Topics
دو پتے سامنے میز پر
پڑے ہیں ظاہری آنکھ کو ایک رنگ، ایک جسامت اور ایک ہی طرح کے نقش و نگار نظر آتے
ہیں۔ ہر پتے کے اندر نقش و نگار ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ کسی درخت کے دو پتے سامنے
رکھ کر تجربہ کیجئے۔ پتے بڑے ہوں تو وضاحت آسان ہوجائے گی۔
درخت آپس میں باتیں
کرتے ہیں۔ اچھے یا برے کردار کے لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ درختوں کے اوپر مدہم یا
تیز موسیقی اثرانداز ہوتی ہے۔
انسان کے اندر ہمہ وقت
دو حواس کام کرتے ہیں۔ حواس کی ایک طرز زمان و مکان میں قید رکھتی ہے اور دوسری
طرز میں زمان و مکان کی حد بندیاں ختم ہوجاتی ہیں اور انسان خلا کے اس پار آباد
دنیاؤں کا مشاہدہ کرلیتا ہے۔ کائنات کی ہر مخلوق میں حواس کی یہ دونوں طرزیں کام
کرتی ہیں۔
پتے کے اندر چھٹی حس یا
باطنی نگاہ نے مجھے جب اپنے اندر تفکر کرتے دیکھا تو پتہ بولا!
"اے آدم زاد! میں
نے اپنے اسلاف (درختوں) سے سنا ہے کہ آدم اشرف المخلوقات ہے۔ اسے قدرت کا مخصوص
انعام حاصل ہے۔ ایسا انعام جو دوسری مخلوق کو عطا نہیں ہوا۔"
کائنات کی تخلیق کے بعد
خالق اکبر اللہ نے آسمانوں اور زمین میں مخلوقات کو اپنا امین بنانا چاہا تو اللہ
تعالیٰ نے سماوی مخلوق اور ارضی مخلوق کو مخاطب کرکے فرمایا ،
"ہے کوئی جو ہماری
امانت کو اپنے کندھوں پر اٹھائے۔"
ارضی اور سماوی مخلوق
نے یک زبان ہو کر عرض کیا،
"ہم بہت کمزور اور
ناتواں ہیں اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔"
لیکن آدم نے اس امانت
کو قبول کرلیا۔
آج وہی آدم جو آسمانوں اور زمین میں تمام مخلوق
سے معزز قرار دیا گیا ہے خود اپنا دشمن ہے اور مخلوق کے لئے آرام کے کم اور اذیت
کے زیادہ اور بہت زیادہ مسائل کا سبب بنا ہوا ہے۔ ایسا طرز عمل ہر نئے دن سامنے
آتا ہے جو ہلاکت خیز زیادہ اور آرام دہ کم ہے۔ ترقی ایسا پردہ بن گئی ہے جس کے پس
پردہ بیماریوں، ذہنی خلفشار، بے خوابی، ہائی بلڈ پریشر، گردہ فیل ہونا، چھوٹے بڑے
کا امتیاز کئے بغیر دل کا آپریشن، روشن آنکھوں کی دنیا پر اندھیرا چھاجانا، برین
ٹیومر اور نہیں معلوم کس کس قسم کے نئے نئے امراض منہ کھولے آدمی کی صحت کے منتظر
ہیں۔
ستر، اسی سال پہلے مریض
جب صحت یاب ہوجاتا تھا تو معالج نسخہ پھاڑ دیتے تھے موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اگر
مریض ڈاکٹر کے پاس چلا جائے تو وہ زندگی بھر کے لئے خود کو بیمار محسوس کرتا ہے۔
دوائیں تقریباً غذاؤں کا نعم البدل بن گئی ہیں۔۔ ابتدائی مرحلے میں بتادیا جاتا ہے
کہ یہ دوا پوری عمر کھانی ہوگی۔ پہلے معالجین مریضوں کا انتظار کرتے تھے اب مریض
کو گھنٹوں نہیں، دنوں نہیں، مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پرندے ، چوپائے اور
اللہ کی دوسری مخلوق جیسے گائے، بھینس، گدھا بیمار تو ہوتے ہیں لیکن معالج کے مرید
نہیں بن جاتے۔ بڑوں سے سنا ہے جب پیر صاحب کے پاس حاضری نہ ہو تو نذرانہ ضرور پیش
کرنا چاہئے۔ چاہے ایک روپیہ ہو۔
تقریباً نوے سال کی عمر
شہادت فراہم کرتی ہے کہ اتنے طویل عرصہ میں کسی بیل کی آنکھ پر عینک نہیں دیکھی،
کسی بکرے کے کان کے اندر سماعت کا آلہ لگا ہوا نہیں دیکھا، کسی اونٹ کے دل پر پیس
میکر لگا ہوا نہیں دیکھا، یہ ایسی مثال ہے جس کو پڑھ کر آدمی اگر ہنستا نہیں تو
چہرہ پر مسکراہٹ رنگ ضرور بکھیر دیتی ہے۔لاکھوں سال کی تاریخ کے اوراق پلٹئے ایک
سطر بھی نظر نہیں آئے گی کہ حیوانات نے بندوق، توپ، میزائل اور نئے نئے مہلک
ہتھیار اپنی قوم کو تباہ کرنے کے لئے ایجاد کئے ہوں۔
قارئین! لکھنے والا
کبھی کبھی جذباتی ہوجاتا ہے آپ بھی یہ تحریر پڑھ کر جذبات کا سہارا لیں اور بھول
جائیں ۔ اس لئے کہ آدمی اور انسان میں یہی فرق ہے کہ آدمی بھول بھلیوں میں گم رہتا
ہے اور انسان حقیقت آشنا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پتے جب آدم کو عطا کردہ
اعزاز کے بارے میں تبادلہ خیال کرتے ہیں (یہ نہ سمجئے کہ وہ باتیں نہیں کرتے اور
ان میں افزائش نسل کے جذبات نہیں ہوتے، ان میں پھل نہیں لگتے بلکہ پھولوں میں
افزائش نسل کے لئے اسپرم بھی ہوتے ہیں) آدم زاد پر ہنستے اور کہتے ہیں کہ آدم خود
بولنے والا حیوان ہے اور ہمیں گونگی بہری مخلوق سمجھتا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا
کہ بولنا کیا ہے۔ کیا بولنا، سمجھنا ایک بات ہے۔۔؟
پتے انسپائر کرتے ہیں
کہ ہمارے اسلاف آدم کے اسلاف سے زیادہ محب اور جاں نثار تھے اور ہیں کہ انہوں نے
یہ جان لیا تھا کہ اللہ کی امانت قبول کرکے اس کی حفاظت نہ کرنا اور اس سے فائدہ
نہ اٹھانا کفرانِ نعمت ہے۔ جب کہ کفران نعمت ناشکری ہے اور ایسی قومیں جو شکر گزار
نہیں ہوتیں، صفحۂ ہستی پر بوجھ بننے کے مترادف ہیں۔ آسمانی بلائیں زندگی کو زہر
کردیتی ہیں۔ ایسی قومیں شکست کی علامت بن کر ذلیل و خوار ہوجاتی ہیں۔ سب کچھ ہوتے
ہوئے دوسروں کی دست نگر بن کر کشکول ہاتھ میں لئے بھیک مانگتی ہیں۔
پتے کی زبانی عقل و
شعور کی یہ باتیں سن کر میں حیرت کے دریا میں ڈوب گیا ۔
زبان کو یارا نہ رہا کہ
کچھ عرض حال کرے۔
دماغی کمپیوٹر میں کام
کرنے والے کھربوں کل پرزے ساکت و جامد ہوگئے۔
روشنی دھندلاگئی کہ فہم و فراست کا مشاہدہ
کرسکے۔
بالآخر خود سے سوال
کیا۔
"کیا درختوں میں
بھی اسی طرح عقل کام کرتی ہے جس طرح آدم زاد عقل سے آراستہ ہے؟"
پتے ہنسے، ایک پتہ
طنزیہ قہقہہ لگا کر بولا۔
"کسی چیز کا انکار اور اقرار ہی عقل و شعور
کا ثبوت ہے۔
" قارئین کیا سمجھے۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتے کہتے ہیں درندگی،
خون ریزی، قتل و غارت گری، تعصب، بددیانتی، خودغرضی اور حق تلفی پر مشتمل زمین کی
کوکھ سے جنم لینے والی لاکھوں سال کی کہانی بتاتی ہے کہ ہم انسان کے مقابلے میں
زیادہ سمجھدار اور باشعور ہیں۔ ہم جانتے ہیں آدم زاد درختوں سے زیادہ ظالم اور
جاہل ہے اور تصدیق قرآن کریم سے ہوتی ہے۔
"ہم نے امانت کو
آسمان، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اس کو اٹھانے سے انکار کیا اور اس
سے ڈر گئے۔ اور انسان نے اس کو اٹھالیا، بے شک وہ ظالم اور جاہل ہے۔" (الاحزاب: 72)
کیا یہ اپنے اوپر ظلم
نہیں کہ گھر میں آسائش و آرام کا ہر سامان منتظر ہے کہ مجھے استعمال کیا جائے لیکن
آدمی ان چیزوں کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔ کیا یہ جہالت نہیں ہے کہ کائنات آدم کے
لئے مسخر کردی گئی ہے اور آدم زاد قید و بند کی زندگی میں ایڑیاں رگڑ رہا ہے، مر
رہا ہے، جی رہا ہے لیکن مرنے کے لئے جی رہا ہے۔۔ آدم زاد اپنی اندر کی روشنی سے
دنیا میں روشنی پھیلانے کے بجائے ساری دنیا کو اندھیر کردینا چاہتا ہے۔
پتے کا مکالمہ سن کر
آنکھیں نم ہوگئیں۔ جگر خون اور دل پاش پاش ہوگیا۔
ایک آہ نکلی اور صدائے
بازگشت سنی، "کاش میں بھی درخت کا پتہ ہوتا۔۔"
درخت ایک مخلوق ہے۔
درخت پیدا ہوتا ہے اور نقصان پہنچایا جائے تو احتجاج بھی کرتا ہے۔ درخت کاٹنے کے
دوران جو آواز آتی ہے، کون ہے جو اس المیہ چیخ کو نہیں سنتا مگر ہم لاپرواہ ہوکر
درخت کےجسم(تنا) میں کلہاڑی سے گھاؤلگاتے ہیں اور درخت کے احتجاج پر کبھی غور نہیں
کرتے۔
قارئین سے سوال ہے کہ
کیا آپ قلم کی زبان سے قرطاس ابیض پر لکھی ہوئی اس تحریر سے متفق ہیں۔۔؟