Topics

شاہ جی


                میں زلزلہ کی خبر پڑھ کر سخت پریشان تھا۔ میں نے اپنے اطراف میں لوگوں کو دیکھا……ٹھٹھہ کے باشندوں کے چہروں پر بھی زلزلہ کی وحشت نمایاں تھی……میں وقت گزارنے کی خاطر بس اسٹاپ کے قریب ہی واقع ایک چھوٹے سے ہوٹل میں چلا گیا……وہاں جا کر معلوم ہوا کہ کراچی سے بسیں دیر میں آ رہی ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر لوگ زلزلہ سے متاثرین کی امداد میں لگے ہوئے ہیں۔

                دن گزرتا جا رہا تھا اور ساتھ ہی میری پریشانی بھی بڑھتی جا رہی تھی……خدا خدا کر کے بعد دوپہر بدین اور سجاول سے ہوتی ہوئی ایک بس کراچی جانے کو آئی۔ اور میں اس میں سوار ہو گیا۔

                میں سہ پہر کے وقت کراچی پہنچا۔ اور سیدھا اللہ رکھی کے گھر کی طرف چل دیا……جب میں بستی میں پہنچا یہ دیکھ کر کپکپا اٹھا……کہ بیشتر مکانات ملبہ کا ڈھیر ہو چکے ہیں اور ریڈ کراس والے ملبہ کے نیچے دبے ہوئے انسانوں کو نکالنے میں مصروف ہیں……میں منہدم مکانات پر نظر ڈالتا ہوا اس گلی میں داخل ہوا جس میں اللہ رکھی رہتی تھی۔ میں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ اللہ رکھی کا مکان جوں کا توں موجود ہے……میں بتا نہیں سکتا کہ اس وقت میں کس قدر خوش ہوا تھا……اور اسی خوشی میں بھاگتا ہوا مکان کے اندر داخل ہو گیا……لیکن یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ اندر کے کمرے مٹی کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں……میں نے سوچا کہ اللہ رکھی اور اس کا ملازم شمرال کہاں چلے گئے ہیں۔ پھر مجھے خیال آیا کہ کہیں وہ دونوں اس ملبہ کے ڈھیر کے نیچے تو دب گئے۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے ملبے کی اینٹوں کو ہاتھوں سے ہٹانا شروع کر دیا۔ لیکن میں اپنی اس کوشش میں جلد ہی تھک گیا اور اپنی مدد کے لئے ریڈ کراس کے آدمیوں کو بلانے کی خاطر عمارت کے باہر آ گیا۔ ابھی میں گلی میں کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ کس طرح ان لوگوں کی مدد حاصل کروں……کہ ایک جھٹکا سا لگا۔ میرے پیر کے نیچے زمین ہلی اور میں گر پڑا۔ اس کے ساتھ ہی میرے اطراف میں بچی کھچی عمارتیں بھی زمین بوس ہو گئیں……ریڈ کراس کے عملہ کے افراد بھی خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے……میں نے اس تباہ کاری کا جائزہ لینے کے بعد ان میں سے ایک شخص سے درخواست کی کہ وہ ملبے کے ڈھیر کو ہٹا دیں شاید اس کے نیچے اللہ رکھی دبی ہو……اس شخص نے میری بات سننے کے بعد کہا۔ اب یہ کام بلڈوزروں کی مدد سے کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کے لئے انتظار کرنا ہو گا۔

                ریڈ کراس والوں نے اور دوسرے صاحب حضرات نے زلزلے سے متاثرین لوگوں کے لئے کیمپ لگا دیا تھا جہاں سے ان کی غذائی ضرورت پوری کی جائے۔ کیونکہ یہ شروع سردیوں کے دن تھے لہٰذا کیمپ میں بستر وغیرہ کا بھی انتظام تھا۔ میں کیمپ میں ہی رہنے لگا اور زلزلے سے متاثرہ لوگوں کی خدمت کرنے لگا۔ یہ کیمپ تقریباً ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رہا۔ اس دوران ریڈ کراس اور دوسری امدادی پارٹیوں نے تمام مکانوں کا ملبہ صاف کر دیا۔ ملبے کے نیچے دبے ہوئے زخمیوں کو نکال لیا گیا۔ لیکن اللہ رکھی اور اس کے ملازم کا کہیں پتا نہ تھا۔ نہ ان کی لاش ملی اور نہ ہی زخمیوں میں تھے۔ میں اس صورتحال سے پریشان تھا کیونکہ میری اس کہانی کے پڑھنے والوں کو علم ہو گا کہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ صرف ایک اللہ رکھی تھی اور اللہ نے اسے بھی مجھ سے جدا کر دیا تھا۔ لیکن اللہ لا محدود وسائل کا مالک ہے۔ انہی دنوں زلزلے کے متاثرین کے لئے حکومت نے کچھ رقم تقسیم کی۔ اس رقم میں مجھے اتنا مل گیا کہ میں نے اللہ رکھی کے مکان کی جگہ ایک چھوٹی سی کٹیا بنا لی۔ جس کی چھت چٹائی اور بانس کی تھی۔ رہائش کی طرف سے مطمئن ہونے کے بعد مجھے ایک بار پھر فکر معاش نے گھیر لیا۔ اب میں صبح کو گھر سے مزدوری کرنے نکل جاتا اور دن بھر میں اتنے پیسے کما لیتا جس سے دو وقت کی روٹی کھا سکتا تھا۔

                دن اسی طرح گزر رہے تھے……میں ایک بار پھر فٹ پاتھ پر آ گیا تھا……قدرت کے اس نظام کو سمجھنا واقعی بہت مشکل ہے……اللہ تبارک و تعالیٰ تو مجھے ‘‘اللہ رکھی’’ سے ملا دیتا تھا اور کبھی جدا کر دیتا تھا لیکن اس دفعہ جن حالات میں اس سے جدا ہواتھا اس سے تو یہی معلوم ہوتا تھا……کہ شاید جدائی دائمی ہے……خیر۔

                کراچی کی سڑکوں پر مزدوری کرتے کرتے میری ملاقات ‘‘شاہ جی’’ سے ہو گئی……شاہ جی بظاہر تو بڑے ہی متقی اور عبادت گزار تھے……لیکن وہ کراچی کے نہایت ہی چھٹے ہوئے بدمعاش تھے……جس وقت کے میں حالات بیان کر رہا ہوں اس وقت کراچی اتنا وسیع نہیں ہوا تھا……البتہ وہ اپنے پر پھیلا رہا تھا۔ حکومت نئی نئی بستیاں آباد کر رہی تھی……اور صدر جیسے پررونق علاقہ میں مہاجر فٹ پاتھوں پر سامان لگا کر فروخت کیا کرتے تھے۔

                شاہ جی منحنی سے لمبے آدمی تھے……میں ان سے جب بھی ملا، وہ شیروانی اور بڑے پائینچوں کے پائجامہ میں ملبوس نظر آئے……ان کے ہال بڑے بڑے تھے۔ جو کہ ہر وقت گردن کے اطراف میں جھولتے رہتے تھے……وہ ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے لوگوں میں ایسے نوجوانوں کو تلاش کرتے تھے جن کا کوئی وارث نہیں ہوتا تھا۔ پھر ایسے شخص کی وہ دل کھول کر مدد کرتے تھے۔ اور جب وہ پوری طرح ان کا احسان مند ہوجاتا تھا۔ تو وہ اسے اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتے تھے۔ شاہ جی میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک خوبی رکھی تھی……وہ یہ کہ وہ دوچار ملاقاتوں ہیں میں اندازہ لگا لیتے تھے کہ نووارد میں کونسی صلاحیتیں موجود ہیں……اور وہ کس کام کے لئے موزوں رہے گا……پھر وہ اس سے ویسا ہی کام لیتے تھے……یہی وجہ تھی کہ ان کے گروہ میں نہایت ہی سفاک قسم کے لوگ شامل تھے۔

                اگر میں ‘‘شاہ جی’’ کے بارے میں بتانے لگوں تو اس کے لئے کئی صفحات درکار ہوں گے……لہٰذا بس مختصراً یہ سمجھ لیجئے کہ وہ ……کراچی کا بے تاج بادشاہ تھا۔

                شاہ جی……نے دو ہی ملاقاتوں میں اندازہ لگا لیا……کہ میں نہ تو کسی کو قتل کر سکتا ہوں اور نہ ہی چوری کر سکتا ہوں……شاہ جی نے مجھے اس کام کے لئے آزمایا……تو پستول ہاتھ میں آتے ہی……ہاتھ کپکپانے لگے……آخر انہوں نے مجھے ‘‘جیب کترا’’ بنانے کا فیصلہ کیا……اور اس مقصد کے لئے مجھے ‘‘لالو’’ کے حوالہ کر دیا گیا……‘‘لالو’’ ایک سن رسیدہ مکرانی تھا……اور کہتے ہیں کہ تقسیم ہند سے قبل اس کا طوطی سندھ سے لے کر بمبئی تک بولتا تھا……وہ صرف آدمی کی چال سے اندازہ لگا لیتا تھا کہ اس کی جیب میں کتنے پیسے ہیں……اور پھر……لالو سے بچ کر نہیں جا سکتا تھا……وہ اس صفائی سے جیب کاٹتا تھا……کہ جیب سے رقم نکلنے کے کافی دیر بعد احساس ہوتا تھا……کہ جیب ہلکی ہو گئی ہے۔

                میرے استاد‘‘لالو مکرانی’’ نے صرف چار ماہ کی مدت میں ایسا‘‘مشتاق’’ جیب کترا بنا دیا کہ میں ہزاروں کی رقم اڑانے لگا……میں جو رقم اڑاتا تھا……وہ ساری‘‘شاہ جی’’ لے لیتے تھے لیکن وہ میری ہر طرح کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ میری رہائش سے لے کر کھانے پینے تک کا بندوبست انہی کے ذمہ تھا۔ میری عیاشی کے اخراجات بھی وہ بخوشی پورے کرتے تھے……لہٰذا……میں اس جہنم نما زندگی کو ایک نعمت سمجھ کر خوش تھا……اور شاہ جی کو اپنا بڑا محسن سمجھتا تھا۔

                بس یوں سمجھ لیجئے……کہ میں بھی ‘‘شاہ جی’’ کے رنگ میں رنگ گیا تھا……فرق تھا تو صرف یہ تھا کہ شاہ جی عمر کے اس حصے میں داخل ہو چکے تھے کہ جہاں صرف حسن و شباب سے نظروں کے ذریعہ دل کو تسکین دی جاتی ہے۔

                میری زندگی کے شب و روز نہایت ہی پر لطف گزر رہے تھے……کہ اچانک ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے میری زندگی کا رخ بدل دیا……اور میں جو گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا تھا……ایک بار پھر……راست باز مسلمان کی طرح زندگی بسر کرنے لگا……میں اس واقعہ کو بھی ……تازیانہ خداوندی ہی سمجھتا ہوں۔ ورنہ ‘‘شاہ جی’’ تو مجھے نجانے جہنم کے کس درجہ کا آدمی بنانے پر تلے ہوئے تھے……ہوا یوں……کہ اس زمانے میں ‘‘لالو کھیت’’ نیا نیا آباد ہوا تھا۔ اور بستی میں ہر قسم کے لوگ کچے پکے مکان بنا کر آباد ہو رہے تھے……یہاں بھینسوں کا کاروبار بھی بڑے ہی زور و شور سے ہوتا تھا……میں کبھی کبھی شکار کی تلاش میں لالو کھیت آ جاتا تھا……لیکن ہمیشہ ناکام رہتا تھا……کیونکہ یہ علاقہ ‘‘شاہ جی’’ کے ایک نہایت ہی ہونہار شاگرد کا تھا۔ اور جونہی اس علاقہ میں داخل ہوتا تھا، اسے اپنے گُرگُوں کے ذریعے معلوم ہو جاتا تھا……وہ فوراً مجھ سے آکر ملتا اور ہوٹل میں بٹھا کر چائے بسکٹ سے خاطر مدارت کر کے واپس بس کے ذریعہ روانہ کر دیتا……شاہ جی نے بھی مجھے کئی بار تنبیہہ کی……کہ میں ‘‘شکار’’ کی تلاش میں دوسروں کے علاقوں میں نہ جایا کروں……انہوں نے میرے لئے صدر کا علاقہ……اور ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ ‘‘کروہڑی’’ کا علاقہ مخصوص کر دیا تھا……اور اس علاقہ میں کوئی دوسرا ‘‘جیب کترا’’ پر تک نہیں مار سکتا تھا……اور اگر کوئی ہٹ دھرمی دکھاتا تھا……تو پھر ‘‘شاہ جی’’ کوڑے سے اس کی خبر لیتے تھے۔

                ایک دن میں صدر کے ایک کیفے میں بیٹھا چائے پی رہا تھا……کہ ‘‘لالو کھیت’’ کا جیب کترا ہانپتا کانپتا میرے پاس آیا……اور ایک ‘‘سندھی’’ وضع قطع کے شخص کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا……استاد! یہ وہ شکار ہے جس کے پیچھے میں اپنے علاقہ سے لگا ہوں۔ لیکن یہ اتنا ہوشیار ہے کہ میں ہزار کوشش کے باوجود پتا نہیں چلا سکا کہ اس نے رقم کہاں چھپا رکھی ہے۔

                کتنی رقم ہے اس کے پاس……میں نے اس سے پوچھا۔

                دس ہزار……اس نے سرگوشی سے بتایا۔

                دس ہزار……میں نے اظہار تعجب کیا۔

                ہاں استاد……اس نے بتایا……یہ بھینسوں کا بہت بڑا بیوپاری ہے……یہ کوٹری میں رہتا ہے۔ آج صبح ہی اس نے میرے علاقے میں دس ہزار کی بھینسیں فروخت کی ہیں۔

                میں نے ایک نظر اس تاجر کی جانب دیکھا……وہ ‘‘اجرک’’ اپنے جسم کے گرد لپیٹے کینٹ اسٹیشن جانے والی ‘‘ٹرام’’ میں بیٹھ رہا تھا……لالو کھیت کے ‘‘جیب کترے’’ نے جلدی جلدی مجھ سے ‘‘کمیشن’’ طے کیا۔ اور پھر……میں بھی جلدی سے ہوٹل کا بل ادا کر کے باہر نکل آیا……ٹرام خراماں خراماں کینٹ اسٹیشن کی طرف روانہ ہو رہی تھی……میں دوڑتا ہوا اس پر چڑھ گیا……اور بیوپاری کے قریب نشست سنبھال لی……ٹرام میں جو حضرات بیٹھ چکے ہیں……انہیں یاد ہو گا……کہ ٹرام میں انسان کو دائیں بائیں معمولی سے جھٹکے لگتے رہتے ہیں۔ اور میرے ساتھ جب بھی ایسا ہوتا تھا……میں تقریباً اپنے ‘‘شکار’’ پر گر جاتا تھا اور اس طرح اس کے جسم سے اپنے جسم کو مس کر کے میں اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہا……دس ہزار کی پوٹلی اس نے کہاں چھپا رکھی ہے……لیکن وہ نہایت ہی چالا ک شخص تھا……میں ہزار کوشش کے باوجود پتا نہ چلا سکا۔ اور اس طرح ہم اسٹیشن پہنچ گئے۔

 

                اس وقت اسٹیشن پر خوب گہما گہمی تھی۔ کیونکہ کراچی ایکسپریس کے جانے کے وقت ہو رہا تھا۔ میرے شکار نے کوٹری کا ٹکٹ خریدا……میں اس کے ساتھ سائے کی طرح لگا ہوا تھا۔ لہٰذا میں نے بھی کوٹری کا ٹکٹ خرید لیا……اور تھرڈ کلاس کے جس ڈبے میں وہ چڑھا تھا میں بھی چڑھ گیا اور اس کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا……گاڑی اپنے مقررہ وقت پر اسٹیشن سے روانہ ہو گئی۔ میں راستے بھر اس جستجو میں رہا کہ آخر اس نے کہاں پیسے چھپا رکھے ہیں۔ بعض دفعہ میرے ذہن میں یہ خیال بھی آتا تھا کہ کہیں میرے لالو کھیت والے دوست کو اس شخص کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہ ہو گئی ہو……لیکن میرے اس خیال کی تردید فوراً ہی ایک دوسرا خیال کر دیتا کہ میرا ہم پیشہ نہ تو دھوکا کھا سکتا ہے اور نہ ہی دھوکا دے سکتا ہے……کراچی ایکسپریس اپنی رفتار سے اندرون ملک کی جانب دوڑ رہی تھی۔ اور میں چور نظروں سے اپنے شکار کا جائزہ لے رہا تھا……میرا خیال تھا کہ اسے نیند آ جائے تو میں اس کی پوٹلی پر ہاتھ صاف کر لوں……لیکن وہ بھی ایسا سخت جان تھا کہ سو نہیں رہا تھا……اس کے مسلسل جاگنے سے میرا یہ یقین اور پختہ ہو گیا کہ واقعی اس شخص کے پاس کوئی بڑی رقم ہے جبھی تو اسے نیند نہیں آ رہی ہے……تقریباً آدھی رات کے بعد اس شخص پر غنودگی سی طاری ہونے لگی۔ اس نے اپنے پائوں سامنے والی نشست پر پھیلا دیئے۔ اور اسی لمحے مجھے احساس ہوا کہ اس کے موزے بھاری ہیں……یہ صورت حال بڑی ہی خراب تھی کیونکہ موزوں میں سے پیسے نکالنا کوئی معمولی بات نہ تھی……میں نے سوچا کہ یہ چند لمحوں کے لئے بھی اگر سو گیا تو میں اپنا کام دکھا دوں گا……مگر اس کمبخت نے تو نیند نہ آنے کی جیسے گولیاں کھا رکھی تھیں……وہ چند لمحے بعد ہی آنکھیں کھول کر اپنے اطراف کا جائزہ لینے لگتا تھا۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ وہ چوکنا ہے۔ اور نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں میل دور ہے……اس طرح کوٹری کا اسٹیشن آ گیا……میں چونکہ ایک معقول کمیشن کے عوض شکار کے پیچھے چلا تھا، اس لیے خالی ہاتھ لوٹنے کو تیار نہیں تھا۔ کوٹری اسٹیشن سے باہر نکل کر بیوپاری چند جاننے والوں کے ہمراہ اپنے گھر کی جانب چل دیا۔ میں اس کے پیچھے سائے کی طرح لگا ہوا تھا اس لیے اس کے مکان تک پہنچ گیا……مکان کے دروازے پر پہنچ کر بیوپاری نے بڑی سی حویلی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھل گیا۔ اور بیوپاری حویلی میں داخل ہو گیا۔ دروازہ دوبارہ بند ہو گیا……اور میں پوری احتیاط سے حویلی کی کچی دیوار کو پھلانگ کر اندر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا……وہاں دو کمرے تھے……ایک میں سے ہلکی روشنی باہر آ رہی تھی۔ ان دونوں کمروں کے درمیان میں تھوڑی سی خالی جگہ تھی جہاں پر بھوسہ بھرا ہوا تھا……ایک جانب بھینسوں کو باندھنے کے لئے بڑے بڑے کھونٹے زمین میں گڑے ہوئے تھے……میں نے ایک ہی نظر میں حویلی کا جائزہ لیا۔ اور دیوار کے ساتھ چپکا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا……میرے خیال میں یہ وہ کمرہ تھا……جو کہ بھینسوں کو باندھنے کے لئے مخصوص تھا……میرا اندازہ ٹھیک ہی نکلا……کیونکہ اس کمرے میں داخل ہوتے ہی گوبر اور پیشاب کی ملی جلی بو نے میرا استقبال کیا……میں اس کمرے میں بھوسے کے پیچھے چھپ گیا۔ ابھی مجھے بھوسے کے پیچھے چھپے ہوئے مشکل سے آدھا گھنٹہ ہی ہوا ہو گا کہ باہر دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی……رات کے سناٹے میں دستک کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی……اس کے ساتھ صبح کاذب کا اجالا صحن میں پھیل رہا تھا……میں نے دیکھا کہ برابر والے کمرے کا دروازہ کھلا۔ اور نہایت ہی خوبصورت عورت ریشمی لباس پہنے ہوئے باہر نکلی……وہ صحن میں خراماں خراماں ہوتی ہوئی باہر کے دروازے پر پہنچ گئی۔ اور دروازہ کھلنے سے پہلے اس نے دبی ہوئی آواز میں پوچھا……کون ہے۔

                جواب میں کسی مرد کی آواز آئی……میں ہوں۔ کیوں کیا بات ہے۔ تم کچھ گھبرائی ہوئی معلوم ہوتی ہو۔

                میرا شوہر آ گیا ہے……عورت نے مزید پریشانی سے کہا۔

                کب آیا……مرد کی آواز سنائی دی۔

                ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی ہے……اب وہ بے خبر سو رہا ہے……عورت نے جواب دیا۔

                او ہو یہ تو بہت برا ہوا……مرد نے کسی قدر پریشانی سے کہا۔ اچھا بتائو کچھ مال وغیرہ بھی لایا ہے۔

                ہاں۔ دس ہزار روپے لایا ہے……عورت نے جواب دیا۔

                خوب اسے کسی نے آتے ہوئے تو نہیں دیکھا……مرد نے تجسس سے پوچھا۔

                رات ختم ہونے کو ہے……اس اندھیرے میں اسے کس نے دیکھا ہو گا……عورت نے جواب دیا۔

                تو پھر کیا ارادہ ہے……مرد نے پوچھا۔

                تم تو بڑے ہی بزدل ہو……عورت نے اس کا مذاق اڑایا……پہلے بھی کئی ایسے مواقع کھو چکے ہو۔

                تم مجھے بزدل ہونے کا طعنہ نہ دو……مرد نے جواب دیا……تم ٹھہرو۔ میں کلہاڑی لے کر آتا ہوں۔

                ٹھیک ہے۔ تم جلدی سے کلہاڑی لے آئو۔ عورت نے جواب دیا……صبح ہونے میں کچھ ہی دیر باقی ہے۔ میں دروازہ کھلا رکھوں گی۔

                اس کے بعد ناگہاں بیوپاری کی نیند میں ڈوبی ہوئی آواز بلند ہوئی……اور عورت جلدی سے دروازہ بند کر کے اندر کمرے میں چلی جاتی ہے۔

                یہاں میں جس مقصد کے لئے آیا تھا ان دونوں کی گفتگو سن کر اپنا مقصد بھول گیا۔ یہاں آ کر میں نئے حالات سے دوچار ہو گیا……میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ کیسی بیوی ہے جو کہ اپنے عاشق کے ذریعے شوہر کو قتل کرانے پر آمادہ ہو گئی ہے……میرے جسم کا رواں رواں کانپ اٹھا۔ اور سردی کے باوجود مجھے پسینہ آ گیا……اس حسین عورت اور مرد کی گفتگو سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ چند منٹ کے بعد کیا ہونے والا ہے ……میں تو جیب کا سودا کر کے یہاں تک آیا تھا مگر یہاں تو زندگی کا سودا ہو چکا تھا……میں اگر چاہتا تو کھلے دروازے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رقم لے کر چلتا بنتا……مگر میرے دل میں ایک دم انسانی ہمدردی جاگ اٹھی۔ اور میں بیوپاری کی جان بچانے کی تدبیریں سوچنے لگا……اس وقت میرے پاس ایک بہت ہی چھوٹی قینچی تھی جو کہ جیب کاٹنے کے کام آتی تھی۔ اس کے علاوہ کوئی اور ہتھیار نہیں تھا……مجھے پوری طرح سے اندازہ تھا کہ آنے والا کس قسم کے ہتھیار سے مسلح ہو گا……اسی شش و پنج میں میرا ہاتھ غیر ارادی طور پر بھینس باندھنے والے کھونٹے پر پڑ گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ایک نئی تدبیر آئی……میں نے دونوں ہاتھوں سے کھونٹے کو ہلانے کی کوشش کی اور تھوڑی سی محنت کے بعد اسے اکھاڑنے میں کامیاب ہو گیا……میرا دل اس طرح دھڑک رہا تھا جیسے ابھی سینے سے باہر آ جائے گا……اب میرے کان اس اجنبی مرد کی آہٹ پر لگے ہوئے تھے۔

                صبح کاذب کا اجالا ایک بار پھر دھندلانے لگا تھا……چند لمحے بعد میں نے بیرونی دروازے کے کھلنے اور صحن میں کسی مرد کے چلنے کی آہٹ سنی……میں نے دیکھا کہ ایک بھاری بھر کم مرد دونوں ہاتھوں میں کلہاڑی تھامے نہایت ہی دبے قدموں سے برابر والے کمرے کی طرف بڑھ رہا ہے……میں کپکپاتی ٹانگوں سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔ لیکن اس شخص کو دیکھتے ہی میری ٹانگوں اور بازوئوں میں بے پناہ طاقت آ گئی۔ شدید نفرت سے میں اس شخص کے پیچھے گیا اور کھونٹے کا بھرپور وار اس کے سر پر کیا……اس مرد کی ہلکی سی چیخ سنائی دی اور وہ زمین پر گرنے لگا۔ اس کے گرتے گرتے ایک وار اور کر دیا اور پھر بھاگ کر دوبارہ بھوسے کے پیچھے چھپ گیا۔

                صبح صادق کے اجالے میں فجر کی اذان کی آواز بلند ہوئی……اندر کمرے میں سوئی ہوئی عورت بڑبڑاکر اٹھی……اور دروازہ کھول کر باہر صحن میں جھانکنے لگی۔

                اچانک اس عورت کی نظر صحن میں گرے ہوئے مرد پر پڑی اور بلند آواز میں چیخنے لگی۔

                لوگو! میرے سائیں نے خون کر دیا ہے……لوگو!……میرے شوہر نے قتل کر دیا ہے۔

                عورت کے چیخنے کی آواز سن کر پڑوسی عورتیں دیواروں سے جھانکنے لگیں اور محلے کے لوگ اند رگھس آئے……میں بھی آنکھ بچا کر لوگوں کے ہجوم میں ایک تماشائی کی حیثیت سے شامل ہو گیا……عورت ہیجانی کیفیت میں لوگوں سے کہہ رہی تھی……میرے شوہر نے اس غریب کو مار ڈالا……بیوپاری جو کہ اس عورت کا شوہر تھا حیران و پریشان کھڑا اپنی بیوی کے چہرے کو تک رہا تھا……اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کی بیوی یہ کس قسم کا الزام لگا رہی ہے……آخر کسی نے پولیس کو اطلاع کر دی……اور کچھ ہی دیر بعد اس بیوپاری کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگ گئیں……اور قانون نے اسے جیل کی موٹی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا……میں دس ہزار کی رقم حاصل نہ کر سکا لیکن اس واقعہ نے میری سوچ کو یکسر بدل دیا……مجھے اس دنیا سے نفرت ہو گئی۔ میں نے سوچا کہ بیوی جب اپنے شوہر سے دغابازی کر سکتی ہے اور اسے اپنے عاشق کی خاطر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا سکتی ہے تو پھر کس سے وفا کی امید رکھی جا سکے……میرے ذہن میں ان خیالات نے جنگ چھیڑ دی……اب میں کمرے میں لیٹا اسی طرح کی باتیں سوچتا رہتا تھا۔ میں نے اس بارے میں ‘‘شاہ جی’’ کو بھی کچھ نہیں بتایا۔

                پھر ایک رات جب کہ میں بستر پر لیٹا سونے کی کوشش کر رہا تھا……میرے سرہانے چارپائی پر گلاب کے پھولوں کا گلدستہ رکھا ہوا تھا……میں نے گلدستے میں سے یونہی ایک پھول توڑ لیا۔ اور سونگھنے لگا۔ اس پھول کی خوشبو بہت ہی تیز تھی۔ میں نے غور سے اس پر نگاہیں جما دیں……دوسرے ہی لمحے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے پھول کی پنکھڑیوں نے ‘‘اللہ رکھی’’ کے چہرے کا روپ دھار لیا ہے……میں نے پھول الٹ پلٹ کر دیکھا۔ مجھے ہر جانب ‘‘اللہ رکھی’’ کا چہرہ نظر آ رہا تھا……پھر وہ چہرہ مجھ سے بولا سیشن جج حیدر آباد جائو……سیشن جج کی عدالت میں جائو……تم قاتل ہو……تم نے خون کیا ہے……‘‘اللہ رکھی’’ کی یہ آواز سن کر میں خوف سے کانپ اٹھا۔ میں نے گلاب کا پھول پھینک دیا اور مسہری سے اٹھ کر کمرے میں بے چینی سے ٹہلنے لگا……اس ٹہلنے کے دوران ہی میرے دل و دماغ سے آواز آئی……کہ واقعی میں قاتل ہوں……واقعی قتل میں نے ہی کیا ہے۔

                اس کے بعد میں نے سوچا کہ سیشن جج کی عدالت میں جا کر اعتراف گناہ کر لینے میں کیا حرج ہے۔ بیوپاری بیچارہ بے گناہ مارا جائے گا۔ کیونکہ اس کی بیوی اس کے خلاف بیان دے گی……اس واقعہ کی صرف وہی عینی شاہد ہے……صبح ہوتے ہی میں نے ٹکٹ لیا اور حیدر آباد روانہ ہو گیا……میں سیدھا سیشن کورٹ پہنچا۔ اور لوگوں سے قتل کے اس مقدمہ کے بارے میں پوچھا……ایک سرکاری اہلکار نے بتایا کہ اس مقدمہ کی کارروائی کل ہو گی۔ اور ابھی اس عورت کا بیان قلمبند کیا جا رہا ہے۔

                میں ایک مقامی ہوٹل میں ٹھہر گیا……اور رات بھر ضمیر کی اس کشمکش میں مبتلا رہا کہ صبح عدالت میں پیش ہونا ہے……صبح کے وقت میں اس اطمینان کے ساتھ سو گیا کہ ابھی عدالت میں پیش ہو کر اعتراف جرم کرنے کی بجائے……اس عورت کے مکر و فریب کو دیکھوں کہ وہ اپنے شوہر کے خلاف کہاں تک بیان دیتی ہے۔


Allah Rakhee

محمد مونس خان عظیمی

‘‘اللہ رکھی’’ ناول کی طرز پر لکھی گئی ایک کہانی ہے جس میں عورت کی صلاحیتوں کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ کہانی میرے دوست عظیمی بھائی’ محمد مونس خان عظیمی نے لکھی تھی جو قسط وار روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہے۔ عزیز محترم محبوب علی عظیمی نگران مراقبہ ہال ابو ظہبی اور یو اے ای نے عرس کے موقع پر محمد مونس خان عظیمی کے تذکرے میں مجھ سے کہا کہ محمد مونس خان کی خواہش تھی کہ ان کی زندگی میں اللہ رکھی کتابی صورت میں شائع ہو جائے ان کی یہ خواہش پوری کرنے کا جذبہ میرے اندر اتر گیا۔ میں یہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری اس کاوش سے میرے بھائی محمد مونس خان عظیمی کی روح خوش ہو گی۔ قارئین سے التماس ہے کہ وہ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔

 

                                                                                                                 میاں مشتاق احمد عظیمی

                                 روحانی فرزند: حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                 مراقبہ ہال ۸۵۱ مین بازار، مزنگ لاہور

                                 فون نمبر ۱۴۵۳۴۲۷

                                 ۶۲جنوری ۵۹۹۱؁ء