Topics
اللہ قادر مطلق ہے ہر
شے اس کے احاطہ میں ہے۔ رات اور دن پر اس کی حاکمیت ہے۔ وہ احکم الحاکمین ہے۔ جو
چاہتے ہیں ظہور ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذہن سے باہر عالمین یعنی کروڑوں
دنیائیں، لاکھوں سورج چاند، نظر کی وسعت میں آنے والے دس ہزار ستارے، سات آسمانی
دنیائیں،ہر دنیا اتنی وسعت رکھتی ہے کہ شعور اور لاشعور کے لئے کسی بھی طرح شمار
ممکن نہیں۔
رب ذوالجلال فرماتے ہیں سارے درخت اور ان کی
شاخیں قلم بن جائیں اور تمام سمندر روشنائی بن جائیں۔۔۔ اللہ کی باتیں لکھی جائیں
تو سمندر کے پانی سے بنائی ہوئی روشنائی ختم ہوجائے گی اور درختوں کے تنے، شاخیں،
ٹہنیوں سے بنے ہوئے قلم ختم ہوجائیں گے مگر اللہ کی باتیں ختم نہیں ہوں گی۔
" زمین میں جتنے
درخت ہیں اگروہ سب کے سب قلم بن جائیں اور
سمندرجیسے سات مزیدسمندرروشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں ختم نہیں ہوں گی۔ بے شک اللہ ذبردست اور حکمت والا ہے۔ " (لقمٰن : 27(
آدمی کی نہیں۔۔۔ انسان
کی زندگی کو رواں دواں رکھنے والی نورانی مشین کا اگر محدود عقل و شعور سے بیان
کیا جائے تو ہر آدمی کے ساتھ 20 ہزار فرشتے ہمہ وقت مصروف اور متحرک رہتے ہیں۔ یہ
بات اس طرح بھی بیان کی جاسکتی ہے کہ آدمی گوشت پوست اور ہڈیوں سے بنا ہوا ایک
پتلا ہے، اس پتلے کو متحرک رکھنے کے لئے 20 ہزار معاونین ہمہ وقت مصروف عمل ہیں۔
سمجھنے کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ آدمی کٹھ پتلی ہے۔ کٹھ پتلی کو چلانے، گردن ہلانے
اور اعضا کی حرکت کے لئے ایک پتلی میں 20 ہزار ڈوریاں بندھی ہوئی ہیں اور ان
ڈوریوں کا میکانزم یہ ہے کہ ہر حرکت ارادہ کے تابع ہے ۔ انسان صرف ارادہ کرسکتا
ہے۔ جیسے ہی کوئی جان ارادہ کرتی ہے حرکت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
بظاہر حرکت آدمی کے
تابع ہے۔۔۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے بلکہ حرکت ارادہ کے تابع ہے۔
اس بات کو مثال سے
سمجھنا آسان ہے۔
ہر مخلوق احتیاج کے
تابع ہے اور یہ امر مجبوری ہے۔ جیسے پانی پینے سے پہلے پیاس کا خیال۔۔۔ یعنی پانی
پینے کی احتیاج ذہن میں آئے گی۔ ذہن میں آنے کے بعد انسان ارادہ کرے گا۔ اس ارادہ
کی تکمیل کے لئے مقررہ فرشتے بندے کو پانی کی طرف متوجہ کریں گے اور پانی کی
احتیاج پوری کرنے کے لئےفرشتے اس کے ہاتھ سے گلاس اٹھوائیں گے اور اس پتلے سے پانی
کے گلاس میں پانی ڈلوا کر گلاس کو اس کے منہ کو لگادیں گے۔ ہر شے اس قانون کی
پابند ہے۔
جو نیت ہوتی ہے، اس نیت میں عمل کے دو رخ ہیں۔
ایک رخ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق پسندیددہ ہے اور عمل اگر انبیاء علیہم
السلام کی شریعت کے مطابق نہ کیا جائے تو ناپسندیدہ ہے۔ یہ بات اس طرح سمجھ میں
آتی ہے کہ فرد ۔متعین احسن طریقوں پر کوئی بھی شے استعمال کرتا ہے پسندیدہ عمل
ہے۔۔۔ احسن طریقوں کے خلاف کیا گیا عمل ناپسندیدہ اور شیطنت ہے۔ زندگی کی ادھیڑبن
کی جائے تو اس قانونی کی وضاحت ہوجائے گی۔
خواتین و حضرات! جو بات
سمجھ میں نہیں آتی ذہنی یکسوئی کے ساتھ اگر تفکر کیا جائے تو ذہن رہنمائی کرتا ہے۔
اس کی لاشمار مثالیں ہیں مثلاً ایک شخص دوسرے شخص کے گھر میں موجود ہے جب واپس آتا
ہے تو کوئی چیز اٹھالیتا ہے۔ اس صورت میں محاسبہ کیا جائے تو یہ عمل چوری شمار
ہوگا۔
قانون۔۔۔ جب بھی کوئی
غلط کام کیا جاتا ہے، ضمیر منع کرتا ہے۔ اگر ضمیر کی خلاف ورزی کی جائے تو ضمیر
ملامت کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام تاثر یہ ہے کہ ہم
جو کچھ دیکھتے ہیں آنکھوں کے سامنے باہر دیکھتے ہیں۔ لیکن اس نکتہ کو اس طرح لکھنا
وضاحت ہے کہ ہم باہر نہیں دیکھتے۔ دماغ کے اندر چیزوں کا عکس دیکھتے ہیں۔ ایک ناقص
مثال یہ ہوسکتی ہے کہ پروجیکٹر پر فلم نشر ہورہی ہے اور نشریات ہمیں فلم سے مخصوص
فاصلہ پر نظر آتی ہیں۔ لیکن ناظرین یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ
اسکرین پر دیکھ رہے ہیں جبکہ اسکرین پر ناظرین عکس دیکھ رہے ہیں۔ اگر پروجیکٹر سے
فلم ہٹالی جائے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ براہِ راست طرز کلام یہ ہے کہ فلم دیکھنے
والے ناظرین اسکرین پر جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ عکس ہیں۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ اسکرین
پر جو تصویر ہم دیکھ رہے ہیں فلم کا عکس روشنی کی لہروں میں تقسیم ہو کر اسکرین پر
نظر آرہا ہے۔
محترم قارئین! سمجھنا
یہ ہے کہ فلم کے کردار اصل ہیں۔۔۔ ذرا ذہن پر زور ڈالیئے۔۔۔ جو مناظر اسکرین پر
نظر آرہے ہیں ان کا مادی وجود نہیں ہے جو اصل ہیرو، ہیروئن کا ہے۔
اس بات کو اس طرح بیان
کیا جائے کہ ایکٹر کا عکس فلم پر منتقل ہوا اور روشنی کی بڑی مقدار نے ایک انچ فلم
کے نقش و نگار کو لہروں کی شکل میں 10 یا 12فٹ بڑی اسکرین پر دکھایا۔
سمجھانا یہ مقصود ہے کہ
آدمی فی الواقع کیا ہے؟آدمی کی حیثیت ایک
انچ فلم میں تصویر کے علاوہ کچھ نہیں ۔اس بات کو پھر سمجھئے۔تقریباً ایک انچ فلم
میں بنے ہوئےنقش و نگار روشنی میں پھیل کر اسکرین پر مظاہرہ کرتے ہیں۔یہ بھی سوچئے
کہ براہ راست دیکھنا اور بالواسطہ دیکھنا
کیا ہے۔۔؟