی نے جواب دیا۔

                ” پھر کیوں مجھے بار بار تنگ کیا جا رہا ہے۔“ ناصر نے شعلہ بار نظروں سے ایس پی کی طرف دیکھ کر کہا۔

                ” ناصر صاحب ! ہم بھی مجبور ہیں۔ ہم نے اپنے عوام اپنی قوم اور اپنی حکومت کے سامنے حلف اُٹھایا ہے کہ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے عدل و انصاف اور قانون کی بالا دستی کو نافذ کریں گے اب یہ معاملہ کم از کم میرے فہم و ادراک سے بالا تر ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ کسی بھی قسم کے خوف یا دباؤ میں آکر میں اس فریضے سے دستبردار ہو جاؤں۔۔۔ آپ اگر کوئی مافوق الفطرت ہستی ہیں تو آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ میں اپنے پیشے سے مخلص اور دیانت دار ہوں۔ میں راشی نہیں ہوں۔۔۔ مفاد پرست نہیں ہوں۔ عوام کی حفاظت اور قانون کا نفاذ ہمیشہ میرے پیشِ نظر رہا ہے لہذا آپ کو یہ جان لینا چاہیئے کہ جب تک میری تسلی نہیں ہوگی میں آپ کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا۔ چاہے اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔“ ایس پی نے سنبھالا لے کر کہا۔

                ” ہوں۔۔۔۔۔۔۔ ناصر تھوڑی دیر سوچتا رہا۔ پھر بولا۔۔۔” ایس پی صاحب! آپ سے ایک بات پوچھوں؟“

                ”ضرور پوچھیئے!“

                ” جنگو کو جانتے ہیں آپ! وہ کیسا آدمی تھا؟“

                ”میں جانتا ہوں اور سمجھ رہا ہوں کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس کے بارے میں بھی میں خاص طور پر تحقیقات کر رہا ہوں۔ لیکن ہمارے سامنے ایک مجبوری رہتی ہے۔ ہمارا سارا قانون شہادتوں کے بل بوتے پر آگے بڑھتا ہے۔ جنگو جیسے بدمعاش قانون کی لچک سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور سادہ لوح عوام اس معاملے میں ہم سے تعاون نہیں کرتے۔ بغیر واضح شہادت کے ہم کسی شہری پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے اب آپ کے معاملے میں ہمارے پاس شہادتیں موجود ہیں اس صورت میں  ہمارے لئے آپ کی گرفتاری کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ پولیس کا کام آپ کو سزا دینا نہیں ہے، ہمارا کام تو شہادتوں کی بنیاد پر آپ کو عدالت کے سامنے پیش کر دینا ہے۔ اب یہ عدالت کا کام ہے کہ آپ کو سزا دے یا بری کر دے۔“

                ”آپ مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟ ناصر نے پوچھا

                ” جی ہاں چونکہ آپ کے خلاف رپورٹ درج ہو چکی ہے اورآپ نے سرکاری تحویل سے دو مرتبہ فرار ہونے کا جرم بھی کیا ہے۔ اس طرح اب آپ پر تین جرائم کے سلسلے میں مقدمہ چلے گا۔“

                ” کون چلائے گا مجھ پر مقدمہ۔۔۔۔ اور کون  مجھے گرفتار کرے گا؟۔ اس وقت بھی میں اپنی مرضی سے یہاں آیا ہوں صرف تمہیں یہ بتانے کے لئے کہ ہوش میں آجاؤ۔۔ یہ آخری وارننگ ہے۔۔“ یہ کہہ کر ناصر تیزی سے باہر جانے کے لئے مُڑا۔ اسی وقت ایس پی نے اپنے سروس ریوالور کا رُخ ناصر کی طرف  کر کے للکارا۔

” رُک جاؤ ناصر! اگر تم نے اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش کی تو میں گولی چلانے میں دریغ نہیں کروں گا اور اطمینان رکھو میرا نشانہ بہت سچا ہے۔“

”اچھا!“ ناصر نے خشمگیں نگاہوں سے ایس پی کی طرف دیکھا اور پھر اس کی آنکھوں سے تیز روشنی کی چندھیا دینے والی لہر ایس پی کے ریوالور کی جانب برق کی طرح لپکی اور ریوالور چشم زدن میں انگارے کی طرح سُرخ ہو گیا اور جتنی دیر میں ایس پی ریوالور کو چھوڑے اس کا ہاتھ بھی جل کر رہ گیا۔ ایس پی کے منہ سے ایک چیخ بلند ہوئی اور ریوالور اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا۔ ایس پی ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے پکڑ کر دہرا ہو گیا۔ 


Hayola

Sadiqul israr

روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ قسط وار مضمون ھیولا۔۔جن ، انسان اور روح کے درمیان کش مکش پر میں ایک خوب صورت کہانی  کی دستاویز پیش خدمت ہے۔