Topics
قرآن کا نزول چٹھی صدی عیسوی میں ہوا۔ قرآن پاک میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کا بڑا حصہ توریت اور انجیل میں بھی بیان ہو چکا ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
’’میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں۔ مجھ سے پہلی میرے بھائی پیغمبران علیہم الصلوٰۃ والسلام نے جو کچھ فرمایا ہے وہی میں بھی تمہیں بتا رہا ہوں۔‘‘
اسلام نے آسمانی کتابوں کو برحق جانا ہے۔ ایمان کی تعریف ہی یہ ہے کہ محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لایا جائے۔ آسمانی کتابوں پر یقین کیا جائے۔ پیغمبروں پر ایمان لایا جائے۔ یوم آخرت پر ایمان ہو۔ خیر و شر کی تقدیرات پر یقین ہو۔ اسلام تمام انبیاء کو برحق مانتا ہے۔ جس طرح قرآن پاک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو کرامت کہا گیا ہے اسی طرح انجیل میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت قدرت کا ایک کراماتی عمل ہے۔ جس طرح انجیل میں حضرت مریم علیہ السلام کو ایک خاص مقام حاصل ہے اسی طرح قرآن میں بھی حضرت مریم علیہ السلام کا اپنا ایک منفرد مقام ہے۔ یہاں تک کہ قرآن کی ایک سورہ کا نام مریم ہے۔
انگلینڈ کے ایک شہر نیلسن میں ایک پادری صاحب میرے پاس تشریف لائے۔ انہوں نے اپنا تعارف یہ کرایا کہ میں ایمان رکھتا ہوں کہ عیسیٰ علیہ السلام ہمارے لئے کفارہ بن گئے ہیں اور صلیب پر چڑھ کر Jesusنے ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا ہے۔
میں نے ان سے پوچھا۔
’’پادری صاحب! جب مسیح نے آپ کے لئے جان صلیب کی نذر کر دی تو آپ کے اوپر بھی ان کے حقوق عائدہوتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا!……ہاں۔
میں نے کہا! جناب تبلیغ تو وہ بھی کر رہے ہیں جو پادری نہیں ہیں۔ پادری ہونے کی حیثیت سے آپ کے اوپر یہ فرض ہے کہ آپ مسیح کو دیکھ کر ان سے عیسائیت کے علوم حاصل کریں……پادری صاحب ایک دم آپے سے باہر ہو گئے۔ کہنے لگے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں اپنے انر میں Jesusکو محسوس کرتا ہوں۔
میں نے کہا، جناب محسوس تو بہت ساری باتیں کی جاتی ہیں لیکن محض محسوساتی باتوں کو حقیقت نہیں کہا جاتا۔
پادری صاحب! آپ بائیس سال سے مسیح کے نام پر ایک خوبصورت آرام دہ عمارت(گرجا) میں رہتے ہیں۔ چرچ آپ کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس کے باوجود آپ صرف محسوساتی زندگی کے خول میں بند ہیں؟ ہم مسلمان بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم علیہ السلام کو مانتے ہیں۔ نہ صرف مناتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں بلکہ دیکھتے بھی ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذات سے ان کا علم بھی سیکھتے ہیں۔
پادری صاحب غصہ سے آگ بگولہ ہو گئے اور بڑے ہی دل آزار لہجے میں بولے، یہ نہیں ہو سکتا۔
میں نے عرض کیا، ایسا ہوتا ہے اور اگر آپ چاہیں تو آپ بھی مسیح کی روح سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے اور یہ کہہ کر چلے گئے:
This man is master in spiritualism.
ایک اور عیسائی بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ اسلام اور عیسائیت پر گفتگو ہوئی تو میں نے ان سے عرض کیا۔ جناب! ہم عیسائیوں کی نسبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم علیہ السلام کو زیادہ فضیلت دیتے ہیں۔ ہمارے قرآن میں ایک Chapterکا نام ہی Marryہے۔ وہ اصرار کرتے رہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں جس مسلمان گھر میں مقیم تھا ان سے کہا قرآن کا انگریزی ترجمہ لے آئیں لیکن وہاں تاج کمپنی کے علاوہ دوسرا قرآن نہیں تھا۔ اس طرح میری بات کا وزن قائم نہیں ہو سکا۔
برمنگھم میں دو پادری خواتین(Nuns) آئیں اور تبلیغ شروع کر دی۔ میں نے ان سے پوچھا۔ اس وقت مسیح کہاں ہیں۔ ان کا جسم جو صلیب سے اتارا گیا تھا کہاں ہے؟
بولیں! مسیح کہاں نہیں ہیں؟
میں نے پوچھا، نظر کیوں نہیں آتے۔
کہنے لگیں۔ روح بھی کہیں نظر آتی ہے۔
میں نے پوچھا۔ تم کیا ہو؟
وہ خاموش ہو گئیں۔ بات آگے بڑھی تو ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ مرنے کے بعد روح روح کو دیکھتی ہے۔ میں نے کہا! اگر تم اپنی روح سے واقفیت حاصل نہیں کرو گی تو مسیح کو نہیں دیکھ سکو گی۔ بدمزہ سا منہ بنا کر تنک کر بولیں۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم آپ کی باتیں سنیں۔ میں نے کہا سسٹر! میں بھی کوئی بیکار آدمی نہیں ہوں مجھے کیا ضرورت ہے کہ تمہاری غیر حقیقی باتوں میں اپنا وقت برباد کروں۔ آپ میری بات سنیں گی میں آپ کی بات سنوں گا۔ انہیں جیسے کرنٹ لگ گیا اور تیزی کے ساتھ دونوں گھر سے باہر نکل گئیں۔
نیو یارک میں ایک لڑکی آئی۔ بولی، آپ بزرگ(Saint) ہیں۔ میں یقین رکھتی ہوں کہ Jesusخدا کا بیٹا(Son of God) ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، میں کہہ سکتا ہوں کہ Marry(حضرت مریم علیہ السلام) خدا کی بیوی (Wife of God) ہیں۔ وہ غصہ سے لال پیلی ہو گئی اور مجھے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ میں نے نہایت نرم لہجے اور محبت سے کہا۔ تم میری بیٹی کے برابر ہو۔ بات کو غصہ سے نہیں نرمی اور پیار سے سمجھنے کی کوشش کرو، ’’جب اللہ کا کوئی بیٹا ہو سکتا ہے تو اللہ کی بیوی بھی ہو سکتی ہے۔‘‘
وہ بہت دلبرداشتہ ہو کر چلی گئی اور ایک ہفتے بعد دوبارہ واپس آئی۔ کہا‘ میں نے کئی پادریوں سے یہی سوال کیا۔
جب خدا کا بیٹا ہو سکتا ہے تو خدا کی بیوی کیوں نہیں ہو سکتی؟
وہ لوگ مجھے مطمئن نہیں کر سکے۔ اب میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں لیکن چند شرائط ہیں۔
۱) میری ماں بوڑھی ہے میں اسے نہیں بتائوں گی کہ میں مسلمان ہوں اس لئے کہ وہ اس خبر سے مر جائے گی۔
۲) میں برقعہ نہیں اوڑھوں گی۔ مسلمان پادری کہتے ہیں کہ برقعہ اوڑھنا ضروری ہے جب کہ یہاں مسلمان خواتین کھلے سر پھرتی ہیں۔
مغربی دنیا کا ایک اور واقعہ سن لیجئے۔ ایک کثیر الاشاعت اخبار کی نمائندہ آئی۔ مجھ سے انٹرویو کیا۔ پہلے رنگوں کے اوپر بات ہوئی کہ رنگ ہی ساری کائنات کی اصل ہیں اور رنگوں کے امتزاج سے کائنات میں نوعوں کا وجود قائم ہے۔ قصہ مختصر وہ بظاہر بہت متاثر ہو کر گئی اور کہا رنگوں کی یہ عجیب و غریب تھیوری ہم آئندہ بدھ کو اخبار میں شائع کرینگے۔ بات ایڈیٹر سے ڈائریکٹر تک پہنچی پھر بورڈ بیٹھا۔ اور انٹرویو شائع نہیں ہوا۔ انہوں نے باقاعدہ معذرت کی کہ بورڈ کی رائے یہ ہے کہ انٹرویو شائع نہ کیا جائے۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ انٹرویو اس لئے شائع نہیں ہوا کہ وہ اپنے عوام کو یہ نہیں بتانا چاہتے تھے کہ کوئی مسلمان رنگوں کی عجیب و غریب کائناتی تھیوری جانتا ہے۔
میں نے دیکھا اور جانا ہے کہ مغربی دنیا کے عوام کو صحیح حقائق معلوم نہیں ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پالیسی کے تحت عوام سے حقائق کو چھپایا جاتا ہے اور عوام کو اسلام کی حقانیت سے بے بہرہ رکھا جاتا ہے۔ ان عوامل میں ہم مسلمانوں کا بھی قصور ہے۔ مسلمان اس معیار سے بہت زیادہ پست ہیں جس معیار پر زندگی گزارنے کی اسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے۔ مغرب نے جان بوجھ کر اسلام کو Mohammadanismکا نام دیا ہے اور اس کی بے پناہ تشہیر کی گئی ہے تا کہ لوگ یہ سمجھیں کہ قرآن محمدﷺ کا کلام ہے اور اسلام محمدﷺ کا بنایا ہوا دین ہے۔ یہ ایک سازش ہے جو اسلام کے خلاف پوری شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔
مسلمان قوم کی زبوں حالی اور ابتری کا حال یہ ہے کہ اب ہم علم میں بھی یورپ اور مغربی دنیا کے محتاج بن گئے ہیں۔
قرآن کریم کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ خواب اور بیداری زندگی کے دو نصف حصے ہیں مگر ہمارے دانائے فرنگ اور دانشوروں پر مغرب کی چھاپ اتنی گہری ہے کہ فرائڈ کو نفسیات اور خواب کا بابائے آدم تصور کیا جاتا ہے جب کہ وہ نفسیاتی اور جنسی مریض کے علاوہ کچھ نہیں۔
سائنس دانوں نے جب دیکھا کہ عیسائی علماء سائنسی ترقی میں حارج ہوتے ہیں تو انہوں نے مذہب کو سائنس سے الگ کر دیا۔ سائنس اور مذہب کے تقابلی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بائبل کے مفسرین اور سائنس کے اسکالروں کے مابین شدید اختلاف ہے۔ اس کے برعکس قرآن ایک ایسی الہامی کتاب ہے جس میں زندگی کے تین رخ متعین کئے گئے ہیں۔
۱) اصول معاشیات۔ تمدن اور زندگی گزارنے کے طور طریقے۔
۲) تاریخ۔ جو ماضی میں بسنے والی قوموں کی عروج و زوال کے حقائق منکشف کرتی ہے۔
۳) معاد۔ یعنی اس دنیا کے پیچھے اور اس دنیا کے آگے ایک اور دنیا ہے۔ چھپی ہوئی دنیا ہی سے خیالات(Information) موصول ہو رہی ہے۔ ان اطلاعات میں مستقبل کے راز بھی ہیں اور ہر قسم کی سائنسی ترقی کے فارمولے بھی ہیں۔ یہ فارمولے ہر آن ہر لمحہ نشر ہو رہے ہیں۔
’’صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے‘‘
جو قوم اور قوم کا جو فرد ان نشر(Inspire) ہونے والے فارمولوں کو تلاش کر لیتا ہے تو نئی نئی سائنسی ایجادات عملاً سامنے آ جاتی ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
خانوادہ سلسلہ عظیمیہ جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب ایک معروف صوفی بزرگ اور بین الاقوامی اسکالر ہیں ۔نوع انسانی کے اندربے چینی اوربے سکونی ختم کرنے انہیں سکون اورتحمل کی دولت سے بہرورکرنے ، روحانی اوراخلاقی اقدار کے فروغ لئے آپ کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں ۔آپ نے موجودہ دورکے شعوری ارتقاء کو سامنے رکھتے ہوئے روحانی وماورائی علوم اورتصوف کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق پیش کیا ۔آپ نے تصوف ، روحانیت ، پیراسائیکالوجی ،سیرت طیبہ ﷺ، اخلاقیات ، معاشرتی مسائل اورعلاج معالجہ سے متعلق 80 سے زائد نصابی اورغیر نصابی کتب اور80کتابچے تحریر فرمائے ہیں۔آپ کی 19کتب کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں جن میں انگریزی، عربی،روسی ، تھائی، فارسی،سندھی، پشتو،ہندی ، اسپینش اورملائی زبانیں شامل ہیں ۔ دنیا بھرمیں روحانی علوم کے متلاشی لاکھوں مداح آپ کی تحریروں سے گزشتہ نصف صدی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں۔ عظیمی صاحب کا طرز تحریر بہت سادہ اوردل نشین ہے ۔ان کی تحریرکی سادگی اوربے ساختہ پن قاری کے دل پر اثر کرتاہے ۔
کتاب" قوس وقزح"روحانی وماورائی علوم پر تحریرکردہ آپ کے 14کتابچوں کا مجموعہ ہے ۔