Topics

موت سے واپسی


                دستخط کرنے کے بعد……اس نے وصیت نامہ جیلر کے سپرد کر دیا……جیلر نے بغیر پڑھے دستور کے مطابق اس بات کی تصدیق کر دی……کہ موت کی سزا پانے والے نے اس کے سامنے یہ وصیت نامہ لکھا ہے۔ اس کے بعد اس نے ……اسے تہہ کر کے اپنی جیب میں رکھ لیا اور دو سپاہیوں کو اشارہ کیا……سپاہیوں نے آگے بڑھ کر گھنشام کو کوٹھری سے باہر نکالا اور تختہ دار کی جانب لے چلے۔

                ٹھیک پونے پانچ بجے اسے سفر آخرت پر روانہ ہونا تھا……اور جس وقت گھنشام کو تختہ دار پر کھڑا کیا گیا تو ساڑھے چار بج چکے تھے۔ مجسٹریٹ……جیلر……ڈاکٹر……جلاد……سبھی موجود تھے……گھنشام زیر لب بڑبڑا رہا تھا……شاید وہ کلمہ طیبہ پڑھ رہا تھا……جلاد نے آخری بار پھندے کا جائزہ لیا اور ٹھیک چار بج کر پینتیس منٹ پر اس کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھ کر اسے کالی ٹوپی پہنا دی جس سے گردن تک کا حصہ چھپ گیا۔ پھر جلاد نے پھندہ اس کے گلے میں ڈال دیا۔

                اب گھنشام کی موت میں صرف دس منٹ باقی رہ گئے تھے……میں دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ ‘‘اللہ رکھی’’ کی پیش گوئی غلط ثابت ہونے والی ہے……بلکہ مجھے تو یقین ہو گیا تھا کہ اب اللہ رکھی کیا منہ دکھائے گی……وقت اپنی تیز رفتار سے گزر رہا تھا۔ جیلر اور مجسٹریٹ کی نگاہیں کلائیوں پر بندھی ہوئی گھڑیوں پر جمی ہوئی تھیں……کہ اچانک ایک آواز بلند ہوئی……رک جائو……رک جائو۔

                مجسٹریٹ اور جیلر نے ایک ساتھ اس آواز کی جانب دیکھا……دوڑتا ہوا آنے والا اسسٹنٹ جیلر تھا……اس نے قریب پہنچ کر ہانپتے ہوئے بتایا……کہ جیل کے آفس میں ابھی ابھی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا فون آیا ہے کہ فی الحال گھنشام کی سزائے موت روک دی جائے۔ اور وہ آپ دونوں سے بات کرنا چاہتے ہیں……جیلر کو اس بات کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ بہرحال اس نے جلاد کو سختی سے ہدایت کی……کہ اس کے آنے تک سزائے موت نہ دی جائے اور نہ ہی مجرم کو تختہ دار سے اتارا جائے……میں یہ سن کر حیرت زدہ رہ گیا……مجھے اپنے شعور پر یقین نہیں آ رہا تھا……اللہ رکھی کی پیش گوئی صحیح ثابت ہو رہی تھی۔

                میری نگاہیں برابر ان کے تعاقب میں تھیں……جیلر نے فون پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے بات کی……اسے حکم دیا گیا……گھنشام کی سزائے موت……تاحکم ثانی ملتوی کر دی جائے۔ حکم ملتے ہی وہ تیز تیز قدم اٹھائے ہوئے پھانسی گھر آئے اور جلاد کو حکم دیا۔ فی الحال مجرم کو تختہ دار سے اتار کر واپس کوٹھڑی میں بھیج دیا جائے……حکم پاتے ہی جلاد نے گھنشام کے گلے سے پھانسی کا پھندہ نکال دیا۔ اس کے چہرہ سے سیاہ ٹوپی اتار لی گئی اور ہاتھ کھول کر واپس کوٹھڑی میں بھیج دیا گیا……گھنشام کی سمجھ میں خود نہیں آ رہا تھا کہ موت اتنے قریب آ کر پھر دور کیسے ہو گئی۔ کوٹھڑی میں پہنچتے ہی اس نے سجدہ شکر ادا کیا۔ اور پھر وہ اللہ کی حمد و ثناء میں مشغول ہو گیا۔

                اب میں اپنی آنکھیں کھولنا چاہتا تھا۔ لیکن مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا……کہ میں انہیں کھولنے پر قدرت نہیں رکھتا……اس کے ساتھ ہی میرے شعور میں تجسس کی لہریں ابھرنے لگیں……میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ گھنشام کی سزائے موت کیونکر ملتوی کر دی گئی……میری نگاہوں کے سامنے ایک بار پھر ‘‘وقت’’ دہرایا جانے لگا۔

                جس رات گھنشام کو پھانسی دی جانے والی تھی……اسی دن……تھانہ میں ایک نوجوان شخص داخل ہوا۔ اور اس نے واشگاف الفاظ میں اصرار کیا کہ اسے دو سال قبل قتل کیے جانے والے سلیمان کھوسہ کے جرم میں گرفتار کیا جائے۔ اور گھنشام کو جسے آج رات ‘‘پھانسی’’ دی جانے والی ہے چھوڑ دیا جائے……کیونکہ وہ بے قصور ہے اور……میں اصل مجرم ہوں۔

                پہلے تو تھانیدار کو اس شخص کی دماغی صحت پر شک ہوا……لیکن جب اس شخص نے قسم کھاکر کہا……کہ اصل مجرم وہی ہے اور گھنشام کو بے قصور سزا دی جا رہی ہے۔ تو تھانیدار اسے ساتھ لے کر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر میں پہنچ گیا……اس زمانے میں کیونکہ ہندوستان سے مسلمان نقل مکانی کر رہے تھے۔ اس وجہ سے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ انتظامی امور کے سلسلے میں دفتر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اس لیے ان دونوں کو انتظار کرنے کو کہا گیا……جوں……جوں وقت گزرتا جا رہا تھا ……نوجوان کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھاوہ وقت گزرنے کے ساتھ……ساتھ تھانیدار سے اصرار کرتا جا رہا تھا……کہ اسے گرفتار کر لیا جائے……ورنہ گھنشام بے قصور موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔

                جب اس نوجوان کا اصرار التجا کی صورت اختیار کر گیا تو تھانیدار نے چند آدمیوں کی موجودگی میں اس نوجوان کا بیان قلمبند کر لیا۔

                اس نوجوان نے بتایا کہ ……میں بدین کے فلاں گائوں……کا رہنے والا ہوں……میرا نام رحیم بخش کھوسہ ہے۔ سلیمان کھوسہ میرا بہنوئی تھا۔ پاکستان بننے سے کچھ عرصہ قبل اس کی شادی میری بہن سے ہوئی تھی……ایک لڑکے کی پیدائش کے بعد جب یکے بعد دیگرے دو لڑکیاں پیدا ہوئیں تو وہ گائوں چھوڑ کر شہر چلا آیا۔ اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ اس دوران پاکستان بن گیا۔ میرے ماں باپ اس کا انتظار کرتے کرتے مر گئے……لیکن اس کا کہیں پتہ نہ چلا۔ آخر کار ایک دن وہ کسی کام سے کراچی آیا۔ اور جب ‘‘کینٹ اسٹیشن’’ سے ٹرام میں بیٹھا تو اس نے اپنے بہنوئی سلیمان کھوسہ کو پہچان لیا……وہ ٹرام ڈرائیور تھا……وہ اپنے بہنوئی سے ملا۔ اور اسے گھر کے تمام حالات بتا کر بیوی بچوں کو ساتھ رکھنے کو کہا……کیونکہ وہ خود ایک کسان تھا اور اس کی آمدنی نہیں تھی کہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ بہن کے بچوں کی بھی پرورش کر سکتا……سلیمان کھوسہ اسے اپنے گھر لایا……اس کی خاطر مدارت کی اور وعدہ کیا کہ چند دن بعد وہ چھٹی لے کر گائوں آئے گا۔ اور اپنی بیوی بچوں کو ساتھ لے آئے گا۔

                رحیم بخش ایک رات اس کے گھر ٹھہرا۔ اور دوسرے دن خوشی خوشی گائوں لوٹ گیا۔ گائوں پہنچ کر اس نے اپنی بہن کو سلیمان کے ملنے کی خوشخبری سنائی۔ اس کی بہن اور بچے بہت ہی خوش ہوئے۔ اور اس کی آمد کا انتظار کرنے لگے……لیکن وہ پھر نہیں آیا……بلکہ تین ماہ بعد اسے ایک خط ملا جس میں سلیمان کھوسہ نے لکھا تھا……کہ وہ نہیں آئے گا۔ اور اس کی بہن آزاد ہے۔ میں نے اسے طلاق دے دی ہے۔ وہ جس سے چاہے شادی کر لے……بہن نے یہ سنا تو غش کھا کر گر گئی اور تین دن بے ہوش رہنے کے بعد انتقال کر گئی……طلاق سن کر وہ بھی مشتعل ہو گیا تھا لیکن جب بہن اس صدمہ سے جانبر نہ ہو سکی تو اس کے سینے میں انتقام کی آگ بھڑ ک اٹھی۔ اور اس نے سلیمان کھوسہ کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس مقصد کی خاطر اس نے اپنی کلہاڑی پر نئی دھار لگوائی۔

                وہ رات کو کراچی پہنچا تھا……اور جب وہ سلیمان کھوسہ کے گھر پہنچا تو گھنشام اس کے گھر میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا……پھر جب وہ اٹھ کر چلا گیا……تو وہ گھر میں داخل ہوا……سلیمان کھوسہ پہلے تو اسے دیکھ کر گھبرا گیا……لیکن پھر بہانہ بنانے لگا۔

                رحیم بخش خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا……اسے اپنے بہنوئی کی کسی بھی بات پر اعتبار نہیں آ رہا تھا۔ لہٰذا جونہی سلیمان کھوسہ بات ختم کر کے پلنگ کی طرف مڑا……اس نے کلہاڑی کا بھرپور وار کیا۔ سلیمان بغیر کوئی آواز نکالے پلنگ پر اوندھے منہ جا گرا……رحیم بخش نے اپنی بہن کا انتقام لے لیا تھا……لیکن پھر……وہ قانون کی گرفت میں آنے کے خیال سے خوفزدہ ہو گیا……لہٰذا……اس نے اندر سے کنڈی لگائی اور دیوار پھلانگ کر بھاگ نکلا……وہ کچھ عرصہ تک اپنے ایک دوست کے گھر چھپا رہا۔ اور جب اسے اخبارات کے ذریعہ علم ہوا……کہ سلیمان کھوسہ ٹرم ڈرائیور کے قتل کے الزام میں……اس کے ہندو پڑوسی ‘‘گھنشام’’ کو گرفتار کر لیا گیا ہے……تو اسے اطمینان ہوا……اور وہ واپس اپنے گائوں چلا گیا۔

                سلیمان کھوسہ کے قتل کی روئیداد گاہے بگاہے اخبارات میں چھپتی رہتی تھی۔ اور رحیم بخش جب بھی بدین شہر آتا تھا۔ اخبارات کے ذریعہ اس مقدمہ کے بارے میں معلومات حاصل کر لیا کرتا تھا ڈیڑھ سال بعد……جب اس مقدمہ کا فیصلہ سنایا گیا تو اسے اخبارات کے ذریعہ پتا چلا……کہ عدالت نے ‘‘گھنشام’’ کو سزائے موت دے دی ہے۔ وہ بہت ہی خوش ہوا……لیکن جب اسے پتا چلا کہ گھنشام کی رحم کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے تو اس کا ضمیر جاگ اٹھا……احساس جرم اس کے ضمیر کو ہچکولے دینے لگا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا……کہ اس کے جرم کی سزا میں ایک بے گناہ مارا جا رہا ہے……وہ پنے ضمیر کی ملامت برداشت نہ کر سکا……اور جرم کا جو خوف اس کے ذہن پر چھایا ہوا تھا یکسر ختم ہو گیا……وہ ریل گاڑی میں بیٹھا اور سیدھا کراچی چلا آیا……وہ جس رات کراچی پہنچا تھا۔ اسی رات گھنشام کو پھانسی دی جانے والی تھی……وہ بھاگم بھاگ علاقہ کے تھانیدار کے پاس پہنچا اور اسے تمام حقیقت حال بتائی۔

                تھانیدار اس کی بات سن کر عجیب طرح کے شش و پنج میں پڑ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے……اصل مجرم ظاہر ہو چکا تھا اور اس کے ظاہر ہونے سے قتل کے اس مقدمہ کی نوعیت بالکل ہی بدل گئی تھی……اگر وہ ……اب اصل مجرم کو قانون کی گرفت میں لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے مقدمہ کی صحیح تفتیش نہیں کی……اور اس طرح غلط کارروائی کے جرم میں اس کی نوکری جانے کا بھی خطرہ تھا……لیکن دوسری جانب اس کا ضمیر اس بات پر اصرار کر رہا تھا کہ جب اصل مجرم ظاہر ہو گیا ہے……تو بے گناہ گھنشام کو موت کی سزا کیوں ملے……کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ تو صرف دنیاوی معمولات ہیں جن سے باآسانی نبٹا جا سکتا ہے……لیکن اگر واقعی گھنشام کو پھانسی ہو گئی اور روز محشر گھنشام نے اسے پکڑ لیا……تو……تو وہ اپنے خدا کو کیا منہ دکھائے گا۔ یہ سوچ کر بالآخر……تھانیدار نے اپنے ضمیر کے آگے ہتھیار ڈال دیئے……اس نے گھنشام کو بچانے اور اصل مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس مقصد کی خاطر اس نے رحیم بخش کا حلفیہ بیان قلمبند کیا اور اسے لے کر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت کی طرف چل دیا۔

                عدالت کا وقت ختم ہو چکا تھا……دفتر کے لوگوں سے پتا چلا کہ……ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ باہر گئے ہوئے ہیں اب تھانیدار کی بھی یہ کوشش تھی کہ گھنشام کی زندگی بچ جائے……لہٰذا وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا انتظار کرنے لگا……وقت گزرتا رہا……اور……دفتر والے بھی گھر جانے لگے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اب مجسٹریٹ صاحب دفتر میں نہیں آئیں گے۔

                تھانیدار نے ایک شخص سے مجسٹریٹ کا پتہ لیا۔ اور رحیم بخش کو ساتھ لے کر ان کی طرف چل پڑا۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ گھنشام کی زندگی کو بچانا تھا۔ اور تھانیدار جانتا تھا کہ ……کہ فوری طور پر پھانسی کو صرف ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہی رکوا سکتا ہے……اور وہ یہ انتہائی اقدام اسی وقت کر سکتا تھا جب کہ اس کے پاس پھانسی والے شخص کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہو……تھانیدار کے ساتھ رحیم بخش ایک ایسے ثبوت کے طور پر موجود تھا جو کہ خود اپنے جرم کا اقرار کر رہا تھا……لہٰذا……وہ اسے ساتھ لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا

                جس وقت تھانیداراصل مجرم کو لے کر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے بڑے سے مکان میں داخل ہوا تو رات کی سیاہ چادر پھیل چکی تھی……نیلے آسمان پر ستارے جگمگا رہے تھے۔ لیکن رحیم بخش کی قسمت کا ستارہ تاریک تھا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اردلی نے بتایا……کہ صاحب کھانا کھاکر باہر نکل گئے ہیں۔

                تھانیدار اور رحیم بخش یہ سن کر بہت مایوس ہوئے۔ لیکن انہوں نے باہر ورانڈے میں بیٹھ کر انتظار کرنے کا فیصلہ کر لیا……اس عرصہ میں رحیم بخش پر اضطرابی کیفیت طاری رہی……کبھی وہ اٹھتا اور بے چینی سے ٹہلنے لگتا……کبھی وہ بیٹھتا اور پھر فوراً ہی ٹہلنے لگتا……ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ سخت ذہنی الجھن میں مبتلا ہے۔

                رات کو تقریباً بارہ بجے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی گاڑی کوٹھی میں داخل ہوئی۔ اور جب انہوں نے ورانڈے میں ایک پولیس افسر اور عام شہری کو بیٹھا دیکھا تو گاڑی سے اتر کر انہی کی طرف چلے آئے۔

                تھانیدار نے سلام کرنے کے بعد انہیں رحیم بخش سے متعلق تمام تفصیل بتائی……ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے بھرپور نظروں سے جائزہ لیا۔ اور پھر بڑی ہی حقارت سے بولے……یہ جھوٹ بکتا ہے۔

                رحیم بخش ہاتھ جوڑکر بولا……حضور ایک ہندو کے لیے میں جھوٹ نہیں بول سکتا لیکن کیا کروں……میرے دل سے یہ آواز نکلتی ہے کہ تو بزدل ہے……قتل تو نے کیا ہے اور سزا ایک بے قصور کو مل رہی ہے……جب سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے گھنشام اب نہیں بچ سکتا……میرا سکون تباہ ہو کر رہ گیا ہے……خدا کے لیے میرا یقین کریں……سلیمان کو میں نے قتل کیا ہے……میں نے……کیونکہ اس نے میری بہن کی زندگی برباد کر دی تھی……وہ سہاگن ہو کر بھی بیوہ کی طرح زندگی گزار رہی تھی۔

                آخری جملہ پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ چونکا……اس نے رحیم بخش کا سرسے لے کر پائوں تک جائزہ لیتے ہوئے پوچھا……سلیمان کا تیری بہن سے کیا تعلق تھا۔

                جواب میں رحیم بخش نے شروع سے آخر تک کے واقعات سنا دیئے۔

                ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے بڑی ہی توجہ سے واقعات سنے……اس کی دوران ملازمت بارہا ایسا ہوا کہ قتل یا چوری کا اصلی ملزم عین وقت پر ظاہر ہوا۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ جرم کرنے کے بعد قانون کے ڈر سے روپوش ہو جاتا ہے۔ لیکن جب اس کے بجائے کسی بے گناہ کو سزا دی جاتی ہے تو اس کے اندر کا سویا ہوا بہادر انسان جاگ اٹھتا ہے……اور اس وقت بھی ایسا ہی تھا……لیکن وہ نفسیاتی طور سے چاہتا تھا کہ رحیم بخش کے جذبات کو اس قدر مشتعل کر دے کہ مقدمہ کی دوبارہ سماعت کے دوران وہ کہیں بھی انحراف نہ کر سکے۔

                یہی وجہ تھی کہ اس نے تھانیدار کو معنی خیز انداز میں آنکھ سے اشارہ کیا۔ اور یہ کہتا ہوا اندر چلا گیا……یہ گھنشام کو بچانا چاہتا ہے۔

                اس کے جانے کے بعد رحیم بخش چند لمحہ بند دروازہ تکتا رہا۔ پھر اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی اور وہ زور زور سے چلانے لگا……گھنشام کوئی میرا رشتہ دار ہے جو اسے بچائوں گا……ارے وہ بنیا کیا کسی کو قتل کرے گا……سلیمان اس کی نہیں ، میری بہن کا شوہر تھا……سلیمان کو میں نے قتل کیا ہے……تم لوگ مجھے نہیں پکڑ سکتے ہو……اپنی عزت بچانے کے لئے اس بے قصور کو سزائے موت دے رہے ہو……

                اور ا س کے علاوہ بھی وہ نہ جانے کیا کیا کہتا رہا……اندر کمرہ میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ خاموشی سے کرسی پر بیٹھا سنتا رہا۔ اور جب اسے پوری طرح یقین ہو گیا کہ اب اصل قاتل اپنے بیان سے کبھی بھی نہیں پھرسکے گا……اور وہ شدت احساس جرم کی وجہ سے ہر سزا قبول کر لے گا……تو اپنے کمرہ سے باہر نکلا۔

                رحیم بخش نے اسے دیکھتے ہی پائوں پکڑ لیے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ میرے پائوں چھوڑو۔ اور یہ بتائو کہ تم نے اسے کس طرح قتل کیا تھا۔

                رحیم بخش نے من و عن وہی بیان دوہرایا جو کہ وہ تھانیدار کو لکھوا چکا تھا……ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے بیان پر اس کے دونوں انگوٹھے لگائے۔ اور دبدبہ سے بولا……اگر تیرا بیان غلط ہوا تو ساری عمر کے لئے جیل بھیج دوں گا۔

                یہ دو زندگیوں کا معاملہ تھا……ایک کو موت کی تمنا تھی۔ اور دوسرے سے بے قصور زندگی چھینی جا رہی تھی۔ ایسے موقعہ پر ذمہ دار افسران بڑی ہی سوجھ بوجھ سے کام لیتے ہیں۔

                بہرحال……گھنشام موت کی دہلیز سے واپس لوٹ آیا تھا اور جیل کے دروازہ پر کھڑے ہوئے اس کے رشتہ داروں کو اطلاع دے دی گئی……کہ فی الحال اس کی موت پر……عمل درآمد روک دیا گیا ہے……یہ خوشخبری سن کر اس کے رشتہ داروں کی منہ سے حیرت و خوشی سے چیخیں نکل گئیں……ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا……یہ سب کس طرح ہو گیا۔

                گھنشام کی بیوی ابھی تک نہیں پہنچی تھی……رشتے دار اس کے انتظار میں کھڑے رہے……وہ صبح صادق کے وقت واپس پہنچی۔ اس کے دل و دماغ پر امید و بیم کی کیفیت طاری تھی……اس کا خیال تھا کہ گھنشام کی لاش باہر کھڑے ہوئے لوگوں کو مل چکی ہو گی۔ لیکن جب دور سے اس نے رشتہ داروں کو خالی کھڑے دیکھا تو سمجھی کہ لاش کو گھر بھیج دیا گیا ہے۔ اور اب……یہ سب اس کے انتظار میں کھڑے ہیں۔

                سہاگ اجڑنے کا خیال آتے ہی وہ چیخ مار کر گاڑی ہی میں رونے لگی……رشتے دار دوڑتے ہوئے اس کے قریب پہنچا اور کہا……اری نیک بخت! بھگوان نے تیرا سہاگ بچا لیا ہے۔ گھنشام کی سزا روک دی گئی ہے۔

                اس نے جونہی یہ بات سنی تو ایک لمحہ کے لئے سکتہ طاری ہو گیا……جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو……پھر وہ دوسرے ہی لمحہ خوشی سے ‘‘اللہ رکھی’’ کہتی ہوئی زمین پر ایسے گرگئی جیسے سجدہ میں اللہ کا شکر ادا کر رہی ہو۔

                تمام رشتہ دار پریشان ہو گئے……کہ یہ اللہ رکھی کون ہے……پھر انہوں نے اسے سجدہ سے اٹھایا……اور پھر……سب اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے۔

                وہ صبح ان سب کے لئے خوشی کا پیغام لے کر آئی……عدالت میں رحیم بخش کو پیش کیا گیا جس نے عدالت میں اقبال جرم کر لیا……جج نے فوری طور سے گھنشام کو بری کرنے کے احکام جاری کر دیئے۔گھنشام رہا ہونے کے بعد سیدھا گھر پہنچا تو تمام رشتہ دار خوشی سے گلے ملے……گھنشام نے بتایا کہ ……سلیمان کھوسہ کا اصل قاتل اس کا بہنوئی تھا۔ اور اس نے عدالت میں پہنچ کر خود ہی اقبال جرم کر لیا۔ گھنشام کے آنے سے قبل……اس کی بیوی رشتہ داروں کو بتا چکی تھی……کہ وہ اپنے شوہر کے کہنے پر ‘‘اللہ رکھی’’ کے پاس گئی تھی۔ جو کہ بھگوان کی اوتار ہے اور اس نے یہ خوشخبری سنائی تھی……کہ تیرا سہاگ بچ جائے گا……ابھی اس کے مرنے کا ‘‘وقت’’ نہیں آیا ہے……یہ سن کر تمام رشتہ داروں کے دل میں اللہ رکھی کے لئے عقیدت پیدا ہو چکی تھی……اور وہ سب اس کے پاس جانے کی سوچ ہی رہے تھے کہ گھنشام بھی رہا ہو کر پہنچ گیا۔

                گھنشام نے جب یہ سنا تو وہ قدرے ناراضگی سے اپنی بیوی سے بولا……اگر تو شروع ہی سے میری بات مان لیتی اور ‘‘اللہ رکھی’’ سے مل لیتی تو میں کب کا چھوٹ چکا ہوتا۔

                پھر وہ بڑے فخر و غرور سے بولا……تو اسے نہیں جانتی اللہ اس کی بات سنتا ہے اور اس کی دعا قبول کرتا ہے۔ پھر وہ جوتے سنبھالتے ہوئے بولا……میں پہلے اس کے چرن چھو کر آتا ہوں۔

                اسے جاتا دیکھ کر بیوی نے کہا……ٹھہرا……میں بھی چلوں گی……اور پھر……تھوڑی دیر بعد ہی دونوں میاں بیوی دوسرے رشتہ داروں کے ہمراہ‘‘اللہ رکھی’’ کی طف روانہ ہو گئے۔

                وہ سب تخت پر بیٹھے ہوئے ‘‘اللہ رکھی’’ کا انتظار کر رہے تھے۔ پھر کچھ دیر بعد……جونہی اللہ رکھی دروازہ سے نمودار ہوئی……گھنشام اور اس کی بیوی نے دوڑ کر اس کے قدموں میں سر رکھنا چاہا……لیکن اس نے دونوں کو روک دیا۔ اور تخت پر بیٹھتے ہوئے گھنشام سے بولی……تم پر اتنی زبردست مصیبت آ پڑی اور مجھے خبر تک نہ دی۔

                مجھے اتنی مہلت ہی نہیں ملی……گھنشام نے خفت سے جواب دیا……صبح ہوتے ہی پولیس نے پکڑ لیا……اور پھر……

                تم کسی کے ذریعے اطلاع کرا دیتے……اللہ رکھی نے شکوہ کیا……پھر قدرے مسکرا کر بولی……کیا تمہارا مجھ پر ایمان نہیں تھا……کیا تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں تھا۔

                نہیں ماں جی……نہیں……گھنشام ہاتھ جوڑ کر گھگیایا……میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا……پھر وہ اپنی بیوی کی طرف غصہ بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا……میں تو اس سے بار بار کہتا تھا……کہ میری پیرو مرشد کے پاس چلی جا……لیکن یہ سادھوئوں اور پنڈتوں کے چکر لگاتی رہی۔

                یہ سن کر گھنشام کی بیوی اور رشتے دار اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ اللہ رکھی شاید ان کا مطلب سمجھ گئی تھی……لہٰذا……وضاحت کرتے ہوئے بولی……اس میں اس معصوم کا کیا قصور……اس کے شعور میں مذہب کا جو رنگ بسا ہوا ہے’ یہ تو اسی رنگ کے لوگوں کے پاس جائے گی۔

                بس ماں جی……گھنشام نے عقیدت سے اس کے پائوں پکڑ کر کہا……اب تو دل چاہتا ہے……تمہارے قدموں میں زندگی گزار دوں۔

                نہیں بھئی……نہیں……اللہ رکھی نے اپنے پائوں سمیٹتے ہوئے جواب دیا۔ تمہاری بیوی ہے۔ بچے ہیں……ان کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارو……اللہ نے تمہیں نئی زندگی دی ہے۔ اس کا شکر ادا کرو۔ اپنی نبیﷺ کی نیاز کرائو۔

                آخری جملے پر گھنشام کی بیوی چونکی……اس نے نظر بھر کر اپنے شوہر کو دیکھا۔ جیسے بات سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو……پھر……پھر اللہ رکھی کے قدموں میں جھکتے ہوئے بولی……میں بھی مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔

                الحمدللہ……اللہ رکھی نے اسے شانوں سے اٹھاتے ہوئے جواب دیا……تمہارا شوہر پہلے ہی اس سعادت سے فیض یاب ہو چکا ہے۔ اور اب یہ نعمت تمہیں بھی حاصل ہو گئی ہے۔

                اس کے بعد……اللہ رکھی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھے رکھے کلمہ پڑھایا۔ اور چند اسلامی رکن بتائے۔ اس کے بعد……جب اس نے ہاتھ ہٹایا تو گھنشام کی بیوی کے چہرہ پر نور پھیلا ہوا تھا……حق اور سچائی کا نور……وہ باطل کے اندھیروں سے نکل آئی تھی۔

                اتنی دیر میں ایک نہایت ہی وجیہہ شکل نوجوان نیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس’ مٹھائی لے کر آ گیا اور اس نے مٹھائی کی پلیٹیں تخت پر ان سب کے سامنے رکھنا شروع کر دیں……اسی لمحہ……اسی ساعت میری آنکھ خود بخود کھل گئی اور میں یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا……کہ کمرہ کے دروازہ سے دھوپ اندر آ رہی ہے۔

                جب کہ ابھی ابھی……میں نے جو آخری منظر دیکھا تھا……وہ رات کا تھا۔

 

 

 

 

 



Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء