Topics
ہر انسان ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا ہے یعنی خیالات کی لہریں ہر وقت آدمی کے دماغ سے گزرتی رہتی ہیں۔ یہ لہریں ایک طرف انفرادی زندگی کو انسپائر کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ ان لہروں کے اوپر کائنات میں موجود نوعی اشتراک کا عمل دخل بھی ہے۔ ان لہروں سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ کائنات اور اس کے اندر تمام مظاہرات ہر آن ہر لمحہ ایک دائرے میں سفر کرتے ہیں۔ دائرے میں سفر بجائے خود اس بات کی شہادت ہے کہ ہر مظہر ایک دوسرے سے آشنا اور متعارف ہے۔ تعارف کا یہ سلسلہ لہروں کے اوپر قائم ہے اور لہروں کو خیالات کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ساری کائنات دراصل لہروں کے تبادلے کے اوپر قائم ہے۔ کائناتی نظام اس سسٹم کے اوپر چل رہا ہے کہ لہر ہر وجود میں سے گزرتی رہے۔ وجود میں کسی مخصوص پرت یا کسی مخصوص نوع کی قید نہیں ہے۔ آج کے دور میں ٹی وی، وی سی آر، ریڈیو، فریج اور انٹینا اس کی روشن شہادت ہیں۔
زیادہ آسان لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ کائنات میں موجود ہر وجود میں ایک انٹینا ہے۔ یہ انٹینا ہر دوسرے وجود کی لہر کو قبول بھی کرتا ہے اور اپنی لہروں کو دوسرے وجود کے انٹینا میں منتقل بھی کرتا ہے۔ جب تک وجود میں موجود نصب شدہ انٹینا میں وصول کرنے اور منتقل کرنے کا عمل جاری نہ ہو کائنات کا کوئی ایک فرد نہ بول سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے، لہروں کی ایک وجود سے دوسرے وجود میں منتقلی کو سائنس نے توانائی کا نام دیا ہے۔
سائنس کا کہنا ہے۔
’’مادہ مختلف ڈائیوں میں منتقل ہو کر توانائی بن جاتا ہے۔‘‘
دوپہر کا وقت تھا۔ دھوپ کی تمازت سے جسم جھلس رہے تھے۔ ہوا بند تھی حبس کا عالم تھا۔ بجلی لوڈشیڈنگ کے نام پر محواستراحت تھی۔ نمی (Humidity) کی وجہ سے سبک خرام ہوا اتنی بوجھل تھی کہ درخت کے پتے بھی ساکت و جامد تھے۔ حبس کے اس عالم میں جسم دانوں سے بھر گیا تھا۔ لگتا تھا کہ مسامات میں مرچیں بھر گئیں ہیں…نہایت اضطراب کی کیفیت تھی۔ دماغ مائوف تھا۔ خیال آیا کہ جب زمین پر ان گرم لہروں نے ہر وجود کو بے قرار کر دیا ہے تو دوزخ میں کیا حشر ہو گا۔ پھر خیال آیا کہ دوزخی مخلوق کے لئے گرمی کی یہ تمازت مآب لہریں دراصل دوزخ میں رہنے کی پریکٹس ہے۔ ابھی دوزخ کا نقشہ اور بھڑکتی آگ کا عکس آنکھوں کے سامنے آیا ہی تھا کہ بارہ کھرب خلیوں میں سے ایک خلیہ میں جھماکہ ہوا۔ پتہ نہیں اس جھماکہ میں کیا تاثیر تھی کہ دماغ میں ایک دروازہ کھلا۔ دروازے کے اندر سے لہریں دماغ پر منتقل ہوئیں ان لہروں کا مفہوم یہ تھا۔
’’اللہ تعالیٰ کسی بندے کو اس کی سکت اور اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔‘‘
پاس بیٹھے ہوئے میرے بیٹے حکیم نور عجم نے سوال کیا جیسے ہی سوال کیا بجلی آ گئی۔ پنکھا چل پڑا دماغ کو آرام ملا۔
سوال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات کو محبت کے ساتھ تخلیق کیا اور ساری کائنات ’’کُن‘‘ کہنے سے وجود میں آئی مطلب یہ ہے کہ مختلف صلاحیتوں کے لئے الگ الگ کن نہیں کہا گیا۔ جب ایک ’’کن‘‘ سے پوری کائنات وجود میں آئی تو صلاحیتیں بھی سب میں مساوی تقسیم ہوئیں لیکن ہمارا تجربہ ہے کہ ہر آدمی میں صلاحیتیں مختلف ہیں اور جب ہر آدمی میں صلاحیتیں مختلف ہوتی ہیں تو مساوات کا قانون زیر بحث آ جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ افلاطون نے کہا کہ قدرت آزاد اور غلام الگ الگ پیدا کرتی ہے اس نظریہ کی مخالفت میں سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ بیٹے کے سوال کی گہرائی پر جب میں نے تفکر کیا تو اسکرین پر بجلی کی فلم چلتی نظر آئی۔
سمندر میں اٹھتی لہریں نظر آئیں۔ لہروں کے ٹکرانے کے عمل سے ہی بخارات بنے ہوا نے انہیں اوپر اچھالا تو بادل بن گئے بادلوں کو پھر ہوا نے دھکیلا۔ کارواں در کارواں اڑتے ہوئے شمال میں جابر سے۔ اونچی اونچی پہاڑیوں کہساروں پر برف جمی……سورج نکلا……سورج کی لہروں کی توانائی جب برف میں منتقل ہوئی تو برف پانی بن گیا۔ پانی فراز سے نشیب میں اترا‘ دریا بن گئے۔ دریائوں کو روک کر ڈیم بنے ڈیم میں سرنگیں بنی سرنگ کے ذریعے ٹربائن چلے اور بجلی کی ولادت واقع ہوئی۔ گرڈ اسٹیشن تک بجلی کی لہروں کی رسائی ہوئی……وہاں سے ہائی ٹینشن تار میں ان لہروں کو منتقل کیا گیا اور پھر سب پاور اسٹیشن بنے اور پھر وہاں سے گھروں کے سامنے کھمبے لگا کر گھر گھر بجلی کی لہریں منتقل کرنے کا اہتمام کیا گیا۔
میں نے اپنے بیٹے نور عجم سے کہا۔
چھت پر دیکھو! کیا نظر آتا ہے۔
اس نے بتایا کہ پنکھا چل رہا ہے۔
میں نے اس سے پوچھا ’’ٹیوب لائٹ کیوں نہیں جل رہی ہے۔
وہ بولا! سوئچ آف ہے۔
بیٹے کے باپ نے وضاحت کی۔
بیٹا!
تمہارے گھر میں تھری فیز بجلی یا توانائی ہے اور یہ توانائی تاروں کے ذریعے مسلسل تاروں میں دوڑ رہی ہے۔ ان تاروں سے اگر تم چاہو تو دس پندرہ قمقمے اوپر نیچے منزل میں دو فریج، دو ٹی وی، دو وی سی آر، دو اے سی چلا سکتے ہو اور اگر تم نہیں چاہتے تو صرف پورے گھر میں پندرہ واٹ کا بلب ہی روشن کر سکتے ہو۔ تاروں کے اندر دوڑتی ہوئی توانائی تمہاری خدمت گزار ہے۔ اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم اس توانائی سے کتنا کام لیتے ہو اور موجود توانائی کو کس حد تک نظر انداز کر دیتے ہو۔ یہ جو اللہ تعالیٰ نے خدمت گزاری کے بے شمار شعبے بنائے ہیں یہ دراصل توانائی کی تقسیم ہے۔
ایک آدمی دھوپ میں بیٹھ کر جوتے گانٹھتا ہے۔ اس کا نام موچی ہے۔ دوسرا آدمی گھر میں بیٹھ کر جوتے سیتا ہے اس کا نام بھی موچی ہے۔ تیسرا جوتے کا کارخانہ کھول کر اس کا نام باٹا رکھ دیتا ہے اس کا نام بھی موچی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کس آدمی نے توانائی کو کتنا استعمال کیا۔ جس طرح بجلی تمہیں ہزار بلب روشن کرنے سے نہیں روکتی اسی طرح تمہارے اندر ہزاروں لاکھوں توانائیاں اپنے استعمال سے منع نہیں کرتیں یہی مساوات ہے۔
اس قانون کو تم موچی ، بڑھئی، لوہار، انجینئر، فنکار، تاجر اور سائنس کے تمام شعبوں پر قیاس کر سکتے ہو۔ قدرت نے کبھی کسی کو منع نہیں کیا کہ وہ اس کی دی ہوئی علمی صلاحیتوں سے استفادہ کر کے سائنسدان نہ بنے۔ قدرت نے صلاحیتوں کے استعمال کے لئے میٹیریل تخلیق کیا ہے۔ بلا تخصیص ہر ملک ہر قوم اور ہر فرد کے لئے یہ میٹیریل مفت فراہم ہوتا ہے۔ سائنسدان ایٹم بم بناتا ہے اس ایٹم بم میں کام آنے والی تمام اشیاء بھی قدرت کی پیدا کردہ ہیں۔ مثلاً زمین یورینیم، الیکٹریسٹی اور وہ میٹیریل جس سے بھٹیاں بنتی ہیں۔ اربوں، کھربوں سال کی تاریخ شاہد ہے کہ وسائل کا کوئی پیسہ ٹکا آدم زاد نے اللہ کو نہیں دیا۔ تعمیری شعبوں پر نظر ڈالو، زمین فری زمین کے اندر جو بیج ڈالا جاتا ہے وہ فری۔ بیج کروڑوں سال پہلے جب بھی پیدا ہوا اس کی کوئی حد قیمت نہیں لی گئی۔ ہوا فری ، دھوپ فری، چاندنی فری، آکسیجن فری، بارش فری حد یہ کہ جسم انسانی میں خون کو شریانوں اور وریدوں میں دوڑانے کی توانائی فری۔
پانچ ارب آبادی میں ایک فرد واحد اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ جسم انسانی میں کام کرنے والی انرجی کی اس نے کبھی کوئی قیمت ادا کی ہو۔
دنیا میں بیشمار صلاحیتیں دراصل توانائیاں ہیں۔ بجلی کی مثال سامنے رکھ کر یہ سمجھ لو کہ جتنی توانائی کوئی بندہ استعمال کرنا چاہتا ہے توانائی اس کی خدمت گزاری سے کبھی انکار نہیں کرتی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب ایک معروف صوفی بزرگ اور بین الاقوامی اسکالر ہیں ۔نوع انسانی کے اندربے چینی اوربے سکونی ختم کرنے انہیں سکون اورتحمل کی دولت سے بہرورکرنے ، روحانی اوراخلاقی اقدار کے فروغ لئے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے موجودہ دورکے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے روحانی وماورائی علوم اورتصوف کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق پیش کیا ۔آپ نے تصوف ، روحانیت ، پیراسائیکالوجی ،سیرت طیبہ ﷺ، اخلاقیات ، معاشرتی مسائل اورعلاج معالجہ سے متعلق 80 سے زائد نصابی اورغیر نصابی کتب اور80کتابچے تحریر فرمائے ہیں۔آپ کی 19کتب کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں جن میں انگریزی، عربی،روسی ، تھائی، فارسی،سندھی، پشتو،ہندی ، اسپینش اورملائی زبانیں شامل ہیں ۔ دنیا بھرمیں روحانی علوم کے متلاشی لاکھوں مداح آپ کی تحریروں سے گزشتہ نصف صدی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ عظیمی صاحب کا طرز تحریر بہت سادہ اوردل نشین ہے ۔ان کی تحریرکی سادگی اوربے ساختہ پن قاری کے دل پر اثر کرتاہے ۔
کتاب" قوس وقزح"روحانی وماورائی علوم پر تحریرکردہ آپ کے 14کتابچوں کا مجموعہ ہے ۔