Topics

نماز میں اوقات کی حکمت

فجر کی نماز:

پس اللہ کی تسبیح بیان کرو سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے اور رات ہونے پر اور دن کے کناروں پر۔(القرآن)

فجر کی نماز ادا کرنے والا بندہ دوسری تمام مخلوق کے ساتھ جب عبادت اور تسبیح میں مشغول ہوتا ہے تو دنیا کا پورا ماحول مصفی، مجلی اور پر انوار ہو جاتا ہے اور ماحول کی اس پاکیزگی سے انسان کو روحانی اور جسمانی صحت نصیب ہوتی ہے۔


ظہر کی نماز:

صبح سے دوپہر تک آدمی اپنی معاش کے حصول یا زندگی کو قائم رکھنے کے لئے خورد و نوش کے انتظام میں لگا رہتا ہے۔ اعصاب تھک جاتے ہیں اور جسم نڈھال ہو جاتا ہے۔ جسمانی تقاضوں کے لئے کام پورا کرنے کے بعد جب آدمی وضو کرتا ہے تو اس کے اوپر سے تھکن دور ہو جاتی ہے اور پھر جب وہ نماز قائم کرتا ہے تو اس کو روحانی غذا فراہم ہوتی ہے اور اس کے اوپر سرور و کیف کی ایک دنیا روشن ہو جاتی ہے۔

سورج کی تمازت ختم ہو کر جب زوال شروع ہوتا ہے تو زمین کے اندر سے ایک گیس خارج ہوتی ہے۔ یہ گیس اس قدر زہریلی ہوتی ہے کہ اگر آدمی کے اوپر اثر انداز ہو جائے تو وہ قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ دماغی نظام اس حد تک درہم برہم ہو سکتا ہے کہ اس کے اوپر ایک پاگل آدمی کا گمان ہوتا ہے۔ جب کوئی بندہ ذہنی طور پر عبادت میں مشغول ہو جاتا ہے تو اس نماز کی نورانی لہریں اس زہرناک گیس سے محفوظ رکھتی ہیں ان نورانی لہروں سے یہ زہریلی گیس بے اثر ہو جاتی ہے۔

عصر کی نماز:

زمین دو طرح چل رہی ہے ایک گردش ہے محوری اور دوسری طولانی۔ زوال کے بعد زمین کی گردش میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ گردش کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ عصر کے وقت تک یہ گردش اتنی کم ہو جاتی ہے کہ حواس کے اوپر دبائو پڑنے لگتا ہے۔ انسان‘حیوان‘چرند و پرند سب کے اوپر دن کے حواس کے بجائے رات کے حواس کا دروازہ کھلنا شروع ہو جاتا ہے اور شعور مغلوب ہونے لگتا ہے۔

ہر ذی فہم انسان اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ عصر کے وقت اس کے اوپر ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے جس کو وہ تکان اور اضمحلال کا نام دیتا ہے۔ یہ تکان اور اضمحلال شعوری حواس پر لاشعوری حواس کی گرفت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ عصر کی نماز شعور کو اس حد تک مضمحل ہونے سے روک دیتی ہے جس سے دماغ پر خراب اثرات مرتب ہوں۔ وضو اور عصر کی نماز قائم کرنے والے بندے کے شعور میں اتنی طاقت آ جاتی ہے کہ وہ لاشعوری نظام کو آسانی سے قبول کر لیتا ہے اور اپنی روح سے قریب ہو جاتا ہے۔ دماغ روحانی تحریکات قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔

مغرب کی نماز:

آدمی بالفعل اس بات کا شکر ادا کرتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے رزق عطا فرمایا۔ ایسا گھر اور بہترین رفیقہ حیات عطا کی جس نے اس کی اور اس کے بچوں کی غذائی ضروریات پوری کیں۔ شکر کے جذبات سے وہ مسرور اور خوش و خرم اور پرکیف ہو جاتا ہے۔ اس کے اندر خالق کائنات کی وہ صفات متحرک ہو جاتی ہیں جن کے ذریعے کائنات کی تخلیق ہوئی ہے۔ جب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ پرسکون ذہن سے محو گفتگو ہوتا ہے تو اس کے اندر کی روشنیاں بچوں میں براہ راست منتقل ہوتی ہیں اور ان روشنیوں سے اولاد کے دل میں ماں باپ کا احترام اور وقار قائم ہو جاتا ہے۔ بچے غیر ارادی طور پر ماں باپ کی عادتوں کو تیزی کے ساتھ اپنے اندر جذب کرتے ہیں اور ان کے اندر ماں باپ کی حمیت و عشق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ مغرب کی نماز صحیح طور پر اور پابندی کے ساتھ ادا کرنے والے بندے کی اولاد سعادت مند ہوتی ہے اور ماں باپ کی خدمت کرتی ہے۔

عشاء کی نماز:

عشاء کی نماز غیب سے متعارف ہونے اور اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے کا ایک خصوصی پروگرام ہے کیونکہ عشاء کے وقت آدمی رات کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روحانی تعلیم و تربیت کے اسباق اور اوراد و وظائف عشاء کی نماز کے بعد پورے کئے جاتے ہیں اس لئے کہ جب آدمی رات کے حواس میں ہوتا ہے تو وہ لاشعوری اور روحانی طور پر غیب کی دنیا سے قریب اور بہت قریب ہو جاتا ہے اور اس کی دعائیں قبول کر لی جاتی ہیں۔ عشاء کی نمازاس نعمت کا شکریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بیداری کے حواس سے نجات عطا فرما کر وہ زندگی عطا فرما دی ہے جو نافرمانی کے ارتکاب سے پہلے جنت میں حضرت آدمؑ کو حاصل تھی یہی وہ حواس ہیں جن میں آدمی خواب دیکھتا ہے اور خواب کے ذریعے اس کے اوپر مسائل، مشکلات اور بیماریوں سے محفوظ رہنے کا انکشاف ہوتا ہے۔ خواب کی تعبیر سے وہ مستقبل میں پیش آنے والی مصیبتوں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔ عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سونے والے بندے کی پوری رات لا شعوری طور پر عبادت میں گزرتی ہے اور اس کے اوپر اللہ کی رحمت نازل ہوتی رہتی ہے ایسے بندے کے خواب سچے اور بشارت پر مبنی ہوتے ہیں۔

تہجد کی نماز:

کچھ وقفہ نیند لینے کے بعد آدمی بیدار ہو جائے تو اس کا شعور اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ غیبی تحریکات کو آسانی سے قبول کرلیتا ہے۔ فجر کی نماز اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی پہلی سیڑھی ہے اور تہجد کی نماز خالق کائنات سے قریب ہونے کی آخری سیڑھی ہے۔ یہی صورت الصلوٰۃ معراج المومنین ہے۔ تہجد کی نفلیں ادا کرنے والا بندہ آسمانوں کی سیر کرتا ہے۔ فرشتوں اور جنات کی دنیا میں اس کے سامنے آ جاتی ہے۔ تہجد کی نماز ایک پروگرام ہے اس بات کے لئے کہ انسان اپنے خالق کو جان لے پہچان لے اور اس کے قریب ہو جائے۔

نماز جمعہ:

جمعہ کی نماز ایک اجتماعی پروگرام ہے تا کہ مسلمان اجتماعی طور پر آپس میں بھائی چارہ قائم کر کے ایک دوسرے کے کام آ سکیں اور اجتماعی مسائل سے واقفیت حاصل کر کے ان کے تدارک کی کوشش کریں۔ بڑوں کو دیکھ کر بچوں کے اوپر یہ تاثر قائم ہو کہ ہر مسلمان اگرچہ شکل و صورت کے اعتبار سے الگ الگ نظر آتا ہے لیکن فی الواقع سب ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں اور اسلام ایک مضبوط رسی ہے جس کو متحد اور باہم مل کر ہم سب پکڑے ہوئے ہیں۔ ہم کندھے سے کندھا ملا کر ایک ہی صف میں اس لئے کھڑے ہیں کہ ہمارے اندر کوئی اختلاف نہیں ہے۔

نماز میں خیالات اور وسوسوں سے محفوظ رہنے کے لئے وضو کرنے کے بعد آرام دہ نشست سے قبلہ رخ بیٹھ کر تین دفعہ درود شریف‘ تین بار استغفار پڑھیں اور ایک منٹ سے پانچ منٹ تک جتنا وقت ہو آنکھیں بند کر کے یہ تصور کریں کہ:

’’اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘

اس کے بعد نیت کر کے نماز قائم کریں۔


Qos O Qazah

خواجہ شمس الدین عظیمی

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب  خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب  ایک معروف  صوفی بزرگ اور بین الاقوامی اسکالر ہیں ۔نوع انسانی کے اندربے چینی اوربے سکونی ختم کرنے انہیں سکون اورتحمل کی دولت سے بہرورکرنے ، روحانی اوراخلاقی اقدار کے فروغ  لئے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے موجودہ دورکے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے  روحانی  وماورائی علوم  اورتصوف کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق  پیش کیا ۔آپ نے تصوف ، روحانیت ، پیراسائیکالوجی ،سیرت طیبہ ﷺ، اخلاقیات ، معاشرتی مسائل   اورعلاج معالجہ سے متعلق 80 سے زائد نصابی اورغیر نصابی کتب اور80کتابچے  تحریر فرمائے ہیں۔آپ کی 19کتب کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع  ہوچکے ہیں جن میں انگریزی، عربی،روسی ، تھائی، فارسی،سندھی، پشتو،ہندی ، اسپینش  اورملائی زبانیں شامل ہیں ۔ دنیا بھرمیں روحانی علوم کے متلاشی  لاکھوں مداح آپ  کی تحریروں سے گزشتہ نصف صدی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔  عظیمی صاحب کا طرز تحریر بہت سادہ اوردل نشین  ہے ۔ان کی تحریرکی سادگی اوربے ساختہ پن  قاری کے دل پر اثر کرتاہے ۔ 

کتاب" قوس وقزح"روحانی وماورائی علوم پر تحریرکردہ آپ کے  14کتابچوں کا مجموعہ ہے ۔